اسلام آباد: قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مہاجرین کے بھیس میں پاکستان آکر یہاں حملے کرسکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق انہوں نے اس خدشے کا اظہار سینیٹ خارجہ امور کمیٹی کو بریفنگ کے دوران کیا، معید یوسف کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان سے انخلا کرچکا ہے، افغانستان میں حالات بہت خراب ہیں، صورتحال ہمارے قابو سے باہر ہے۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ خطے میں بہترین رابطوں کیلئے افغانستان میں امن ضروری ہے، اگر امن چاہتے ہیں توافغان حکومت پاکستان کیساتھ تعلقات بہتر بنائے کیونکہ افغانستان میں خانہ جنگی کا زیادہ نقصان پاکستان کا ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ تشدد کا خاتمہ ہو تاکہ پاکستان متاثر نہ ہوسکے۔
سینیٹ خارجہ امور کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے مشیر قومی سلامتی نے بتایا کہ پاکستان نے افغانیوں کے لئے آن لائن ویزہ اسٹریم لائن کردیا ہے، اب یو این ایچ سی آر متوقع افغان مہاجرین کے لئے کیمپ قائم کرے۔
مشیرقومی سلامتی معید یوسف نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ گلگت بلتستان میں طالبان کی کوئی منظم موجودگی نہیں ہے ، بھارت پروپیگنڈا ویڈیو بنا کر پھیلا رہا ہے، بھارت پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو مالی معاونت فراہم کررہا ہے، قانون نافذ کرنیوالے ادارے، ملٹری اور خفیہ ایجنسیاں کام کررہے ہیں، ایجنسیوں نے کافی گرفتاریاں بھی کی ہیں۔
واشنگٹن: طالبان سے مذاکرات کی معطلی کے آفٹر شاکس سامنے آنے لگے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے استعفیٰ لے لیا.
تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس میں بڑی تبدیلی آئی ہے، جان بولٹن اب امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نہیں رہے.
اس ضمن میں امریکی صدر نے اپنے ٹویٹ میں تفصیلات فراہم کی ہیں. انھوں نے لکھا کہ میں نے گزشتہ رات جان بولٹن کو آگاہ کیا تھا کہ وائٹ ہاؤس کو اب ان کی خدمات درکار نہیں کیوں.
ٹرمپ کو کہنا تھا کہ مجھے جان بولٹن کی بہت ساری تجاویز سے اختلاف تھا، میں نے گزشتہ روز جان بولٹن سے استعفیٰ طلب کیا تھا جو آج صبح مجھے مل گیا۔
ابھی اگلے مشیر قومی سلامتی کا نام سامنے نہیں آیا، توقع کی جارہی ہے کہ اگلے سات دن میں نئے نام کا اعلان کیا جائے گا.
جان بولٹن کو اپریل 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا تھا، وہ 520 دن اس عہدے پر فائز رہے.
خیال رہے کہ جون بولٹن کو لاتے ہوئے کئی دعوے کیے گئے تھے، عام خیال ہے کہ ٹرمپ اور جان بولٹن میں اختلاف طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر سامنے آئے. بولٹن طالبان سے مذاکرات کے بھی خلاف تھے.
واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جان بولٹن کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کرنے پر اسرائیلی حکام کا ٹرمپ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ امریکی صدر زیادہ اسرائیل دوست ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر جان بولٹن کو قومی سلامتی کا مشیر منتخب کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے بش دور میں اقوام متحدہ میں تعینات کیے گئے سفیر اور سخت گیر سوچ رکھنے والے جان بولٹن کو جنرل میک ماسٹر کی جگہ قومی سلامتی کا مشیر نامزد کیا تھا۔
جان بولٹن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسرائیل کے حامی اور ایران کے بہت بڑے مخالف ہیں۔ جان بولٹن نے اسرائیل کی حمایت میں یہ بیان بھی دیا تھا کہ مسئلہ فلسطین پے پر امریکا کا تجویز کردہ دو ریاستی نظریہ تجویز کیا تھا وہ دم توڑ گیا ہے۔
اسرائیل میں سخت گیر دائیں بازو کی جماعت جوئش ہوم پارٹی اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے وزراء نے جان بولٹن کی نامزدگی کا خیر مقدم کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو
نیتن یاہوکا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اوران کی کابینہ سمیت تمام امریکی حکام امریکا کی تاریخ میں سب سے زیادہ اسرائیل دوست ثابت ہورہے ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ تعلیم نفتالی بینٹ جو جوئش پارٹی کے سربراہ بھی ہیں ان کا اپنے ٹویٹر پیغام میں کہنا تھا کہ جان بولٹن ایک غیر معمولی سکیورٹی ماہر ہیں، تجربہ کار سفارت کار اور سب سے بڑھ کر اسرائیل کے ایک گہرے اور قریبی دوست ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ انصاف کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنی اسرائیل دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلسل اسرائیل کے سچے اور کھرے دوستوں کو اہم عہدوں پر فائز کر رہے ہیں۔
دوسری طرف فلسطینی حکام نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے بولٹن کی نامزدگی کی سخت مذمت کی ہے۔ فلسطین کے ترجمان حنان اشروی کا کہنا تھا کہ بولٹن کی فلسطین مخلاف سوچ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور وہ اُس وقت سے فلسطین کے مخالف ہیں جب وہ اقوام متحدہ میں امریکا کےسفیر تھے اوراسرائیل کے ہر ناجائز موقف کا بڑھ چڑھ کر دفاع کرتے تھے۔
فلسطین کی ترجمان جنان اشروی
ان کا کہنا تھا کہ جان بولٹن کو قومی سلامتی کا مشیر بنانے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ انتہا پسند صہونی اور بنیاد و نسل پرست مسیحّوں کا حصہ بن گئی ہے، ٹرمپ انتظامیہ کا یہ اقدامات کرنا فلسطین کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے زمانے میں وہ اقوام متحدہ کے سفیر تھے جہاں وہ اپنی تُند و تیز بیانات اور اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے متازع حیثیت اختیار کر گئے تھے۔
امریکی جریدے کے مطابق میں سنہ2009 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انھوں نے کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل پیدائش سے پہلے ہی مر چکا ہے۔ اسی مضمون میں انھوں نے تجویز کیا تھا کہ فلسطینی علاقوں کو مصر اور اردن کے حوالے کر دینا چاہیے۔
انھوں نے کہا تھا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے تین ریاستی حل کے بارے میں سوچنا چاہیے جہاں غزہ کی پٹی کو مصر کو اور مغربی حصّہ چند تبدیلیوں کے ساتھ اردن کے حوالے کر دینا چاہیے۔
جان بولٹن کا مسئلہ فلسطین کے حوالے کیا گیا ٹویٹ
جان بولٹن نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیے جانے کے ٹرمپ فیصلے کی بھی بڑے زور شور سے حمایت کی تھی۔ انھوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا تھا کہ ‘یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کر کے ہم ایک مغالطے کا شکار تھے‘۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں
اسلام آباد: مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے کہا ہے کہ آج اگر امریکا واحد سپر پاور ہے تو اس کے ہم بھی حصہ دار ہیں۔ عالمی طاقتوں نے افغانستان میں جو خلا چھوڑا اس سے دہشت گردی نے جنم لیا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ کا کہنا تھا کہ سرحدوں کی سیکیورٹی قومی سلامتی کا حصہ ہے۔ ملکی سلامتی کے لیے قومی سلامتی کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت اور سیکیورٹی ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ معیشت اور سیکیورٹی کو ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ ملک کا سائبر ڈیٹا بھی محفوظ ہونا چاہیئے تاکہ معلومات باہر نہ جاسکیں۔
مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ سوویت حملے کے وقت سوچ تھی کہ اگلی باری ہماری ہے، اس وقت افغانستان کے ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو کیا آج افغانستان ہوتا؟ تجارتی راستہ روس کو پیش کردیتے تو روس آج بھی افغانستان میں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں خلا چھوڑ دیا گیا، اس سے دہشت گردی نے جنم لیا اور یہیں سے نائن الیون کا جنم ہوا۔
ناصر جنجوعہ نے کہا کہ دنیا میں نئے رجحانات اور تبدیلیاں جانے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بحیثیت قوم اپنی سمت کا تعین ہونا چاہیئے۔