Tag: Myths

  • کراچی کا شیو مندر: جہاں رام اور سیتا نے قیام کیا تھا

    کراچی کا شیو مندر: جہاں رام اور سیتا نے قیام کیا تھا

    برگد کے گھنے پیڑ کے سایے میں وسیع و عریض احاطہ ہے، درخت پر بے شمار پرندوں نے گھر کر رکھا ہے جن کی چہکاریں لوگوں کا استقبال کرتی ہیں۔

    وہاں آنے والے احتیاط سے ننگے پاؤں سیڑھیاں اترتے ہیں اور دعائیہ کلمات پڑھتے ہوئے اندر کی طرف چلے جاتے ہیں، اگر بتیوں کی دھیمی خوشبو سے پورا ماحول مہک رہا ہے۔

    قریب سے گھنٹی کی مدھر آواز سنائی دیتی ہے، درخت پر بیٹھے پرندے چونک کر اڑتے ہیں اور ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور چہچہاہٹ کا شور مزید بلند ہوتا ہے۔ دن کی زرد روشنی دیواروں سے پھسلتی جاتی ہے، چمکتا سورج مدھم ہو کر بالآخر ڈھل جاتا ہے اور شام کی سرمئی چادر مندر کی دیواروں پر بچھ جاتی ہے، مندر، جہاں بے شمار افسانے ہیں، روایات ہیں اور عیقدت مندوں کی عقیدت ہے۔

    کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع شری رتنیشور مہا دیو مندر (جسے شیو مندر بھی کہا جاتا ہے) ہندو عقیدت مندوں کے لیے ایک افسانوی حیثیت رکھتا ہے، اس کی قدامت تو زیادہ سے زیادہ 500 برس ہے، تاہم اس ذرا سے عرصے کو زیب داستان کے لیے 5 ہزار سال پر محیط کردیا گیا ہے۔

    جب اس مندر کو ہزاروں سال قدیم قرار دیا جاتا ہے، تو اس سے جڑی نہایت دلچسپ روایات اور داستانیں جنم لیتی ہیں اور یہی ہمارا آج کا موضوع ہیں۔

    پہاڑیوں کے درمیان غار کے اندر بنا ہوا یہ مندر کبھی سطح سمندر سے 40 فٹ نیچے تھا اور اس کی 4 سطحیں یا زیر زمین منزلیں تھیں (بعض جگہوں پر 6 منزلیں بتائی گئی ہیں)، ہر منزل سے راستے مختلف سمتوں کی طرف جاتے ہیں۔

    مندر کے اندر موجود برگد کا گھنا درخت بھی مندر ہی کی عمر کا ہے جس کی شاخوں نے پورے مندر پر سایہ سا تان رکھا ہے۔

    مندر کی چھت سے غار کی ساخت نمایاں ہے

    جیسے جیسے مندر کی نچلی منزلوں پر اترتے جائیں، دیواروں اور چھتوں سے غار کی ساخت نمایاں ہوتی جاتی ہے، مٹی اور پتھر کی غیر ہموار چھت کو جوں کا توں رکھتے ہوئے مندر کے اندر خاصی تعمیرات کی گئی ہیں جہاں عقیدت مندوں کا رش رہتا ہے۔

    شیو بھگوان ۔ جو سمندر پر نگران ہے

    ہندو مذہب میں شیو بھگوان سب سے بڑے اور عظیم بھگوان ہیں، ہندو عقائد میں انہیں وقت کو قابو کرنے والا کہا جاتا ہے جو نہ صرف وقت کو ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کرتے ہیں بلکہ اس الٹ پھیر کو اپنی مرضی سے بدلنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔

    مذہبی عقائد کے مطابق شیو بھگوان تباہی کے خدا بھی ہیں، دنیا کے خاتمے کے مقررہ وقت پر شیو بھگوان ہی دنیا کو تہس نہس کریں گے۔

    ہندو عقائد کے مطابق یہ مندر کئی صدیوں تک شیو بھگوان کا ٹھکانہ رہا، کئی صدیوں بعد شیو جی یہاں سے چلے گئے، لیکن اب بھی اکثر وہ مندر میں سانپ کی شکل میں آتے ہیں۔

    شیو بھگوان

    کہا جاتا ہے کہ شیو بھگوان تیسری آنکھ رکھتے ہیں جسے باطن کی آنکھ کہا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کے بے لگام گھوڑے کی باگیں تھامے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس وقت سے آگے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    آٹھویں صدی کے صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کا مزار شہر کراچی میں موجود ہے اور شہر والے اسے اپنے لیے باعث رحمت جانتے ہیں کہ یہ غازی بابا ہی ہیں جو بپھرے سمندر اور منہ زور طوفانوں کو روک کر اس شہر کو تباہی سے بچا لیتے ہیں۔

    ہندو عقیدت مند اسے شیوا کی کرامت قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شیوا کی تیسری آنکھ سمندر کی طرف نگران ہے جو طوفانوں کو اس طرف آنے سے پہلے ہی ختم کردیتی ہے۔

    اب یہ غازی بابا کا جاہ و جلال ہو، شیو بھگوان کی برکت ہو، یا کوئی اور سائنسی توجیہہ، اس شہر کے رہنے والے طوفانوں کو اپنی طرف بڑھتا تو دیکھتے ہیں، لیکن وہ طوفان ہمیشہ کراچی کے قدموں میں پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے۔

    ہندو مت میں سوموار یعنی پیر کے دن کو شیو کا دن قرار دیا جاتا ہے اور اس دن شیو جی کی خاص پوجا کی جاتی ہے۔

    مہا بھارت میں ذکر

    کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے قدیم ترین داستانی صحیفے مہابھارت میں بھی اس مندر کا ذکر ہے، مہا بھارت ایک طویل منظوم داستان ہے جسے ہندو مت کی مذہبی کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔

    اس صحیفے میں اس مندر کو شیو بھگوان کا گھر لکھا گیا ہے۔

    ہندو عقائد کے مطابق مہا بھارت کو تیسری صدی قبل مسیح سے لکھنا شروع کیا گیا، اس میں بیان کیے گئے واقعات آٹھویں سے نویں صدی قبل مسیح میں رونما ہوئے۔ اس کے اختتامی کلمات چوتھی صدی عیسوی میں لکھے گئے جب اس خطے میں چندر گپت موریہ کا خاندان حکمران تھا۔

    مہا بھارت میں لگ بھگ 1 لاکھ اشعار ہیں اور اس میں لکھے گئے الفاظ کی تعداد 18 سے 25 لاکھ کے درمیان ہے۔

    رام اور سیتا کا قیام

    ہندو مذہب میں ایک بہادر راج کمار رام چندر کو وشنو بھگوان کا ساتواں روپ (اوتار) مانا جاتا ہے، وشنو بھگوان کے 10 روپ ہیں جن میں سے 9 زمین پر آچکے، دسواں آنا باقی ہے۔ اس حوالے سے ہندو مت کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی کی طرح ان کا بھی ایک بھگوان ظاہر ہوگا۔

    رام چندر کی بیوی سیتا خود بھی ایک شہزادی تھی اور نہایت خوبصورت تھی۔ ان دونوں کی محبت آج بھی مثال کا درجہ رکھتی ہے۔

    راجہ ہنومان اور رام ، سیتا

    ہندو صحیفوں کے مطابق لنکا کا شیطان صفت راجا راون، سیتا کی خوبصورتی کا دیوانہ ہو کر اسے اٹھا کر لے آیا اور اپنے پاس قید کرلیا۔ رام نے بندر راجہ ہنومان کی مدد سے راون کو شکست دی اور سیتا کو چھڑا کر واپس اپنی سلطنت پہنچا۔

    اس موقع پر لوگوں نے ان کی واپسی کا جشن منایا اور جابجا دیے جلا کر شہر کو روشن کردیا۔ یہ موقع آج دیوالی یا دیپاوالی کے نام سے منایا جاتا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ رام اور سیتا ایک بار اس شیو مندر میں بھی آئے تھے، ایک رات یہاں قیام کیا اور پوجا کی۔

    محقق اور تاریخ دان گل حسن کلمتی کراچی کے مندروں سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ رام اور سیتا نے ہنگلاج ماتا کے مندر (ضلع لسبیلہ، بلوچستان) جانے کے سفر میں، درمیان میں کراچی میں مختصر قیام کیا تھا۔ وہ جس جگہ پر ٹھہرے تھے اسے رام باغ کہا جانے لگا، بعد میں اس کا نام آرام باغ کردیا گیا۔

    غالباً اسی مختصر قیام کے دوران شیو مندر میں بھی قیام کیا گیا۔

    بابا گرو نانک کی مراقبہ گاہ

    اس مندر کو سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ الگ تھلگ غار ہونے کی وجہ سے گرو نانک بھی یہاں آیا کرتے اور مراقبہ کیا کرتے۔

    مندر کے اندر موجود چشمہ

    شیو مندر کے اندر ایک چشمہ بھی موجود ہے اور مشہور ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ سے پھوٹنے والا چشمہ، اور مندر کا چشمہ ایک ہی ہے۔

    لیکن کیا یہ مندر واقعی 5 ہزار سال پرانا ہے؟

    آل پاکستان ہندو پنچایت کے جنرل سیکریٹری روی ڈاوانی مندر کی تاریخ کے حوالے سے منطقی بنیادوں پر بات کرتے ہیں۔

    روی ڈاوانی کا کہنا ہے کہ 5 ہزار سال کا عرصہ خاصا طویل ہے، اتنے طویل عرصے تک کسی عمارت کا اس طرح قائم رہنا کہ وہ آج بھی زیر استعمال رہے، ناممکن سا لگتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے روی ڈاوانی نے بتایا کہ سنہ 2014 میں جب کلفٹن انڈر پاس تعمیر ہو رہا تھا تو ہیوی مشینری کے استعمال سے مندر کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگی تھیں اور اس کے منہدم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔

    قدیم برگد کا درخت

    ’تب ہم نے بڑے پیمانے پر اس معاملے پر آواز اٹھائی اور عدالت بھی گئے، ہمارا مطالبہ تھا کہ اس تاریخی مندر کو نقصان پہنچنے سے بچایا جائے۔ اس وقت دنیا بھر کی ہندو کمیونٹی ہماری ہم آواز ہوگئی اور سب نے اس تاریخی مندر کی حفاظت کے لیے زور ڈالا‘۔

    روی ڈاوانی بتاتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر سے ہمیں اس مندر کی تاریخ کے حوالے سے دستاویزات اور کتابیں موصول ہوئیں، ان تمام دستاویزات میں مندر کو 200 سے 500 سال قدیم لکھا گیا ہے، لیکن کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ مندر 5 ہزار سال قدیم ہے۔

    کراچی کے اس مندر کے حوالے سے معروف مصنف اور محقق اقبال اے رحمٰن مانڈویا نے بھی اپنی کتاب اس دشت میں اک شہر تھا میں لکھا ہے، کہ یہ مندر 5 ہزار سال نہیں بلکہ 200 سال پرانا ہے، 5 ہزار سال بہت بڑا عرصہ ہے اور اس عرصے میں موسمی حالات کی وجہ سے تعمیرات میں ٹوٹنے پھوٹنے اور گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

    روی ڈاوانی کہتے ہیں کہ، چونکہ مندر کی مصدقہ تاریخ معلوم ہوچکی تو اس سے جڑی روایات محض داستانیں ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔

    روی ڈاوانی مندر میں موجود چشمے کے حوالے سے بھی بتاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عام افراد کا ماننا ہے کہ غازی بابا کی درگاہ اور مندر میں موجود چشمہ ایک ہی ہے، تاہم بظاہر ایسا لگتا نہیں ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ درگاہ اور مندر کے درمیانی راستے پر ایک مسجد موجود ہے، اگر ایسا ہوتا تو اس مسجد میں بھی اس چشمے کو ہونا چاہیئے تھا، لیکن وہاں چشمہ موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی پانی کے لیے بورنگ کی جاتی ہے تو خاصی نیچے تک کھدائی کرنی پڑتی ہے تب جا کر پانی نکلتا ہے، چنانچہ ہم اس بارے میں لاعلم ہیں کہ یہ چشمہ کہاں سے اور کیسے نکلتا ہے۔

    روی ڈاوانی یہ بھی بتاتے ہیں کہ پہاڑ کے اندر جب کوئی غار بنتا ہے تو اس میں نیچے سخت پتھر اور اوپر مٹی ہوتی ہے، لیکن اس غار میں مٹی نیچے ہے اور اس کے اوپر سخت پتھر ہے، اس مٹی پر یہ غار کس طرح قائم ہے یہ بھی حیران کن اور کسی معجزے سے کم نہیں۔

    وہ کہتے ہیں اس طرح کے مذہبی مقامات جو فطرت کے درمیان قدرتی طور پر بن گئے ہوں دنیا میں چند ایک ہی ہیں اور یہ شیو مندر بھی ان میں شامل ہے۔

    روی ڈاوانی کا کہنا ہے کہ جس طرح سکھوں کے لیے کرتارپور گردوارہ نہایت اہم مذہبی اہمیت کا حامل ہے، بالکل ویسے ہی یہ تاریخی مندر بھی ہندوؤں کے لیے بے حد اہم ہے۔ اگر مناسب انتظامات اور سہولیات فراہم کی جائیں تو دنیا بھر سے عقیدت مند یہاں آئیں گے اور یہاں منائے جانے والے مذہبی تہوار، معاشی اور سیاحتی حوالے سے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔


    حوالہ جات:

    قدیم سندھ ۔ بھیرو مل مہرچند آڈوانی

    Historic Temples in Pakistan: A Call to Conscience – Reema Abbasi and Madiha Aijaz

  • ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ذہنی امراض کی سب سے بڑی قسم ڈپریشن ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 20 میں سے 1 شخص شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے۔

    دنیا بھر میں 26 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، یعنی دنیا کی 5 فیصد آبادی ڈپریشن کے زیر اثر ہے اور اس کے باعث نارمل زندگی گزارنے سے قاصر ہے۔ ڈپریشن کے علاوہ دیگر ذہنی امراض جیسے اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزو فرینیا یا فوبیاز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی آبادی کے ذہنی امراض سے متاثر ہونے کے باوجود اس حوالے سے نہایت غیر محتاط، غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ لوگوں سے کٹ جانا، تنہائی اختیار کرلینا یا پھر خودکشی کرلینا ہی انہیں راہ نجات دکھائی دیتا ہے۔

    ذہنی امراض کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد غلط تصورات اور غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا بے حد ضروری ہے، آج یہاں پر ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔

    غلط فہمی: ڈپریشن کو کسی علاج کی ضرورت نہیں

    عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لیے کسی علاج یا دوا کی ضرورت نہیں، یہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔

    حقیقت

    اگر ہمیں بخار ہو، نزلہ زکام ہو، کیا کوئی اور تکلیف ہو تو ہم ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لیتے ہیں، تو پھر ڈپریشن کی دوا لینے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ڈپریشن کا صحیح وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے چل کر سنگین صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    غلط فہمی: ماہر نفسیات کے پاس مت جاؤ، دنیا کیا کہے گی!

    دنیا کیا کہے گی، یہ وہ خیال ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی زندگی کو بدتر بنا دیتا ہے۔ ذہنی امراض کے بارے میں قائم غلط تصورات کے باعث اسے شرمناک سمجھا جاتا ہے اور ماہر نفسیات کے پاس جانا گویا کلنک کا ٹیکہ، جس کے بعد ماہر نفسیات کے پاس جانے والے معاشرے کی نظر میں سرٹیفائڈ نفسیاتی ہوجاتے ہیں۔

    حقیقت

    اگر ہم دل کی تکلیف کا شکار ہوں، تو ہم ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ ناک، کان، یا گلے کی تکلیف کے لیے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جایا جاتا ہے، کینسر کے علاج کے لیے کینسر اسپیشلسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے جسے اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ تو پھر دماغی امراض کے علاج کے لیے ماہر نفسیات یا دماغی امراض سے ہی رجوع کیا جانا چاہیئے جو مرض کی درست تشخیص کر کے اسے ٹریٹ کرسکے۔

    غلط فہمی: ہر ذہنی و نفسیاتی مریض کو پاگل خانے جانا چاہیئے

    یہ ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا وہ بدصورت رویہ ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی بیماری کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

    ذہنی طور پر خطرناک حد تک بیمار افراد کے علاوہ بھی جب کسی شخص کا ڈپریشن حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اس کیفیت میں وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تب بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو اب پاگل خانے میں داخل کروا دینا چاہیئے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مریض کی جگہ پاگل خانہ نہیں ہے، یہ افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں اور ان کا علاج ایسے ہی ہوسکتا ہے جیسے دل کا مریض اپنا علاج بھی کرواتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں و مصروفیات میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لے۔

    غلط فہمی: اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں اپنی لت میں مبتلا کردیتی ہیں

    یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس جانے سے روک دیتی ہے، اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنی لت میں یا کسی قسم کے نشے میں مبتلا کردیتی ہیں اور ان کا استعمال ساری زندگی کرنا پڑ سکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے یہ دوائیں لینے والے افراد سارا دن غنودگی کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

    حقیقت

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے دوران ہمارے جسم میں سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمون جیسے سیروٹونین کی کمی پیدا ہوجاتی ہے، یہ اینٹی ڈپریسنٹ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جسم میں کیلشیئم کی کمی پورا کرنے کے لیے کیلشیئم کی گولیاں کھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی بھی ہمارے جسم اور دماغ کو بری طرح ڈسٹرب کرتی ہے اور ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا ڈپریشن کے شکار افراد کے لیے سب سے اہم نیند کا پورا ہونا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے اعصاب ریلیکس حالت میں نہیں ہوتے جبکہ وہ گہری اور پرسکون نیند لینے سے بھی قاصر رہتے ہیں لہٰذا یہ دوائیں ڈپریشن کا شکار شخص کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں جس سے اس کی نیند میں بہتری واقع ہوتی ہے۔ یہ مریض کے لیے نہایت ضروری ہے، طویل، پرسکون اور گہری نیند لینے کے ساتھ ڈپریشن میں کمی ہوتی جاتی ہے یوں اس شخص کی حالت میں بہتری آتی ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق شدید ڈپریشن کے مریض کو وہ ابتدا میں غشی آور ادویات ضرور استعمال کرواتے ہیں تاہم جیسے جیسے مریض کی نیند کا قدرتی لیول بحال ہونے لگتا ہے وہ ان دواؤں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ان دواؤں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔

    غلط فہمی: غذا کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

    عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ غذا صرف ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے، اور دماغ پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کرتی۔

    حقیقت

    ہم جو کھاتے ہیں اس کا اثر صرف ہمارے جسم پر ہی نہیں بلکہ دماغ، نفسیات اور موڈ پر بھی پڑتا ہے۔ جس طرح جنک فوڈ ہمارے جسم کو فربہ کر کے ہمیں بلڈ پریشر یا دل کا مریض بنا سکتے ہیں اسی طرح یہ دماغ کو بھی ڈسٹرب کرتے ہیں۔

    سائنس ڈیلی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق جنک فوڈ کھانے کے عادی افراد میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ دیگر غذائیں کھانے والے افراد کی نسبت 51 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    جنک فوڈ اور غیر متوازن غذائیں ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں غصہ، چڑچڑاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    اس کے برعکس پھل اور سبزیاں کھانے کے عادی افراد ڈپریشن کا کم شکار ہوتے ہیں، آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں نہ صرف دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ یہ کسی انسان کو خوش باش بھی رکھتے ہیں۔

    غلط فہمی: ذہنی امراض کا شکار افراد سے دور رہا جائے

    جب ہمیں اپنے ارد گرد کسی شخص کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہے تو ہم اس سے دور بھاگتے ہیں اور اس سے بات کرنے سے کتراتے ہیں، ہمیں یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس شخص کے لیے بھی مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض کا شکار افراد کو سب سے زیادہ ضرورت ان کے اپنوں اور دوستوں کی ہوتی ہے، ایسے افراد کا سب سے بڑا علاج اور سب سے بڑی مدد ان کی بات سننا ہے تاکہ ان کے دل کا غبار کم ہوسکے۔

    ایسے شخص کو اکیلا چھوڑنا اس کے مرض کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، دوستوں اور اہل خانہ کی سپورٹ اور ان کے ساتھ ہونے کا احساس مریض کو بتدریج نارمل زندگی کی طرف لے آتا ہے اور وہ اپنے ڈپریشن سے چھٹکارہ پا لیتا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت / پاکستان

    کتابچے برائے ذہنی امراض: کراچی نفسیاتی اسپتال

  • کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، اس کی وجہ ماؤں کا حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی اور غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    سیزیرین ڈلیوری سے متعلق کچھ توہمات نہایت عام ہیں جن کا بڑا سبب کم علمی ہے۔ آج ہم ایسے ہی توہمات اور ان کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے جارہے ہیں۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد نارمل ڈلیوری ناممکن ہے

    ایک عام خیال ہے کہ ایک بار سیزیرین ڈلیوری کے بعد نارمل ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دینا ناممکن ہے، یہ خیال بلکل غلط ہے۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد ڈاکٹر ماں کا چیک اپ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں بتاتے ہیں کہ آیا ان کا اندرونی جسمانی نظام اب اس قابل ہے کہ وہ مستقبل میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے گزر سکتی ہیں یا انہیں ہر بار سیزیرین آپریشن ہی کروانا ہوگا۔

    80 فیصد خواتین میں یہ خدشہ نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز انہیں بالکل فٹ قرار دیتے ہیں جس کے بعد ان خواتین میں دیگر بچوں کی پیدائش نارمل طریقہ کار کے ذریعے ہوسکتی ہے۔

    زندگی میں کتنے سیزیرین آپریشن ہوسکتے ہیں

    یہ ماں بننے والی خاتون کے اندرونی جسمانی نظام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی بار اس تکلیف دہ عمل سے گزر سکتی ہے۔ بعض خواتین کے لیے ایک بار سیزیرین آپریشن کروانے کے بعد مزید سیزیرین آپریشن کروانا خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ایسی خواتین اگر بعد میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے نہ گزر سکتی ہوں تو انہیں ڈاکٹر کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ماں بننے سے گریز کریں ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    بعض خواتین متعدد بار سیزیرین آپریشن کے عمل سے گزر سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر خواتین کی اپنی قوت مدافعت، جسمانی نظام اور صحت مند جسم پر منحصر ہوتا ہے۔

    آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا

    بعض خواتین ڈلیوری کی تکلیف سے بچنے کے لیے سیزیرین آپریشن کروانا چاہتی ہیں تاکہ انہیں سن ہونے والی دوائیں دی جائیں اور انہیں کچھ محسوس نہ ہو۔

    ایسا نہیں ہے کہ سیزیرین آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا، ہلکا پھلکا دباؤ یا تھوڑی بہت تکلیف محسوس ہوسکتی ہے۔ البتہ آپریشن کے بعد درد، جسم میں کپکپاہٹ، متلی اور الٹیاں وغیرہ محسوس ہوسکتی ہیں۔

    صحتیابی کے عرصے میں فرق

    سیزیرین آپریشن کے 4 سے 5 دن بعد ماں کو گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ ان کی مکمل صحتیابی کا وقت بھی تقریباً مہینہ بھر ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس نارمل ڈلیوری میں ایک سے دو دن بعد گھر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور مکمل صحتیابی بھی صرف 2 ہفتوں میں ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

  • جسم کو نقصان پہنچانے والے 5 غلط تصورات

    جسم کو نقصان پہنچانے والے 5 غلط تصورات

    زمانہ قدیم سے ہماری صحت اور جسم کے حوالے سے کچھ ایسے تصورات قائم ہیں جنہیں درست سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے درست ثابت کر دیے ہیں۔

    لیکن کچھ وہم یا تصورات ایسے بھی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ غلط ثابت ہوتے گئے۔ ان میں سے بعض ہمارے لیے نقصان دہ بھی ہیں لیکن یہ ہمارے بڑوں کے زمانے سے اب تک مستعمل ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    آج ہم آپ کو صحت اور غذاؤں کے حوالے سے کچھ ایسے ہی غلط تصورات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو ہمارے جسم کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچا رہے ہیں۔


    آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری

    کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کے لیے آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ ہر شخص کی نیند کی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔

    کچھ افراد کی نیند کم وقت میں پوری ہوجاتی ہے جبکہ کچھ افراد کو 8 گھنٹوں سے بھی زائد نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔


    براؤن شوگر زیادہ صحت بخش

    آپ نے شوگر کے اکثر مریضوں کو براؤن شوگر استعمال کرتے دیکھا ہوگا۔ یہ عام چینی سے کم میٹھی تو ضرور ہوتی ہے مگر نہ تو یہ صحت بخش ہوتی ہے نہ ہی عام چینی سے کم نقصان دہ۔

    دونوں اقسام کی چینی جسم پر یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔


    وٹامن کی زیادہ گولیاں فائدہ مند

    عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ جتنی زیادہ وٹامن کی گولیاں کھائی جائیں گی جسم اتنا ہی توانا اور طاقت ور ہوگا لیکن یہ تصور سراسر غلط ہے۔

    دن میں وٹامن کی صرف ایک گولی ہی جسم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، اس سے زیادہ مقدار جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔


    اینٹی بائیوٹکس وائرس کے خاتمے میں معاون

    یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اینٹی بائیوٹکس، وائرس کو ختم کر سکتی ہیں۔ یہ دوا صرف بیکٹریا کو ختم کر سکتی ہیں۔ ہمارے کئی امراض بشمول نزلہ اور زکام وائرس کا شاخسانہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان بیماریوں میں اینٹی بائیوٹکس سے آرام نہیں آتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ سر درد سے چھٹکارے کے لیے سر پر بینڈیج لگا لیں۔


    دماغ کے بائیں اور دائیں حصہ کا کام مختلف

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دماغ کا دایاں حصہ تخلیقی خیالات جنم دیتا ہے جو بعض اوقات تصورات اور غیر حقیقی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس دماغ کا دایاں حصہ عقل مندانہ خیالات کو جنم دیتا ہے۔

    موجودہ دور کے ماہرین نے اس خیال کو بالکل غلط قرار دے دیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔