Tag: Naqeebullah murder case

  • نقیب اللہ محسود قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور

    نقیب اللہ محسود قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور

    کراچی : نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور کرلی گئی اور 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار راؤانوار کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار اور دیگرملزموں کوعدالت میں پیش کیا گیا۔

    انسداد دہشتگردی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیرراﺅ انوار کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور ملزم کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    خیال رہے کہ 5 جولائی کو نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت میں راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    یاد رہے کہ راؤانوار کی جانب سے عدالت سے ضمانت کی درخواست کی گئی تھی، جس میں سابق ایس ایس پی ملیرکی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جب نقیب اللہ کا قتل ہوا تو وہ جائے وقوعہ پرموجود نہیں تھے، کیس کے چالان جے آئی ٹی اور جیو فینسنگ رپورٹ میں تضاد ہے۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس: ملزم راؤانوارنےضمانت کےلیےدرخواست دائر کردی


    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے کیس کی تحقیقات ٹھیک سے نہیں کی گئی لہذا کیس میں ضمانت منظور کی جائے۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک  وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا،  رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست منظور

    نقیب اللہ قتل کیس، ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست منظور

    کراچی : انسداد دہشتگردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں جیل میں ملزم راؤ انوار کو بی کلاس دینے کی درخواست منظور کرلی، عدالت کا کہنا تھا کہ سب جیل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے، فیصلہ آتے ہی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ملزم راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت میں کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان بھی پیش ہوئے جبکہ ملزم راؤ انوار کو بھی پیش کیا گیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کے گھر کو سب جیل بنانے سے متعلق درخواست کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ نے محفوظ کیا ہوا ہے، عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ہی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    عدالت نے ملزم راؤ انوار کی جانب سے جیل میں بی کلاس دینے کیلئے درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت چودہ جون تک کیلئے ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں نامز سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے پر سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  نقیب کونہ بھولاجاسکتا ہےاورنہ اس کےخون کا سودا کرسکتے ہیں‘ والد نقیب اللہ


    واضح رہے کہ ملزم راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے کیخلاف نقیب اللہ محسود کے والد خان محمد کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ راؤ انوار قاتل ہے، اسے جیل منتقل کیا جائے، راؤ انوار کو سب جیل قرار دینا غیر قانونی ہے اور محکمہ داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری نہیں کیا گیا تھا۔

    عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد نے کہنا تھا کہ وہ نہ نقیب کو بھول سکتے ہیں اور نہ اس کے خون کا سودا کرسکتے ہیں، اگر راؤ انوار طاقت ور ہے تو میں بھی محنت کش ہوں۔

    سندھ ہائی کورٹ نے راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • نقیب محسودکیس، راؤانوار بیمار، عدالت میں پیش نہ ہوئے

    نقیب محسودکیس، راؤانوار بیمار، عدالت میں پیش نہ ہوئے

    کراچی : نقیب محسود قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤانواربیمار ی کے باعث ریمانڈ ختم ہونے پرعدالت میں پیش نہ ہوئے، راؤ انوار کی عدم حاضری پرعدالت نے اظہاربرہمی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرپیش کرنےکاحکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار بیمار پڑگئے، جس کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوئے جبکہ ڈی ایس قمر احمد سمیت 11 ملزمان کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔

    جیل حکام نے دوران سماعت میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ راؤانوار کو بیماری کے سبب عدالت میں پیش نہیں کرسکتے، راؤانوار علیل ہیں، کل ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا ہے۔

    جس پر عدالت نے راؤ انوار کو پیش نہ کرنے پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر راو انوار کو ہر صورت پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ ضمنی چالان آج ہی پیش کیا جائے۔

    بعد ازاں عدالت نے سماعت 14 مئی تک ملتوی کردی۔


    مزید پڑھیں :  نقیب قتل کیس: جے آئی ٹی نے راؤ انوار کو ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا


    یاد رہے کہ نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا،  رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

    واضح رہے کہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا۔

    ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس ، راؤانوار کا الزامات ماننے سے انکار

    نقیب اللہ قتل کیس ، راؤانوار کا الزامات ماننے سے انکار

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس میں مرکزی ملزم راؤانوار نے الزامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ مقابلے کے دوران میں موقع پر موجود نہیں تھا۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے ملزم راؤانوار کا ابتدائی بیان ریکارڈ کرلیا، جس میں راؤانوار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو ماننے سے انکارکردیا ہے۔

    راؤ انوارنے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ نہ مجھے نقیب اللہ کی گرفتاری کا علم تھا نہ ہی میں مقابلے کے دوران موقع پر تھا۔

    بیان میں راؤ انوارکا کہنا تھا کہ میں جتنی دیرمیں گڈاپ سے شاہ لطیف ٹاون پہنچا، مقابلہ ہوچکا تھا، مجھے نہیں پتہ نقیب اللہ شاہ لطیف کیسے پہنچا، مجھے تو شاہ لطیف چوکی کےانچارج علی اکبرملاح نے مقابلے سے متعلق فون کیا اور صرف اتنا بتایا کہ ملزمان کی اطلاع ہے۔

    ذرائع کے مطابق نقیب اللہ کیس میں تحقیقاتی کمیٹی روازنہ کی بنیاد پر میٹنگزکررہی ہے اور گواہوں اور گرفتاراہلکاروں سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ کیس ، راؤانوار 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے


    یاد رہے کہ 21 مارچ کو راؤانوار نقیب اللہ کیس کی سماعت میں اچانک پیش ہوگئے تھے، جس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں گرفتار کر لیا گیاتھا اور نجی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔

    جہاں کراچی کی انسداددہشتگردی عدالت نے نقیب اللہ کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ کیس ، راؤانوار 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    نقیب اللہ کیس ، راؤانوار 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    کراچی: انسداددہشتگردی عدالت نے نقیب اللہ کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداددہشتگردی عدالت میں نقیب اللہ کیس کی بند کمرہ سماعت ہوئی ،سابق ایس ایس پی ملیرراؤانوار انتہائی سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا ، جے آئی ٹی کے افسران بھی عدالت میں موجود تھے۔

    اس موقع پر عدالت کے اطراف رینجرز اورپولیس کی اضافی نفری تعینات تھی اور راستے بھی بند کردیے گئے تھے جبکہ اےٹی سی جج نے صحافیوں کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔

    دوران سماعت تفتیشی افسر ایس ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا چالان پہلے ہی جمع کیا جا چکا ہے ،راﺅ انوار کی جان کو خطرہ ہے،سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بار بار عدالت لانا ممکن نہیں ۔

    تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزم راؤ انوار کے 30 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی، جس پر انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے پولیس کی استدعا منظور کرتے ہوئے ملزم کو 30 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

    عدالت نے راؤ انوار کو21اپریل کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

    پیشی کے موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کوعدالت سے انصاف ملےگا، جس پر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انشا اللہ۔

    اس سے قبل انسداددہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ کیس کی سماعت ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 10پولیس اہلکار دوبارہ عدالت میں پیش
    کیا گیا اور راؤ انوار کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکا۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ راؤ انوارکومنتظم عدالت کے روبروپیش کیا جا رہاہے، ملزم راؤ انوار کو اگلی سماعت پر پیش کردیا جائے گا، جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کی استدعا مسترد کردی اور حکم دیا کہ آپ راؤ انوارکو یہاں پیش کریں۔

    بعد ازاں کیس کی سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کردی گئی۔

    گذشتہ روز سابق ایس ایس پی ملیرراؤانوار کو سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتارکیاگیاتھا اور نجی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعےاسلام آباد سے کراچی لایا گیا، سندھ پولیس کی تفتیشی ٹیم راؤانوار کو اسلام آبادسے کراچی لائی۔


    مزید پڑھیں : راؤ انوار عدالت میں پیش، سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا


    دوران سماعت راؤ انوار کے وکیل شمیم رحمٰن نے سابق ایس ایس پی ملیر کی حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی تھی ، جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے بھی حفاظتی ضمانت دی گئی تھی تاہم اب اسے مسترد کیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے  پولیس افسران پر مشتمل نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں آفتاب پٹھان، ولی اللہ، ڈاکٹر رضوان اور آزاد ذوالفقار شامل ہیں اور نئی جے آئی ٹی کے سربراہ آفتاب پٹھان ہوں گے۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • راؤانوارسپریم کورٹ آگئے،اب نقیب کوانصاف مل جائے گا، والد نقیب

    راؤانوارسپریم کورٹ آگئے،اب نقیب کوانصاف مل جائے گا، والد نقیب

    اسلام آباد : نقیب اللہ محسود کے والد کا کہنا ہے کہ راؤ انوار سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں ، اب امید ہے کہ نقیب کو انصاف مل جائے گا، راؤانوار کی گرفتاری کا حکم دینے پرسپریم کورٹ کے شکرگزارہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب محسود کے والد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا شکریہ اداکرتاہوں، میڈیا،سرکاری اورغیرسرکاری ادارےنقیب کیساتھ ہیں،سپریم کورٹ سےانصاف ملنے کا یقین ہے۔

    نقیب اللہ والد کا کہنا تھا کہ راؤ انوار سپریم کورٹ آگئے، اب نقیب کو انصاف مل جائے گا، ہمارے مؤقف کو سنا گیا، جس پر بہت خوشی ہے، راؤ  انوار کی گرفتاری کا حکم دینے  پر عدالت کے اور   ہماری آواز  بننے پر عوام اور میڈیا کے شکرگزارہیں۔


    مزید پڑھیں : جس دن راؤ انوار کا مقدر خراب ہوا وہ قانون کی گرفت میں ہوں گے، والدنقیب اللہ


    گذشتہ سماعت میں نقیب اللہ کے والد کا کہنا تھا کہ راؤانوارآج بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ہمیں سپریم کورٹ سےانصاف کی امید ہے، نقیب اللہ پورےپاکستان کا بیٹا ہے، ڈیل کی باتیں سراسربے بنیاد ہیں۔

    سیف الرحمان محسود کا کہنا تھا کہ تمام ادارے راؤ انوار کو گرفتار کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کی قسمت اچھی ہے جو ابھی تک انھیں گرفتار نہیں کیا جاسکا لیکن جس دن انکا مقدر خراب ہوا وہ قانون کی گرفت میں ہوں گے۔


    مزید پڑھیں : راؤ انوار عدالت میں پیش، سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا


    یاد رہے کہ کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان شہری نقیب اللہ محسود کے فرضی مقابلے میں قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انواز اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے تھے ، جس کے بعد عدالت کے حکم پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے راؤ انور کے بینک اکاؤنٹس کو بھی دوبارہ بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سابق ایس ایس پی ملیر کے بینک اکاؤنٹس بحال کر دیے جائیں تاکہ ان کے بچوں کی روزی روٹی بحال ہو سکے اور جو تنخواہ انہیں جاتی تھی وہ بھی انہیں ملنی چاہیے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کو موصول

    نقیب اللہ قتل کیس، راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کو موصول

    اسلام آباد : نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس میں راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کوموصول ہوگیا،عدالت نے آئندہ سماعت پرڈی جی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس بھی طلب کرلیا، چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ کیس میں کوئی پروگریس نہیں ہوئی، راؤانوار سے متعلق مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، راؤ انوار کا ایک اورخط سپریم کورٹ کومل گیا۔

    چیف جسٹس نے بتایا کہ راؤانوار کا ایک اور خط ہمیں ملا ہے، خط میں ملزم نے بینک اکاؤنٹس کھولنے،اور میڈیا سے رابطے کی اجازت مانگی ہے۔

    راؤ انوار کی لوکیشن سے متعلق ایم آئی،آئی ایس آئی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے تمام اداروں نے میٹنگز کیں، ملزمان کے موبائل ڈیٹا کی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قریبی رشتہ داروں کے موبائل نمبرز بھی ٹریس کئے، سندھ پولیس کو تمام سہولتیں فراہم کی گئیں، جس پر چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ کیس میں کوئی پروگریس نہیں ہوئی، راؤانوار سے متعلق مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔

    آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ گرفتاری کیلئے اقدامات کررہے ہیں، گرفتارملزمان کے خلاف چالان پیش کردیا، ملزم کی آخری لوکیشن لاہور آئی تھی، اس کے بعد نمبرز بند ہیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ممکن ہے ملزم کو کوئی شیلٹر دے رہا ہو؟چیف جسٹس نے آئی جی سے سوال کیا کہ راؤ انوار ملک سے فرارہونے کی کوشش کررہا تھا، کیا اُسوقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہیں؟

    آئی جی سندھ نے کہا کہ تمام فوٹیجز تفتیشی ٹیم کو فراہم کی ہیں،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم فوٹیجز دیکھ سکتےہیں،آئی جی سندھ نے کہا کہ درخواست ہے آپ فوٹیجز چیمبر میں دیکھیں۔

    جس کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی جی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس بھی طلب کرتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کردی جبکہ کیس کی آئندہ سماعت کراچی رجسٹری میں ہوگی۔


    مزید پڑھیں : نقیب قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم


    یاد رہے گذشتہ ماہ 13 فروری کو سماعت میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دیدی تھی۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، ملیرسٹی تھانے کا اہلکار جمیل عباسی گرفتار

    نقیب اللہ قتل کیس، ملیرسٹی تھانے کا اہلکار جمیل عباسی گرفتار

    کراچی : نقیب محسود قتل کیس میں پولیس نے ملیر سٹی تھانے کے اہلکار جمیل عباسی کو گرفتارکرلیا۔ جمیل عباسی ایس ایچ او شاہ لطیف کے گارڈ کی ڈیوٹی بھی کرتا تھا جبکہ مفرور راؤ انوار تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے معاملہ پر پولیس معطل ایس ایس پی راؤ انوارتک نہ پہنچ سکی، پولیس نے کراچی کے علاقے قائد آباد میں کارروائی کی، جس میں سی ٹی ڈی اور انویسٹی گیشن پولیس نے مشترکہ طور پر چھاپہ مارا۔

    چھاپے کے دوران پولیس نے ملیر سٹی تھانے کے اہلکار جمیل عباسی کو گرفتارکرلیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق جمیل عباسی ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن کیلئے گارڈ کی ڈیوٹی بھی کرتا تھا، گرفتار اہلکار کو تفتیش کیلئے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

    یاد رہے دو روز قبل پولیس نے راؤ انوار کے قریبی ساتھی اور قبائلی نوجوان کو مارنے والی ٹیم میں شامل سابق ڈی ایس پی قمر احمد کو گرفتار کیا تھا۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس میں اہم پیشرفت، راؤ انوار کا قریبی ساتھی گرفتار


    ذرائع کا کہنا تھا کہ قمر احمد معطل ایس ایس پی ملیر کے قریبی ساتھی اور اُن کی ٹیم کا اہم حصہ ہے، انہوں نے بطور ڈی ایس پی راؤ انوار کے ماتحت مختلف ڈویژن میں بھی کام کی ہے۔

    دوسری جانب نقیب اللہ کیس میں گرفتارراؤ انوار کے تین ساتھی اہلکاروں کو انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور عدالت نے پولیس کو چودہ روز میں چالان جمع کرانے کا حکم دیدیا۔

    پولیس کا مؤقف تھا کہ گرفتار ملزمان راؤ انوار کی ٹیم کا حصہ تھے۔

    تحقیقاتی افسر عابد قائمخانی کا کہنا تھا کہ نقیب کیس میں اب تک 9ملزمان گرفتار کئےجاچکے ہے ، نقیب قتل کیس میں مرکزی ملزم رائو انوار تاحال مفرور ہے۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود قتل از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دی تھی۔


    مزید پڑھیں :  نقیب قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم


    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔