Tag: napa

  • ملزم یامجرم- کسی کی زندگی داؤ پر ہے

    ملزم یامجرم- کسی کی زندگی داؤ پر ہے

    کسی بھی جرم کی سماعت کے بعد فیصلہ صادر کرنے کے لیے جیوری کو انتہائی باریک بینی سے عدالتی کارروائی کا جائزہ لینا ہوتا ہے ‘ خصوصاً جب مقدمہ قتل کا ہو‘ کوئی شخص مارا جاچکا ہے اور کسی کی زندگی داؤ پر لگی ہو تو ایسے میں جیوری کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے‘ اسی صورتحال پر مشتمل اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم‘ آرٹس کونسل میں پیش کیا جارہا ہے۔

    گزشتہ رات کراچی کے آرٹس کونسل آف پاکستان میں گولڈن بیئر ایوار ڈ یافتہ امریکی فلم’’ ٹویلو اینگری مین‘‘  پر مبنی اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ ’اسٹیج نوماد‘ کی پیشکش ہے اور اس کی ہدایت کاری کے فرائض میثم نظر نقوی نے انجام دیے ہیں۔ ڈرامے کو انگلش فلم سے اردو قالب میں ڈھالنے کا مشکل کام وسعت اللہ خاں نے انجام دیا ہے۔

    ڈرامے کی کاسٹ میں کلثوم فاطمی‘ عثمان شیخ‘ یوگیشور کاریرا‘ شاہ حسن‘ علی حیدر‘ مجتبیٰ رضوی‘ ابراہیم شاہ‘ راؤ جمال‘ منیب بیگ‘ ماہا رحمن‘ فراز علی اور جبران ملک شامل ہیں۔

    ڈرامے کی کہانی‘ قتل کے مقدمے میں ملوث اٹھارہ سال عمر کے ایک نوجوان کے گرد گھومتی ہے‘ جسے اس کے باپ کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ عدالت میں ہونے والی جرح اور گواہوں کے بیان اسے مجرم قرار دیتے ہیں اور وکیلِ صفائی اس نوجوان کی حمایت میں عدالت کو قائل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد جج جیوری کے ارکان کو حکم دیتا ہے کہ وہ باریک بینی سے مقدمے کی کارروائی اور دیگر تمام نکات جائزہ لے کر طے کرلیں کہ آیا یہ لڑکا قصور وار ہے کہ نہیں۔

    ڈرامے کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ جیوری کے بارہ ارکان ایک کمرے میں براجمان ہیں اور پہلی ووٹنگ میں ۱۱ ارکان لڑکے کو قصوروار سمجھتے ہیں جبکہ ایک رکن کا خیال ہے کہ انہیں اس مقدمے پر مزید غور وفکر کرنا چاہئے۔

    یہی سے ڈرامے کی بُنت شروع ہوتی ہے اور یکے بعد دیگرے اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیوری کے ارکان کی شکل میں مقامی سطح پر پائے جانے والے ہر قسم کے رویے کو یکجا کردیا ہے جس سے اس سنجیدہ موضوع پر بننے والے ڈرامے میں مزاح کا عنصر شامل ہوا اورناظرین ایک لحظے کو بھی بوریت کا شکار نہیں ہوئے۔


    آغا حشر کا ڈرامہ – یہودی کی لڑکی


    ڈرامے میں یہ اداکار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں‘ پھبتیاں کستے ہیں ‘ ایک دوسرے پر ذاتی حملے بھی کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ مقامات پر اپنی رائے کے خلاف بات کرنے والے کو مارنے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے‘ کوئی بھی شخص اپنے موقف کی مخالفت میں ایک لفظ سننا نہیں چاہتااور اگر کچھ لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کس قدر دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    قتل کے اس مقدمے کے ایک ایک نکتے کو ڈرامے میں زیرِ بحث لایا جاتا ہے یہاں تک کہ جیوری کے ارکان آپس میں تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے موقف کی حمایت میں اداکاروں نے اس قدر عمدگی سے ڈائیلاگ ادا کیےہیں کہ ناظرین کا ذہن ان کے ساتھ بندھ کر رہ گیا‘ اور ارکان ہی کی طرح ناظرین بھی اس کشمکش میں مبتلا ہوگئے کہ آیا یہ لڑکا واقعی مجرم ہے؟ یا کچھ اور ہےجس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔

    ایک ڈائیلاگ ڈرامے میں ایسا ہے جہاں وسعت اللہ خاں جیسے ماہر بھی غلطی کرگئے‘ جیوری کا ایک رکن ملزم کی پرورش پر نکتۂ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اسے تو انگریزی بھی ٹھیک سے نہیں آتی‘‘۔ حالانکہ ڈرامے کا پسِ منظر پاکستانی رکھا گیا ہے۔ اسٹیج پر قائد اعظم کی تصویر موجود ہے اور وہ لڑکا جس نے ساری عمر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم علاقے میں گزاری‘ وہاں انگریزی جاننے یا بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    سیٹ کا ڈیزائن بہت زیادہ متاثر کن نہیں تھا اور اس میں بہت حد تک بہتری کی گنجائش تھی۔ بعض مقامات پر پسِ پردہ موسیقی کی بے پناہ ضرورت محسوس ہوئی تاہم اداکاروں کے لہجے کے اتارچڑھاؤ نے اس کمی پر کسی حد تک پردہ ڈالے رکھا۔

    ڈرامے کے اختتام پر جیوری کے ارکان کس نتیجے پر پہنچے اس کے لیے تو آپ کو آرٹس کونسل کا رخ کرنا پڑے گا جہاں یہ شو 30 جولائی تک جاری ہے‘ تاہم میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ سنجیدہ موضوعات پر بننے والے ایسے اسٹیج شو شہر قائد میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں اور انہیں دیکھنا یقیناً ایک سود مند تفریح ہے۔

    مجموعی طور پر یہ ایک انتہائی عمدہ کاوش ہے اور اسٹیج ڈرامہ جو کہ ہمارے معاشرے میں متروک شدہ صنف سمجھاجانے لگا تھا‘ ایک بار پھر اپنے قدموں پر سنبھل رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اسی نوعیت کے ڈرامے اس کے قدموں کو توانا کرتے رہیں گے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • آغا حشر کا ڈرامہ ’یہودی کی لڑکی‘ ناپا میں ناظرین کے لیے پیش

    آغا حشر کا ڈرامہ ’یہودی کی لڑکی‘ ناپا میں ناظرین کے لیے پیش

    کراچی: آغاحشرکاشمیری کا شہرہ آفاق تھیٹرڈرامہ ’یہودی کی لڑکی‘ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس کے زیرِاہتمام ’ناپا ریپرٹری تھیٹر‘ میں عوام کے لیے پیش کیا جارہا ہے‘ ڈرامے کے پہلے شو نے حاضرین کو اپنے سحرمیں مبتلا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ناپا ریپرٹری تھیٹرپاکستان میں تھیٹر کے احیاء اور تھیٹر بینی کے شوق کو مہمیز کرنے کے لیے ہندوستانی شیکسپیئر کے نام سے پہچانے جانے والے معروف ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے یہودی کی لڑکی کو برصغیر کے قدیم پارسی تھیٹر کے روایتی اندازمیں پیش کررہا ہے۔

    napa
    مارکس اور ڈیسیا کی شادی کا منظر

    آغا حشرکے سحر انگیز قلم سے ضبطِ تحریر میں آنے والا یہ کھیل اپنے ناظرین کو آج سے دوہزارسال قبل قدیم روم میں لے جاتا ہے جب یہودی رومنوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہہ رہے تھے اوردردربھٹکنے پر مجبور تھے۔ آغا حشرکا یہ کھیل اول اول اس وقت پیش کیا گیا تھا جب برصغیر میں پارسی تھیٹرراج کررہا تھا اوریہی وجہ ہے کہ اس دور کی روایات کے مطابق یہ کھیل رزمیہ انداز میں تحریر کیا گیا ہے اور درمیان میں جابجا گیتوں کا سہارا بھی لیا گہا ہے۔

    napa-3
    شہزادی ڈیسیا اداس منظر میں

    کھیل کی ساری کہانی ایک ایسے ستم رسیدہ بوڑھے یہودی کی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کی ساری زندگی رومنوں کے جبر کے خلاف آواز اٹھاتے گزری ‘ کہانی اپنے آغاز سے انجام تک آپ کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے اور ناظرین کی توجہ ایک لمحے کے لیے بھی ادھر ادھر نہیں بھٹکنے دیتی۔

    yahoodi-ki-larki
    یہودی کی لڑکی – راحیل

    کھیل کا مرکزی خیال بنیادی طور پر عزرا نامی یہودی اوراس کی خوبرو بیٹی راحیل‘ مارکس نامی رومی شہزادے اور بروٹس نامی مذہبی پیشوا کی کہانی کے گرد گھومتا ہے۔ راحیل کا کردار ادا کرنے والی ماریہ فریدی نے اپنی بھرپور اداکاری سے اس کھیل میں رنگ بھرے جبکہ یہ کھیل اپنے نقطہ کمال کو اس وقت پہنچتا ہے جب عزرا یہودی کا کردار اداکرنے والے نذر الحسن اور مذہبی پیشوا کا کردار ادا کرنے والے اکبر اسلام کے درمیان مکالمے بازی ہوتی ہے۔ خصوصاً کھیل کے اختتام سے کچھ دیر قبل دونوں کی لفظی معرکہ آرائی میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ ناظرین اپنی سانسیں تک روک لیتے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا۔

    napa
    بروٹس (مذہبی پیشوا اور عزرا یہودی آمنے سامنے (ریہرسل)۔

    ناپا کے پہلے بیج سے گرایجویٹ فواد خان اس ڈرامے میں شہزادہ مارکس کے انتہائی اہم کردار پر فائز ہونے کے باوجود اپنا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور ایک جگہ ان کی زبان بھی لڑکھڑاجاتی ہے جس کے سبب ان کا کردارمتاثر ہوتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل فواد خان بے شمار ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں بالخصوص ’ویٹنگ فار گاڈو‘ نامی ایک ڈرامے میں ان کا

    کردارانتہائی غضب کا تھا۔

    napa-1
    راحیل اور شہزادہ مارکس ایک سنجیدہ منظر میں

    شہزادی ڈیسیا کا ڈرامے میں مختصر لیکن انتہائی اہم کردار ہے جسے کیف غزنوی انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتی دکھائی دیتی ہیں اورڈرامے کے دوران پیش کیے جانے والے گانوں میں ان کی مدھر آواز بھی شامل رہی ہے۔

    کھیل کے درمیان پارسی تھیٹر کی روایات کو زندہ کرنے کے لیے کامک کے حصے میں فنکاروں نے ایسی غضب کی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں کہ اس اندوہناک ڈرامے کے سحرمیں ڈوبے ناظرین پیٹ پکڑ کرہنسنے پرمجبورہوگئے۔

    drama-post-2
    کامی سین- شیر خان‘ اس کی بیوی فتنہ اور اس کا عاشق

    ناپا ریپرٹری تھیٹر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تکنیک کا بے حد خیال کیا جاتا ہے جس کے سبب یہاں پیش کیے جانے والے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں تاہم زیرِ تذکرہ کھیل میں کچھ کمیاں بھی محسوس کی گئیں۔ کھیل دیکھنے والے ناظرین میں زیادہ تر تعداد نوجوان طبقے کی تھی جو کہ پارسی تھیٹر کی روایات سے ناواقف ہے لہذا کھیل کے آخر تک وہ تذبذب کا شکار رہے کہ آخر یہ کامک والے حصے کا کھیل سے کیا تعلق ہے۔ بہتر تھا کہ کھیل سے متعلق ضروری معلومات جو کہ ڈرامے سے محض چند لمحے قبل ایک بروشر کی شکل میں ناظرین کے ہاتھوں میں دی گئیں تھیں مختصراندازمیں ڈرامہ شروع ہونے سے قبل گوش گزارکردی جاتیں۔

    ایک اور کمی جسے شدت سے محسوس کیا گیا وہ ڈرامے کا سیٹ اور کرداروں کے ملبوسات کا ناقص معیارتھا تاہم دو روز قبل کی جانے والی پریس کانفرنس میں ہدایت کار خالد احمد اس کی وضاحت کرچکے تھے کہ کم بجٹ کے سبب وہ پارسی تھیٹر کے ان معیارات کا سامنا نہیں کرسکتے۔

    ایک انتہائی اہم غلطی جو کہ ڈرامے کے اسکرپٹ میں نظرآئی وہ یہ تھی کہ مذہبی پیشوا کی وضع قطع بالکل عیسائیوں کے مماثل تھی‘ یہاں تک کہ ایک مقام پر انہیں مقدس باپ کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا جو کہ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا کے لیے مختص ہے جبکہ اس ڈرامےمیں جس دور کی منظر نگاری کی گئی ہے اس کے تین سو سال بعد بھی عیسائی روم میں طاقت حاصل نہیں کرپائے تھے۔

    drama-post-5
    روم کا شاہی خاندان

    ڈرامے کی کاسٹ دو حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک حصہ المیہ ہے جبکہ دوسرا مزاحیہ ہے جو کہ برصغیر کے تھیٹر کا خاصہ ہے۔ ڈرامے کے المیہ حصے میں اکبراسلام (مذہبی پیشوا)‘ فوادخان (شہزادہ مارکس)‘ نذرالحسن( عزرا یہودی)‘ ماریا سعدفریدی( راحیل)‘ کیف غزنوی ( شہزادی ڈیسیا)‘ عامرنقوی (روم کا بادشاہ)‘ سمحان غازی (رومن سپاہی)‘ مظہرسلیمان (رومن سپاہی)‘ فریال نوشاد ( شہزادی ڈیسیا کی کنیز) اوراشفاق احمد ( درباری) شامل ہیں۔

    ڈرامے میں مزاح کا رنگ بھرنے والے اداکاروں میں فرحان عالم( شیر خان)‘ زرقا ناز(فتنہ)‘ فرازچھوٹانی(غفورخان)‘ عثمان مظہر(شیدا)‘ حمادخان (حماد خان) اورہانی طحہٰ (نازنین) شامل ہیں۔

    drama-post-1
    کامک سین کی مکمل کاسٹ

    ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض خالد احمد نے انجام دیئے ہیں جبکہ اس موسیقی ارشد محمود نے محض دو سازوں کی مدد سے ترتیب دی ہے جن میں طبلہ اور ہارمونیم شامل ہیں۔ ہارمونیم پرجولین قیصر اورطبلے پر بابرعلی پورے ڈرامے کے دوران محسور کن دھنیں بکھرتے رہےمجموعی طور ڈرامے نے اپنے ناظرین پر ایک اچھا تاثر مرتب کیا ہے اور یقیناً کراچی شہر کے بے یقینی کے ماحول میں یہ کھیل بالعموم اورتھیٹرکو پسند کرنے والے ناظرین کے لیے بالخصوص ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہورہا ہے۔

    ناپا ریپرٹری تھیٹر کے زیراہتمام پیش کیے جانے والے کھیلوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں ہدایت کاری سے لے اداکاری تک سب اموراسی ادارے سے متعلقہ افراد کےذمے ہوتے ہیں اور کم بجٹ کے باوجود معیار کا بے پناہ خیال رکھا جاتا ہے۔

    drama
    ہدایت کار خالد احمد ناپا کے اراکین اور کاسٹ کےہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے

    ڈرامے سے دو روز قبل ہونے والی پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہدایت کارخالد احمد کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے اپنی حد تک کوشش کی ہے کہ اداکاری اور گائیکی کے اسی انداز کو قائم رکھیں جو سنتے آئے ہیں کہ اس دور کے ڈراموں میں اپنایا جاتا تھااورجس کی جھلک ہندوستان کی ابتدائی فلموں میں موجود ہے۔چنانچہ ڈائیلاگ کی ادائیگی میں حقیقت پسندی سے احتراز ایک شعوری کوشش ہے‘‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ’’البتّہ سیٹ ڈیزائن‘ پوشاک اور تزئین کے معاملے میں ہم اس دور کی پیش کش کے معیار کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانے میں ان عناصر پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کر کے(اس زمانے کے حساب سے کئی لاکھ) انہیں ایسا حیرت انگیز بنادیا جاتا تھا کہ تماشائی ششدررہ جائیں‘‘۔

    یہ میلوڈرامہ کا ایک مخصوص انداز ہوتا تھا اور اس کے خاص عناصرتھے، ادائیگی میں خطابانہ گھن گرج، ہم قافیہ نثر، ڈائیلاگ کو پر اثربنانے کے لئے شاعری کا بکثرت استعمال، موقع بہ موقع گانوں کا استعمال اور کامیڈی (جسے کامک کہا جاتا تھا)۔

    بعد میں جب برصغیر میں فلم سازی کا آغاز ہواتو اسی انداز کو بطور پیٹرن اپنا لیا گیا اورآج بھی پاکستان اورہندوستان کی بیشترفلمیں اسی فارمیٹ پربنتی ہیں۔







  • امریکی قونصل خانے کے زیر اہتمام محفل ِموسیقی

    امریکی قونصل خانے کے زیر اہتمام محفل ِموسیقی

    کراچی: امریکی قونصل خانے کے زیر اہتمام محفلِ موسیقی کا اہتمام کیا گیا جس میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA)اور ٹیکساس یونیورسٹی کے فنکاروں پر مشتمل بینڈ ’سنگت‘ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔

    اس موقع پر کراچی میں متعین امریکی قونصل جنرل برائن ہیتھ،ٹیکساس یونیورسٹی کے ساوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈئریکٹر کامران علی اور NAPAکے ڈائریکٹر پروگرامز ارشد محمود بھی موجود تھے۔

    محفلِ موسیقی سے پہلے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے قونصل جنرل برائن ہیتھ نے کہا کہ امریکی حکومت کے تعاون سے NAPAاور ٹیکساس یونیورسٹی کے درمیان تین سالہ شراکت داری جاری ہے جس کے ذریعے پاکستان میں موسیقی کے ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں مدد ملے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ آج کی محفل کے ذریعے یہ ۓثابت ہوتا ہے کہ موسیقی مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کوقریب لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

    برائن ہیتھ نے مزید کہا کہ امریکی حکومت کے زیر اہتمام 20پاکستانی جامعات بشمول صوبہ سندھ کےچارتعلیمی اداروں کو امریکی یونیورسٹیوں سے منسلک کیا جا رہا ہے۔برائن ہیتھ نےمزید کہا کہ پاکستان کا مستقبل نوجوان ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ انھیں وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جس کے ذریعے وہ ناصرف اپنا مستقبل روشن بنائیں بلکہ پاکستان کی خدمت بھی کریں۔

    امریکی محکمہ خارجہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA)اور ٹیکساس یونیورسٹی کے بٹلر اسکول آف میوزک کے درمیان اشتراک کیلیے 1ملین ڈالرفراہم کر رہا ہے۔اس تین سالہ منصوبےکے ذریعے NAPAسے تعلق رکھنے والے طلبا کو گائیکی،موسیقی اور ساز بجانے کی تربیت فراہم کی جائے گی۔اس کے علاوہ دونوں اداروں کے طلبا اور اساتذہ کے درمیان رابطوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔

    NAPAسے تعلق رکھنے والے طلبا اور اساتذہ نے حال ہی میں ٹیکساس یونیورسٹی کا دورہ کیا اور وہاں چھ ماہ قیام کیا ۔اس دوران انھیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد ملی اور وہ موسیقی کی مختلف اصناف سے متعارف ہوئے۔ ٹیکساس یونیورسٹی کے اساتذہ نے بھی NAPAکا دورہ کیا اور طلبا کیلیے موسیقی سے متعلق ورکشاپس کا انعقاد کیا۔

  • فلم نہ تھیٹر، میں صرف اداکارہوں، نصیر الدین شاہ

    فلم نہ تھیٹر، میں صرف اداکارہوں، نصیر الدین شاہ

    NAPAAA