Tag: NAB

  • کڈنی ہل اراضی کیس، جرم میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا حصہ کتنا؟ نیب نے بتا دیا

    کڈنی ہل اراضی کیس، جرم میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا حصہ کتنا؟ نیب نے بتا دیا

    کراچی: قومی احتساب بیورو نے کہا ہے کہ اعجاز ہارون نے اوورسیز سوسائٹی کے 12 پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تھی، اعجاز ہارون اور سلیم مانڈوی والا کا جرم میں حصہ بالترتیب 80 ملین اور 64.5 ملین ہے۔

    ترجمان نیب نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ کڈنی ہل ایریا کی اراضی پبلک پارک کے لیے مختص کی گئی تھی لیکن ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون نے اومنی گروپ کے ساتھ اس جائیداد کا معاہدہ کر لیا۔

    ترجمان نے بتایا کہ نیب کی کسی سیاسی جماعت، فرد یاگروہ سے کوئی وابستگی نہیں ہے، نیب کو بدعنوان عناصر سے رقم کی وصولی کی ذمےداری دی گئی ہے، اوورسیز سوسائٹی نے کراچی کوآپریٹو سوسائٹیز سے اس اراضی کا انتظام حاصل کیا تھا، لیکن اعجاز ہارون نے غیر قانونی طور پر بارہ پلاٹ الاٹ کیے، 1990 کے بعد سے ہائیکورٹ میں کے ڈی اے، کے ایم سی اور سوسائٹی کیس چلتا رہا، یہ کیس کڈنی ہل اراضی کی سہولت یا رہائشی اراضی کی حیثیت سے متعلق تھا۔

    نیب نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا

    نیب ترجمان نے کہا اس اراضی کی وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس سے لے آؤٹ پلان کی منظوری بھی حاصل ہوگئی تھی، تاہم سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون نے اومنی گروپ کے ساتھ جائیداد کا معاہدہ کیا، پلاٹوں کی پرانی تاریخوں میں اوپن ٹرانسفر لیٹر سے ملکیت کا انتظام کیا گیا، اور اعجاز ہارون نے اوورسیز سوسائٹی کے 12 پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی، اعجاز ہارون اور سلیم مانڈوی والا کا جرم میں حصہ 80 ملین اور 64.5 ملین ہے۔

    نیب کے مطابق اعجاز ہارون نے ٹیکس گوشواروں میں ترمیم کر کے حقائق کو بدلنے کی کوشش بھی کی۔

    ترجمان نے کہا نیب پارلیمنٹیرینز سمیت ہر ایک کی عزت نفس کو ہمیشہ یقینی بناتا ہے، نیب کی بطور ادارہ کارکردگی سے متعلق یک طرفہ تاثر پیش کیا جا رہا ہے، اور نیب کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد نیب کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔

    ترجمان نے واضح کیا ہے کہ نیب شفاف اور منصفانہ کاموں میں کسی پروپیگنڈا مہم کے آگے سر نہیں جھکائے گا، اور معاشرے میں بدعنوان عناصر کو گرفت میں لانے کا عمل جاری رکھے گا۔

  • براڈ شیٹ کو ادائیگی، نیا موڑ سامنے آ گیا

    براڈ شیٹ کو ادائیگی، نیا موڑ سامنے آ گیا

    اسلام آباد: برطانوی نجی فرم براڈ شیٹ کو 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے میں نیا موڑ سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے والی برطانوی کمپنی براڈ شیٹ کو نیب کی جانب سے رقم ادائیگی کے معاملے پر خارجہ امور کمیٹی نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔

    قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی نے 18 جنوری کو شیڈول اجلاس ملتوی کر دیا، کمیٹی نے ایک روز قبل ہی اس معاملے کا نوٹس لیا تھا اور براڈ شیٹ معاملے پر چیئرمین نیب جاوید اقبال کو طلب کیا تھا۔

    نظام آف حیدر آباد کیس میں پاکستان کا 35 ملین پاؤنڈ کا مسترد شدہ دعویٰ بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔

    نیب کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ برا ڈشیٹ کیس میں سنسنی خیز انکشاف

    اس کمیٹی نے سیکریٹری خارجہ کو پالیسی امور پر تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، اور سیکریٹری قانون و انصاف کو قانونی امور پر بریفنگ کے لیے بلایا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ برا ڈشیٹ کیس میں ایک اور انکشاف ہوا ہے، پاکستانی ہائی کمیشن کا ایک اہم خط منظر عام پر آیا ہے، جس نے نیب پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

    خط کے مطابق نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کے لیے 28.7 ملین ڈالرز نکالے گئے تھے، اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود تھے، بقیہ 2.55 ملین ڈالرز راتوں رات بھیج دیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چندگھنٹے میں 2.55 ملین ڈالرز کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی پر آگاہ کیا تھا؟

  • نیب کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ برا ڈشیٹ کیس میں سنسنی خیز انکشاف

    نیب کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ برا ڈشیٹ کیس میں سنسنی خیز انکشاف

    اسلام آباد: برا ڈشیٹ کیس میں ایک اور انکشاف ہوا ہے، پاکستانی ہائی کمیشن کا ایک اہم خط منظر عام پر آیا ہے، جس نے نیب پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کے لیے 28.7 ملین ڈالرز نکال لیے گئے، اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود تھے، بقیہ 2.55 ملین ڈالرز راتوں رات بھیج دیے گئے۔

    سوال یہ ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چندگھنٹے میں 2.55 ملین ڈالرز کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی پر آگاہ کیا؟

    اس سلسلے میں پاکستانی ہائی کمیشن کا اہم خط منظر عام پر آیا ہے، یہ خط ہائی کمیشن نے نیب، دفتر خارجہ، اٹارنی جنرل اور فنانس ڈویژن کو 30 دسمبر 2020 کو بذریعہ فیکس پاکستان بھیجا تھا۔

    براڈ شیٹ‌ کیس، 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے پر چیئرمین نیب طلب

    خط میں کہا گیا تھا کہ یو بی ایل نے براڈ شیٹ کو ادائیگی کے لیے ہمیں خبردار کیا ہے، ہم بینک کو بتا چکے ہیں کہ یک طرفہ ادائیگی پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، بینک کو یہ بھی بتایا گیا کہ براڈ شیٹ کو یک طرفہ ادائیگی سے تعلقات متاثر ہوں گے، ہم نے ایف سی ڈی او کو بھی لکھ دیا کہ معاملہ برطانوی حکام کے سامنے اٹھائیں۔

    پاکستانی ہائی کمیشن نے خط میں لکھا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق ہمیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہے، استثنیٰ کے تحت بینک اکاؤنٹس کسی صورت بغیر اجازت استعمال نہیں ہو سکتے، دوسری طرف عدالتی حکم پر نیب کی جانب سے 28.7 ملین ڈالر کی ادائیگی کی جانی ہے، جب کہ پاکستانی ہائی کمیشن کا یہ بینک اکاؤنٹ نیب کے زیر استعمال ہے۔

    خط میں کہا گیا کہ نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود ہیں، عدالتی حکم کے مطابق ادا کی جانے والی رقم میں 2.55 ملین ڈالرز کم ہیں، نیب سے درخواست ہے کہ 2.55 ملین ڈالرز فوری اکاؤنٹ میں منتقل کرے، اگر نیب نے پیسے نہ بھیجے تو حکومت کو قانونی اور مالی معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    جاننا چاہتے ہیں براڈشیٹ کو مزید تحقیقات سےکس نےروکا؟ وزیراعظم

    خط میں ہائی کمیشن نے بتایا کہ 31 دسمبر کو پاکستانی اکاؤنٹ سے عدالتی حکم پر 28.7 ملین ڈالر نکال لیے گئے تھے۔

    تاہم اس سارے معاملے میں اہم سوالات یہ ہیں کہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چند گھنٹے میں مزید 2.55 ملین ڈالر کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی کے بارے میں آگاہ کیا تھا؟

    اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف کا کہنا ہے کہ جس براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا وہ 2007 میں ختم ہو گئی تھی، 2008 میں ایک نئی براڈ شیٹ کمپنی رجسٹرڈ ہوئی جس نے کلیم کیا، حکومت پاکستان نے اس کا جواب بھی دیا، دراصل نئی براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا نہ وہ کلیم کر سکتی تھی۔

    انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 2008 میں نئی رجسٹرڈ کمپنی کو حکومت نے کسی جگہ چیلنج کیا؟ جب کہ براڈ شیٹ کیس کے دوران وزارت خزانہ اور خارجہ میں خطوط موجود ہیں، خطوط میں مسلسل کہا گیا کہ اکاؤنٹس میں اتنا پیسہ رکھیں جتنا استعمال میں ہو۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی نے برطانوی نجی فرم براڈ شیٹ کو 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے 18 جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں چیئرمین نیب کو طلب کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کے سی ای او کیوے موسوی نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف، آصف زرداری، بے نظیر بھٹو اور دیگر کے اثاثوں کا پتا لگانے کے لیے براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں، تاہم نواز شریف کی جلا وطنی اور انتخابات کے بعد 2003 میں حکومت نے کمپنی سے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔

    اپنے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ آصف زرداری نے اپنے ملک پاکستان کا نام بدنام کیا، ہم نے جن جائیدادوں کا سراغ لگایا آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں انھیں بحال کرایا، پیغام یہ تھا کہ جائیدادوں سے متعلق مزید تفتیش نہ کی جائے، ہمیں کہا گیا کہ 25 ملین ڈالرز لے لو اور معاملہ ختم کر دو، انجم ڈار سے اس سلسلے میں ملاقات بھی ہوئی، جس کا گواہ موجود ہے، اس نے 25 ملین ڈالرز کی پیش کش کی۔

  • نیب نے خواجہ آصف کی 10بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ اور شئیرز کا پتا لگالیا

    نیب نے خواجہ آصف کی 10بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ اور شئیرز کا پتا لگالیا

    لاہور: نیب نے خواجہ آصف کی 10بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ اور شئیرز کا پتا لگالیا ، جس میں بتایا گیا کہ خواجہ آصف نے 2010 سے 2020 تک سرمایہ کاری کی اور شیئرخریدے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کےخلاف تحقیقاتی رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرادی ، جس میں بتایا گیا ہے کہ نیب نےخواجہ آصف کی 10 بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ،شئیرزکاپتا لگالیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ نیب نے پرائیویٹ بروکرسے خواجہ آصف کے شئیرز کی تفصیلات حاصل کیں، جس کے مطابق خواجہ آصف کےآئی ٹی کی ایک کمپنی میں ایک کروڑ سے زائد کے شئیرز، 3 بینکوں میں ایک کروڑ16لاکھ سے زائد کے شئیرز اور سوئی سدرن گیس پائپ لائنزمیں 77لاکھ سے زائد کے شیئرہیں۔

    نیب نے بتایا  کہ خواجہ  آصف اینگروکارپوریشن اورنیشنل ریفائنری لمیٹڈ میں 9 لاکھ 34 ہزارکے شیئر ، نجی فارماسیوٹیکل کمپنی میں 4 لاکھ 42 ہزاراورنجی کمپنی میں   7 لاکھ سے زائد شیئر کے مالک ہیں، خواجہ آصف نے2010 سے 2020 تک سرمایہ کاری کی اور شیئرخریدے۔

    مزید پڑھیں : کشمالہ طارق کو کروڑوں کی ادائیگی، خواجہ آصف مہربان؟

    یاد رہے اس سے قبل نیب نے خواجہ آصف کی جانب سے کشمالہ طارق کو ادائیگیوں کے شواہد حاصل کئے تھے ، خواجہ آصف نےکشمالہ طارق کے اکاؤنٹ میں 12کروڑ روپے منتقل کیے، کشمالہ طارق کو ادائیگیاں خواجہ آصف کے فرنٹ مین نے کیں۔

    نیب کے مطابق خواجہ آصف کےفرنٹ مین نےجنوری 2015 میں7کروڑ جمع کرائے، جب کہ کشمالہ طارق نے مئی 2015 میں 5 بار ایک ایک کروڑ روپے نکلوائے، کشمالہ طارق کے اکاؤنٹ میں ستمبر2015میں 5کروڑ آن لائن جمع ہوئے جس کے بعد انہوں نے مارچ2016 میں 3کروڑ روپے نکلوائے، کشمالہ طارق نے اگست 2016 میں 4 کروڑ روپےنکلوائے۔

  • سعد رفیق کیخلاف لوکو موٹیو مہنگے داموں خریدنے کی انکوائری بند کرنے کا فیصلہ

    سعد رفیق کیخلاف لوکو موٹیو مہنگے داموں خریدنے کی انکوائری بند کرنے کا فیصلہ

    لاہور : قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق کیخلاف لوکوموٹیو مہنگےداموں خریدنے کی انکوائری بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ، چیئرمین نیب انکوائری بند کرنے کی حتمی منظوری دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو نیب لاہور نے مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق کیخلاف لوکوموٹیو مہنگےداموں خریدنے کی انکوائری بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سفارش چیئرمین نیب کو بھجوادی، چیئرمین نیب انکوائری بند کرنےکی حتمی منظوری دیں گے۔

    ذرائع کے مطابق شکایت گزار کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد سمیت دیگر پر مہنگےداموں لوکوموٹیوخریدنےکےالزاما ت تھے، پاکستان ریلوے کو 20 سے زیادہ لوکو موٹیو کی ضرورت نہیں تھی، سعد رفیق نےضرورت سے زائد لوکو موٹیو خریدنے کی منظوری دی، ضرورت سے زائد لوکو موٹیوزخریدنےکامقصدکیک بیکس حاصل کرنا تھا۔

    نیب حکام نے کہا ہے کہ جہاں کیس بنے گا بنائیں گے،شواہد نہیں ہوں گے توکیس بند کر دیا جائے گا ، کمپنی کو کانٹریکٹ میرٹ اورفارمیلٹیز مکمل کرنے کے بعد دیا کیا گیا ہے۔

  • اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں: چیئرمین نیب

    اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں: چیئرمین نیب

    اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں۔

    ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے آج کہا کہ ملک میں غربت، افلاس، صحت اور تعلیم کی زبوں حالی کی ایک وجہ منی لانڈرنگ ہے۔

    انھوں نے کہا اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جس کے ٹھوس شواہد ہیں، آٹا، چینی اسکینڈل کی تحقیقات کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

    چیئرمین نیب نے کہا قائد اعظم نے رشوت ستانی اور اقربا پروری کو بڑا مسئلہ قرار دیا تھا، نیب وائٹ کالر کرائمز اور اسٹریٹ کرائمز میں فرق ہے۔

    محکمہ خزانہ سندھ میں کھربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف، رپورٹ چیئرمین نیب کو ارسال

    انھوں نے کہا مضاربہ کیس میں معصوم لوگوں کو لوٹاگیا، لوگوں کو بھاری منافع کی لالچ دے کر عمر بھر کی جمع پونجی لوٹی گئی، مضاربہ کیس میں مفتی احسان اور ساتھیوں کو 10 سال کی سزا اور 10 ارب کا جرمانہ ہوا۔

    واضح رہے کہ چیئرمین نیب اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے درمیان ان دنوں پارلیمنٹیرینز کے خلاف نیب تحقیقات کے حوالے سے کشمکش چل رہی ہے، سلیم مانڈوی والا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے بے نامی ٹرانزکشن کی ہے، جب کہ میں نے اپنی فیملی کی مدد کے لیے منگلا کور کی زمین کے لیے ٹرانزیکشن کی تھی، ہم سینیٹ کی کمیٹی میں ان الزامات کی تحقیقات کریں گے۔

  • مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی کے خلاف نیب نے ریفرنس دائر کر دیا

    مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی کے خلاف نیب نے ریفرنس دائر کر دیا

    پشاور: مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی موسیٰ خان کے خلاف نیب نے ریفرنس دائر کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی موسیٰ خان پر بطور سرکاری افسر خورد برد سے اثاثے بنانے کے الزام میں نیب نے ریفرنس دائر کر دیا۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ موسیٰ خان نے اپنے بیٹے اور بھتیجے سمیت من پسند افراد کو بھرتی کیا، موسیٰ خان اور دیگر ملزمان نے مختلف پراجیکٹس میں خورد برد کی۔

    نیب ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ موسیٰ خان نے اپنے بیٹے کو جعلی دستاویز پر بی پی ایس 10 اور بھتیجے کو بی پی ایس 8 میں غیر قانونی طور پر بھرتی کیا، انھوں نے سسٹینبل لینڈ منیجمنٹ پروگرام (سلیمپ) میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی، موسیٰ خان کے اثاثے ان کی آمدن سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

    ریفرنس کے مطابق موسیٰ خان کی ایک کروڑ 92 لاکھ 97 ہزار 677 روپے کی جائیداد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، ان کے مختلف بینک اکاؤنٹس میں 3 کروڑ 29 لاکھ 53 ہزار روپے کے ٹرانزیکشنز ہوئیں، موسیٰ خان اور ان کے دیگر ساتھیوں نے 5 کروڑ 60 لاکھ 33 ہزار 835 روپے کی کرپشن کی۔

    یاد رہے کہ موسیٰ خان نے نیب کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دی تھی جس پر عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ موسیٰ خان نے درخواست میں الزام لگایا تھا کہ ان کے خلاف نیب کی کارروائی سیاسی انتقام ہے، انھوں نے مؤقف پیش کیا کہ میرے بیٹے جے یو آئی ف سے منسلک ہیں، حکومت نے جے یو آئی ف کی خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔

    مولانافضل الرحمان کے قریبی ساتھیوں کی ممکنہ گرفتاری کی وجوہات سامنے آگئیں

    پشاور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ موسیٰ خان کے اثاثے آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، ریکارڈ کے مطابق تفتیش سے پتا چلا کہ موسیٰ خان کے خریدے گئے اثاثے آمدن کے مطابق نہیں۔

    درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ موسیٰ خان نے حکومتی فنڈ میں خورد برد کی ہے، اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے بھی ہیں، جب کہ یہ سرکاری افسر تھے، انھوں نے اعتراف جرم کر کے درختوں کی کٹائی کی رقم بھی پلی بارگین کر کے واپس کر چکے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ موسیٰ خان خود پر لگائے گئے الزامات پر مناسب جواب نہیں دے سکے، ایسے میں سیاسی انتقامی کارروائی کا مؤقف بے بنیاد ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے موسیٰ خان کی نیب کے خلاف درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے نیب کو احتساب عدالت میں 7 روز کے اندر ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کر دی تھی۔

  • 11 اموات نیب کی نہیں، جوڈیشل تحویل میں ہوئیں: شہزاد اکبر

    11 اموات نیب کی نہیں، جوڈیشل تحویل میں ہوئیں: شہزاد اکبر

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے الزامات پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 11 اموات جوڈیشل کسٹڈی میں ہوئی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق شہزاد اکبر نے نیب کے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کی تحویل میں 13 اموات کا حوالہ دیاگیا، لیکن 11 اموات جوڈیشل تحویل میں ہوئی ہیں۔

    شہزاد اکبر نے کہا اسد منیر کو نیب نے اپنی تحویل میں نہیں لیا تھا، نیب تحویل میں صرف 2 اموات ہوئیں، آغا سجاد اور ظفر اقبال کی۔

    انھوں نے کہا پاناما پر فیصلہ ہو چکا ہے، سابق وزیر داخلہ نے کیس بنا کر بھیجے تھے، پی ٹی آئی نے کیسز کو روکا نہیں، چلنے دیا، مجھے کہا گیا کہ میڈیا پر نہ بتائیں۔

    اپوزیشن کی 34 ترامیم میں کیا تھا؟ شہزاد اکبر نے کچا چٹھا کھول دیا

    معاون خصوصی نے سینیٹ میں نیب سے متعلق قوانین پڑھ کر سنائے اور کہا کہ نیب قانون کے تحت کسی کی گرفتاری کی منظوری چیئرمین نیب دیتا ہے، کوئی گرفتار ہو تو نیب کو اسے ثابت کرنا ہوتا ہے، احتساب کا قانون یا ادارہ ہونا عالمی ضرورت بھی ہے، نیب کے قوانین کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

    شہزاد اکبر نے کہا نیب قوانین اپنے مقصد کے لیے ختم نہیں کر سکتے، منی لانڈرنگ سے متعلق تحقیقات نیب قانون کا حصہ ہونا چاہیے، ہم کہتے ہیں احتساب سب کا ہونا چاہیے، اپوزیشن والے کہتے ہیں 1999 کے بعد احتساب ہونا چاہیے، اور 1 ارب سے کم رقم کی کرپشن کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔

    انھوں نے کہا کوئی قانون ایک شخص کے لیے بنایا جائے گا تو کبھی بھی کامیاب نہ ہوگا، مہذب معاشرے میں کوئی ادارہ بلاتا ہے تو جلوس لے کر نہیں جاتے، آپ سے اگر احتساب کی بات کی جائے گی تو وہ سیاسی انتقام نہیں۔

    شہزاد اکبر نے مزید بتایا کہ نیب نے 2 سالوں میں 399 ارب روپے کی ریکارڈ ریکوری کی ہے، اور 27 ماہ میں 227 ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔

  • حکومت نیب کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کررہی ہے، مولانا فضل الرحمان

    حکومت نیب کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کررہی ہے، مولانا فضل الرحمان

    اسلام آباد : جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کی گرفتاری سیاسی انتقام کا تسلسل ہے، استعفوں سے متعلق پیپلز پارٹی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔

    یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں مریم نواز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ معلوم ہوا کہ آج مریم نوازاور پارٹی قیادت اسلام آباد میں ہے، خواجہ آصف کی گرفتاری کے بعد سوچا تھا کہ مریم نواز کو دعوت دوں۔

    فضل الرحمان نے کہا کہ گزشتہ رات نواز شریف سے ٹیلیفونک گفتگو ہوئی تھی، میں نے ان کو آگاہ کیا کہ کل مریم نواز کے ساتھ ملاقات ہوگی، نوازشریف سے کہا کہ وہ بھی ویڈیو لنک پر ہمارے ساتھ شرکت کریں۔

    سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ یکم جنوری بروز جمعہ کو پی ڈی ایم کا اجلاس لاہور میں ہوگا، پیپلزپارٹی کے فیصلے کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا، پی پی کی یہ بات کہ حتمی فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی خوش آئند ہے۔

    انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کی گرفتاری سیاسی انتقام کاتسلسل ہے، ماضی میں بھی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، موجودہ حکومت نیب کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کررہی ہے۔

    فضل الرحمان نے مزید کہا کہ سیاسی انتقام سے متعلق عملی ردعمل کیلئےمشاورت کریں گے، پی ڈی ایم کےسربراہی اجلاس میں ردعمل پرمشاورت ہوگی۔

  • نیب نے 714 ارب روپے برآمد کیے: چیئرمین

    نیب نے 714 ارب روپے برآمد کیے: چیئرمین

    اسلام آباد: قومی ادارہ احتساب (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب نے احتساب سب کے لیے کی پالیسی کے تحت 714 ارب روپے برآمد کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ادارہ احتساب (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب پاکستان کو بدعنوانی سے پاک بنانے کے لیے پرعزم ہے، نیب کا ایمان بدعنوانی سے پاک پاکستان ہے۔

    چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب افسران بدعنوان عناصر کے خلاف اپنی کوششوں کو دوگنا کریں، نیب بزنس کمیونٹی کا بہت احترام کرتا ہے۔ نیب کا کسی سیاسی جماعت، گروہ یا شخص سے کوئی تعلق نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ادارے کی وفاداری صرف ریاست پاکستان سے ہے، نیب کی ذمہ داری کرپشن کا خاتمہ اور لوٹی گئی رقم کی واپسی ہے اور ادارہ احتساب سب کے لیے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔

    چیئرمین نیب کا مزید کہنا تھا کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ نیب کی اولین ترجیح ہے، احتساب سب کے لیے کی پالیسی کے تحت 714 ارب روپے برآمد کر لیے۔