Tag: NA session

  • قومی اسمبلی کا اجلاس آج ہوگا، 16 نکاتی ایجنڈا جاری

    قومی اسمبلی کا اجلاس آج ہوگا، 16 نکاتی ایجنڈا جاری

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کا اجلاس آج شروع ہوگا جس کا 16 نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس آج دن گیارہ بجے ہو گا، اسپیکر قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کریں گے جبکہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اجلاس کا 16نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا۔

    مالی بجٹ کے پی ایس ڈی پی میں حیدرآباد-سکھر موٹر وے شامل نہ کرنے پہ توجہ دلاؤ نوٹس ایجنڈے میں شامل ہیں۔

    ایجنڈے میں فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ترمیمی بل شامل ہیں، انکم ٹیکس ترمیمی بل بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

    اس کے علاوہ تحویل ملزمان ترمیمی بل ایجنڈے وزیر داخلہ پیش کریں گے، پاکستان شہریت ترمیمی بل اور عطائے شہریت بل بھی ایجنڈے میں شامل ہیں۔

    آج کے اجلاس میں کالام روڈ پہ 12پلوں اور سڑک کی تعمیر نہ ہونے پہ توجہ دلاؤ نوٹس بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

  • آئینی ترمیم کا عمل جمہوریت دفن کرنے کی کوشش ہے، عمر ایوب

    آئینی ترمیم کا عمل جمہوریت دفن کرنے کی کوشش ہے، عمر ایوب

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ یہ آئینی ترمیم زبردستی لائی جارہی ہے جو جمہوریت دفن کرنے کی کوشش ہے۔

    یہ بات انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، 26ویں آئینی ترمیم کے عمل پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ آئینی ترمیم وفاق کو کمزور کرنے کی علامت ہوگی، یہ آئینی ترمیم پاکستانی عوام کی ترجمانی نہیں کرتی۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے بحیثیت اپوزیشن ممبر جو مثبت کردار کیا اس کو سراہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ کہا ہم نے اپنے ایم این ایز کو ہدایت دی ہے کہ اس عمل کا حصہ نہیں بننا۔

    اپوزیشن لیڈر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کا یہ عمل آزاد عدلیہ کا گلہ گھوٹنے کا عمل ہے جو اختتام پذیر ہورہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے بالکل ٹھیک کہا کہ یہ کالا تھیلہ تھا یا کالا سانپ تھا، ترمیم منظور کرنے کی اتنی جلدی کس بات کی ہے کیا ملک جام ہوجانا تھا؟ تیز گام لگائی ہوئی ہے، آج 21اکتوبر ہوگئی یہ اجلاس 22کو یا 31تاریخ کو کیوں نہیں ہوسکتا تھا۔

    عمر ایوب نے متنبہ کیا کہ ایم این ایز نے پارلیمانی پارٹی ڈائریکشن کی خلاف ورزی کی تو قانونی کارروائی کی جائے گی ،پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم اس کا حصہ نہیں بنے گی۔

    پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارا اسپیکر سے مطالبہ ہے کہ ہمارے لوگ آج جو نمودار ہو رہے ہیں ان کو اس عمل کا حصہ نہ بنایا جائے، ہمارےارکان کو ان کی نشستوں پر واپس بھیجا جائے۔

    عمرایوب نے مزید کہا کہ آئینی ترمیم کا حصہ نہ بن کر ہم تاریخ میں سرخرو ہونگے، ناپاک عزائم کیلئے آئینی ترمیم کو جنم دینے والوں کو تاریخ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کریگی۔

    قبل ازیں سینیٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔ حکومت نے دو تہائی اکثریت سے چھبیسویں آئینی ترمیم منظورکرالی۔ پہلی شق میں چار ووٹ مخالفت میں آئے۔

    بقیہ تمام شقیں65 ووٹوں کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کی گئیں، آئینی ترمیم منظوری کے وقت ایوان میں ن لیگ پی پی،جے یو آئی اور اے این پی کے ارکان موجود رہے۔

    بی این پی کے دو سینیٹرز بھی اجلاس میں آئے۔ بیرسٹرعلی ظفر ،عون عباس، حامد خان اور راجہ ناصر عباس نے بل کی مخالفت کی۔

  • آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس

    آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس

    26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے منظوری کیلئے اجلاس منعقد ہوا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔

    وزیراعظم شہباز شریف، نوازشریف، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، بیرسٹر گوہر اور دیگر سیاسی رہنما ایوان میں موجود تھے۔

    قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے224ووٹ درکار ہیں جبکہ حکومت اور جے یو آئی کے ووٹ221ہیں حکومت کو اپوزیشن سے5  ووٹ ملنے کا یقین ہے۔

    قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا، ان کا کہنا تھا کہ آج تاریخ ساز دن ہے، میثاق جمہوریت کا ادھورا ایجنڈا آگے بڑھایا جارہا ہے، آئینی بینچز بنائے جارہے ہیں، چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ بدلا جارہا ہے۔

    اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت پر شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے تھے۔

    اعظم نذیر تارڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے، 12رکنی پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں اپوزیشن اور حکومتی لوگ ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اب چیف جسٹس آف پاکستان کی معیاد 3 سال ہوگی، ماضی میں ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس کی معیاد 6 سے 7سال تھی۔

    چیف جسٹس پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ کے دو سینئرجج ممبر ہونگے، جوڈیشل کونسل میں 2ممبر ہائیکورٹ کےچیف جسٹس ہونگے۔

    چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پارلیمان اور آئین کیلئے کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔ کالے سانپ نے ایک نہیں بلکہ کئی وزرائے اعظم کو فارغ کرایا۔ وردی میں صدر کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔

    ہم نے اٹھاون ٹوبی ختم کیا تو عدالت نے صادق اور امین کے ذریعے وہ اختیار اپنے پاس رکھا۔ کالے کوٹ والے کو وزیراعظم کو ہٹانے کی اجازت ہے لیکن اس ایوان کے پاس اختیار نہیں۔

    قبل ازیں سینیٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔ حکومت نے دو تہائی اکثریت سے چھبیسویں آئینی ترمیم منظورکرالی۔ پہلی شق میں چار ووٹ مخالفت میں آئے۔

    بقیہ تمام شقیں65 ووٹوں کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کی گئیں، آئینی ترمیم منظوری کے وقت ایوان میں ن لیگ پی پی،جے یو آئی اور اے این پی کے ارکان موجود رہے۔

    بی این پی کے دو سینیٹرز بھی اجلاس میں آئے۔ بیرسٹرعلی ظفر ،عون عباس، حامد خان اور راجہ ناصر عباس نے بل کی مخالفت کی۔

  • "عدم اعتماد سے قبل دھمکی دی گئی کہ ہم فوراً الیکشن مانیں، ورنہ مارشل آئے گا”

    "عدم اعتماد سے قبل دھمکی دی گئی کہ ہم فوراً الیکشن مانیں، ورنہ مارشل آئے گا”

    اسلام آباد: وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے الزام عائد کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے ایک رات قبل دھمکی دے گئی کہ فوری طور پر الیکشن مانیں ورنہ مارشل لا نافذ کردیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم پولیٹیکل انجینئرنگ پر یقین نہیں رکھتے، تحریک عدم اعتماد سے ایک رات پہلے ہمیں دھمکی دی گئی کہ ہم فوراً الیکشن مانیں ورنہ مارشل آئے گا یہ دھمکی اس وقت کے حکومتی وزیر نے ہمارے ساتھی کو دی تھی۔

    بلاول بھٹو نے چیئرمین پی ٹی آئی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب نے جھوٹ پر مبنی انتہائی پوزیشن اپنائی، وہ چاہتے ہیں ان کےشرائط پر الیکشن ہوں، خان صاحب ایسےحالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ تیسری قوت فائدہ اٹھائے۔

    بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ پہلے انتخابی اصلاحات، پھر انتخابات، ہم فری اینڈ فیئر الیکشن چاہتے ہیں یہی مطالبہ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے جبکہ آج بھی خان صاحب کی یہی اسٹریٹجی ہے کہ اصلاحات کےبغیر الیکشن کرادیں۔

    یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں بھارت کے غیرقانونی اقدامات کیخلاف مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظور

    انہوں نے مزید کہا کہ خان صاحب نے جھوٹ پر مبنی انتہائی پوزیشن اپنائی، اب حالات یہ بن رہے ہیں کہ آپ بندوق نکالو ہم بھی نکالتےہیں دیکھتے ہیں کون جیتے گا؟

    بلاول بھٹو نے کہا کہ چار سال چور چور کا شور مچانے والا خود چور نکلا، کوئی کارکردگی کا پوچھے تو اداروں پر حملہ کرتا ہے، خان نے قومی اسمبلی سمیت اداروں کو متنازع بنادیا، میرا ایوان سے مطالبہ ہے کہ غیر آئینی، غیر جمہوری کاموں میں ملوث افراد کی نشاندہی کیلئے کمیشن بنایا جائے۔

  • ‘سپریم کورٹ عمران خان، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو گرفتار کرنے کا حکم دے’

    ‘سپریم کورٹ عمران خان، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو گرفتار کرنے کا حکم دے’

    نائب صدر مسلم لیگ مریم نواز نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ سے بڑا مطالبہ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ مریم نواز نے لکھا کہ قومی اسمبلی میں ہونے والے تماشے پر سپریم کورٹ اپنے احکامات کی صریح خلاف ورزی کافوری نوٹس لے۔

    مریم نواز نے لکھا کہ سپریم کورٹ عمران خان، اسپیکر او رڈپٹی اسپیکر کو گرفتار کرنےکا حکم دے، ان کی فوری گرفتاریوں کا حکم دیا جائے اس سے قبل وہ سب کچھ اڑاکر رکھ دیں۔

    لیگی نائب صدر نے مزید لکھا کہ بیوروکریسی، انتظامیہ حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کرے۔

    ادھر قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس جاری ہے جہاں آج چوتھی بار وقفہ کیا گیا ہے، اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔

    جبکہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کا کہنا ہے کہ آج ہر صورت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے گی۔

     

  • تحریک عدم اعتماد: وزیراعظم نے حکمت عملی تیار کرلی

    تحریک عدم اعتماد: وزیراعظم نے حکمت عملی تیار کرلی

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اب نئی حکمت عملی کے تحت پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد والے دن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونگے۔

    رپورٹ کے مطابق ارکان قومی اسمبلی وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر تحریک عدم اعتماد کے خلاف ووٹ دینگے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی کل کے اجلاس میں شرکت کرینگے۔

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے روز پی ٹی آئی کے ارکان کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا تھا۔

    اسمبلی قانون کے مطابق وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر اپوزیشن کو اپنے نمبرز گیم پورے کرنے ہوتے ہیں اور ممکنہ تعداد کو قومی اسمبلی میں لانا ہوتا ہے۔

    قومی اسمبلی کا ایوان 342 ارکان پر مشتمل ہے، اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے 172 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔

    متحدہ اپوزیشن پہلے ہی اپنی عددی برتری ثابت کرچکی ہے جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عدم اعتماد کے روز بڑا سرپرائز دینگے۔

  • قومی اسمبلی اجلاس: اپوزیشن اور اسپیکر کے درمیان اہم امور طے پاگئے

    قومی اسمبلی اجلاس: اپوزیشن اور اسپیکر کے درمیان اہم امور طے پاگئے

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس سے قبل اپوزیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی کے درمیان اہم ترین ملاقات ہوئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں نے اسپیکر چیمبر میں ملاقات کی، ملاقات میں قومی اسمبلی اجلاس کے قوانین سے متعلق مشاورت کی گئی۔

    ذرائع کے مطابق اسپیکر کی جانب سے آئین کے مطابق اجلاس چلانے کی یقین دہانی کرائی گئی، ملاقات میں اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو اسپیکر اسد قیصر نے بتایا کہ آج عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوں گی۔

    یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آج قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی

    ملاقات میں اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کو بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے فوری بعد دو روز کے لئے قوم اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا جائے گا، جس پر انہوں نے اتفاق کیا۔

    ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ دو روز کے وقفے کے بعد اجلاس میں عدم اعتماد پربحث ہوگی اور ایک ہفتے کے اندر عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوں گی۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آج قومی اسمبلی میں پیش کی جائےگی، تحریک پیش ہونے کے بعد تین دن تک ایوان میں بحث ہوگی۔

    قومی اسمبلی کے ایک سو باون ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کررکھی ہے، تحریک ایوان میں پیش ہونے کے بعد تین روز تک بحث کی جائے گی۔

    دوسری جانب اپوزیشن نے وزیراعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتمادجمع کرادی ہے، جس میں سو سے زائد ارکان کے دستخط موجود ہے۔

  • حکومتی اتحادیوں کا آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

    حکومتی اتحادیوں کا آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومتی اتحادیوں ق لیگ،ایم کیو ایم اور باپ پارٹی نے آج قومی اسمبلی کےاجلاس میں شرکت نہ کرنےکا فیصلہ کرلیا ۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت کی 3 بڑی اتحادی جماعتوں نے آج قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ،ایم کیو ایم اور باپ پارٹی نتیجے پر پہنچنے کےلئے مشاورت کررہے ہیں ، حکومتی اتحادیوں کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ مشترکہ طور پر کیا جائے گا۔

    یاد رہے مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم نے ملک کی‌ حالیہ سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے عدم اعتماد پر باہمی مشاورت سے فیصلہ کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ملاقات میں ق لیگ اور ایم کیوایم میں اتفاق ہوا کہ عدم اعتماد پر فیصلہ 1سے2روزمیں کریں گے ، ملاقاتیں جمہوری روایات،آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے اہم ہے۔

    مسلم لیگ ق کی قیادت نے بلوچستان عوامی پارٹی سے فون پر رابطہ کیا ، جس میں دونوں جماعتوں نے ملکر چلنے پر اتفاق کیا تھا۔

    اس سے قبل حکومتی وفد نے ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کی تھی ، ملاقات میں تحریک عدم اعتماد، سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی اور وزیر اعظم کا اہم پیغام چوہدری پرویزالہی کو پہنچایا۔

    حکومتی وفد نے آگاہ کیا کہ وزیراعظم عمران خان چوہدری پرویزالہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پرآمادہ ہوگئے ہیں ، پرویز الہیٰ کو وزارت اعلیٰ دینے کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے۔

  • نمبرز گیم: متحدہ اپوزیشن  کے اجلاس میں کتنے ارکان شریک ہوئے؟

    نمبرز گیم: متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں کتنے ارکان شریک ہوئے؟

    اسلام آباد: متحدہ اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی میں کتنے ارکان حاضر ہوئے؟ اے آر وائی نیوز نے پتہ لگالیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا ہے، جس پر متحدہ اپوزیشن کو شدید دھچکا لگا۔

    قومی اسمبلی اجلاس سے قبل متحدہ اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تاہم ضروری امر یہ تھا کہ متحدہ اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی کے اہم ترین اجلاس میں اپوزیشن کے نمبرز گیم کتنے ہیں؟ جس کا پتہ اے آر وائی نیوز نے لگالیا ہے، اجلاس میں اپوزیشن کے 162 میں سے159اجلاس میں شریک ہوئے، تین ارکان غیر حاضر رہے۔

    غیر حاضر رہنے والوں میں پیپلز پارٹی کے جام عبدالکریم، پی ٹی ایم کے علی وزیر جبکہ جماعت اسلامی کے عبدالاکبر چترالی شامل تھے۔

    علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ

    ادھر اپوزیشن نے پی ٹی ایم کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور جیل میں قید رکن قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کیلئے درخواست جمع کرادی ہے۔

    درخواست نوید قمر اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں نے جمع کرائی۔

    واضح رہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کے بغیر پیر تک ملتوی کیا جاچکا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کے بغیر پیر تک ملتوی

    اسپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے ایم این اے خیال زمان ، سابق صدر رفیق تارڑ ، پشاور دھماکے کے شہداء سمیت دیگر وفات پانے والوں کیلئے فاتحہ خوانی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام 4بجے تک ملتوی کردیا۔

    اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ یہ اسمبلی کی روایت ہے کہ معزز رکن کے انتقال کے احترام میں فاتحہ خوانہ کے بعد ایجنڈا مؤخر کرکے اجلاس ملتوی کردیا جاتا ہے۔

  • ‘اسپیکر قومی اسمبلی نے  آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی’

    ‘اسپیکر قومی اسمبلی نے آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی’

    اسلام آباد: اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو لکھے گئے خط میں آئینی ذمے داریاں پوری نہ کرنے کا شکوہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے نام خط لکھا، خط کا متن میں کہا گیا کہ اپوزیشن کی جانب سے 8مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی، ارکان کو فوری عدم اعتماد کے نوٹسز ملنے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا، چند اراکین کو 19مارچ کو نوٹسز کی کاپی ملی۔

    شہباز شریف نے خط میں لکھا کہ آئین کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے 14 دن میں اجلاس طلب کرنا اسپیکر کی ذمہ داری تھی، مگر آپ نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

    ادھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سیکریٹری داخلہ ، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور آئی جی اسلام آباد کے نام بھی خط لکھا ہے، مذکورہ خط 24مارچ کو لکھا گیا، خط کے متن میں کہا گیا کہ اپوزیشن نے8مارچ کو تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ میں جمع کرائی، اسی دن قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنےکیلئےریکوزیشن بھی جمع کرائی گئی۔

    یہ بھی پڑھیں: ہار جیت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، آپ دیکھیں گے کہ ہم کیا کرتے ہیں، بلاول بھٹو

    شہباز شریف نے اپنے خط میں موقف اپنایا کہ تحریک عدم سے متعلق قومی اسمبلی کا اجلاس بلانےکیلئےآئین وقانون واضح ہے جبکہ ہر رکن قومی اسمبلی کاحق ہےکہ وہ اجلاس میں شریک ہو سکے مگر وزیراعظم، وفاقی وزرا،مشیران نے ارکان کو روکنےسےمتعلق بیان دیئے۔

    اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ اس ضمن میں غیر پارلیمانی زبان بھی استعمال کی جا رہی ہے، وزیراعظم نےجلسے میں اپوزیشن لیڈر کو دھمکی بھی دی کہ انہیں دیکھ لونگا، وزیر اعظم نےڈی چوک پر10لاکھ لوگ اکٹھےکرنےکابیان دےرکھاہے،وزیراعظم نےکہا کہ ارکان قومی اسمبلی کو ان لوگوں کے درمیان سےگزرکرجاناہوگا، اس سلسلے میں خون ریزی کا خطرہ ہے۔