امریکا میں ایک مسافر طیارے میں پھیلنے والی غیر معمولی بو نے ایمرجنسی رسپانس سروس کی دوڑیں لگوا دیں، بعد ازاں وہ بو نیل پالش کی نکلی۔
امریکی میڈیا کے مطابق امریکن ایئر لائنز کی مذکورہ پرواز نے فلاڈلفیا سے اڑان بھری اور اپنے وقت کے مطابق نارتھ کیرولینا کے شارلٹ ڈگلس ایئر پورٹ پر لینڈ کر گئی۔
مسافروں کے طیارے سے اترنے تک سب کچھ معمول کے مطابق تھا، لیکن جیسے ہی عملے نے سامان نکالنے کے لیے کارگو کمپارٹمنٹ کھولا تو ایک نہایت تیز اور غیر معمولی بو ان کے نتھنوں سے ٹکرائی۔
فوراً ہی ایمرجنسی الارمز بجا دیے گئے جس کے بعد 5 فائر فائٹرز کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔
تاہم تفصیلی انسپکشن کے بعد پتہ چلا کہ ایک بیگ میں نیل پالش کی بوتل رکھی تھی جس کے ٹوٹنے سے اس کی بو کمپارٹمنٹ میں پھیل گئی تھی۔
خواتین کی زیبائش کا اہم جزو نیل پالش گو کہ بناؤ سنگھار میں خاصی اہمیت رکھتا ہے تاہم یہ نماز پڑھتے ہوئے رکاوٹ بن سکتی ہے کیونکہ نیل پالش ناخنوں تک پانی پہنچنے سے روک دیتی ہے جس سے وضو نہیں ہو پاتا۔
تاہم اب ایسی نیل پالش تیار کرلی گئی ہے جو نماز کی راہ میں حائل نہیں ہوگی، آپ اسے نماز فرینڈلی نیل پالش بھی کہہ سکتے ہیں۔
اورلی کاسمیٹکس کمپنی اور مسلم گرل نامی ادارے کے اشتراک سے تیار کردہ یہ نیل پالش ایسی جھلی پر مشتمل ہے جس سے پانی باآسانی گزر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس نیل پالش کی مشہوری حلال پینٹ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کی جارہی ہے۔
اترپردیش: بھارت کے مفتیان کرام مشترکہ فتویٰ دیا ہے کہ ناخنوں پر نیل پالش اور مہندی لگانا غیر شرعی عمل ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اترپردیش کے علاقے سہارن پور میں موجود دارالعلوم دیوبند نے خواتین کے نیل پالش اور مہندی استعمال کرنے کے حوالے سے اہم فتویٰ جاری کیا۔
دارالعلوم کی جانب سے جاری ہونے والے فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ ’ ناخنوں پر خوبصورتی کے لیے نیل پالش یا مہندی استعمال کرنے والی خواتین غیر شرعی عمل کررہی ہیں‘۔
مفتی اشعر گورا نے سیمینا کی تقریب کے دوران فتویٰ دیا کہ دینِ اسلام میں ناخنوں پر مہندی یا نیل پالش لگانے کی ممانعت اس لیے ہے کہ وضو کا پانی ناخنوں تک نہیں پہنچتا اور اسی وجہ سے نماز نہیں ہوتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسلام نے خواتین کو خوبصورتی بڑھانے کے لیے کسی بھی چیز سے نہیں روکا البتہ نماز سے قبل وضو کے دوران نیل پالش ہٹا دینا چاہیے تاکہ وضو ہوجائے اور ناخنوں تک پانی پہنچ سکے۔
دوسری جانب مسلمان خاتون وکیل فرح فیض نے دارالعلوم دیو بند کے فتویٰ کی مخالفت کردی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’دارالعلوم کے مفتیان نے کبھی مردوں کے خلاف کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا جبکہ اسلام تو مساوات کا دین ہے اور اس نے مردوں اورعورتوں کو یکساں جینے کے مواقع فراہم کیے‘۔
قبل ازیں رواں برس دارالعلوم دیوبند کی طرف سے فتویٰ جاری کیا گیا تھا کہ خواتین مردوں کا فٹبال میچ نہیں دیکھ سکتیں کیونکہ کھلاڑیوں کے لباس غیر شرعی ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس بھی فتویٰ جاری کیا گیا تھا جس میں خواتین کے بال کٹوانے یا آئی بروز بنوانے کے عمل کو غیر شروع قرار دیا گیاتھا۔
دنیا میں آنے والے ہر شخص کو موت کا مزہ چکنا ہے، حضرت آدم ؍ سے لے کر آخری انسان تک دنیا میں آنے والے ہر شخص کو رخصت ہوکر اللہ کی بارگاہ میں اپنی گزاری جانے والی زندگی کا جواب دینا ہے۔
اسلامی تعلیمات پر دنیا سے رخصت ہونے والے مسلمانوں کے لیے تدفین سے قبل کچھ شرعی شرائط ہیں جنہیں پورا کیا جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔
کوئی بھی مسلمان شخص جب دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو سب سے پہلے اُس کو غسل دے کر پاک اور پھر کفن پہنایا جاتا ہے جس کے بعد اُس کا نمازِ جنازہ اور پھر تدفین کا عمل ہوتا ہے۔
نیل پالش لگی لڑکی کا غسل
مفتی اکمل قادری کے سامنے خاتون نے ایک مسئلہ رکھا جس کے مطابق کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی کے ناخنوں پر نیل پالش لگی ہوئی تھی اور اُس کو ایسی غسل دے کر دفنایا گیا، اس ضمن میں شرعی احکامات کیا ہیں۔؟
مسئلہ سننے کے بعد مفتی اکمل قادری نے کہا کہ چونکہ ناخن پر نیل پالش لگے رہنے پانی کی رسائی نہیں ہوسکتی اس لیے وہ وضو اور غسل نہیں ہوتا۔ نیل پالش لگا چونکہ وضو نہیں ہوتا اس لیے نماز بھی ادا نہیں کی جاسکتی کیونکہ نماز کی ادائیگی کے لیے پہلی شرط وضو ہے۔
انہوں نے کہا کہ شرعی لحاظ سے جب کوئی شخص مرتا ہے چاہیے وہ پاک ہی کیوں نہ ہو اُس پر حالتِ جنابت طاری ہوجاتی ہے، چونکہ وہ شخص مر چکا ہوتا ہے اس لیے زندہ لوگوں کو حکم ہے کہ وہ مردے کو غسل دیں تاکہ اُس کا جسم پاک ہو اور وہ اللہ کی بارگاہ میں پاک حالت میں پہنچے۔
مفتی اکمل قادری نے کہاکہ چونکہ مرنے والی لڑکی خود نیل پالش نہیں اتار سکتی تھی اس لیے اب اس کو ہٹانے کی ذمہ داری غسل دینے والوں اور قریبی لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غسل دینے والی یا اُس وقت موجود افراد کے پاس چونکہ علم نہیں ہوتا اس لیے وہ ان تمام معاملات پر غور نہیں کرتے، غسل میں اگر کسی بھی چیز کی کمی رہ جائے تو اس کی ذمہ داری مردے پر عائد نہیں ہوتی۔ مفتی اکمل نے شرعی تعلیمات کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ علم کا تعلق عمرسے نہیں بلکہ حاصل کرنے سے ہوتا ہے، اگر عمر سے علم کا تعلق ہوتا تو سفید داڑھی والے شخص کو مفتی اعظم بنادیاجاتا۔
مسئلہ بیان کرتے ہوئے مفتی اکمل نے کہا کہ انتقال کرنے والی بچی کو نیل پالش لگی ہوئی تھی اس لیے اُس کے ناخنوں تک پانی نہیں پہنچا جس سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شرعی لحاظ سے اُس کا غسل نہیں ہوا اس لیے وہاں موجود تمام ہی لوگ گناہ گار ہوں گے۔
مفتی اکمل نے کہا کہ اچھی طرح سے یاد رکھیں کہ لڑکی کو غسل دے کر کسی نے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ ناقص غسل کی وجہ سے اُسے غضبناک کیا ہے اسی وجہ سے ممکن ہے کہ روز قیامت وہ لڑکی غسل دینے والوں کو کھڑا کر کے اللہ کی بارگاہ میں التجاء کرے کے کہ انہوں نے مجھے تیری بارگاہ ناپاکی کی حالت میں پہنچایا اس لیے ان سے اس کوتاہی کا بدلا دلوا۔
ویڈیو دیکھیں
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔