Tag: National Assembly last meeting

  • موحودہ پارلیمنٹ نے اپنی اکتیس سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ قوانین پاس کیے، اسپیکر ایاز صادق

    موحودہ پارلیمنٹ نے اپنی اکتیس سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ قوانین پاس کیے، اسپیکر ایاز صادق

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا کہنا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ نے اب تک سب سے زیادہ قوانین پاس کیے ہیں، جن کی تعداد 187 ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے قومی اسمبلی کے الوداعی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال میں ایوان کے بہترین چلائے جانے پر وہ اللہ کے شکرگزار ہیں۔

    انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج اس ایوان کا آخری دن ہے، آج کسی کے خلاف کوئی بات نہ کرے، جتنی بھی تلخ باتیں ہیں انھیں الیکشن مہم کے لیے رکھ چھوڑیں۔

    اسپیکر ایاز صادق نے گزشتہ ادوار میں پاس ہونے والے قوانین کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے 1987 سے 1990 تک 13 قوانین پاس کیے جب کہ 1990 سے 1993 تک 60 قوانین پاس کیے گئے۔

    انھوں نے قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں بتایا کہ 1993 سے 1996 تک 54 قوانین پاس کیے گئے جب کہ 1997 سے 1999 تک 51 قوانین پاس کیے گئے۔

    قومی اسمبلی کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ 2002 سے 2007 تک اسمبلی نے 38 قوانین پاس کیے جب کہ اگلا ٹرم پہلا تھا جب اسمبلی نے پانچ سال پورے کیے اور 2008 سے 2013 تک اس نے 93 قوانین پاس کیے۔

    اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ نے اب تک 187 قوانین پاس کیے، 5 آئینی ترامیم بھی منظور کی گئیں اور 21 نجی ممبران کے بل پاس کیے گئے۔

    سندھ اورخیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں مدت پوری ہونےکے بعد تحلیل


    قومی اسمبلی کے اسپیکر نے مثبت رپورٹنگ کرنے پر میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا، انھوں نے پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کے حوالے سے سب کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں تاہم انھوں نے اس بات کی تردید کردی۔

    شیریں مزاری نے کہا کہ ہم نے کئی چیزیں پارلیمنٹ سے سیکھیں، حکومتی ارکان کے نامناسب کمنٹس بھی آئے جس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، بجٹ تقریر میں احسن اقبال کا روٹیاں اٹھاکر احتجاج کرنا بھی مناسب نہیں تھا، بہرحال خورشید شاہ نے ہماری شکایات کی اچھی ترجمانی کی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کا بل پیش، پی میپ کی مخالفت، جے یوئی آئی ف کا واک آؤٹ

    قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کا بل پیش، پی میپ کی مخالفت، جے یوئی آئی ف کا واک آؤٹ

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں فاٹا کےانضمام کے سلسلے میں اکتسویں آئین کی ترمیم کا بل بشیر محمود ورک نے پیش کردیا، جمعیت علمائے اسلام ف کا ایوان سے واک آؤٹ، پی میپ نے مخالفت کردی۔

    قبل ازیں قومی اسمبلی میں فاٹا بل پیش کیے جانے کا عمل تاخیر کا شکار رہا، بل کی منظوری کے لیے 228 ارکان کی ضرورت تھی جب کہ قومی اسمبلی میں 200 ارکان موجود تھے۔

    وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مطلوبہ اراکین پورے کرنے کے لیے وقت مانگ لیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اراکین پورے ہوجائیں تو بل پیش کر دیں گے، فاٹا بل سب کا متفقہ ہے صرف اپوزیشن یا حکومت کا نہیں۔

    قومی اسمبلی میں فاٹا بل تاخیر کے بعد پیش کردیا گیا، بل پیش ہوتے ہی جے یو آئی فضل الرحمان نے مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور پی ٹی آئی کے منحرف رکن داوڑ کنڈی نے بھی مخالفت کی۔

    مہمند ایجنسی سے منتخب ممبر قومی اسمبلی ملک بلال رحمان نے کہا کہ فاٹا کو صوبے کا درجہ دیا جائے، ہم نے انضمام نہیں اصلاحات مانگی تھیں۔ پی میپ کے عبد القہار ودان نے کہا کہ فاٹا کا بل متنازع ہے، یہ بل ہمیں منظور نہیں۔ جمال الدین نے کہا کہ فاٹا پر کوئی نظام مسلط کیا گیا تو برداشت نہیں کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: فاٹا کوخیبرپختونخوا میں ضم کرنےکا بل آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا

    قومی اسمبلی میں بل پیش ہونے کے موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی موجود تھے۔ اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فضل الرحمان اور اچکزئی نے فاٹا مسئلے کا حل نہیں نکالنے دیا، دونوں حضرات کی وجہ سے فاٹا کےعوام کو حقوق نہیں ملے۔

    اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے الزام لگایا کہ فاٹا بل پرحکومت کی سنجیدگی نظرنہیں آرہی، حکومتی وزرا ایوان میں موجود ہی نہیں جب کہ اپوزیشن موجود ہے، کابینہ ہوتی تو وزیراعظم کی عزت افزائی ہوتی، اگر یہی صورت حال ہے تو بل کو اگلی اسمبلی پر چھوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا سے متعلق تاریخی بل ہے، ڈیڑھ سوسال کی تاریخ بدل رہی ہے۔

    دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے ملک میں مزید انتظامی یونٹس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم فاٹا بل کی حمایت کریں گے لیکن فاٹا ارکان کی اکثریت بل کی مخالفت کر رہی ہے، میں خوش ہوں فاٹا کا مسئلہ حل ہو رہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔