اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان لڑائی ہوگئی، ارکان نے ایک دوسرے کو تھپڑ مارے اور مغلظات بکیں،سیکیورٹی اہلکاروں نے آکر اراکین کو چھڑایا، اسپیکر کو اجلاس معطل کرنا پڑگیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان زبانی تصادم ہوا جو بڑھتے بڑھتے عملی تصادم میں تبدیل ہوگیا،ایوان میں حکومتی اوراپوزیشن اراکین گتھم گتھا ہوگئے اور دونوں جانب سے اراکین نے گالیوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو دھکے دیے، تھپڑ مارے۔
اے آر وائی نیوز اسلام کے نمائندے اظہر فاروق نے بتایا کہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا شاہ محمود قریشی نے تحریک استحقاق پر نواز شریف پر تنقید کی، حکومتی بینچوں کی جانب سے شاہد خاقان عباسی اپوزیشن ارکان کی طرف بڑھے اور ایک رکن کو دھکا دیاجس پرجھگڑا شروع ہوا اور دونوں جانب سے اراکین اٹھ کر آگئے، بعدازاں گالم گلوچ ہوئی، ایک دوسرے کو تھپڑے مارے گئے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جھگڑا ن لیگ کے کن شاہد خاقان عباسی اور تحریک انصاف کے رکن شہریار خان عباسی کے درمیان اس وقت ہوا جب شاہد خاقان عباسی اپوزیشن بینچوں کی طرف آئے، دونوں ارکان نے ایک دوسرے کو تھپڑ مارے، جھگڑے کو دیکھ کر سیکیورٹی اہلکار فورا پہنچے اور ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے ارکان کو چھڑایا۔
پندرہ منٹ بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ایوان میں جھگڑا ختم ہوچکا تھا تاہم کشیدگی باقی تھی، دوبارہ اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی لیکن پی ٹی آئی کے ارکان باہر جاچکے تھے۔
قبل ازیں شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر کے دوران گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے کے نعرے بھی لگوائے جس پر ن لیگ کے اراکین ناراض ہوئے۔
جھگڑے کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم تو یہاں بات کرنے آئے تھے لیکن حکومتی اراکین کے رویے کے سبب ایوان تو پہوانوں کا اکھاڑہ لگ رہا تھا، ہم پر حملہ کیا گیا،ہمیں دھکے دیے گئے، گھونسے برسائے گئے،اپوزیشن پر کیے گئے اس حملے پر بھی تحریک استحقاق جمع کرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف یہ درخواست کی تھی کہ ہمارے پانچ ارکان کو بولنے کی اجازت دیں لیکن اجازت نہ ملی، وزیراعظم نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا ہے۔
اسمبلی میں بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ جن کے پاس دلائل نہیں ہوتے وہ ایسی ہی قابل مذمت حرکات میں ملوث ہوتے ہیں، پی ٹی آئی کا یہ طرز عمل جمہوری اور پارلیمانی اصولوں کے منافی ہے، انہوں نے نامناسب فعل انجام دے کر اسمبلی کے تقدس کو پامال کیا،ایسا فعل انجام دیا کہ جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں۔
نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ شاہ محمود نے جتنے لیڈر بدلے ان کے نام بھی نہیں بتاسکتے، وزیراعظم اپنے بزرگوں، بھائیوں اور بچوں سمیت پورے اہل خانہ کا حساب دے چکے ہیں، شاہ محمود نے ہمارے قائد کے خلاف نعرے لگوائے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس میں آج پھر شور شرابہ ہوا، پی ٹی آئی اور لیگی ارکان کے درمیان گرما گرمی جاری رہی، شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران لیگی ارکان کے جملے کسنے پر ایوان میں شور شرابہ ہوگیا، قریشی نے سعد رفیق کی جانب سے غنڈے کہنے پر معافی کا مطالبہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس کا آغاز دو گھنٹہ تاخیر سے ہوا۔
اسپیکر نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن شاہ محمود قریشی کو تقریر کی اجازت دی۔
انہوں نے گفتگو کے آغاز میں اسپیکر کو دو بار ایاز صادق کہہ کر پکارا جس پر لیگی ارکان نے شور کیا تو انہوں نے چڑ کر اور گفتگو پر زور دے کر یکے بعد دیگر چھ بار ایاز صادق پکارا تو عابد شیر علی و دیگر ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور لیگی ارکان نے شور کیا جو اسپیکر کی مداخلت پر خاموش ہوئے۔
شیریں مزاری نے ن لیگی اراکین کے بولنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ مداخلت کررہے ہیں۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر ہمیں گزشتہ روز ہی خطاب کی اجازت دے دی جاتی تو یہ شور شرابہ نہ ہوتا.
شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اسپیکر لیگی ارکان کے منہ بند کرائیں تو میں بات کروں، اقتدار کے نشے میں میری آواز کو دبایا گیا تو مزاحمت کروں گا، اسپیکر میرا تحفظ کریں، اگر آپ کو اسپیکر بننا ہے تو اس کرسی پر بیٹھ کر جیالا نہ بنیں۔
شاہ محمود قریشی کے طویل خطاب کے دوران لیگی ارکان کی جانب سے چپکے بار بار جملے کسے جاتے رہے جس پر قریشی تقریر روک روک کر انہیں سناتے رہے ، اسپیکر بار بار قریشی سے کہتے کہ آپ انہیں چھوڑیں اپنی تقریر جاری رکھیں تاہم گفتگو میں باربار مداخلت پر شاہ محمود قریشی چراغ پا ہوگئے اور ایوان میں شور کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز لیگی وزیر سعدرفیق نے ہمیں غنڈہ کہا ، ایوان میں ہماری 4 خواتین بھی ہیں، کیا یہ بھی غنڈہ ہیں؟ لیگی ارکان کو معافی مانگنی ہوگی،ریلوے میں تو آئے دن حادثات ہوتے ہیں، اگر سعد رفیق نے معافی نہیں مانگی تو ریلوے میں نہیں اس پارلیمان میں حادثہ ہوجائے گا، میں اسپیکر سے وضاحت چاہوں کہ ہم ارکان ہیں یا غنڈے؟اسپیکر نے کہا کہ اگر لفظ غنڈے استعمال ہوا ہے تو میں اسے اسمبلی کی کارروائی سے حذف کراؤں گا۔
اسپیکر اسمبلی نے لیگی رکن سعد رفیق کو بات کرنے کی اجازت دی تو پی ٹی آئی نے اعتراض کیا جس پر اسپیکر نے کہا کہ طے ہوا تھا اب حکومتی رکن کی بار ی ہے اس لیے اعتراض نہ کیا جائے لیکن پی ٹی آئی ارکان نہ مانے بعدازاں سعد رفیق خود ہی اپنی تقریر سے دست بردار ہوگئے۔
جماعت اسلامی کے رکن طار ق اللہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اور بدنیتی کا مظاہرہ کررہی ہے، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، حکومت کو پاناما لیکس پر کمیٹی بنانا چاہیے تھی.
بعدازاں اجازت ملنے پر تقریر کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ کل جو کچھ ایوان میں ہوا وہ اس لیے ہوا کہ ہمارے بھی جذبات تھے، پی ٹی آئی کے ارکان کی مزاحمت پر ہم نے عمران خان کے خلاف نعرہ لگایا۔
میں سیاسی ورکر ہوں اس لیے تسلیم کرتا ہوں کہ کل میں نے اپنی تقریر میں لفظ غنڈہ استعمال کیا، اگر ہمارے لیڈر کو گالیاں دی جائیں تو ہم اس طرح کہیں گے، غنڈہ نہیں کہا غنڈہ گردی کا تاہم میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں، کسی کی بے عزتی کرکے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے ارکان لڑائی جھگڑا کرنے کے علاوہ کوئی قانونی سازی بھی کرلیا کریں وہ یہاں سے تنخواہ وصول کرتے ہں، ارکان ہماری ٹانگیں کھنیچنے کے بجائے بہترین اپوزیشن بنیں، ہماری کارکردگی پر تو بحث کری نہیں۔
انہوں نے کہا کے پی کے میں درخت لگانے کی بات کی تو وہ کہاں گئی؟وہ درخت کہاں گئے کیا انہوں نے سلیمانی ٹوپی پہن لی؟ وہاں جیلوں سے کئی کئی قیدی فرار ہوجاتے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے کسی پشیمانی کا مظاہرہ نہیں کیا، یہ ارکان اپنے کارکردگی کے بارے میں دو جملے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اس دوران پی ٹی آئی کے ارکان نے شور کیا تو اسپیکر نے انہیں چپ کرایا اور سعد رفیق نے بھی شور کیا کہ مہربانی کریں شور نہ کریں آپ کو بھی موقع ملے گا،حوصلہ کریں، شیریں مزاری کے کہنے پر انہوں نے ہاتھ جوڑے کہ باجی میں آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
شاہ محمود قریشی نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر سعد رفیق کی معافی قبول کی، وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مختصر خطاب کیا بعدازاں اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کی کارروائی کل صبح تک کے لیے ملتوی کردی۔
سعد رفیق کو بات کرنے کی اجازت دینے سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرا رویہ اتنا کچھ سننے کے بعد تبدیل نہیں ہوا،میرے پاس ممبران کو عزت دینے کے سوا کچھ نہیں، جس طرح آپ منتخب ہوئے ہیں اسی طرح میں بھی منتخب ہوا ہوں۔
انہوں نے کہا کہہ مجھے جس طرح ڈی سیٹ کیا گیا میں عوام کی طرف گیا اور دوبارہ منتخب ہوکر آیا، تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ آیا تو میں نے تحریک انصاف کو تحفظ نہیں دیا بلکہ قانون اور قاعدے کے مطابق اپنا کام سرانجام دیا اور چالیس دن ان کے استعفیٰ منظور نہ ہوئے لیکن مجھ پر حکومتی بنچوں سے اپوزیشن کی جانب داری کے الزامات عائد ہوئے، میں نے اپوزیشن کو بہت وقت دیا لیکن مجھ پر الزام لگا کہ میں جانب دار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر جو تنقید کنٹینر پر کی گئی میں اس کا یہاں ہائوس میں بیٹھ کر جواب دینا نہیں چاہتا، قریشی صاحب نے ہائوس کی کتاب کو مقدس قرار دیا لیکن گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ارکان کی جانب سے ہائوس کی کتاب کو اٹھا کر زمین پر پٹخا گیا میرے پاس اس کی ویڈیو موجود ہے لیکن میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا تھا، پی ٹی آئی کے ارکان نے بولنے کی اجازت نہ ملنے پر اسپیکر کا گھیرائو کرکے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دی تھی اور وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نعرے بازی کی تھی