Tag: Naqeebullah killing

  • انسانی حقوق کمیشن نے نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قراردیدیا

    انسانی حقوق کمیشن نے نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قراردیدیا

    اسلام آباد:انسانی حقوق کمیشن نے نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قرار دے دیا اور سفارش کی گئی ہے کہ نقیب اللہ قتل کیس کی مکمل جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، اطلاعات کے مطابق راوٴ انوار نے 192مقابلوں میں 444 افرادکوہلاک کیا، تمام مقابلوں کی تحقیقات کی جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کے معاملے پر انسانی حقوق کمیشن کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ نے نقیب اللہ قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیدیا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے دہشت گردوں سے مقابلہ کے تمام دعوعے جھوٹے ہیں۔

    رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ نقیب اللہ کے ساتھ مرنے والے تین دیگر افراد کی بھی ایف آئی آر درج کی جائے۔ نقیب اللہ قتل کیس کی مکمل جوڈیشل انکوائری کروائی جائے اور پولیس میں خوداحتسابی کے عمل کو بہتر بنایا جائے۔

    کمیشن رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پولیس کے تفتیشی نظام اور پیشہ ورانہ تربیت میں بہتری لائی جائے۔ اطلاعات کے مطابق راوٴ انوار نے 192 مقابلوں میں 444 افراد کو ہلاک کیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ راوٴ انوار کے پولیس مقابلے سوالیہ نشان ہیں۔ راوٴ انوار کے کیے گئے تمام مقابلوں کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ پولیس فورس میں مجرمانہ عناصر کی نشاندہی اور طاقت کا غلط ستعمال روکنے کے لیے کمیٹی بنائی جائے۔


    مزید پڑھیں :  نقیب قتل کیس:ابتدائی رپورٹ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں‌ پیش، راؤانوار ملوث قرار+


    سفارش کی گئی ہے کہ ریاست اس واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف کریمنل کیس درج کرکے انجام تک پہنچائے۔

    انسانی حقوق کمیشن نے پولیس تحقیقاتی ٹیم کے بیانات ریکارڈ کیے، رپورٹ کے مطابق راوٴ انوار کو آئی جی کے خط کئے زریعے کمیشن نے طلب کیا تھا۔ راوٴ انوار خط ملنے کے باوجود کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا، نقیب اللہ کو قتل سے پہلے شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

    نقیب کا ہاتھ ٹوٹا ہوا،سر کے پچھلے حصہ پر زخم اور چہرے پر نشانات تھے، نقیب اللہ کو غسل دینے والے کا بیان

    کمیشن نے نقیب اللہ کو غسل دینے والے کا بیان بھی حاصل کیا، رپورٹ کے مطابق نقیب کا ہاتھ ٹوٹا ہوا،سر کے پچھلے حصہ پر زخم اور چہرے پر نشانات تھے۔ نقیب کے جسم پر سگریٹ سے جلائے جانے کے نشانات تھے۔

    نقیب کے بہنوئی نے کمیشن کو بیان دیا کہ نقیب اللہ نے کپڑے کے دکانوں کے لیے ایک لاکھ 10 ہزار روپے ادا کیے، اسی رقم کی وجہ سے نقیب اللہ راوٴ انوار کے بھتہ خوروں کی نظرمیں آیا۔

    کمیشن نے نقیب کے ساتھ اٹھائے جانے والے دو دوستوں کے بیان بھی حاصل کیے ہیں، بیان کے مطابق حضرت علی اور قاسم کو نقیب اللہ کے ساتھ 3 جنوری کو اٹھایا گیا۔

    آخری مرتبہ نقیب اللہ کو 6 جنوری کوٹارچر سیل میں زندہ دیکھا تھا، نقیب کے دوستوں کا بیان 

    دوستوں کے بیان کے مطابق دوستوں کے مطابق تینوں کوسچل پولیس چوکی میں لے جایا گیا، کمیشن کو بیان بعد میں نامعلوم مقام پر منتقل کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ آخری مرتبہ نقیب اللہ کو 6 جنوری کوٹارچر سیل میں زندہ دیکھا تھا، حضرت علی اور قاسم کو تین روز بعد جان سے مارنے کی دھمکیاں دیکر رہا کردیا گیا۔ نقیب اللہ کی لاش وصول کرنے والے عزیز سیف الرحمن سے پولیس نے مرضی کے بیان پر دستخط کروائے۔

    سیف الرحمن نے کمیشن کو بیان دیا کہ دستخط نہ کرنے کی صورت میں لاش نہ دینے کا کہا گیا۔

    کمیشن نے آئی جی سندھ اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے بیانات حاصل کیے۔ ثنا اللہ عباسی کے بیان کے مطابق نقیب اللہ کے خلاف کسی بھی جگہ کوئی مقدمہ درج نہیں، دہشت گرد قاری احسان نے بھی نقیب اللہ کو پہچاننے سے انکار کیا۔

    ثنا اللہ عباسی کے بیان کے مطابق پولیس مقابلہ کی جگہ پر26 گولیوں کے خول کھڑکی کے باہر سے ملے۔ شواہد کے مطابق تمام مقابلہ سٹیج کیا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  ثابت ہوگیا نقیب اللہ کو بے گناہ مارا گیا، اہل خانہ کوانصاف ملے گا، ثنااللہ عباسی


    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تعاون نہ کرنے پر راؤانواراور ٹیم کو گرفتار کیا جاسکتا ہے ،  ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملیر

    تعاون نہ کرنے پر راؤانواراور ٹیم کو گرفتار کیا جاسکتا ہے ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملیر

    کراچی : نقیب اللہ کیس کی تفتیش کرنے والے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی کا کہنا ہے کہ تعاون نہ کرنے پرراؤانواراورٹیم کو گرفتار کیا جا سکتا ہے ، راؤانوارپولیس افسرہیں خواہش ہےتفتیش میں پیش ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملیرعابد قائم خانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راؤانوارکاانتظارکررہےہیں مگروہ ابھی تک نہیں پہنچے، راؤ انوار سے کسی قسم کا رابطہ بھی نہیں ہوا، راؤانوارکا انتظار کر رہے ہیں، خواہش ہےتفتیش میں پیش ہوں۔

    عابدقائمخانی کا کہنا تھا کہ راؤانوار پیش نہی ہوتے تو رپورٹ افسران کو بھیج دیں گے، دباؤ قبول کیا ہے نہ کریں گے، راؤانوارسمیت تمام افسران پیش ہوں تعاون کریں، کیس میں تعاون نہیں کیاجائے گا تو گرفتاریاں بھی کریں گے۔

    ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملیر نے مزید کہا کہ تعاون نہ کرنےپرراؤانواراورٹیم کیخلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے، راؤانوارپولیس افسرہیں خواہش ہےتفتیش میں پیش ہوں، راؤانوارکے گھر پر پیشی سے متعلق نوٹس لگایا گیا ہے چھاپہ نہیں مارا گیا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    نقیب اللہ کی ہلاکت، ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدےسےفارغ کردیاگیا


    نقیب اللہ کے حوالے سے ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے دعویٰ کیا تھا کہ دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں میں ملوث نقیب اللہ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور کراچی میں نیٹ ورک چلا رہا تھا جبکہ 2004 سے 2009 تک بیت اللہ محسود کا گن مین رہا جبکہ دہشتگری کی کئی واردتوں سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنےمیں بھی ملوث تھا۔

    نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شروع ہوئے تھے، بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی۔

    اعلیٰ سطح پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے راؤ انوار کو عہدے سے برطرف کرنے اور نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صرف راو انور کیخلاف کارروائی سے کچھ نہیں ہوگا، حکومت سندھ کا بھی احتساب ہونا چاہئے ،فاروق ستار

    صرف راو انور کیخلاف کارروائی سے کچھ نہیں ہوگا، حکومت سندھ کا بھی احتساب ہونا چاہئے ،فاروق ستار

    کراچی : ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ صرف راو انور کیخلاف کارروائی سے کچھ نہیں ہوگا، حکومت سندھ کا بھی احتساب ہونا چاہئے، وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر داخلہ کو بھی کٹہرے میں لانا چاییے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ کے معاملے پر صرف ایک پولیس افیسر کو ہٹانے سے کام نہیں چلے گا پولیس کوٹاسک صوبائی حکومت دیتی ہے، حکومت سندھ کا بھی احتساب ہونا چاہئیے ، وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر داخلہ کو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے۔

    فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پولیس خدمات دینے والاادارہ ہے فورس نہیں،2بڑے واقعات ہوئے، عوامی نمائندوں کورول نہیں دینگے تو انتظاراورنقیب جیسے واقعات ہونگے عدالت سے پولیس والوں کی تنخواہیں بند کرنے سے کام نہیں ہوگا، وزیرداخلہ کی بھی تنخواہ بندہونی چاہئے۔

    انھوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے خلاف آپریشن ہوا وہ پولیٹیکلی مینڈیٹ آپریشن تھا، ایک مرتبہ بھی لیڈرآف اپوزیشن یامیئرکوبلاکرمشورہ نہیں کیا گیا، ہم نے خود مطالبہ کیا تاکہ شہرمیں امن قائم ہو، آئین کی بالادستی کو قائم کرنا ہی آئین کی عزت وتکریم ہے۔

    سربراہ ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سےصرف مذمت سےکام نہیں چلےگا، دیگرجماعتوں کودعوت دیتے ہیں کہ آئیں وزیراعلیٰ کا گھیراؤکریں، پولیس آرڈرپاس کریں گواہوں اورججز کے تحفظ کانظام وضع ہو۔

    فاروق ستار نے کہا کہ غلط فعل غلط ہے ہرحال میں ایسا کوئی کام نہیں ہوناچاہئےتھا، جعلےمقابلے پہلےواقعات تونہیں ہیں یہ لائسنس کس نےدیاہے؟ صوبائی حکومت خاموش ہےتواس کی خاموشی تائیدسمجھی جائےگی، اس معاملےکی آنرشپ صوبائی حکومت کولینی پڑے گی۔

    مقدمات کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ مقدمہ جوں کا توں رہتاہے ہمارا بھی وقت ضائع ہوتاہے، سنجیدہ چالان پیش ہی نہیں کیاجارہاہے،مقدمات سیاسی ہیں، ہم یہ سمجھتےہیں اس معاملےکی ذمہ دارصوبائی حکومت ہے، یہ تاثرہورہاہےجیسےہمارےخلاف مقدمات سیاسی ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ کراچی میں آپریشن ہوا لیکن مینڈیٹ لینے والوں کونہ بلایاگیا، سیاسی مقدمات صوبائی حکومت کونمٹانےچاہئیں، ہم نےابھی انتقامی مقدمات کاالزام نہیں لگایا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس کا نقیب اللہ محسود کے قتل  کا ازخود نوٹس

    چیف جسٹس کا نقیب اللہ محسود کے قتل کا ازخود نوٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس نے مبینہ مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا ازخودنوٹس لے لیا اور آئی جی سندھ سے7دن میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب ںثار شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا نوٹس لے لیا اورآئی جی سندھ سے7دن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    گزشتہ روز ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے دعویٰ کیا تھا کہ دہشتگردی کی درجنوں وارداتوں میں ملوث نقیب اللہ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور کراچی میں نیٹ ورک چلا رہا تھا جبکہ 2004 سے 2009 تک بیت اللہ محسود کا گن مین رہا جبکہ دہشتگری کی کئی واردتوں سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنےمیں بھی ملوث تھا۔

    نوجوان کی ہلاکت کے تین روز بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نقیب کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا گیا۔


    مزید پڑھیں :  نقیب اللہ کراچی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیٹ ورک چلا رہاتھا ، راؤ انوار کا دعویٰ


    نوجوان نقیب اللہ محسود کے والد کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا بے گناہ تھا اس بات کی گواہی پورا پاکستان دے رہا ہے، آرمی چیف اور وزیر اعظم انصاف دلوائیں۔

    صوبائی وزیر داخلہ سہیل سیال بلاول بھٹو کے حکم پر نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر تحقیقات کمیٹی بناتے ہوئے ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاون امان اللہ مروت کو معطل کردیا ہے، انکوائری کمیٹی نے راؤ انوار کو طلب کرلیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  آرمی چیف انصاف دلوائیں، نقیب کے والد کی اپیل


    مقتول وستوں اور قریبی رشتے داروں نے دعویٰ کیا کہ ’نقیب کپڑے کا کاروبار کرنے کی غرض سے کراچی آیا اور اُسے سی ڈی ٹی نے سہراب گوٹھ سے 7 جنوری کو گرفتار کیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔