Tag: nasir ul mulk

  • ناصر الملک: کمرہ عدالت سے ایوان اقتدار تک

    ناصر الملک: کمرہ عدالت سے ایوان اقتدار تک

    سابق چیف جسٹس ناصر الملک 17 اگست 1950 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق سوات کے ایک با اثر اور سیاسی پراچہ خاندان سے ہے۔

    ناصر الملک کے والد سیٹھ کامران 70 کی دہائی میں سینیٹر رہے جبکہ ان کے بھائی سوات کے میئر بھی رہے۔

    سنہ 1972 میں ناصر الملک نے پشاور یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ وطن واپسی پر انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں وکالت کی پریکٹس شروع کردی جبکہ اپنی مادر علمی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔

    ناصر الملک نے پشاور ہائیکورٹ میں 17 سال وکالت کی پریکٹس کی۔ سنہ 1981 میں وہ پشاور ہائیکورٹ بار کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ بعد ازاں دو بار ہائیکورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے جبکہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔

    سنہ 1993 سے 1994 تک وہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہے جہاں انہوں نے صوبائی حکومت کے قانونی معاملات میں مشاورت کے فرائض انجام دیے۔

    ناصر الملک سپریم کورٹ کے بائیسویں چیف جسٹس رہے۔ وہ 2013 سے 2014 تک قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہے۔

    آج وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگراں وزیر اعظم کے لیے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے نام کا اعلان کردیا جس کے بعد ناصر الملک مختصر عرصے کے لیے نگراں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیف جسٹس کا حلف اٹھالیا

    جسٹس جواد ایس خواجہ نے چیف جسٹس کا حلف اٹھالیا

    اسلام آباد: جسٹس جواد ایس خواجہ نے آج ملک کےتئیسویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس ناصرالملک 13 ماہ تک چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پرفائز رہنے کے بعد ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔

    ناصر الملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے آج نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھالیا ہے۔

     صدر ممنون حسین نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں  وزیرِ اعظم نواز شریف، وفاقی وزراء اور اعلیٰ افسران شریک تھے۔

    جسٹس جواد ایس خواجہ 23 روز چیف جسٹس کے عہدے پر رہنے کے بعد رواں سال ہی 10 ستمبرکو سبکدوش ہو جائیں گے۔

    جسٹس جوادکا ملک کی عدالتی تاریخ میں سب سے کم عرصہ چیف جسٹس رہنے والے افراد کی فہرست میں دوسرا نمبر ہوگاان سے پہلے چیف جسٹس محمد شہاب الدین صرف 10 روز کیلئے چیف جسٹس رہے ہیں۔ وہ 3 مئی 1960 میں چیف جسٹس بنے اور 12 مئی1960 کو سبکدوش ہوگئے تھے۔

  • سپریم کورٹ کے لارجربنچ نے ملٹری کورٹس کے خلاف دائرتمام درخواستیں مسترد کردیں

    سپریم کورٹ کے لارجربنچ نے ملٹری کورٹس کے خلاف دائرتمام درخواستیں مسترد کردیں

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ملٹری کورٹس کے خلاف دائر کردہ تمام درخواستوں کو رد کرتے ہوئے ان کے قیام کو قانونی اورآئینی قراردے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروزبدھ سپریم کورٹ کے 17 ججز پر مشتمل لارجربنچ نے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں فیصلہ سنایا۔

    ملٹری کورٹس کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں ہونے والے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ردعمل میں ہونے والی 21 ویں ترمیم کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔

    ملٹری کورٹس کے قیام کے خلاف سپریم کورٹ بار، پاکستان بارکونسل، ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن راولپنڈی، لاہورہائی کورٹ بار، ڈسٹرکٹ بارسانگھڑ، عبدالحفیظ پیرزادہ کنسرنڈ سٹیزن آف پاکستان اوروطن پارٹی سمیت کل 31 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

    درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ ملٹری کورٹس کے قیام سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوگا اور اس سے موجودہ نظامِ عدل کو بھی نقصان پہنچے گا۔

    سپریم کورٹ کے لارجربنچ میں سے 11 ججز نے ملٹڑی کورٹس کے قیام کے حق میں جبکہ 6 ججز نے قیام کے خلاف فیصلہ دیا۔

    ملٹری کورٹس کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے 25 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ کوبھی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

    چیف جسٹس ناصرالملک نے کثرتِ رائے کی بنا پر ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں مختصر فیصلہ تحریر کیا۔

    فیصلے کے مطابق ملٹری کورٹس کی جانب سے دی گئی سزائیں جنہیں موخر کیا گیا تھا اب ان پر عملدرآمد ہوگا۔

    دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کریں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن ارشد شریف کا ماہرانہ تجزیہ


    پس منظر


    واضح رہے کہ 6جنوری 2015 کو21ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی تھی جس کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں نے کاروائی شروع کی تھی۔

    فوجی عدالتوں کےخلاف دائر کی جانے والی پہلی درخواست کی سماعت 28جنوری کو ہوئی تھی۔

    اعلیٰ عدالت نے 18اور 21 ویں ترامیم پردرخواستوں کو یکجا کرنے کا حکم دیا اور 3اپریل کومعاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

    16اپریل کوعدالتی احکامات کے ذریعے فوجی عدالتوں کی سزاؤں پرعمل درآمد روکاگیا۔

    بالاخر 5 اگست 2015 کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

    واضح رہے کہ ابتدائی طور پر9 فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں جن میں سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں 3،3، سندھ میں 2جبکہ بلوچستان میں 1 فوجی عدالت قائم کی گئی تھی۔

  • جوڈیشل کمیشن کا تحریک انصاف کو ثبوت جمع کرنے کا حکم

    جوڈیشل کمیشن کا تحریک انصاف کو ثبوت جمع کرنے کا حکم

    اسلام آباد: الیکشن 2013 میں دھاندلی کے انتخابات کی تحقیقات کے لئے تشکیل کردہ الیکشن کمیشن نے اپنی کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ثبوت جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ناصرالملک نے الیکشن 2013 میں دھاندلی کے لئے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن کی کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو ایک ہفتے کے اندر دھاندلی کے ثبوت جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس نے نادرا کے لئے بھی حکم جاری کیا کہ ایک ہفتے کے اندر انگھوٹوں کے نشانات کی تصدیق کے عمل کی رپورٹ کمیشن میں پیش کی جائے۔

    انہوں نے الیکشن کمیشن کے لئے احکامات جاری کیے کہ ایک ہفتے کے اندرعمران خان کے الزامات کا جواب داخل کرے۔

    چیف جسٹس نے تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے تین سوال رکھے اورکہا کہ سیاسی جماعتیں ان سوالات کے الگ الگ جوابات داخل کرائے جائیں۔

    چیف جسٹس کے تین سوال

    الیکشن 2013 شفاف تھے کہ نہیں۔

    اگر دھاندلی ہوئی تھی تو منظم طریقے سے ہوئی یا نہیں۔

    اگردھاندلی ثابت ہوجاتی ہے تو اس کا اثر کیا ہوگا۔

  • سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔

    اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کی سماعت ہوئی، عدالت عظمیٰ نے وفاق اور چاروں صوبوں سے پندرہ روز میں تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت بارہ فروری تک ملتوی کردی۔

    جسٹس گلزار نے لاہور بار کے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی بھی اس ترمیم میں شریک تھی، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں ہائی کورٹ بار کے وکیل کی حیثیت سے موجود ہیں، تاہم پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل میں شرکت نہیں کی۔

    واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار و دیگر کی جانب سے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ میں جسٹس گلزار اور جسٹس مشیر عالم شامل ہیں۔

    عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

    عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں لاہور بار کے حامد خان کا کہنا تھا کہ پٹیشن کی آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کا کام شروع کرنا مناسب نہیں ہوگا، لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت چوہان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحفظ میں ناکام رہیں، انکا مزید کہنا تھا کہ آئین میں غیر آئینی ترمیم کی گئی ہے۔

  • فوجی عدالتوں کا قیام: چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا

    فوجی عدالتوں کا قیام: چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں کے قیام کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لئے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصرالملک نے آج دوپہر ایک بجے فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے جس میں فوجی عدالتوں کی قانونی حیثیت اوران کے قیام کے دیگر پہلووٗں کا جائزہ لیاجائے گا۔

    اس موقع پرجسٹس جواد کا کہنا ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کی پیروی میں تاخیر کا الزام لگانا درست نہیں ہے ججز کی تعداد میں کمی کے باعث مقدمات کی پیروی سست روی کا شکارہوتی ہے اور جب کبھی حکومت سے ججز کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ فنڈز کی کمی کا رونا رونا شروع کردیتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے اپنی ناکامی کا اعتراف عوام کےسامنے کرے۔

  • پھانسی کے قیدیوں کی اپیل ، سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل

    پھانسی کے قیدیوں کی اپیل ، سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل

    اسلام آباد: سزائے موت کے قیدیوں کی اپیل سننے کے سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے، سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کریں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا یافتہ ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کیلئے تین رکنی فل بنچ تشکیل دیا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بنچ پانچ جنوری سے نوجنوری تک پچاس سے زائد اپیلوں کی سماعت کرے گا۔

    اپیلوں میں انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت سزائے موت ، عمر قید کی سزا پانے والے ملزمان سمیت، حکومت کی دائر کردہ اپیلیں شامل ہیں، ملزمان کی رہائی یا سزا بڑھانے اور صلح کی اپیلیں بھی زیرِ سماعت آئیں گی۔

    چیف جسٹس ناصر الملک نے گذشتہ ہفتے اعلیٰ سطحی اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی جلد از جلد سماعت اور ان کو نمٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔

  • چیف جسٹسز ہائیکورٹس اور نگراں اے ٹی سی کورٹ کا اجلاس طلب

    چیف جسٹسز ہائیکورٹس اور نگراں اے ٹی سی کورٹ کا اجلاس طلب

    اسلام آباد:چیف جسٹس ناصر الملک نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اورانسداد دہشتگردی عدالتوں کے انچارجز کا اجلاس چوبیس دسمبر کو طلب کر لیا ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں ہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں کی مونیٹرنگ کے انچارج کا اجلاس چوبیس دسمبر کو طلب کر لیا ہے ۔

    اجلاس سپریم کورٹ میں دس بجے ہوگا، جس کی سربراہی چیف جسٹس ناصر الملک کریں گے، اجلاس میں مقدمات کے جلد فیصلوں کے حوالے سے تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات جلد از جلد مکمل کیے جانے کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں گے، چیف جسٹس سپریم کورٹ نے تمام عدالتوں کو ہدایت کی ہے کہ زیرِ سماعت مقدمات کی تفصیلات تئیس دسمبر تک سپریم کورٹ کو فراہم کر دی جائیں۔

  • سزائے موت کے فیصلے کی بحالی کیلئے اجلاس بلا رہے ہیں، چیف جسٹس

    سزائے موت کے فیصلے کی بحالی کیلئے اجلاس بلا رہے ہیں، چیف جسٹس

    پشاور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے فیصلے کی بحالی پر جلد اسلام آباد میں ایک اجلاس بلا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے پشاور ہائیکورٹ کا دورہ کیا، چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ بار میں تعزیتی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ سانحہ میں جو بھی شہید ہوئے، ان کا پوری قوم کو غم ہے ملک کی تاریخ کا المناک سانحہ ہے، سزائے موت کے فیصلے کی بحالی پر جلد اسلام آباد میں ایک اجلاس بلارہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ  اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا کہ پھانسی کے کتنے کیسز زیرِ التوا ہیں، تاکہ عمل در آمد ہوسکے، اس موقع پر سانحۂ پشاور میں شہید ہونے والوں کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔