Tag: National Institute of Health

  • خناق سے متعلق تشویشناک ایڈوائزری جاری

    خناق سے متعلق تشویشناک ایڈوائزری جاری

    اسلام آباد: قومی ادارہ صحت نے ملک میں خناق کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ادارہ صحت نے صوبوں کے نام خناق سے متعلق انتباہی ایڈوائزری جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ خناق زہریلے مادے پیدا کرنے والا سنگین بیکٹیریل انفیکشن ہے، جو خون کے ذریعے دل، اعصاب اور گردوں کو متاثر کرتا ہے۔

    مراسلے کے مطابق خناق کے کیسز موسم سرما، بہار میں سامنے آتے ہیں، یہ چھینکنے اور کھانسے سے دوسرے فرد کو منتقل ہو سکتا ہے، مریض کے کپڑوں اور دیگر اشیا کے استعمال سے بھی خناق پھیلتا ہے، مریض میں خناق کی علامات 2 تا 5 دن بعد شروع ہوتی ہیں، اور مرض کا آئیسولیشن پیریڈ دو تا دس دن ہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق خناق سے شرح اموات 5 تا 10 فی صد ہے، تاہم ویکسین نہ لگوانے والے افراد میں خناق سے شرح اموات 100 فی صد ہو سکتی ہے، یہ ناک، حلق، گلے کی جھلیوں کو نقصان پیہنچاتا ہے، اور خناق سے حلق اور سانس کی نالی کے بالائی حصے پر سوجن ہو جاتی ہے، سخت کھانسی، خرخراہٹ، اور سانس میں تنگی، بخار، گلے کی خراش، سردی اور ناک بہنا و بندش خناق کی علامات ہیں۔

    خناق میں جھلی ناک، ٹانسلز، ٹشوز، وائس باکس کو ڈھانپتی ہے، خناق کا جرثومہ خون میں شامل ہو کر پیچیدگی اختیار کر سکتا ہے، یہ انسانی جسم کا الیکٹرولائٹ لیول غیر متوازن کرتا ہے، اس سے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے، خناق سے پولی نیوروپیتھی اور گردے ناکارہ ہو سکتے ہیں۔

    این آئی ایچ کے مطابق گنجان آبادی، گندگی، غذائی قلت خناق کے پھیلاؤ کا اہم سبب ہیں، نان ویکسینیٹڈ بزرگ افراد خناق کے حوالے سے ہائی رسک ہیں، روٹین ایمونائزیشن میں بہتری سے خناق کا تدارک ممکن ہے، ملک میں خناق سے بچاؤ کی ویکسین دستیاب ہے، اور یہ ویکسین توسیعی پروگرام حفاظتی ٹیکہ جات میں شامل ہے، تاہم ویکسین دستیابی کے باوجود خناق وبائی صورت اختیار کر سکلتا ہے، اس لیے محکمہ صحت اور متعلقہ حکام خناق بارے پیشگی اقدامات کریں۔

    این آئی ایچ نے ہدایت کی ہے کہ متعلقہ ادارے خناق کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مشتبہ کیسز مانیٹر کریں، اور شکار افراد کو فوری طور پر آئیسولیٹ کیا جائے، خناق کے مریض کو اینٹی ٹاکسن، اینٹی بائیوٹک شروع کرائی جائیں، پاکستان میں بچوں کو انسداد خناق ویکسین کی تین ڈوز دی جاتی ہیں، 12 سالہ بچوں کو خناق کی بوسٹر ڈوز لگائی جاتی ہے، ملک میں خناق کے تشخیصی ٹیسٹ کی سہولت دستیاب ہے، قومی ادارہ صحت خناق کے مشتبہ سیمپل کا ٹیسٹ مفت کر رہا ہے۔

    مراسلے کے مطابق خناق کی تصدیق بیکٹرولوجیکل کلچر، پی سی آر ٹیسٹ سے ممکن ہے، خناق کے ٹیسٹ کے لیے ناک اور حلق سے رطوبت لی جاتی ہے۔

  • قومی ادارہ صحت کے نئے سربراہ کی تعیناتی تاحال نہ ہو سکی

    قومی ادارہ صحت کے نئے سربراہ کی تعیناتی تاحال نہ ہو سکی

    اسلام آباد: حکومت شعبہ صحت کا سب سے بڑا قومی ادارہ تباہ کرنے پر تل گئی ہے، قومی ادارہ صحت کے نئے سربراہ کی تعیناتی تاحال نہ ہو سکی، جب کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر قومی ادارہ صحت 2 مارچ کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

    ذرائع نے اے آ ر وائی نیوز کو بتایا ہے کہ قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر عامر اکرام دو مارچ کو مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔

    تاہم وزارت قومی صحت این آئی ایچ کے نئے سربراہ کے لیے امیدوار کو حتمی شکل نہیں دے سکی، ذرائع کا کہنا ہے کہ قواعد کے مطابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر این آئی ایچ کی ریٹائرمنٹ سے 3 ماہ قبل نئے سربراہ کے لیے شارٹ لسٹ کیے گئے ناموں کی سمری وزارت صحت کو ارسال کی جاتی ہے، تاہم ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کے لیے فائل ورک تاحال شروع نہیں کیا گیا۔

    پروفیسر عامر اکرام مسلم لیگ ن کے دور میں ڈیپوٹیشن پر قومی ادارہ صحت میں آ کر ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات ہوئے تھے اور گزشتہ 6 سال سے ڈیپوٹیشن میں دو بار توسیع لے چکے ہیں۔

    ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پروفیسر عامر اکرام مبینہ طو ر پر ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعیناتی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق قومی ادارہ صحت تشکیل نو ایکٹ کے نفاذ کو 2 سال گزر نے کے باوجود اصلاحات مکمل نہ ہونے سے ادارہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ نے 2021 میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ری آرگنائزیشن ایکٹ منظور کیا تھا۔ ایکٹ کے تحت قومی ادارہ صحت کے نئے 7 سینٹرز قائم کیے گئے ہیں لیکن سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول سمیت 6 یونٹس کے سربراہان کا تقرر تاحال نہیں ہو سکا ہے۔

    قومی ادارہ صحت میں اصلاحات پر عمل درآمد نہ ہو سکا، 2 سال گزر گئے

    ذرائع کے مطابق این آئی ایچ یونٹس سربراہان کی عدم تقرری کی وجہ مبینہ بیرونی مداخلت ہے، این آئی ایچ بورڈ آف گورنر کے درجنوں اجلاس ہونے کے باوجود بورڈ اصلاحات پر بھی عمل درآمد کی پالیسی وضع نہیں کر سکا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی ادارہ صحت تشکیل نو ایکٹ میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ ختم کر دیا گیا تھا لیکن پروفیسر عامر اکرام چھ سال سے این آئی ایچ میں ڈیپوٹیشن پر بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

  • بدلتے موسم میں متعدد امراض کے پھیلاؤ کا خدشہ

    بدلتے موسم میں متعدد امراض کے پھیلاؤ کا خدشہ

    ملک بھر میں مون سون کا موسم جاری ہے۔ مختلف شہروں میں ہلکی یا تیز بارشیں ہورہی ہیں اور محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس موسم میں بے شمار وبائی امراض کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔

    نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے طبی ماہرین نے متعلقہ اداروں کو تجویز دی ہے کہ وہ ایسے موسم میں پانی اور خوراک کو زہریلا ہونے سے بچانے اور صحت و صفائی کے خصوصی اقدامات کریں بصورت دیگر اچانک کئی وبائی امراض پھیل سکتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

    ماہرین نے ان امراض میں پیٹ کی بیماریوں، بخار اور ہیپاٹائٹس کو شامل کیا ہے۔

    ان کے مطابق ان بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ ان علاقوں میں زیادہ ہے جہاں بارشیں معمول سے زیادہ ہونے کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی اور اب جگہ جگہ پانی کھڑا ہے۔

    ماہرین نے زور دیا کہ اس وقت ضلعی سطح پر صحت کی ٹیموں کو فعال کیا جائے تاکہ کسی بھی مرض کو فوراً پکڑا جا سکے اور اسے جان لیوا ہونے سے بچایا جاسکے۔

    ان کے مطابق متعلقہ اداروں کو ادویات کا وافر اسٹاک رکھنے کی ضرورت ہے جن میں اینٹی بائیوٹکس، اینٹی ٹیٹنس، کتے اور سانپ سے کاٹے کی ادویات اور ٹائیفائڈ سے حفاظت کی ویکسینز اور علاج کی ادویات شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: بارش کے موسم میں بچوں کو ڈائریا سے بچائیں

    انہوں نے تجویز دی کہ ضلعی ٹیمیں ڈائریا کے پھیلاؤ کے حوالے سے خاص طور پر محتاط رہیں اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے تحت کسی علاقے کے فراہمی آب کے ذرائع کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کی جاسکے۔

    گندے علاقے زیادہ خطرے میں

    ماہرین نے واضح کیا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے علاوہ ایسے علاقے بھی شدید خطرے کا شکار ہیں جہاں جا بجا کچرے کے ڈھیر ہوں اور سیوریج کی صورتحال ناقص ہو۔

    ان کے مطابق ایسے علاقوں میں مختلف کیڑوں کی افزائش ہوسکتی ہے جو کئی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ایسے علاقوں میں پینے کا پانی اور خوراک (دکانوں پر ملنے والی غذائی اشیا) آلودہ اور زہریلی ہوسکتی ہیں جو جان لیوا بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔