Tag: nab appeal

  • ایم سی بی نجکاری کیس : سپریم کورٹ سے نیب کی استدعا مسترد

    ایم سی بی نجکاری کیس : سپریم کورٹ سے نیب کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ایم سی بی کی نجکاری کے خلاف کی جانے والی نیب کی اپیل پر سماعت ہوئی، اس موقع پر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو 3ماہ میں دائرہ اختیار پر فیصلے کا حکم دے دیا

    عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ فیصلہ کرے کہ ایم سی بی نجکاری کی تحقیقات کا اختیار نیب کو ہے یا نہیں؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانا نے ہائی کورٹ کا حکم امتناعی ختم کرنے کی استدعا کی جس پرسپریم کورٹ نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب دائرہ اختیار پر فیصلہ ہوگا تو حکم امتناع ازخود ختم ہو جائے گا۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانا نے نجکاری کیخلاف انکوائری سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی، ایم سی بی کی نجکاری خلاف ضابطہ ہوئی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ نیب لوکل کمیشن سےغیرحاضر رہا، سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ دائرہ اختیار کا ہے کیس کے میرٹ کا نہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ مسلسل 6 سال سے یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

  • نواز شریف کو ریلیف ملےگا یا نہیں؟ فیصلہ 15 ستمبر کو ہوگا

    نواز شریف کو ریلیف ملےگا یا نہیں؟ فیصلہ 15 ستمبر کو ہوگا

    اسلام آباد : العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرنڈر کئےبغیر نواز شریف کی درخواست پر سماعت سے متعلق دلائل طلب کرلئے اور کہا نواز شریف کوریلیف ملےگایانہیں 15 ستمبر کو فیصلہ ہوگا۔ ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کررہے ہیں۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے ، سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس عامر فاروق نے کہا گزشتہ سماعت سے آج تک ڈیولپمنٹ ہوئی ہے، کیا نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا گیا، جس پر جہانزیب بھروانہ نے بتایا جی بالکل نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا گیا۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا متفرق درخواست کو ہم انٹرٹین کرسکتے ہیں، اپیل کی بات نہیں کر رہا، رٹ پٹیشن پر دلائل دیں، ایک عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمار کس میں کہا کہ نواز شریف کوکسی اور عدالت نے اشتہاری قرار دیاہے، کیا اشتہاری قرار دینےکے بعد ہم کسی اور درخواست پر فیصلہ کرسکتےہیں۔

    وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی نواز شریف کو اپنا جواب فائل کرنے کا موقع دیا جائے، نواز شریف بیرون ملک علاج کیلئےگئے ہیں ، قانونی نمائندہ کے ذریعے جواب کا موقع دے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا نواز شریف پہلے گرفتاری پیش کریں۔

    نوازشریف کیس میں دوراں سماعت پرویز مشرف کیس کا بھی تذکرہ کیا گیا ، جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کیس سننے سے پہلے اپنے آپ کو سرنڈر کرنالازمی ہے، لگ رہا ہے جہانزیب بھروانہ آج تیاری کرکے آئےہیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ کسی کو نہیں  سن رہے ، ہم اپیل کو میرٹ پر ہی دیکھیں گے۔

    جہانزیب بھروانہ نے کہا توشہ خانہ ریفرنس میں اشتہاری ہونے کے بعد نواز شریف کو ریلیف نہیں مل سکتا، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف کی اپیل خارج نہیں کررہےمگر سننے کا یہ وقت نہیں ، اپیل کو میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کریں گے۔

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا اشتہاری ہونے کے بعد درخواست گزار کو سن سکتے ہیں؟ وکیل خواجہ حارث نے جواب  دیا کہ دونوں درخواستیں سنی جاسکتی ہیں۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا نواز شریف اسپتال میں زیر علاج ہیں، 8 ماہ سےنواز شریف لندن میں ہے مگر اسپتال میں داخل نہیں ، کیا نواز شریف اس وقت اسپتال میں داخل ہے؟ جس ڈاکٹر کی آپ نےرپورٹ جمع کرائی وہ خود امریکامیں ہے، اگر کوئی اسپتال میں داخل ہو تو اوربات ہے۔

    وکیل خواجہ حارث نے کہا نواز شریف اس وقت اسپتال میں داخل نہیں ہیں، عدالت میری اپیل کوسنے، اشتہاری کی بھی سنی جاتی  ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے دیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ ماضی میں ایسےفیصلے دیئےجاچکےہیں،ہم نے بھی دیئےہیں، بات یہ ہےکہ آپ کی مزید 2درخواستوں پرکارروائی ہوسکتی ہےیانہیں، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ درخواست ہی یہی ہے کہ آپ نواز شریف کی غیر موجودگی میں اپیل کو سنیں۔

    خواجہ حارث نے استدعا کی کہ نواز شریف کواسوقت اشتہاری قرار نہ دیا جائے، پیر تک وقت دیا جائے،عدالت کومطمئن کریں گے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا پچھلے سماعت پر وفاق سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہمیں جو رپورٹس میٹریل دیاگیااس سے مطمئن نہیں، نواز  شریف اس وقت اسپتال میں نہیں ہیں، وہ فٹ ہیں اور سفر کے قابل بھی ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا درخواست گزار نے کب نام ای سی ایل سے نکالنےکی درخواست دی، وکیل نے بتایا کہ
    نواز  شریف نے ضمانت کے بعد نومبرمیں درخواست دی تھی۔

    دوران سماعت جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے 4 ہفتےگزشتہ سال دسمبرمیں ختم ہوئےتھے، کیا وفاق نےفالو اپ کیا ہے کہ نہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کس کو دی تھی ؟ تو
    خواجہ  حارث نے بتایا ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست وفاقی حکومت کو دی تھی۔

    جسٹس عامر فاروق نے مزید استفسار کیا نواز شریف بیرون ملک کب گئے تھے؟ وکیل نے بتایا نواز شریف بیرون ملک علاج کیلئےاکتوبر میں گئے تھے، بیرون ملک جانے کیلئےلاہور ہائیکورٹ میں انڈر ٹیکنگ جمع کرائی تھی۔

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ وفاق نے درخواست گزار کےعلاج سےمتعلق ویری فکیشن نہیں کی؟ 27 فروری کو وفاقی حکومت نے ضمانت میں توسیع نہ کرنےکاکہا، وفاق نے صحت مند ہونے کا سرٹیفکیٹ دیامگرانویسٹی گیشن نہیں کی، غلط یا صحیح مگر وفاقی حکومت کے پاس کلین چٹ تھی۔

    وفاقی حکومت نے مؤقف میں کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس نامکمل ہیں، پنجاب حکومت نواز شریف کی ضمانت مسترد کرچکی ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا عدالت کو قانون سے بتائیں کیس سن سکتے ہیں یا نہیں ؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا استفسارنواز شریف اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں، ضمانت کا وقت ختم ہوچکا،سرنڈر کا موقع دیا مگر نہیں آئے، ایک عدالت نے اشتہاری قرار دیا ہے۔

    جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کو مطمئن کرنے کا موقع دے دیتے ہیں، اپیل میرٹ پر ہے یا نہیں اس پر فیصلہ کریں گے، ابھی صرف اتنابتانا ہے عدالتی اشتہاری کےوکیل کوسناجاتاہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا نوازشریف نے سرنڈر نہیں کیا، کھیل ختم ہوچکا۔

    ہائیکورٹ میں ججز اور وکلاکے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ، جسٹس عامر فاروق نے جہانزیب بھروانہ سے کہا آپ خواجہ حارث کو کافی، چائے اور کھانا آفر کریں، جس پر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ میں نے خواجہ حارث کو کافی آفرکی مگر انہوں نے انکار کیا۔

    عدالت نے سرنڈر کئےبغیر نواز شریف کی درخواست پر سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں سے متعلق دلائل طلب کرلئے اور کہا نواز شریف کوریلیف ملےگایانہیں 15 ستمبر کو فیصلہ ہوگا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹرسے دلائل طلب کرلئے جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی ضمانت مسترد ہوچکی، توشہ خانہ میں اشتہاری بھی ہوچکے، نواز شریف مفرور اور اشتہاری ہونے کے بعد ریلیف کے مستحق ہیں یا نہیں؟

    بعد ازاں نوازشریف اور نیب کی اپیلوں پرسماعت 15ستمبرتک ملتوی کردی گئی۔

    سماعت سے قبل ہائیکورٹ میں سیکورٹی ہائی الرٹ کی گئی تھی، اور ہائی کورٹ کے اطراف کے راستے بند کر دیئے گئے تھے اور ہائی کورٹ میں عام پبلک کی داخلہ پر مکمل پابندی تھی۔

    مزید پڑھیں : ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس، نواز شریف کی حاضری سے استثنی کیلیے درخواستیں دائر

    عدالت نے نوازشریف کو آج 10 ستمبر تک سرنڈر کرنے کاحکم دے رکھا ہے تاہم نوازشریف نے پیشی سےایک روزقبل واپسی سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ بیمار ہوں، پاکستان آکر سرینڈر نہیں کرسکتا۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف ہائیپر ٹینشن، امراض قلب سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں، میڈیکل رپورٹ نواز شریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ آر لارنس نے جاری کی، میڈیکل سرٹیفکیٹ میں نواز شریف کو دی جانے والی ادویات کا بھی ذکر ہے۔

    واضح رہے احتساب عدالت نے ایون فیلڈریفرنس 6جولائی 2018 کوقید وجرمانہ کی سزا سنائی تھی، نوازشریف کو 10،مریم صفدر کو7 اور کیپٹن صفدر کو1سال قید کی سزاسنائی گئی تھی جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    ریفرنس میں سزا معطلی کے بعد نوازشریف، مریم نواز،کیپٹن صفدر ضمانت پرہیں۔

  • تین سال بعد آصف زرداری کی بریت کیخلاف نیب اپیل سماعت کے لیے  مقرر

    تین سال بعد آصف زرداری کی بریت کیخلاف نیب اپیل سماعت کے لیے مقرر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین سال بعد ارسس ٹریکٹر اور پولو گراونڈ ریفرنس میں آصف زرداری کی بریت کیخلاف نیب اپیل سماعت کے لیے  مقرر کردی، نیب نے 2014 میں آصف زرداری کی بریت کو چیلنج کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے ایک اور مشکل کھڑی ہوگئی ، تین سال بعد نیب کی چار اپیلوں میں سے دو اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردی گئیں ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاز لسٹ جاری کر دی ہے۔

    اسلام آبا ہائی کورٹ نے آصف زرداری کی بریت کیخلاف نیب اپیل سماعت کے لیے مقرر کردی ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پر مشتمل دو رکنی بینچ کل 18 اپریل کو سماعت کرے گا، چیف جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بنچ میں شامل ہیں۔

    یاد رہے احتساب عدالت نے آصف زرداری کو 28 مئی 2014 کو پولو گراونڈ ریفرنس میں اور اسی سال 12 دسمبر کو ارسس ٹریکٹر ریفرنس میں بری کردیا تھا، جس کے بعد نیب نے 2014 میں ہی آصف زرداری کی بریت کو چیلنج کیا تھا۔

    خیال رہے آصف زرداری پر سرکاری خرچ پر وزیراعظم ہاو س میں پولو گراونڈ تعمیر کروانے اور ارسس ٹریکٹرز کی خریداری کے ٹھیکے میں کک بیک (رشوت) وصولی کے الزامات تھے۔

    خیال رہے سابق صدر آصف علی زرداری  کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ احتساب عدالت میں زیر سماعت ہیں اور آصف زرداری نے 29 اپریل تک جعلی اکاؤنٹس کیس میں عبوری ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

    آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو پارک لین کمپنی کیس میں طلب کیا گیا تھا، پارک لین کیس میں اربوں روپےکی ترسیلات جعلی بینک اکاؤنٹس سے کی گئیں، آصف زرداری پرپارک لین کمپنی میں 1989 میں فرنٹ مین کے ذریعے خریداری کاالزام ہے۔

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر بالکل درست ہے، فواد چوہدری

    سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر بالکل درست ہے، فواد چوہدری

    اسلام آباد : وزیراطلاعات فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کی جانب سے ایوان فیلڈ ریفرنس میں نیب کی اپیل مسترد ہونے پر کہا نوازشریف کی سیاست ہمیشہ کیلئےختم ہوچکی ہے، فیصلہ قانونی طورپربالکل درست ہے اور اس سےعملی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سپریم کورٹ کی جانب سے ایوان فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل مسترد ہونے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کافیصلہ قانونی طورپربالکل درست ہے، ضمانت کی منسوخی کیلئےغیرمعمولی وجوہات درکارہوتی ہیں، فیصلے سے عملی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

    فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی سیاست ہمیشہ کیلئےختم ہوچکی ہے، ن لیگ اہم سیاسی جماعت ہےانہیں نئی قیادت منتخب کرنی چاہیے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے ایوان فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کی سزا ئیں بحال کرنے کی نیب کی اپیل مسترد کردی تھی ، اعلی عدالت نے کہا تھا ہم کہہ چکے ہیں کہ عبوری حکم کی ابزرویشنز کا اصل اپیل پر اطلاق نہیں ہوتا، فیصلے کا وہ حصہ جس کی بنیاد پر ضمانت ہوئی نیب نے چیلنج ہی نہیں کیا ۔صرف ہائی کورٹ کے ریمارکس ضمانت کے منسوخی کا جواز نہیں ہوسکتے۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آبادہائی کورٹ کافیصلہ عبوری تھا، ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر نیب نے دوبارہ اپیل کی تو دیکھیں گے۔

    واضح رہے 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

  • ایون فیلڈریفرنس:  نوازشریف ،مریم نواز کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل مسترد

    ایون فیلڈریفرنس: نوازشریف ،مریم نواز کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایون فیلڈریفرنس میں نوازشریف ،مریم نوازکی ضمانت اورسزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم صادر کردیا، جسٹس آصف سعید نے کہا ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر نیب نے دوبارہ اپیل کی تو دیکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایوان فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا آپ ضمانت منسوخ کرانے کیلئے آئے ہیں، وہ نکات بتائیں جن کی بنیاد پر ضمانت منسوخ کرانا چاہتے ہیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کیا معطلی کے معاملے میں میرٹ پر بات نہیں ہوسکتی۔

    [bs-quote quote=” وہ نکات بتائیں جن کی بنیادپرضمانت منسوخ کراناچاہتےہیں؟” style=”style-7″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس کا نیب پراسیکیوٹرسےاستفسار”][/bs-quote]

    جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے ہائی کورٹ کافیصلہ سزا معطلی اورضمانت پر ہے، ضروری  نہیں کہ ہائی کورٹ کافیصلہ اپیل پر بھی اثرانداز ہو، جہاں تک میرٹ کی بات ہے وہ ہم دیکھ لیں گے ، آپ بتائے ضمانت منسوخی کن نکات پر کی جائے۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا ضمانت صرف سخت حالات کے باعث ہوسکتی ہے ، ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں سخت حالات کا ذکر نہیں کیا، جس پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیے مسئلہ کیا ہے ، کیا نواز شریف کو بری کردیا گیا ہے، وکیل نیب کا کہنا تھا کہ فیصلہ تقریبا بری کیے جانے کے مترادف ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہہ چکے ہیں عبوری حکم کی آبزرویشنزکا اصل اپیل پر اطلاق نہیں ہوتا ، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا ایک فریق تواس وقت بھی جیل میں ہے، دوسرے فریق نے ضمانت کو کیسے غلط استعمال کیا بتادیں، آپ کےمؤقف کے مطابق ہائی کورٹ نے فیصلہ غلط دیاہے، آپ  وہی غلطی ہم سے کراناچاہتے ہیں۔

    عدالت نے کہا ضمانت ہوجائےاور سپریم کورٹ اتفاق نہ بھی کرتی ہوتو وہ مداخلت نہیں کرتی،چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے ضمانت دینے کے اصول الگ اور ضمانت منسوخ کے الگ ہیں، اگر سمجھتے ہیں ضمانت منسوخ کی جائے تو واضح اصولوں پر بتادیں۔

    سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے نوازشریف،مریم،کیپٹن صفدرکی ضمانت،سزامعطلی کا ہائی کورٹ کافیصلہ برقرار رکھا ، جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں عدالتی آبزرویشن اور عبوری حکم فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوتی، ضروری نہیں عدالتی آبزرویشن حتمی فیصلے میں بھی شامل ہو۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ ضمانت میں ہائی کورٹ کے اختیار کا کیا غلط استعمال ہوا بتائیں،ضمانت دیتےوقت اختیارات کاناجائزاستعمال نہیں ہوا، شفاف ٹرائل کابنیادی حق یقینی بنائیں گے، وائٹ کالرکرائم کے خلاف ہی نیب کا قانون بنایاگیا تھا۔

    [bs-quote quote=”ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر نیب نے دوبارہ اپیل کی تو دیکھیں گے” style=”style-7″ align=”left” author_name=”جسٹس آصف سعیدکھوسہ”][/bs-quote]

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے  وائٹ کالرکرائم کی روک تھام کیلئےالگ قانون بناناہوگا، حکومت نےوائٹ کالرکرائم کی روک تھام کیلئےکوئی کام نہیں کیا۔

    جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ وائٹ کالرکرائم کےسدباب کیلئےہی نیب قانون بناتھا، نیب کےقانون پرسختی سےعملدرآمدکراناہوگا، چین میں کرپشن پر سزائے موت دی جاتی ہے، چین میں سمری ٹرائل کےبعدفائرنگ اسکواڈکےسامنےکھڑاکیاجاتاہے۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس میں کہا اسلام آبادہائی کورٹ کافیصلہ عبوری تھا، ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر نیب نے دوبارہ اپیل کی تو دیکھیں گے۔

    مزید پڑھیں : ایوان فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، مریم اور صفدرکی سزامعطلی، نیب اپیل سماعت کیلئے مقرر

    یاد رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

    اپیل میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ہی حکم نامے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، لندن فلیٹس کی مالیت کے تخمینے کے حوالے سے ہائی کورٹ کی آبزرویشنز حقائق کے منافی ہیں، ہائی کورٹ نے لندن فلیٹس کی مالیت سے متعلق سوال ہی نہیں کیا۔

    واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو10 مریم نواز کو7 اور کیپٹن رصفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

    ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • شریف خاندان کی سزائیں معطلی کیس میں ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، چیف جسٹس

    شریف خاندان کی سزائیں معطلی کیس میں ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نوازشریف خاندان کی سزائیں معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پرفریقین کو تحریری معروضات دینے کا حکم دےدیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اثاثے درختوں پر اگے تھے یا من وسلویٰ اترا تھا ،پاناما اسکینڈل کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، کیا ضمانت دینے کا فیصلہ ایسے ہوتا ہے؟ بظاہر ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے شریف خاندان کی سزا معطلی کیخلاف نیب اپیل کی سماعت کی۔

    نیب پراسیکوٹراکرم قریشی نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ نیب قانون کے تحت ہارڈشپ کیسز یعنی شدید علیل اورجان لیوا بیماری میں مبتلا ملزم کی سزا ہی معطل ہوسکتی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان باتوں کو مدنظر نہیں رکھا۔

    چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو دلائل دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ ہائی کورٹ نے میرٹ اورشواہد پرفیصلہ دیا ہے، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

    خواجہ حارث نے کامیاب انجیوپلاسٹی پر مبارکباد دیتے ہوئے چیف جسٹس سے کہا آپ کو ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا ہے تو آرام کرنا چاہیے، عدالت کا خیرخواہ ہونے کے ناطےآ پ کو آرام کا مشورہ دوں گا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا بالکل ڈاکٹرز نے مجھے منع کیا ہے، آج کیسزکی سماعت نہ کروں، ابھی بھی ایک ڈاکٹر پیچھے والے کمرے میں موجود ہے لیکن میرے نزدیک یہ مقدمہ اہم ہے، اس لئے آج آنا مناسب سمجھا، مقدمے کی سمت کا تعین ہوجائے تو مزید مقدمہ اگلی سماعت تک مؤخرکر دیں۔

    خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثے درست طریقے سے بنائے یا نہ ہونے سے متعلق یہ مقدمہ مکمل تحقیقات کا تقاضا کرتا ہے کیوںکہ اثاثے نوازشریف کے بڑے بیٹے کی ملکیت ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ثابت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، کیا من وسلویٰ اترا تھا، اثاثے ہوا میں تو نہیں آئے ہونگے ،کیا ہوا میں اثاثے بن گئے۔

    وکیل صفائی نے کہااس سلسلےمیں آپ کو قانون بتاؤں گا،جس پر جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا کہ قانون وہ ہےجو ہم ڈکلیئرکریں گے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پاناما اسکینڈل کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، سپریم کورٹ کو خود دستاویزات کا جائزہ لیکر فیصلہ کرنا چاہیے تھا، سپریم کورٹ نے مقدمہ ٹرائل کورٹ بھیج کر مہربانی کی،چار مرتبہ موقف تبدیل کیا گیا، پہلے قطری اور پھر بعد میں دوسرا موقف اختیار کیا۔

    چیف جسٹس نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے مقدمے کے تمام حقائق پر بات کی ،کیا ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست پر حتمی فیصلہ دے دیا؟ کیا ضمانت دینے کا فیصلہ ایسے ہوتا ہے؟ ہائیکورٹ کے فیصلے کی آخری سطر دیکھیں ،ہائیکورٹ نے کس طرح کے الفاظ استعمال کیے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بظاہر ہمارے پاس ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیا ایسی کوئی مثال ہے جس میں نیب کورٹ کے فیصلے کے نقائص بیان کیے گئے ہوں۔

    جس پر وکیل صفائی خواجہ حارث نے کہا آُپ نے سوال کیا ہے تو مجھے اس کا جواب دینے کی اجازت دیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ اپنے نکات اور معروضات ہمیں لکھ کردیں ، آپ کو دلائل کے لئے صرف ایک دن ملے گا ۔

    عدالت نے فریقین کے وکلاء کوتحریری معروضات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔

    مزید پڑھیں : سزا معطلی کے خلاف نیب اپیلوں پرسماعت، نوازشریف اور مریم نواز کونوٹس جاری

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں عدالت نےنوازشریف اورمریم نوازکونوٹس جاری کیاتھا، چیف جسٹس نے کہا تھا کیپٹن ریٹائر صفدر کو نوٹس جاری نہیں کررہے، ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں غلطی کی ہے،سزا کی معطلی کا فیصلہ دو سے تین صفحات پر ہوتا ہے ، تینتالیس صفحات کا فیصلہ لکھ کر پورے کیس پر رائے کا اظہار کیا گیا۔

    یاد رہے نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

    اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہائی کورٹ نے مقدمے کے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، ہائی کورٹ نے اپیل کے ساتھ سزا معطلی کی درخواستیں سننے کا حکم دیا تھا۔

    خیال رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    عدالت نے نواز شریف، مریم نواز، محمد صفدر کو 5،5لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاویداقبال کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔

    تین اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس گل حسن نے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نیب نے ضمانت کی درخواستوں پر بحث کے لئے زیادہ سہارا پاناما فیصلے کا لیا۔ بادی النظر میں ملزمان کو دی گئی سزائیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں، احتساب عدالت نے اپارٹمنٹس خریداری میں مریم نواز کی نوازشریف کو معاونت کا حوالہ نہیں دیا، مریم نواز کی معاونت کے شواہد کا ذکربھی نہیں۔

    واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو10 مریم نواز کو7 اور کیپٹن رصفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

    ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • سزا معطلی کے خلاف نیب اپیلوں پرسماعت، نوازشریف اور مریم نواز کونوٹس جاری

    سزا معطلی کے خلاف نیب اپیلوں پرسماعت، نوازشریف اور مریم نواز کونوٹس جاری

    اسلام آباد :ایوان فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف،مریم نوازاورصفدرکی سزا معطلی کے خلاف نیب اپیلوں پرسماعت میں  سپریم کورٹ نےنوازشریف اور مریم نواز کونوٹس جاری کردئیے، چیف جسٹس نے کہا صفدر کو نوٹس جاری نہیں کررہے،  ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں غلطی کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے نوازشریف،مریم نوازاورصفدرکی سزا معطلی کے خلاف نیب اپیلوں پرسماعت کی، کیس میں3فریقین ہیں۔

    سپریم کورٹ نے نوازشریف اور مریم نواز کو نوٹس جاری کردئیے۔

    چیف جسٹس نے کہا کیپٹن ریٹائر صفدر کو نوٹس جاری نہیں کررہے، ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں غلطی کی ہے،سزا کی معطلی کا فیصلہ دو سے تین صفحات پر ہوتا ہے ، تینتالیس صفحات کا فیصلہ لکھ کر پورے کیس پر رائے کا اظہار کیا گیا۔

    سپریم کورٹ میں کیس کی آئندہ سماعت چھ نومبر کوہوگی۔

    یاد رہے گزشتہ روز چیف جسٹس نے نیب کی اپیل پر سماعت کے لیے مقرر کرکے بینچ تشکیل دیا تھا، جو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تھا، لیکن طبیعت ناسازی پرجسٹس عمرکی جگہ جسٹس مظہر کو بینچ میں شامل کرلیا گیا۔

    یاد رہے نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

    اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہائی کورٹ نے مقدمے کے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، ہائی کورٹ نے اپیل کے ساتھ سزا معطلی کی درخواستیں سننے کا حکم دیا تھا۔

    خیال رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    عدالت نے نواز شریف، مریم نواز، محمد صفدر کو 5،5لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاویداقبال کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔

    تین اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس گل حسن نے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نیب نے ضمانت کی درخواستوں پر بحث کے لئے زیادہ سہارا پاناما فیصلے کا لیا۔ بادی النظر میں ملزمان کو دی گئی سزائیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں، احتساب عدالت نے اپارٹمنٹس خریداری میں مریم نواز کی نوازشریف کو معاونت کا حوالہ نہیں دیا، مریم نواز کی معاونت کے شواہد کا ذکربھی نہیں۔

    واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو10 مریم نواز کو7 اور کیپٹن رصفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

    ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • ایوان فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، مریم اور صفدرکی سزامعطلی، نیب اپیل سماعت کیلئے مقرر

    ایوان فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، مریم اور صفدرکی سزامعطلی، نیب اپیل سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایوان فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں خصوصی بینچ کل سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے لیے بینچ تشکیل دے دیا ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں خصوصی بینچ کل سماعت کرے گا۔

    گزشتہ روز نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

    اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہائی کورٹ نے مقدمے کے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، ہائی کورٹ نے اپیل کے ساتھ سزا معطلی کی درخواستیں سننے کا حکم دیا تھا۔

    اپیل میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ہی حکم نامے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، لندن فلیٹس کی مالیت کے تخمینے کے حوالے سے ہائی کورٹ کی آبزرویشنز حقائق کے منافی ہیں، ہائی کورٹ نے لندن فلیٹس کی مالیت سے متعلق سوال ہی نہیں کیا۔

    مزید پڑھیں : نیب نے نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ نیب کے وکلا کے حوالے سے آبزرویشنز حذف کی جائے۔

    سپریم کورٹ نے نوازشریف کیخلاف اپیل پر تین ہزار سات سو باون، مریم نواز کیخلاف اپیل پر تین ہزارسات سوترپن اورکیپٹن ریٹائرڈصفدرکے خلاف اپیل پر تین ہزار سات سو چوون نمبر لگادیا۔

    یاد رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    عدالت نے نواز شریف، مریم نواز، محمد صفدر کو 5،5لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاویداقبال کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔

    خیال رہے 3 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس گل حسن نے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نیب نے ضمانت کی درخواستوں پر بحث کے لئے زیادہ سہارا پاناما فیصلے کا لیا۔ بادی النظر میں ملزمان کو دی گئی سزائیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں، احتساب عدالت نے اپارٹمنٹس خریداری میں مریم نواز کی نوازشریف کو معاونت کا حوالہ نہیں دیا، مریم نواز کی معاونت کے شواہد کا ذکربھی نہیں۔

    واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو10 مریم نواز کو7 اور کیپٹن رصفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

    ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • حدیبیہ پیپرملزکیس، سپریم کورٹ کا نیب کی اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری

    حدیبیہ پیپرملزکیس، سپریم کورٹ کا نیب کی اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کی اپیل مسترد کرنے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس خارج کرنے کا فیصلہ درست تھا، ریفرنس کامقصد فریقین کودباؤمیں لانا تھا۔ نیب نے لاہور ہائی کورٹ سے دوبارہ تحقیقات کی استدعا ہی نہیں کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس کھولنے کی نیب اپیل مستردکرنے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، تفصیلی فیصلہ 36 صفحات پر مشتمل ہے، 36صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےتحریر کیا۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس خارج کرنے کا فیصلہ درست تھا، نیب نےدوبارہ تحقیقات کی ہائی کورٹ میں استدعا ہی نہیں کی، ریفرنس بحالی کیلئے4سال تک کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی، بحالی کی درخواست اس وقت دی جب ریفرنس اپنی موت آپ مرچکا تھا، فیصلہ

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شریف خاندان کو مروجہ قانونی طریقہ کار فراہم نہیں کیا گیا، ریفرنس التوامیں رکھ کر قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، ریفرنس زیر التوا رکھنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی، ریفرنس کامقصد فریقین کودباؤمیں لاناتھا۔

    تفصیلی فیصلہ کے مطابق میڈیا زیر سماعت کیس پر بات کرنے میں ذمہ داری کامظاہرہ کرے، فیصلہ جاری ہوجائے تو اس کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے، ازسرنوتحقیقات کی اجازت دینےوالےجج نےوجوہات نہیں لکھیں، دوبارہ تحقیقات سے روکنے کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔


    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے نیب کی حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اپیل مسترد کردی


    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شریف خاندان کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا تھا، نیب نے اصل وقت پرعدم دلچسپی کا اظہارکیا، ملزمان کو عدالت میں پیش کیا نہ ہی فرد جرم عائد ہوئی، نیب نے گواہ پیش کیے نہ ہی کوئی شواہد، ریفرنس میں نیب کی جانب سے بار بار التوالیا گیا۔

    یاد رہے گذشتہ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب کو حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی تھی اور نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نیب کےدلائل سےمطمئن نہیں ہوئی، درخواست مسترد کرنے کی وجہ تحریری فیصلےمیں بتائی جائےگی۔

    یاد رہے کہ پانامہ کیس کے دوران عدالت کے سامنے نیب نے اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کیس میں پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف کا نام شامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا ریفرنس خارج کرتے ہوئے نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ تحقیقات سے روک دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ نے حدیبہ پیپرز ملز کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا

    سپریم کورٹ نے حدیبہ پیپرز ملز کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نواز شریف فیملی کے خلاف حدیبہ پیپرزملز کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا، جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تیرہ نومبرکوسماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق پانامالیکس میں پھنسےنوازشریف فیملی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، حدیبیہ پیپرز ملز کیس بھی سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تیرہ نومبر کو دلائل سُنے گا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ تین رکنی بینچ کی سربراہی کریں گے، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم بینچ کا حصہ ہوں گے۔

    یاد رہے کہ پانامہ کیس کے دوران عدالت کے سامنے نیب نے اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کیس میں پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کا نام شامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا ریفرنس خارج کرتے ہوئے نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ تحقیقات سے روک دیا تھا۔


    مزید پڑھیں : نیب کی حدیبیہ پیپرملز سے متعلق سپریم کورٹ میں اپیل سماعت کیلئے منظور


    جس کے بعد نیب نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کو دوبارہ کھولنے جارہی ہے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی حدیبیہ کیس میں اپیل دائرنہ کرنے پرنیب کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور درخواست میں کہا گیا تھا  نیب نے اکیس جولائی کو سات دن میں اپیل دائر کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، جسے عدالت نے فیصلے کا حصہ بنایا تھا، 7 دن بعد چیئرمین نیب کویقین دہانی سے متعلق نوٹس بجھوایا ، چئیرمین نیب نے تاحال نوٹس کا جواب نہیں دیا۔

    چئیرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل ملزمان کے زیراثر ہیں ، اپیل دائر نہ کرکےعدالتی فیصلے پرعمل میں رکاوٹیں پیداکی جارہی ہیں ، نوٹس نہ لیاگیاتومنی لانڈرنگ سے متعلق سازش کامیاب ہوجائے گی۔


    مزید پڑھیں : حدیبیہ پیپرملز ریفرنس دائر کرنے میں تاخیر، شیخ رشید نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا


    درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ عدالت نے28 جولائی کوعمل درآمد کے لیے نگران جج مقرر کیا تھا، عدالت نیب کو اپیل فائل کرنے کی یقین دہانی پر عملدرآمد کا حکم دے، اپیل دائر نہ کرنے پر چیئرمین اور پراسیکیوٹر کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی۔

    خیال رہے کہ یہ کیس شہباز شریف کی سیاست کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ پاناما کیس پر نظرثانی اپیلوں کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب کو ایک ہفتے میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے کی ہدایت دی تھی، جس پر نیب حکام نے عدالت کو کیس پر اپیل دائر کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔