Tag: Naqeebullah case

  • نقیب اللہ قتل کیس: وکیل کو دھمکی آمیز فون پر آئی جی سندھ کو خط

    نقیب اللہ قتل کیس: وکیل کو دھمکی آمیز فون پر آئی جی سندھ کو خط

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں جاری نقیب اللہ قتل کیس میں قبائلی جرگے کے رہنما کے وکیل کو مبینہ طور پر راؤ انوار کے ساتھی کی طرف سے دھمکی آمیز فون پر آئی جی سندھ کو خط لکھ دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس میں قبائلی جرگے کے رہنما کے وکیل سیف الرحمان نے آئی جی سندھ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ انھیں فون پر دھمکیاں دی گئیں۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ فون پر ہونے والی گفتگو ریکارڈ کر لی گئی ہے جس میں فون کرنے والے نے خود کو راؤ انوار کا ساتھی ظاہر کیا۔

    وکیل سیف الرحمان نے خط میں لکھا کہ انھیں فون سندھ ہائی کورٹ کیس کی پیروی کے بعد واپسی پر آیا، کالر کی طرف سے وکیل کو نقیب کیس کی پیروی سے روکنے کی کوشش کی گئی۔

    خیال رہے کہ سیف الرحمان این اے 242 سے انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں، انھوں نے خط میں آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا کہ انھیں تحفظ فراہم کیا جائے اور اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں۔

    نقیب اللہ قتل کیس، ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست منظور


    نقیب اللہ قتل کیس کے وکیل سیف الرحمان نے خط میں لکھا ہے کہ راؤ انوار اور ان کے ساتھیوں کو انھیں نقصان پہنچانے سے روکا جائے۔

    واضح رہے کہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے دعوے کے مطابق پولیس پارٹی نے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپا مار کر چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا جس میں نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا، تاہم بعد کی تحقیقات سے یہ مقابلہ جعلی ثابت ہوا اور مارے جانے والے بے گناہ نکلے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، راؤانوار کا پیغام میڈیاپرچلانے پر پابندی، گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت

    نقیب اللہ قتل کیس، راؤانوار کا پیغام میڈیاپرچلانے پر پابندی، گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت

    اسلام آباد: نقیب اللہ قتل کیس میں چیف جسٹس نے راؤانوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت دیدی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے، سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی جی صاحب ،ذرا تفصیل سے واقعہ بیان کریں، کیا کوئی نجی طیارہ راؤ انوار کے فرار کیلئے استعمال ہوا ؟

    ڈی جی سول ایوی ایشن نے بتایا کہ نجی طیاروں کے مالکان نےبیان حلفی جمع کرادیئےہیں، بیان حلفی میں ہے راؤانوارنےانکے طیارے استعمال نہیں کئے، دنوں میں 4نجی طیاروں نے پروازیں کیں، پائلٹس کی ڈگریوں سے متعلق کمیٹی تشکیل دیدی، فروری تک پہلی رپورٹ آئے گی اور ایک ماہ میں مکمل اسکروٹنی رپورٹ دیں گے۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایف آئی اے کےمطابق راؤانوارملک سےباہرنہیں گئے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس قتل کا الزام ریاست پرہے، الزام ہے ریاست نے قانون سے انحراف کرتے ہوئے قتل کیا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جس پر حفاظت کی ذمہ داری تھی انھی پر قتل کا الزام ہے، مجھے راؤ انوار کاسروس پروفائل مہیا کریں۔

    آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پیش ہوئے اوربتایا راؤانوارکوگرفتارنہیں کرسکے اے ڈی خواجہ نے بتایا راؤ انوارواٹس ایپ استعمال کر رہا ہے، اس لیے لوکیشن معلوم نہیں ہوسکی، لوکیشن پتہ چل جائے توچوبیس گھنٹےمیں گرفتار کرسکتے ہیں۔

    سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے بتایا کہ ابتدائی معلومات میں13جنوری کو 4دہشتگردوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی، محمد اسحاق، نذر جان کی شناخت موقع پر کرلی گئی جبکہ 17 جنوری کو نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی شناخت ہوئی ، فوری سی سی پی او کو مرنے والوں کی شناخت کا کہا، کمیٹی بنائی جس نے20 جنوری کو عبوری رپورٹ دی۔

    اے ڈی خواجہ نے مزید بتایا کہ کمیٹی نے انکاؤنٹر کو اسٹیج انکاؤنٹر کہا، نتیجے میں20جنوری کو راؤ انوار اور ٹیم کو معطل کردیا گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فوری مقدمہ کیوں درج نہیں کیاگیا، راؤانوار کی حاضری یقینی بنانے کے اقدامات کیوں نہیں کئے، عدالتی حکم کے مطابق ایک دوسرا مقدمہ درج کیا جاسکتاہے، جب بھی مقدمہ پولیس کی جانب سےدرج ہو تو سوال اٹھتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے کیا اقدامات کئے گئے، کیا صرف وزارت داخلہ کو نام دیناکافی تھا، بطور سربراہ آپ کو مقدمہ درج کرانا چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کمال کی سپروژن تھی آئی جی صاحب، راؤانوار اسلام آباد ایئر پورٹ سے پکڑا گیا تھا، جس پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ 20 جنوری کو راؤ انوار کراچی سے اسلام آباد آیا تھا، جسٹس ثاقب نے ریمارکس دیئے کہ خیال تھا آپ کہیں گے راؤ انوار فلموں کی طرح بس یا ٹرک پر آیا۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ آپ کو کس قسم کی مدد چاہئے، جس کے جواب میں اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ راؤ انوار میڈیا سمیت بہت سے دیگر افراد سے رابطے میں ہیں، عدالت تمام ایجنسیوں کو حکم دے، راؤ انوارکا فون 19جنوری سے بند ہے، راؤ انوار کے پاس دبئی کا اقامہ ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پولیس افسران کے پاس اقامہ ہوسکتاہے، کیا آپ نے سوچا بھی نہیں تھا راؤانوار باہر جاسکتا ہے، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ لکی مروت اور اسلام آباد میں ٹیمیں بھیجی ہیں ، راؤانوارکی آخری پوزیشن ڈھوک پراچہ اسلام آباد ترنول ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ نقیب سےزندگی کو کسی عام آدمی نےنہیں چھینا، ریاست نے ہی نقیب اللہ سے جینے کا حق چھینا ہے، اب یہ پوری ریاست کی ذمہ داری بن چکی ہے، ممکن ہے راؤانوارکو واپس لانے میں سال لگ جائے، بھول جائیں آپ پر کوئی سیاسی دباؤہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم پولیس اورانتظامیہ کے تحفظ کے لیے تیار ہیں، معاملات میں عدالت حکم دے تو اختیارات سے تجاوز کہا جاتا ہے۔

    نقیب اللہ محسود کا چچا زاد بھائی سپریم کورٹ میں پیش ہوا اور کہا کہ ملزم کی عدم گرفتاری پر تحفظات ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ راؤانوار گرفتار نہیں ہوا، عدالت نے فو ج اور سویلین خفیہ اداروں کوپولیس کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مزید دس دن کی مہلت دیتے ہیں اور میڈیا کو کوہدایت کی کہ راؤ انوار کا آڈیو یاویڈیو پیغام نشر شائع نہ کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوارخود کو قانون کےحوالے کردیں ورنہ توہین عدالت کی کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے، ملزم کی پشت پناہی کرنے والے بھی شاید قانون کی گرفت سے نہ بچ سکیں۔

    نقیب اللہ قتل کیس میں انکوئری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع


    اس سے قبل نقیب اللہ قتل کیس میں انکوئری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے رپورٹ عدالت میں جمع کر سندھ پولیس کی رپورٹ میں 2نکات کو سامنے رکھا گیا ہے۔

    سندھ پولیس کی رپورٹ کہا گیاکہ یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا،نقیب اللہ کوپولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرفتار قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا، کمیٹی کےسامنے نقیب کا پیش کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا اور راؤ انوارکمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے فرار ہوگئے۔

    سندھ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ پولیس افسران نقیب کوایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل کرتےرہے، نقیب اللہ کسی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث نہیں تھا، نقیب اللہ آزاد خیال طبیعت کاحامل تھا۔

    نقیب اللہ محسود کے والد کا خط عدالت میں پیش


    نقیب اللہ محسود کے والد کا خط عدالت میں پیش کیا گیا ، جس میں نقیب کےوالد کا کہنا تھا کہ راؤانوارمیڈیامیں بولتاہےالحمداللہ پاکستان میں ہوں، پولیس سے پوچھا جائے تفتیش کے دوران وہ کیسے غائب ہوا، پورافاٹاآپ کےانصاف کا منتظرہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ فاٹا والوں کا غم خوشی مشترک ہے، فاٹا والے فکرنہ کریں دل آپ کے لیے دھڑکتےہیں، سی دن فاٹا میں عدالت لگا سکتاہوں، دکھی باپ کاپیغام ہے سن کوافسوس ہورہاہے۔

    بعد ازاں نقیب محسوداز خود نوٹس کی سماعت 13فروری تک ملتوی کردی گئی۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤانوارکو3 دن میں گرفتارکرنےکا حکم


    گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی جبکہ تاحال راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • راؤ انوار کی گرفتاری ،سپریم کورٹ کی مہلت ختم ہونے میں 1 دن باقی

    راؤ انوار کی گرفتاری ،سپریم کورٹ کی مہلت ختم ہونے میں 1 دن باقی

    کراچی : سندھ پولیس کی راؤ انوار کو گرفتار کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہوگئیں ، سپریم کورٹ کی مہلت ختم ہونے میں ایک دن کا وقت رہ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی مہلت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا اور پولیس روپوش راؤ انوارکا سراغ نہ لگا سکی، آئی جی سندھ نے راؤ انوار کی گرفتاری میں مدد کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی چیف کے نام خط لکھا۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کی جعلی مقابلے میں ہلاکت کے ملزم راؤ انوار ملک سے فرار ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ تکنیکی اور انٹیلی جنس بنیادوں پر مدد کریں۔

    آئی جی سندھ کی درخواست پر سیکیورٹی اداروں نے اسلام آباد میں راؤانوارکی تلاش شروع کردی، ایس ایس پی ذوالفقار مہر بھی پولیس ٹیم کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئے، پولیس ٹیم راؤانوار کو گرفتار کرکے سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔

    اس سے قبل تمام صوبوں کے آئی جیز کو بھی خطوط لکھے جاچکےہیں۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤانوارکو3 دن میں گرفتارکرنےکا حکم


    سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود کی جعلی مقابلے میں ہلاکت کے الزام میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو 3 دن میں گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل نقیب اللہ محسود قتل کیس میں‌ پولیس نے ابتدائی رپورٹ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کی تھی ،انکوائری کمیٹی نے ایس ایس پی راؤانوار کو جعلی مقابلےمیں ملوث قرار دیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    نقیب اللہ کی ہلاکت ، معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے چھاپے


    نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شروع ہوئے تھے، بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔

    اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں برطرف کردیا گیا تھا۔

    چار روز قبل وزارت داخلہ نےسپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر نقیب اللہ محسود کے مبینہ مقابلے میں ملوث عہدے سے معطل ہونے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا تھا۔

    تئیس جنوری کو ملزم نے اسلام آباد سے دبئی فرار ہونے کی کوشش کی، ایف آئی اے امیگریشن نے راؤانوار کو باہرجانے سے روکا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائے ، راوٴ انوار کا مطالبہ

    حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائے ، راوٴ انوار کا مطالبہ

    کراچی : معطل ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار نے ساتھی پولیس افسران پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کردیا اور کہا کہ میں اور میرے ساتھی بے گناہ ہیں، کچھ افسران مجھ سے ذاتی بغض رکھتےہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب قتل کیس میں روپوش ایس ایس پی راؤانوار کمیٹی کے سامنے تو پیش نہ ہوئے مگر میڈیا پر بیانات دینے کا سلسلہ جاری ہے ، راوٴ انوار معطل ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار نے ساتھی پولیس افسران پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائے ، کچھ افسران مجھ سے ذاتی بغض رکھتے ہیں۔

    راؤ انوار کا کہنا تھا کہ نقیب کیس میں گھروالوں کو پولیس افسران گمراہ کررہے ہیں، میرےخلاف بیان دینے والے افسران کے ہاتھ صاف نہیں۔

    ثنااللہ عباسی پر تنقید کرتے ہوئے معطل ایس ایس پی ملیر نے کہا کہ ثنااللہ عباسی نے آج تک کتنے کامیاب آپریشن کئے؟ میرے پاس ان کے خلاف ٹھوس شواہدموجودہیں۔

    انکا کہنا تھا کہ میں اور میرے ساتھی بے گناہ ہیں ، فرار نہیں ہورہا،اہلخانہ سے ملاقات کیلئے جاناکوئی جرم نہیں، جلد عدالتوں میں پیش ہوں گا۔

    اس سے قبل بھی سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے دبئی فرار کی کوشش کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں کہیں بھی فرار ہونے کی کوشش نہیں کر رہا، مجھ سےمتعلق غلط خبریں چلائی جارہی ہیں۔


    مزید پڑھیں : میں کراچی میں ہوں ، نہ کسی سے ڈر کر بھاگا ہوں نہ بھاگوں گا، راؤ انوار


    راؤانوار کا کہنا تھا کہ سب کو پتہ ہےمیں کراچی میں ہی ہوں، نہ کسی سے ڈر کر بھاگا ہوں نہ بھاگوں گا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شروع ہوئے تھے، بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔

    اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ کی ہلاکت ، معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے چھاپے

    نقیب اللہ کی ہلاکت ، معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے چھاپے

    کراچی : نقیب اللہ کی ہلاکت میں معطل ایس ایس پی راؤ انوار اور اُن کی ٹیم روپوش ہیں نہ ہی کوئی اہلکار تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہے، سندھ پولیس نے اپنے ہی معطل افسر راؤ انوار سمیت دیگر کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنے شروع کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ کیس میں سندھ پولیس اپنے ہی معطل افسران کو قانون کے دائرے میں لانے میں ناکام ہوگئی اور پولیس فورس نے تنگ آکر چھاپے مارنا شروع کردیئے۔

    ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ کے مطابق نقیب اللہ کیس میں نامزد راؤ انوار اور دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم حرکت میں آگئی ہے، ملزمان کو جلد گرفتار کرکے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا، رات گئے بھی ایک اطلاع پر چھاپہ مارا گیا تھا اور یہ سلسلہ ملزمان کی گرفتاری تک جاری رہے گا۔

    دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا جارہا ہے ، راؤ انوار کو این او سی جاری نہیں کیا گیا، راؤ انوار کو چھٹی نہیں دی،  نقیب اللہ کیس کے جلد نتائج سامنے آجائینگے۔


    مزید پڑھیں : نقیب قتل کیس میں‌ اہم پیش رفت: راؤانوار کے خلاف مقدمہ درج


    گذشتہ روز وجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کا مقدمہ ایس ایس پی کے خلاف درج کرلیا گیا، ایف آئی آر مقتول اہل خانہ کی درخواست پر سچل تھانے میں درج کی گئی۔ نقیب اللہ کے والد کی مدعیت میں درج مقدمے میں 365،302،309اور انسداددہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں جبکہ مقدمے میں راؤ انوار اور 8دیگر اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔

    راو انوار کے خلاف تحقیقات ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی نے نقیب اللہ کے اغوا کے دوعینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کرلیے۔

    تحقیقاتی ٹیم نقیب اللہ کے گھر علی ٹاون بھی گئی تھی جہاں ٹیم نے مقتول نقیب اللہ کے والد اور رشتے داروں سے ملاقات کی تھی۔

    خیال رہے  راؤانوارکے فرار ہونے کے راستے بند کر دیئے گئے تھے اور وزارت داخلہ نے تحریری احکامات ملنے پرسابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    نقیب اللہ کی ہلاکت، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدےسےفارغ کردیاگیا


    نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شروع ہوئے تھے، بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔

    اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔