Tag: Nasa Research

  • مریخ کی ساخت اندر سے کیسی ہے؟ سائنسدانوں کو بڑی کامیابی مل گئی

    مریخ کی ساخت اندر سے کیسی ہے؟ سائنسدانوں کو بڑی کامیابی مل گئی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب مریخ کی اندرونی ساخت کا مکمل تعین کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

    سائنسدانوں نے خلائی جہاز "ان سائٹ” سے حاصل ہونے والی معلومات پر مریخ کے اندرونی ڈھانچے کی مکمل شکل تیار کرلی ہے۔ ناسا کا ان سائٹ خلائی جہاز سال 2019 سے مریخ پر آنے والے زلزلوں کو ریکارڈ کررہا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مریخ کی بیرونی پرت یا کرسٹ کی موٹائی 24 سے 72 کلومیڑ ہے جو اندازوں سے کم ہے لیکن سب سے اہم دریافت مریخ کی اندرونی پرت یا کور سے متعلق ہے جس کا نصف قطر 1830 کلومیٹر ہے۔

    یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدان زمین کے علاوہ کسی اور سیارے کے اندرونی ڈھانچے کا تعین کر سکے ہیں۔ چاند کی اندرونی ساخت کا بھی پتا چلایا گیا ہے لیکن مریخ کا نصف قطر 3390 کلومیٹر ہے جو چاند سے بہت زیادہ ہے۔ مریخ کی اندرونی ساخت کے بارے میں معلومات سیاروں کے قیام اور ان کے ارتقائی عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

    خلائی جہاز ان سائٹ نے مریخ کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کے لیے بھی وہی طریقہ اپنایا ہے جو زمین پر ماہرین ارضیات اپناتے ہیں یعنی زلزلوں کے سگنلز کو سمجھ کر زمین کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تعین کیا جاتا ہے۔

    قدرتی عوامل توانائی کی لہروں کو چھوڑتے ہیں اور ان لہروں کی رفتار اور راستے کی تبدیلی سے ان چیزوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے جن سے توانائی کی لہریں گزرتی ہیں۔

    ناسا نے زلزلہ ناپنے کے لیے جس نظام کا استعمال کیا ہے اس نے پچھلے دو برسوں میں سینکڑوں زلزلوں کو محسوس کیا جو سرخ سیارے کی اندرونی ساخت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ناسا مشن کی آلات والی ٹیم کی سربراہی فرانس اور برطانیہ کرتے ہیں۔ مریخ کی وہ سطح جہاں خلائی جہاز موجود ہے، وہاں مریخ کی بیرونی پرت کا تعین 20 سے 39 کلومیٹر کیا گیا ہے۔

    ریاضی کے فارمولے”معلوم سے نامعلوم”کے تحت مریخ کی بیرونی پرت کا تعین 24 سے 72 کلومیٹر کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس زمین کی بیرونی پرت کی اوسط موٹائی 15 سے 20 کلومیٹر ہے اور ہمالیہ جیسے خطے میں زمین کی بیرونی پرت کی موٹائی 70 کلومیٹر بنتی ہے۔

    لیکن سب سے دلچسپ معلومات مریخ پر زلزلوں کے سگنلز کی ہے جو تقریباً 1560 کلومیٹر گہرائی سے واپس لوٹتی ہے اور یہ مائع شکل میں ہے۔

    پہلے کے اندازوں میں مریخ کی اندرونی پرت چھوٹی سمجھی جاتی تھی لیکن اس نئی تحقیق سے پرانے اندازوں کی نفی ہوتی ہے۔
    ان سائٹ خلائی جہاز کو 2018 میں لانچ کیا گیا تھا

    ناسا مشن کا کہنا ہے کہ اس نئے مشاہدے سے دو خوبصورت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مریخ کی اندرونی پرت ماضی کے اندازوں سے کم کثیف ہے اور اس کی ہیت میں آئرن نکل زیادہ ہے اور اس میں سلفر جیسے دوسرے اجزا کی مقدار کافی ہے۔

    دوسرا نتیجہ یہ کہ اندرونی اور بیرونی پرتوں یعنی کرسٹ اور کور کے درمیان مینٹل کی موٹائی اتنی زیادہ نہیں جتنا پہلے اندازہ لگایا گیا تھا اور زمین کے برعکس یہ صرف چٹانوں کی ایک تہہ ہے۔

    مریخ کے حجم کو جانتے ہوئے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مینٹل یا درمیانی پرت میں دباؤ سے معدنیات کوئی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اس کے برعکس زمین کی درمیانی پرت معدنیات سے ڈھکی ہوئی ہے جس سے گرمائش کے اخراج کا عمل سست ہو جاتا ہے۔

    مریخ کے ابتدائی دنوں میں اسی مینٹل یا درمیانی پرت پر معدنیات کی تہہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

    اسی وجہ سے مریخ کے ابتدائی دور میں دھاتوں کے اخراج میں مدد ملتی تھی جس سے عالمی مقناطیسی عمل چلتا تھا لیکن وہ اب مکمل طور پر بند ہو چکا ہے اور اب مریخ پر مقناطیسی لہروں کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔ مریخ کی سطح خشک اور ٹھنڈی ہے جہاں ہر وقت تابکاری شعاؤں کی بارش ہوتی رہی ہے

    امپیریل کالج لندن کے پروفیسر ٹم پائک ناسا مشن کا حصہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہم پہلی بار زلزلوں کو ماپنے کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک اور سیارے کے اندرونی ڈھانچے کو دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’ہم نے مریخ پر دیکھا کہ اس کی درمیانی پرت کہیں موٹی اور کہیں سے ہمارے اندازوں سے زیادہ پتلی ہے۔ اس سے ہمیں سیارے کے ارتقائی عمل کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے۔‘

    کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹر سانے کوٹار نے خلائی جہاز ان سائٹ کے نتائج کو ہنر مندی کا عظیم مظاہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مریخ پر چھوٹے چھوٹے زلزلوں جن کی شدت کبھی چار اعشاریہ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے، انھیں ریکارڈ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ زمین پر اتنی شدت کے زلزلے کو تبھی محسوس کیا جاتا ہے اگر زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی میں نہ ہو۔

  • کیا 2030میں دنیا ختم ہوجائے گی؟ ناسا نے بڑی آفت کی پیش گوئی کردی

    کیا 2030میں دنیا ختم ہوجائے گی؟ ناسا نے بڑی آفت کی پیش گوئی کردی

    جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سمندروں کی آبی سطح میں بھی لگاتار اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب ناسا نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک نیا اور خطرناک اندیشہ ظاہر کیا ہے۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں ایک خوفناک انکشاف کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ چاند پر ہونے والی ہلچل کے باعث زمین پر بہت ہی خطرناک طوفانی سیلاب کا خطرہ ہے۔

    ناسا کے ذریعہ کی گئی تحقیق پر مبنی رپورٹ "نیچر” رسالہ میں گزشتہ ماہ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں چاند پر ہونے والی ہلچل کی وجہ سے زمین پر آنے والے خطرناک سیلاب کو "نیوسنس فلڈ” کہا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کے پیچھے ایک بڑی وجہ چاند بھی ہو سکتا ہے۔ ناسا نے مستقبل قریب میں چاند کے اپنے ہی محور پر ڈگمگانے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

    مذکورہ رپورٹ میں امریکہ کی اسپیس ایجنسی ناسا نے کہا ہے کہ جس طرح سے ماحولیاتی تبدیلی میں تیزی آرہی ہے اور سمندر کی آبی سطح بڑھ رہی ہے، ایسے میں 2030 میں چاند اپنے محور پر ڈگمگا سکتا ہے۔ چاند کے اس طرح سے ڈگمگانے سے زمین پر تباہ کن سیلاب آسکتا ہے۔

    حالانکہ جب کبھی بھی زمین پر ہائی ٹائیڈ آتا ہے اس میں آنے والے سیلاب کو اسی نام سے جانا جاتا ہے لیکن ناسا کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2030تک زمین پر آنے والے نیوسنس فلڈ کی تعداد کافی بڑھ جائے گی۔

    اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے ان کی تعداد بھلے ہی کم ہوگی، لیکن بعد میں اس میں تیزی آ جائے گی۔ ناسا کی تحقیق کے مطابق چاند کی حالت میں آنے والی تھوڑی سی بھی تبدیلی زمین پر زبردست سیلاب کی وجہ بن سکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف ہوائی کے اسسٹنٹ پروفیسر فل تھامپسن کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ماحولیاتی تبدیلی بڑھے گی، ویسے ویسے ہی زمین پر قدرتی آفات میں بھی اضافہ ہوگا۔

    یہاں قابل ذکر ہے کہ چاند اپنے "لونار سائیکل” میں، جو 18.6 سال کا وقت لیتا ہے، اس کے نصف وقت میں زمین پر بڑھتے سمندر کے آبی سطح کے سبب ہائی ٹائیڈ کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔ اس دوران زمین کی سمندری آبی سطح ایک سمت کی طرف زیادہ ہوگی۔

    ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کے مطابق چاند کی کشش ثقل جو طوفان کی وجہ بنتی ہے، ایسی ماحولیاتی تبدیلی زمین پر آنے والے سیلاب کی بڑی وجہ ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زمین پر آنے والا سیلاب چاند، زمین اور سورج کی حالت پر منحصر کرے گا کہ اس میں کتنی تبدیلی ہوتی ہے۔