Tag: Naqeeb ullah

  • نقیب اللہ کیس: راؤ انوارنے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے پھر درخواست دائرکردی

    نقیب اللہ کیس: راؤ انوارنے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے پھر درخواست دائرکردی

    اسلام آباد: نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف نظرِ ثانی درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق راؤ انوار کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں میرا عمل دخل ابھی تک ثابت نہیں ہوا ، اسی لیے میری نقل حرکت پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لہذا میرا نام  ای سی ایل سےنکالا جائے۔

     راؤانوار نے نے یہ درخواست  سپریم کورٹ  آف پاکستان کے 10 جنوری کے حکم نامے  پر نظر ثانی  کے لیے دائر کی ہے۔

    سپریم کورٹ کے 10 جنوری کے حکم نامے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست میں راو انوار نے موقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کیا، ایف آئی آر کا اندراج یا زیر التوا مقدمہ نقل وحرکت کے حق ختم نہیں کرسکتا۔

    درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ  عدالت کے عبوری حکم میں قانونی نکات کو مد نظر نہیں رکھا گیا ،جس سے ٹرائل کورٹ میں شفاف ٹرائل کے حق کا تحفظ نہیں ہوگا ۔عدالت نے ای سی ایل سے نام نکالنے والی درخواست میں کئی پہلوئوں کو نظر انداز کیا۔ میں ایک والد ہوں ، ذمہ داریاں نبھانا فرض ہے اس پہلو کو بھی حکم نامے میں نظر انداز کیا گیا۔

    درخواست میں راؤ انوار کا کہنا ہے کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس میں میرا عمل دخل ابھی تک ثابت نہیں ہوا، اس وجہ سے میری نقل حرکت پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ  میری زندگی کو بیشتر خطرات لاحق ہیں،  پاکستان میں آزادی سے سفر نہیں کر سکتا۔

     درخواست میں راو انوار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ 10 جنوری کے حکم نامے پر نظر ثانی کرتےہوئے ای سی ایل سے نام خارج کیا جائے۔

    یاد رہے 28 دسمبر کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے سپریم کورٹ میں ایک متفرق درخواست دائر کی تھی، جس میں نام ای سی ایل سے نکالنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف قتل کے مقدمے میں ٹرائل سست روی کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں فیصلے کا کوئی امکان نہیں اس لئے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے احکامات جاری کئے جائیں تاکہ وہ بیرون ملک اپنے بچوں سے ملاقات کے لئے جاسکے۔

     گذشتہ سال 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا۔ ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی راؤ انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

  • نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    کراچی : انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسو د قتل کیس میں بڑی پیش رفت کرتےہوئے واقعے کو ماورائے عدالت قتل قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت نے نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے قتل کو ماورائے عدالت قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قائم پانچ مقدمات ختم کرنے کی رپورٹ منظور کرلی۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انکوائری کمیٹی اورتفتیشی افسرنےجائےوقوعہ کامعائنہ کیا۔پولٹری فارم میں نہ گولیوں کےنشان ملےنہ دستی بم کےآثارملے۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود ،صابر،نذرجان،اسحاق کودہشت گردقراردیکرقتل کیاگیا۔حالات وواقعات اورشواہدمیں یہ مقابلہ خودساختہ اوربےبنیادتھا۔

    تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ نقیب اللہ اورچاروں افرادکوکمرےمیں قتل کرنےبعداسلحہ رکھاگیا اور اس موقع پر سندھ پولیس کے سابق افسر راؤانواراوران کےساتھی جائےوقوعہ پرموجودتھے۔

    پس منظر


    واضح رہے گزشتہ برس 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا۔ ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انواراور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پرجھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

    اس مقدمے میں سابق پولیس افسر راؤ انوار کو مرکزی ملزم نامزد کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا ، تاہم بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ لیکن عدالت کے حکم پر ان کا نام ای سی ایل میں داخل ہے اور اور ان کا پاسپورٹ حکام کے پاس جمع ہے جس کے سبب ان کے ملک سےباہر جانے پر پابندی ہے۔

  • نقیب اللہ قتل کیس: راؤانوارانسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش

    نقیب اللہ قتل کیس: راؤانوارانسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش

    کراچی: انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق آج ملزمان کی پیشی کے موقع پر کیس کے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کیس میں نامزد مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ پیش کی۔

    رپورٹ کے مطابق مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور انہیں جلد حراست میں لے لیا جائے گا۔عدالت نےکیس کی مزیدسماعت31اکتوبرتک ملتوی کردی۔

    کیس میں نامزد ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ جھوٹی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی رہائش گاہ پر موجود ہوں ، جب بھی عدالت بلاتی ہے پیش ہوتا ہوں، تفتیشی افسر کی جانب سے غلط بیانی کی جارہی ہے۔

    نیب کی جانب سے ان کے اثاثوں کی چھان بین سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے نیب کی انکوائری سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا کچھ میرے علم میں نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا۔ ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا ہے، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں اور ایس ایس پی راؤ انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا تھا۔

  • راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے پر جواب طلب

    راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے پر جواب طلب

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں نامز سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے پر سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں راوٴ انوار کے سب جیل قرار دینے کے خلاف درخواست کی سماعت میں عدالت نے بیس جون سیکریٹری داخلہ کو تحریری جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا۔

    سماعت میں حکومت کی جانب سے سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے،  چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ مزید کتنے افراد کو ان کے گھروں میں قید کیا گیا ہے‘۔

    بیرسٹر فیصل صدیقی نے عدالت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار کو سیکیورٹی حکومت نے نہیں دی بلکہ سابق ایس ایس پی کو اُن کی خواہش کے مطابق  انہیں گھر پر رکھا گیا۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو 20 جون تحریری جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر بیس جون کو جواب نہیں آیا تو عدالت یک طرفہ طور پر دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ سنائے گی۔

    واضح رہے کہ نقیب اللہ کے والد نے راوٴ انوار کے گھر کو سب جیل جیل قرار دینے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ ہلاکت: جرگے میں پولیس کے خلاف شکایتوں کے انبار

    نقیب اللہ ہلاکت: جرگے میں پولیس کے خلاف شکایتوں کے انبار

    کراچی: شہر قائد کے علاقے سہراب گوٹھ میں نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت اور دیگر پختونوں کی گمشدگی کے لیے لگائے جانے والے جرگے میں راؤ انوار کے خلاف ایک اور خاندان شکایت لے کر پہنچ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ کی ہلاکت اور انصاف کے لیے لگایا جانے والا محسود قبیلے کا جرگہ پولیس کے خلاف شکایتی مرکز بن گیا، چار روز میں مختلف لاپتہ لوگوں کے اہل خانہ شکایات لے کر پہنچ گئے۔

    نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد سہراب گوٹھ پر جرگے کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس میں مختلف سیاسی و سماجی شخصیات  شرکاء سے اظہار یکجہتی کے لیے شرکت کررہی ہیں۔

    جرگے میں انصاف دو انصاف دو کی صدائیں بلند کی جارہی ہیں، متاثرہ خاندانوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اُن کے پیارے فوری واپس کیے جائیں یاپھر جن لوگوں کو مقابلے میں مارا گیا اُن کا انصاف دیا جائے۔

    مزید پڑھیں: حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائے ، راوٴ انوار کا مطالبہ

    شاہراہ فیصل پر گزشتہ دنوں ڈاکو قرار دے کر پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے مقصود کے اہل خانہ بھی جرگہ کیمپ پہنچے اور محکمے کے خلاف اپنی شکایات جمع کروائیں۔

    مقتول کی چھوٹی بہن نے جذباتی تقریر سُن کر ہر شخص کا چہرہ افسردہ اور پنڈال سوگوار ہوگیا شرکا میں ایک بوڑھا شخص دو نوجوانوں کی تصاویر ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہے جس میں سے ایک اُس کا بھتیجہ اور دوسرا بیٹا ہے۔

    جرگے میں ایک اور لاپتہ شخص کا خاندان سابق ایس ای پی ملیر کی شکایت لے کر پہنچا، عجب خان کے بیٹے کا مؤقف ہے کہ میرے والد اکتوبر 2017 سے لاپتہ ہیں اور اُن کی گمشدگی میں بھی راؤ انوار کا ہاتھ ہے۔

    گمشدہ شخص کی اہلیہ نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے شوہر پراپرٹی کا کام کرتے تھے انہیں راؤ انوار نے اغوا کی دھمکی دی اور اُس کے بعد چار گاڑیاں اور ایک ڈبل کیبن میں انہیں زبردستی اغوا کر کے لے گئے‘۔

    یہ بھی پڑھیں: انتظارقتل کیس: شام تک نتیجے پر پہنچ جائیں گے، سی ٹی ڈی کا دعویٰ

    عجب خان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اغوا کے خلاف تھانے میں درخواست دی اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور ہماری کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شروع ہوئے تھے، بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔

    اسے بھی پڑھیں: شاہراہ فیصل پولیس مقابلہ بھی جعلی نکلا، وزیرداخلہ کی تصدیق

    اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں برطرف کردیا گیا تھا۔

    قبائلی نوجوان کی ہلاکت پر بنائی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی نے واقعے کی تفتیش مکمل کرلی جس کے مطابق نوجوان کو بے گناہ قتل کیا گیا اور پولیس پارٹی نے جھوٹ کا سہارا لے کر نقیب اللہ کو مجرم قرار دینے کی کوشش کی۔

    سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار قتل کی تفتیش شروع ہونے کے بعد سے پراسرار گمشدہ ہوگئے جس کے باعث پولیس کو انہیں گرفتار کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ ہلاکت: راؤ انوار کی گرفتاری کا معاملہ، تفتیشی ٹیم کو مشکلات درپیش

    نقیب اللہ ہلاکت: راؤ انوار کی گرفتاری کا معاملہ، تفتیشی ٹیم کو مشکلات درپیش

    کراچی: آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت میں ملوث معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دیں تاہم تفتیشی ٹیم کو شدید مشکلات دریپش ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ کی زیرصدارت اعلیٰ سطح اجلاس پولیس ہیڈکوارٹر میں منعقد ہوا جس میں نقیب اللہ کی جعلی مقابلے میں ہلاکت اور تحقیقات کی پیشرفت پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    اے ڈی خواجہ نے راؤ انوار کی پراسرار گمشدگی پر برہمی کا اظہار کیا اور گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں، اجلاس میں دیگر اداروں سے بھی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق راؤ انوار سمیت تمام ملوث اہلکاروں کا موبائل ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے جس کے بعد اُن کی آخری لوکیشن سے مذکورہ اہلکاروں کو تلاش کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: نقیب اللہ کی ہلاکت ، معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے چھاپے

    پولیس چیف کی ہدایت پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم معطل ایس ایس پی کی آخری معلومات حاصل کرنے کے بعد ملک کے کسی بھی شہر میں کارروائی کرے گی۔

    تفتیشی ٹیم سر پکڑ کر رہ گئی

    دوسری جانب تفتیشی ٹیم کو راؤ انوار کی تلاش میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ معطل ایس ایس پی ملیر کی لوکیشن ایک ہی وقت میں دو جگہ میں نظر آرہی ہے۔

    تحقیقاتی ذرائع کے مطابق راؤ انوار کے زیراستعمال 2 نمبروں کی لوکیشن ایک ہی وقت میں دو مقامات پر نظر آرہی ہے، جنوری کو خود سے لاپتہ ہونے والے سابق ایس ایس پی ایک ہی وقت میں دو علیحدہ علیحدہ علاقوں (راولپنڈی، جامشورو) میں نظر آئے۔

    ذرائع کے مطابق نقیب اللہ کی ہلاکت میں ملوث پولیس کےمرکزی ملزم موبائل لوکیشن چھپانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں جس کے باعث اُن کی گرفتاری میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: نقیب قتل کیس میں‌ اہم پیش رفت: راؤانوار کے خلاف مقدمہ درج

    گذشتہ روز وجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کا مقدمہ ایس ایس پی کے خلاف درج کرلیا گیا، ایف آئی آر مقتول اہل خانہ کی درخواست پر سچل تھانے میں درج کی گئی۔ نقیب اللہ کے والد کی مدعیت میں درج مقدمے میں 365،302،309اور انسداددہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں جبکہ مقدمے میں راؤ انوار اور 8دیگر اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔

    راو انوار کے خلاف تحقیقات ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی نے نقیب اللہ کے اغوا کے دوعینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کرلیے۔

    تحقیقاتی ٹیم نقیب اللہ کے گھر علی ٹاون بھی گئی تھی جہاں ٹیم نے مقتول نقیب اللہ کے والد اور رشتے داروں سے ملاقات کی تھی۔

    خیال رہے  راؤانوارکے فرار ہونے کے راستے بند کر دیئے گئے تھے اور وزارت داخلہ نے تحریری احکامات ملنے پرسابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

    اسے بھی پڑھیں: نقیب اللہ کی ہلاکت، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدےسےفارغ

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شروع ہوئے تھے، بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔

    اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیکیورٹی کے مسائل ہیں‘ راؤ انوار کے خلا ف مقدمہ درج کرائیں گے: اہلِ خانہ نقیب

    سیکیورٹی کے مسائل ہیں‘ راؤ انوار کے خلا ف مقدمہ درج کرائیں گے: اہلِ خانہ نقیب

    کراچی: سندھ پولیس کےمبینہ مقابلے میں مارےجانے والے نقیب کے اہلِ خانہ نے ایڈیشنل آئی جی سے رابطہ کیا ہے اورعدالتی حکم پر معطل ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا عندیہ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب کے اہلِ خانہ نے ایڈیشنل آئی جی انسدادِ دہشت گردی ثنا اللہ عباسی سے رابطہ کرکے کہا ہے کہ کراچی آنے کا مسئلہ نہیں ‘ لیکن سیکیورٹی کے مسائل ہیں۔ راؤ انوار کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔

    نقیب کے کزن نوررحمان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے سیکیورٹی دینے کی یقین دہانی کرائی ہے‘ نقیب کے بھائی ایک سے دو روز میں کراچی پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ نقیب کے قاتل کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کیا جائے۔

    نقیب اللہ محسود کی ہلاکت، بلاول بھٹو نے تحقیقات کا حکم دے دیا

    یاد رہے کہ جعلی مقابلے میں نقیب اللہ کی ہلاکت پر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار گزشتہ روز عہدے سے ہٹا دیا گیا جبکہ راؤانوارکانام ای سی ایل میں ڈالنےکافیصلہ کیاہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ راؤ انوارکے خلاف انکوائری مکمل ہونے پر مزید کارروائی ہوگی، تحقیقاتی کمیٹی کو مقتول نقیب اللہ کے خلاف شواہد نہیں ملے، راؤ انوار کی جانب فراہم کیا گیا نقیب کا کرائم ریکارڈ کسی اور کا ہے جبکہ جیل میں قید دہشت گرد قاری احسان اللہ نے بھی نقیب کو پہچانے سے انکار کردیا ہے ۔

    گزشتہ روز ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے دعویٰ کیا تھا کہ دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں میں ملوث نقیب اللہ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور کراچی میں نیٹ ورک چلا رہا تھا جبکہ 2004 سے 2009 تک بیت اللہ محسود کا گن مین رہا جبکہ دہشت گردی کی کئی واردتوں سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنےمیں بھی ملوث تھا۔

    نقیب اللہ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ مقتول کی الاآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی، تین جنوری کو سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار اسے لے کر گئے اور تیرہ جنوری کو ایدھی سینٹر سہراب گوٹھ سے اس کی لاش ملی۔ یاد رہے کہ ان کاؤنٹراسپیشلسٹ راؤانوار نے تیرہ جنوری کو شاہ لطیف ٹاؤن میں چار دہشت گردوں کو مقابلےمیں مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔