Tag: nasa

  • ناسا کے روور کو مریخ پر اہم کامیابی مل گئی (حیران کر دینے والی تصاویر دیکھیں)

    ناسا کے روور کو مریخ پر اہم کامیابی مل گئی (حیران کر دینے والی تصاویر دیکھیں)

    مریخ پر موجود ناسا کے روور کو پھنسے ہوئے پتھر کے نکلنے کے بعد آخر کار اہم کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔

    ناسا کے پرزیورنس روور نے آخر کار مریخ کی سطح سے ایک قدیم چٹان کا چھٹا نمونہ کامیابی سے حاصل کر لیا ہے، اس سے قبل روور کے ٹیوب میں چٹان کا کنکر پھنس جانے کی وجہ سے وہ نمونہ نہیں لے سکا تھا۔

    ناسا کے مطابق دسمبر کے آخر میں ایس یو وی سائز کا یہ روور ’اِسول‘ نامی چٹان میں ڈرِل کر رہا تھا، لیکن وہ منصوبے کے مطابق ٹاٹینیم کی ٹیوب کو بند نہیں کر سکا، کیوں کہ ایک کنکر ہینڈلنگ سسٹم میں پھنس گیا تھا۔

    ناسا کے انجینئروں نے ایک ٹیکنیکل طریقے کا استعمال کرتے ہوئے روور کو اس کنکر سے نجات دلائی، اس طریقے میں ڈرِل کا رخ زمین کی جانب کرتے ہوئے تیزی سے گھمایا گیا، اور کنکر نکل گیا۔

    پرزیورینس نے مریخ کا نمونہ لینے کے لیے ایک بار پھر اِسول نامی چٹان کو ڈرل کرنے کی کوشش کی، جاری کی جانے والی تصویر میں ڈرل کے نشانات کو دیکھا جا سکتا ہے۔

    مریخ پر ناسا کے روور میں پھنسا پتھرایک ماہ بعد نکال لیا گیا

    ناسا نے پرزیورنس اکاؤنٹ سے 31 جنوری کو ٹوئٹ کیا ’یہ چٹان مجھے واپس دیکھ کر چونک گئی ہے، شکر ہے، میں اس قابل تھا کہ ایک اور نمونہ لے سکوں اس کے بدلے میں جو پہلے میں پھینک چکا ہوں۔

    ٹوئٹ میں مزید لکھا گیا کہ یہ شاید اب تک جمع کیا گیا سب سے قدیم چٹان کا نمونہ ہے، لہٰذا یہ اس جگہ کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد دے گا۔

  • توانائی سے بھرپور کھانوں کی تراکیب، ناسا کا 1 ملین ڈالر کا اعلان

    توانائی سے بھرپور کھانوں کی تراکیب، ناسا کا 1 ملین ڈالر کا اعلان

    واشنگٹن: خلابازوں کے لیے توانائی سے بھرپور کھانوں کی تراکیب پر ناسا نے 1 ملین ڈالر انعام کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گہرے خلا میں خلابازوں کے لیے توانائی سے بھرپور اور لذیذ کھانوں کے آئیڈیاز پیش کرنے پر ناسا 1 ملین ڈالر انعام دے گا، جیسا کہ ناسا انسانیت کو خلا کے زیادہ گہرے حصوں میں بھیجنے کے لیے ہر پل کوشاں ہے، اس لیے اب وہ خلابازوں کے لیے توانائی کے ایک اہم ذریعے یعنی خوراک کے لیے پائیدار حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔

    اس مقابلے میں عام افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ کھانا توانائی سے بھرپور، لذیذ اور باکفایت ہو اور اس میں ماحول کا بطورِ خاص خیال رکھا گیا ہو، کیوں کہ خلا میں پکوان کے لیے زمین جیسی سہولیات موجود نہیں ہوتیں۔

    اس مقصد کے لیے ناسا نے کینیڈین خلائی ایجنسی کے ساتھ مل کر ڈیپ اسپیس فوڈ چیلنج نامی پروگرام شروع کیا ہے، جس میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ خوراک تیار کرنے کی ایسی تخلیقی اور پائیدار ٹیکنالوجی یا سسٹم وضع کریں جسے تیار کرنے کے لیے کم سے کم وسائل کی ضرورت پڑے، اور اس عمل میں ممکنہ طور پر کم سے کم فضلہ پیدا ہو۔

    یہ بات ذہن میں رہے کہ غذا ایک وقت کے بعد اپنی غذائیت کھو دیتی ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ مریخ پر مبنی کسی مشن کے لیے، جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اگر خلا نورد صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے پہلے سے پیک شدہ کھانا لانا قابل عمل آپشن نہیں ہوگا۔

    سائنس دان ڈیپ اسپیس فوڈ چیلنج جیسے اقدامات کے ذریعے ایسے جامع اور جدید ترین فوڈ سسٹم بھی تیار کرنا چاہتے ہیں جسے گھروں اور کمیونیٹیز میں بھی استعمال کیا جا سکے، اور سیلاب، خشک سالی وغیرہ جیسے ہنگامی حالات میں بھی ان کا استعمال کیا جا سکے۔

    اس پروگرام کے تحت اب مقابلے کے لیے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ ایسی ‘فوڈ پروڈکشن ٹیکنالوجی سسٹم’ تیار کیا جائے، جسے ایک مکمل فوڈ سسٹم میں ضم کیا جا سکتا ہو، تاکہ گہرے خلا میں 3 سالہ مہم کے دوران 4 خلابازوں کے عملے کو درکار غذا فراہم ہو سکے۔ مقابلے میں شامل افراد کو ہر اس چیز پر غور کرنا ہو گا جو عملے کو خوراک پہنچانے، تیار کرنے اور اسٹور کرنے کے لیے ضروری ہو۔ اس میں خوراک کی تیاری، ترسیل، کھپت اور اس کے ساتھ ساتھ فضلے کو ٹھکانے لگانا بھی شامل ہوگا۔

    واشنگٹن میں ایجنسی کے ہیڈکوارٹر میں ناسا کے خلائی ٹیکنالوجی مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر جم رائٹر نے ایک بیان میں کہا کہ خلائی سفر کی رکاوٹوں کے ساتھ طویل عرصے تک خلابازوں کو کھانا کھلانے کے لیے نئی اختراعی تراکیب کی ضرورت ہوگی جن سے یہ مسئلہ حل ہو۔ فوڈ ٹیکنالوجی کی حدود کو اب مزید آگے بڑھانے سے مستقبل کے خلا نوردوں کو صحت مند رکھا جا سکے گا، اور اس سے گھروں میں بھی مدد لی جا سکے گی۔

    واضح رہے کہ اس چیلنج کا پہلا مرحلہ گزشتہ سال اکتوبر میں مکمل ہوا ہے، جس میں ناسا نے 18 ٹیموں کو خوراک کی جدید ٹیکنالوجی کے تصورات کے لیے مجموعی طور پر ساڑھے 4 لاکھ ڈالرز کا انعام دیا، ایسی ٹیکنالوجی جس کی مدد سے محفوظ، قابل قبول، لذیذ اور غذائیت سے بھرپور فوڈ پروڈکٹس تیار کی جا سکتی ہیں، اور جو پائیداری اور معیار کو برقرار رکھتی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں خاطر خواہ وسائل کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔

    اب ناسا نے نئی اور موجودہ دونوں ٹیموں کو دوسرے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے مدعو کیا ہے، جہاں انھیں ٹیسٹ کرنے کے لیے تیار کردہ خوراک کے ساتھ اپنے ڈیزائن کے پروٹو ٹائپ بنانے اور اس کا ڈیمو دکھانے کی ضرورت ہوگی۔ امریکی شرکا فیز 2 میں مقابلہ کر سکتے ہیں جہاں ان کے پاس 1 ملین ڈالر تک جیتنے کا موقع ہوگا۔

  • کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ، 10 ارب ڈالر کی جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ

    کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ، 10 ارب ڈالر کی جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ لگانے کے لیے 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کر دہ جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ کر دی ہے۔

    ناسا کی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ ہفتے کے روز صبح جنوبی امریکا میں فرنچ گیانا میں یورپ کے اسپیس پورٹ سے ایک راکٹ آریانے فائیو کے ذریعے لانچ کیا گیا، ناسا کی یہ ٹیلی اسکوپ کائنات کی پہلی کہکشاؤں اور دور دراز کی دنیا کو دیکھنے کے لیے لانچ کی گئی ہے۔

    یورپی اسپیس ایجنسی اور کینیڈین اسپیس ایجنسی کے ساتھ مشترکہ کوشش کرنے والی یہ Webb آبزرویٹری ابتدائی کائنات میں بالکل پہلی کہکشاؤں کی روشنی تلاش کرنے، اپنے نظام شمسی، اور دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں سے متعلق تحقیق کے لیے ناسا کا انقلابی مشن ہے۔

    زمین پر موجود ٹیموں نے ویب (Webb) لانچ ہونے کے تقریباً پانچ منٹ بعد ہی ٹیلی میٹری ڈیٹا حاصل کرنا شروع کیا، آریانے فائیو راکٹ نے توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کیا، پرواز کے 27 منٹ میں آبزرویٹری سے الگ ہوا، اس آبزرویٹری کو تقریباً 75 میل (120 کلومیٹر) کی بلندی پر چھوڑا گیا تھا، لانچ کے تقریباً 30 منٹ بعد ویب نے اپنی شمسی پینلز کو کھولا اور مشن منیجرز نے تصدیق کی کہ شمسی پینلز رصد گاہ کو توانائی فراہم کر رہی ہے۔

    شمسی پینلز کھلنے کے بعد اب مشن آپریٹرز کینیا میں مالندی گراؤنڈ اسٹیشن کے ذریعے آبزرویٹری کے ساتھ ایک مواصلاتی رابطہ قائم کریں گے، اور بالٹی مور میں اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ کا زمینی کنٹرول خلائی جہاز کو پہلی کمانڈ بھیجے گا۔

    دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے پیچیدہ خلائی سائنس آبزرویٹری اب خلا میں 6 ماہ تک کام شروع کرے گی، کمیشننگ کے اختتام پر ویب اپنی پہلی تصاویر فراہم کرے گا۔ ویب کے پاس بے مثال ریزولوشن کے انتہائی حساس انفراریڈ ڈیٹیکٹر کے ساتھ چار جدید ترین سائنسی آلات ہیں۔

  • ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھتا چلا آ رہا ہے، یہ سیارچہ فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے، اور ناسا کی جانب سے اسے زمین کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ آسمان سے ایک دیوہیکل آفت تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ آفت 4660 Nereus نامی سیارچہ ہے جو فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارچے کے رواں ہفتے کے آخر تک زمین کے بہت قریب پہنچنے کا امکان ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق یہ سیارچہ 11 دسمبر کو زمین کے مدار سے گزرے گا، اس سیارچے کا قطر 330 میٹر سے زیادہ ہے، اور یہ تقریباً 3.9 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے زمین کے پاس سے گزرے گا۔

    اگرچہ اس سے ہماری زمین کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، اور 4660 نیریوس کی مطلق شدت 18.4 ہے، تاہم ناسا نے 22 سے کم شدت کے سیارچے کو ممکنہ طور پر خطرناک قرار دیا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ سیارچہ پہلی بار 1982 میں دریافت ہوا تھا، اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زمین کے قریب سے گزرتا ہے، سورج کے گرد اس کا 1.82 سالہ مدار اسے تقریباً ہر 10 سال بعد ہمارے قریب لاتا ہے۔

    تاہم خلائی سائنس کے نقطہ نظر سے اس کا ’قریب‘ ہونا بھی ایک محفوظ فاصلہ ہے، 1982 سے ناسا اور جاپانی خلائی ایجنسی JAXA اس سیارچے کی نگرانی کر رہے ہیں، چاند زمین سے جتنا دور ہے یہ سیارچہ اس سے دس گنا زیادہ دوری پر چکر کاٹ رہا ہے۔

  • زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار

    زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار

    زمین سے 70 لاکھ میل دور سیارچے سے ٹکرانے کے لیے ناسا کا خلائی جہاز روانہ ہونے کے لیے تیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خلا میں تیرنے والے سیارچوں سے زمین کا دفاع کرنے کے لیے ناسا نے دنیا کا پہلا ایسا خلائی جہاز تیار کر لیا ہے، جو خلا میں جا کر سیارچے سے ٹکرا کر اس کا رُخ تبدیل کرے گا، یہ جہاز بدھ کو لانچ کیا جائے گا۔

    ناسا حکام کا کہنا ہے کہ اس مشن کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہے کہ کیا خلائی جہاز سیارچوں کا راستہ تبدیل کر سکتے ہیں؟ اس مشن کو ڈبل ایسٹرائیڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ (DART) کا نام دیا گیا ہے۔

    سیارچوں کے دفاعی ٹیسٹ مشن کے لیے تیار کیا جانے والا یہ خلائی جہاز کیلیفورنیا سے سیارچوں سے ٹکرانے کے مشن پر لانچ کیا جائے گا، جو 70 لاکھ میل دوری پر موجود دو سیارچوں سے ٹکرا کر ان کی سمت تبدیل کرے گا۔

    رپورٹ کے مطابق ڈارٹ خلائی جہاز ڈبل سیارچہ ڈیمورفوس اور اس کے چاند ڈیڈیموس کو نشانہ بنائے گا، ڈارٹ ٹیم کے مطابق ان میں سے کوئی سیارچہ زمین کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

    ناسا حکام کا کہنا ہے کہ ہم ایسی صورت حال میں نہیں رہنا چاہتے جہاں کوئی سیارچہ زمین کر طرف بڑھ رہا ہو اور ہم کچھ کر نہ سکیں۔

    واضح رہے کہ سیارچے کے حجم کے مقابلے میں یہ خلائی جہاز ایک چھوٹے پتھر (4 فٹ) جیسا ہوگا تاہم ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوت اتنی ہوگی جس سے یہ سیارچہ اپنی سمت تبدیل کر سکتا ہے۔

    ڈارٹ، جو کیلیفورنیا کے وینڈنبرگ ایئر فورس بیس سے روانہ ہوگا، 2022 کے موسم خزاں میں ڈیمورفوس اور ڈیڈیموس تک پہنچے گا۔ اس تجربے کے ذریعے ناسا یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ مستقبل میں اگر کبھی کوئی بڑا سیارچہ زمین کی طرف بڑھے تو اس کی سمت تبدیل کی جا سکتی ہے یا نہیں۔

  • خلا میں پہلی بار ہری مرچ اگانے کا کامیاب تجربہ، ویڈیو دیکھیں

    خلا میں پہلی بار ہری مرچ اگانے کا کامیاب تجربہ، ویڈیو دیکھیں

    خلا میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں مرچیں اگانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا، یہ مرچیں مکمل طور پر تیار ہوچکی ہیں جس کا ذائقہ بہت ترش اور زمینی مرچوں جیسا ہی ہے۔

    آپ نے اب سے قبل ایلینز یعنی خلائی مخلوق کے بارے میں سنا ہوگا لیکن آج ہم آپ کو خلائی ہری مرچ کے بارے میں نہ صرف بتائیں گے بلکہ اس کی ویڈیو بھی دکھائیں گے۔

    اس حوالے سے عالمی خلائی اسٹیشن میں پہلی بار مرچیں اگانے کا تجربہ کیا گیا ہے، ان مرچوں کو وہاں رہنے والے خلاء نوردوں نے کھا کر دیکھا اور اس کا ذائقہ بھی بہترین قرار دیا۔

    امریکی خلائی تحقیقی ادارے "ناسا” کے منصوبے "ہیبی ٹیٹ 4” کے تحت زمین سے مرچوں کے بیج اس سال جون میں عالمی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پہنچائے گئے تھے جہاں ایک خصوصی تجربہ گاہ میں انہیں اُگایا گیا۔

    چند روز بعد ان بیجوں سے پودے نکل آئے جو اگلے دو ماہ میں خاصے بڑے ہو کر اس قابل بھی ہوگئے کہ ان میں مرچیں اُگنے لگیں۔ بالآخر پچھلے مہینے یعنی اکتوبر2021 میں یہ سرخ اور سبز مرچیں بھی اتنی بڑی ہو گئیں کہ کھائی جاسکیں۔

    یہ مرچیں استعمال کرتے ہوئے امریکی خلا نورد میگن مک آرتھر نے خلائی اسٹیشن پر موجود سارے عملے کے لیے میکسیکو کے روایتی "ٹاکوز” تیار کیے، یہ عربی "شوارما” جیسے دکھائی دیتے ہیں۔

    ٹاکوز کی یہ خلائی دعوت پچھلے جمعے کو ہوئی جس کے بعد خلائی اسٹیشن کے عملے سے ان مرچوں کے ذائقے اور دوسری خصوصیات کے بارے میں ایک سروے فارم بھروایا گیا۔

    میگن نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ سب لوگوں کو ان خلائی مرچوں کا ذائقہ بہت پسند آیا، باقی بچی ہوئی "خلائی مرچیں” محفوظ کرلی گئی ہیں جنہیں تحقیق کے لیے زمین پر واپس پہنچایا جائے گا۔

  • کائنات کے ابتدائی ستاروں کی کھوج ممکن ہوگئی

    کائنات کے ابتدائی ستاروں کی کھوج ممکن ہوگئی

    جلد ہی انسانوں کے پاس کائنات کے ابتدائی ستاروں کی معلومات بھی ہوں گی، ناسا نے اس سلسلے میں تیاری مکمل کر لی۔

    امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے کائنات کے راز کھوجنے کے لیے ایک اور بڑا مشن لانچ کرنے کی تیاری کر لی ہے، ناسا نے 30 برس میں تیار ہونے والی خلائی دوربین کا کام مکمل کر لیا۔

    ناسا کے انجینئرز نے فرنچ گیانا میں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کو ڈبے سے نکال لیا ہے، اور اب اسے لانچ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، یہ مشہور زمانہ دور بین ہبل کی جانشین بننے جا رہی ہے، جسے 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے، اور امریکا سے بھیجے جانے کے بعد پانچ دن قبل ہی یورپ کے کورو اسپیس پورٹ پہنچی ہے، اسے 18 دسمبر کو مدار میں روانہ کیا جائے گا۔

    سائنس دانوں کو امید ہے کہ یہ خلائی دور بین کائنات میں بالکل ابتدائی ستاروں سے نکلنے والی روشنی کا پتا لگا سکتی ہے، تاکہ ساڑھے 13 ارب سال پہلے کے ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں۔یہ ٹیلی اسکوپ امریکی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

    اس سے قبل تاریخ میں پہلی بار ناسا نے ہبل ٹیلی اسکوپ کو 1990 میں خلا میں بھیجا تھا، جمیز ویب ٹیلی اسکوپ کا شیشہ ہبل ٹیلی اسکوپ کے مقابلے تین گنا بڑا ہے۔

    ناسا کے مطابق جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو زمین سے 15 لاکھ میل دور خلا میں چھوڑا جائے گا، جہاں سے وہ کائنات کے ان حصوں کی کھوج لگائے گا جہاں تک ہبل ٹیلی اسکوپ کی رسائی ممکن نہیں تھی۔

  • زمین پر مریخی رہائش گاہ بن گئی

    زمین پر مریخی رہائش گاہ بن گئی

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے زمین پر مریخ کے ماحول والی رہائش گاہ تعمیر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے نے زمین پر مریخ کی طرز کی رہائش گاہ بنائی ہے تاکہ مستقبل میں مریخ پر رہائش کے انسانی صحت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

    یہ رہائش گاہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر میں تعمیر کی گئی ہے، یہ تھری ڈی پرنٹر سے بنایا گیا ایک نمونہ ہے، جس میں رہائش کے لیے رضاکاروں کا انتخاب کیا جائے گا۔

    ناسا کے مطابق یہاں رہنے والے رضا کارایک مصنوعی مشن پر کام کریں گے جس میں ان کی سپیس واک،رہائش سے باہر رابطے کے لیے محدود ذرائع ، محدود خوراک اور وسائل سمیت تمام امور کا جائزہ لیا جائے گا۔

    مصنوعی مریخی ماحول میں منتخب افراد کو ایک سال تک رہنا ہوگا،  جس کے لیے ناسا کی جانب سے انھیں معاو ضہ بھی ادا کیا جائے گا، اس تجربے کا مقصد مستقبل میں مریخ پر جانے والوں کی صحت اور کارکردگی کو جانچنا ہے۔

    زمین پر قائم اس مریخی رہائش گاہ میں رہنے کے خواہش مند افراد کا امریکی شہری ہونا اور ماسٹر ڈگری ہولڈرہونا لازمی ہے جب کہ اس کی عمر  30 سے 55 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔

  • سورج کے قریب ایک اور سورج دریافت

    سورج کے قریب ایک اور سورج دریافت

    واشنگٹن: ناسا نے سورج کے قریب 60 کروڑ سال قدیم ستارہ دریافت کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا کے ماہرین فلکیات نے سورج کے قریب ایک اور سورج کو دریافت کر لیا ہے، حجم میں سورج سے چھوٹا یہ ستارہ سورج ہی کی طرح لگتا ہے، کپا 1 سیٹی نامی ستارے میں سورج ہی کی طرح کا درجۂ حرارت اور روشنی پائی جاتی ہے۔

    ناسا ماہرین فلکیات کی جانب سے اس ستارے کے مطالعاتی مشاہدات جاری ہیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ ابتدائی نظام شمسی میں اربوں سال پیچھے جانا اور یہ دیکھنا ناممکن ہے کہ سورج کیسا تھا اور کب زمین پر پہلی بار زندگی کے آثار پیدا ہوئے، تاہم اس دریافت سے سائنس دانوں کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا کہ کیسے سورج سیاروں کے ماحول اور زمین پر زندگی کی نشوونما کا سبب بنتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ سائنس دان اس بات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے کہ ہمارا سورج جب جوان تھا تو کیسا رہا ہوگا، اور اس نے کس طرح ہمارے سیارے کے ماحول اور زمین پر زندگی کی تشکیل کی ہوگی، سائنس دان اس حوالے سے متجسس رہتے ہیں کہ ہمارے سورج کو، جو اس وقت اپنی زندگی کی درمیانی عمر میں ہے، نوجوانی میں کن خصوصیات نے اس قابل بنایا ہوگا کہ اس نے زمین پر زندگی کو سہارا دینا شروع کیا، اس سلسلے میں سائنس دان ستارے سے نکلنے والی کورونل ماس ایجیکشنز اور ہواؤں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

    کپا وَن سیٹی (Kappa 1 Ceti) نامی یہ سورج زمین سے 30 نوری سال کی دوری پر واقع ہے، اگر مکانی اصطلاح میں کہا جائے تو یہ اتنی ہی دوری پر جیسے اگلی گلی میں واقع ہو، اور اس کی عمر 60 سے 75 کروڑ سال ہے یعنی اتنی ہی جتنی ہمارے سورج کی اس وقت تھی جب زمین پر زندگی پیدا ہوئی۔

    خیال رہے کہ ملکی وے کہکشاں کے اندر 100 ارب سے زیادہ ستارے ہیں، جن میں سے 10 میں سے ایک ہمارے اپنے ستارے کے سائز اور چمک کے برابر ہیں، اور ان میں سے بہت سے ستارے ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی بچوں کی طرح، نوجوان ستارے بھی عمر کے حساب سے نشونما پاتے ہیں اور ان کی خصوصیات میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔

  • چاند اور مریخ کی خلائی تسخیر کے بعد  ناسا کا اگلا ہدف کیا ہے؟ جانئے

    چاند اور مریخ کی خلائی تسخیر کے بعد ناسا کا اگلا ہدف کیا ہے؟ جانئے

    ناسا ایک بار پھر دنیا کے چھپے رازوں کا کھوج لگانے کے لئے تیار ہے، اس بار اس کا مشن کسی نئے سیارے کو دریافت کرنا نہیں بلکہ زمین کے قریب ترین سیاروں کی ماحولیات اور جغرافیائی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہے۔

    امریکی خلائی ادارے کے ڈسکوری پروگرام کے تحت زمین کے قریب ترین سیاروں کی ماحولیات اور جغرافیائی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے لئے دو مشن روانہ ہونگے، جن کی روانگی دوہزار اٹھائیس اور تیس میں متوقع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دونوں مشن پر پچاس کروڑ ڈالر لاگت آئے گی، یہ تحقیقات ان چار تصوراتی مشن میں سے ہیں جو ناسا نے فروری دوہزار بیس میں ایجنسی کے ڈسکوری دو ہزار انیس مقابلے میں منتخب کیے تھے، دونوں مشنوں کا انتخاب ان کی سائنسی اور ترقیاتی منصوبوں کی بنا پر کیا گیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق حتمی اعلان کے بعد اب پروجیکٹ ٹیمیں اپنی ضروریات ، ڈیزائن اور ترقیاتی منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے لئے کام کریں گی،جس کے لیے ناسا نے ہر مشن کے لیے 500 ملین ڈالرز کی رقم مختص کی ہے۔

    پہلا مشن جسے ‘ڈاونچی پلَس کا نام دیا گیا ہے، یہ نوبل گیسوں ، کیمسٹری اور ماحول سے متعلق تحقیق کرنے کے ساتھ سیارے پر پانی کے اثرات کو بھی کھوجنے کی کوشش کرے گا، 1978 کے بعد وینس کے ماحول کے لئے امریکا کی جانب سے یہ پہلا مشن ہوگا۔

    دوسرے مشن کا نام ‘ویریتاس‘ رکھا گیا ہے، جو سیارے اور اس کی سطح کی جغرافیہ اور ٹپوگرافی کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ اس کا نقشہ تیار کرے گا کہ سیارے نے زمین سے اتنی مختلف ترقی کیسے کی؟

    واضح رہے کہ ناسا کا مریخ مشن بھی کامیابی سے جاری ہے، جس میں سات فٹ کا روبوٹک بازو مریخ کی بنجر زمین کو چیک کر رہا ہے، پرسیویرینس کا مشن مریخ میں موجود گڑھے کا تجزیہ کرنا ہے تاکہ ماضی میں زندگی کی موجودگی کے شواہد اکٹھے کیے جا سکیں۔ اگلے دو سال میں یہ روور 15 کلومیٹر کا سفر کرے گا۔