Tag: NATO

  • نیٹو کا 2 لاکھ سے زائد توپ کے گولے خریدنے کا معاہدہ

    نیٹو کا 2 لاکھ سے زائد توپ کے گولے خریدنے کا معاہدہ

    برسلز: نیٹو نے منگل کو 1.1 بلین یورو (1.2 بلین ڈالرز) کے دو لاکھ کی تعداد میں 155 ایم ایم آرٹلری راؤنڈز خریدنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق مغربی فوجی اتحاد نیٹو نے توپ کے دو لاکھ سے زائد گولے خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہے، جن میں سے کچھ کیف کی جانب سے گولہ بارود کی کمی کی شکایت کے بعد یوکرین کو فراہم کیے جائیں گے۔

    نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے برسلز میں مغربی فوجی اتحاد کے ہیڈ کوارٹر میں دستخطی تقریب کے بعد صحافیوں کو بتایا’’یوکرین میں جنگ گولہ بارود کی جنگ بن چکی ہے۔‘‘ یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف نے گزشتہ ہفتے گولہ بارود کی کمی کو روس یوکرین جنگ کے لیے ’گولوں کی بھوک‘ (شیل ہنگر) قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ دو سال سے جاری اس جنگ میں کیف کے لیے گولہ بارود کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔

    خود نیٹو کو بھی روس کے خلاف جنگ کے لیے یوکرین کی مدد کرنے کی وجہ سے گولہ بارود کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نیٹو ممالک نہ صرف اپنے ذخائر کو ختم کر چکے ہیں بلکہ مارچ تک کیف کو توپ خانے کے 10 لاکھ گولوں کی فراہمی کا ہدف بھی پورا کرنا ہے۔

    منگل کے روز کے گئے اس تازہ ترین دفاعی سودے کے تحت نیٹو نے فرانسیسی فرم نیکسٹر اور جرمنی کی یونگ ہانس مائیکروٹیک کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں، حکام کا اندازہ ہے کہ تقریباً 220,000 توپ کے گولے حاصل کیے جائیں گے اور نیٹو کے ارکان کو ان کی ترسیل 2025 کے آخر میں شروع ہو جائے گی۔

    سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ہمارے اتحادی اپنے گولہ بارود کے ذخائر کو دوبارہ بھریں کیوں کہ ہم نے یوکرین کی حمایت جاری رکھنی ہے۔ خیال رہے کہ نیٹو کی جا نب سے اپنے گولہ بارود کے اسٹاک کو دوبارہ بھرنے اور پیداوار کو بڑھانے کا دباؤ اس وقت سامنے آیا ہے، جب امریکا کی جانب سے یوکرین کے لیے مستقبل میں بھی حمایت جاری رکھنے کے معاملے پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔

  • نیٹو سرد جنگ کے منصوبوں کی طرف لوٹ رہا ہے، ماسکو کا ردِ عمل

    نیٹو سرد جنگ کے منصوبوں کی طرف لوٹ رہا ہے، ماسکو کا ردِ عمل

    ماسکو: روس نے جی سیون ممالک کے سربراہی اجلاس پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو سرد جنگ کے منصوبوں کی طرف لوٹ رہا ہے، اس پر روس جوابی کارروائی کرے گا۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق روس نے کہا ہے کہ نیٹو کا تازہ ترین سربراہی اجلاس یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغربی فوجی اتحاد ’’سرد جنگ کے منصوبوں‘‘ کی طرف لوٹ رہا ہے، لیکن ماسکو اس طرح کے خطرات کا جواب دینے کے لیے ہر طرح سے تیار ہے۔

    روسی وزارت خارجہ نے بدھ کے روز دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ امریکا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور برطانیہ کے اعلامیے کا ہدف روس ہے، روس تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے مناسب اور بروقت جواب دے گا۔

    جی 7 ممالک نے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی بھرپور مدد کا اعلان کر دیا

    بدھ کو لیتھوانیا میں نیٹو کے دو روزہ سربراہی اجلاس کے اختتام پر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ’’زمین اور طاقت کی ہوس‘‘ ہے، اسی ہوس نے یوکرین پر اپنی وحشیانہ جنگ چھیڑ دی ہے، روس نے غلط اندازہ لگایا تھا کہ اس جنگ سے نیٹو ٹوٹ جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ نیٹو اپنی تاریخ میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط، زیادہ متحرک اور زیادہ متحد ہے۔

    یوکرین کا کیا کرنا ہے؟ روسی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی فون پر گفتگو

    روسی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ نیٹو اجلاس کے نتائج، اور روس کی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہ غور تجزیہ کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا مغربی طاقتوں نے دنیا کو جمہوریتوں اور مطلق العنانیت میں تقسیم کیا، اور اپنے لیے دشمن کی تلاش کا مقصد بس روس ہی تھا۔

  • نیٹو سربراہ نے روس کے ساتھ براہ راست بڑی جنگ کا خدشہ ظاہر کر دیا

    نیٹو سربراہ نے روس کے ساتھ براہ راست بڑی جنگ کا خدشہ ظاہر کر دیا

    کیف: نیٹو سربراہ نے روس کے ساتھ براہ راست بڑی جنگ کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے، اس سے قبل پیوٹن نے بھی ایٹمی جنگ کے بڑھتے خطرے سے خبردار کیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس اور نیٹو کے درمیان براہ راست بڑی جنگ کا خدشہ بڑھنے لگا ہے، نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کنٹرول سے باہر ہوتی نظر آ رہی ہے۔

    جمعہ کو جاری کردہ ایک انٹرویو کے مطابق، نیٹو کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ یوکرین میں لڑائی قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور روس اور نیٹو کے درمیان جنگ بن سکتی ہے۔

    جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے ناروے کے نشریاتی ادارے این آر کے کو ریمارکس میں کہا کہ ’’اگر چیزیں غلط ہوتی ہیں تو وہ بھیانک حد تک غلط ہو سکتی ہیں۔‘‘

    نارے کے سابق وزیر اعظم اسٹولٹن برگ نے کہا یوکرین میں جنگ کا ایک بھیانک محاذ کھل چکا ہے، اور یہ نیٹو اور روس کے درمیان ایک بڑی جنگ میں بدل سکتی ہے، اور ہم اس جنگ سے بچنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور اسے چھپانا غلط ہوگا۔

    کریملن نے بارہا نیٹو اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کر کے، اس کے فوجیوں کو تربیت دے کر اور روسی افواج پر حملہ کرنے کے لیے ملٹری انٹیلیجنس فراہم کر کے مؤثر طریقے سے تنازع کا فریق بن رہے ہیں۔

  • ترکی نے فن لینڈ اور سوئیڈن کو نیٹو میں شامل کرنے کی حامی بھرلی

    ترکی نے فن لینڈ اور سوئیڈن کو نیٹو میں شامل کرنے کی حامی بھرلی

    برسلز : شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم نیٹو (شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) میں شامل ہونے کیلئے ترکی نے فن لینڈ اورسوئیڈن کی درخواست قبول کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی نے بالآخر نیٹو میں شمولیت کے لیے سویڈن اور فن لینڈ کی طرف سے بھیجی گئی درخواستوں کو منظور کرلیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق ترکی نے اس سے قبل تنظیم میں ان ممالک کی شمولیت کے بارے میں عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا جس کی وجہ ان ممالک کی جانب سے کرد انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی نہ کرنا ہے۔

    ترکی کا خیال تھا کہ اگر یہ نیٹومیں شامل ہوگئے تو یہ قومی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی واضح اور شفاف پالیسی نہیں ہے۔

    سویڈن اور فن لینڈ ترکی کی حمایت کے بغیر ناٹو میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ ناٹو کے کسی بھی فیصلے کے لیے تمام 30 رکن ممالک کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

    تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ترکی کے ساتھ ایک مشترکہ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں سویڈن اور فن لینڈ کو ناٹو میں شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

    ناٹو کے سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے کہا کہ سویڈن نے مشتبہ دہشت گردوں کی حوالگی کے لیے ترکی کی درخواست کو قبول کر لیا ہے اور اس پر تیزی سے کارروائی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں نارڈک ممالک ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندیاں بھی اٹھا لیں گے۔

    فن لینڈ کے صدر نینیستو نے کہا کہ تینوں ممالک نے ایک دوسرے کی سلامتی کو لاحق خطرات کے خلاف مکمل تعاون فراہم کرنے کے لیے ایک مشترکہ یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔

    سویڈن کی وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے کہا کہ یہ ناٹوکے لیے ایک بہت اہم قدم ہے اور ترک صدر رجب طیب اردگان کے دفتر نے بھی کہا کہ انہیں سویڈن اور فن لینڈ سے جو کچھ چاہیے تھا وہ مل گیا ہے۔

  • روس یوکرین جنگ کب ختم ہوگی؟ نیٹو سربراہ کی پیش گوئی

    روس یوکرین جنگ کب ختم ہوگی؟ نیٹو سربراہ کی پیش گوئی

    ماسکو : نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) نے روس اور یولرئین کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے بیان دے کر دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا۔

    اس حوالے سے نیٹو سربراہ ینس اسٹولٹن برگ نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ طویل المدت ہوسکتی ہے اور اگلے کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

    جرمن میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینس اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ ہمیں اس حقیقت کے لیے تیاری کرنی چاہیے کہ اس جنگ میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

    یوکرین میں جاری جنگ طویل ہو سکتی ہے، نیٹو

    نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے سربراہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپی کمیشن کی جانب سے یوکرین کو یورپی یونین کے امیدوار کا درجہ دینے کی تجویز کے بعد روس نے یوکرین پر حملے تیز کردیے ہیں۔

    روسی حکام بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں یوکرین میں امریکہ اور یورپ کی نیابت میں لڑی جانے والی جنگ کا سامنا ہے، روس پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ نیٹو کی جانب سے یوکرین کی حمایت سے روس کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

    امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی جنگ یوکرین میں براہ راست مداخلت سے گریز کر رہے ہیں تاہم دنیا بھر سے جنگجو، ہتھیار اور ایندھن کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

  • روس کا امریکا اور نیٹو سے بڑا مطالبہ

    روس کا امریکا اور نیٹو سے بڑا مطالبہ

    ماسکو: روس نے امریکا اور نیٹو سے یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے شنہوا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا اور نیٹو بحران کو حل کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں تو یوکرین کو مسلح کرنا بند کر دیں۔

    چین کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ روس کے وزیر خارجہ نے ایک بار پھر امریکا اور نیٹو پر زور دیا ہے کہ اگر وہ ‘واقعی یوکرین کے بحران کو حل کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں’ تو انھیں بیدار ہونا چاہیے اور وہ کیف کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دیں۔

    الجزیرہ کے مطابق امریکا اور کئی یورپی ممالک نے روسی جارحیت کے خلاف جنگ میں یوکرین کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے کانگریس سے یوکرین کی مدد کے لیے 33 ارب ڈالر کی درخواست کی ہے۔

    ماسکو نے بارہا واشنگٹن کو کیف کو فوجی امداد جاری رکھنے کے خلاف خبردار کیا ہے، اور امریکا پر جنگ کے ‘شعلوں پر تیل ڈالنے’ کا الزام لگایا ہے۔ کریملن نے اس سے قبل یوکرین کو مغربی ہتھیاروں کی فراہمی کو یورپی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔

    واضح رہے کہ ماسکو کیف پر جلد قبضے کے ہدف میں ناکامی کے بعد اب یوکرین کے مشرقی ڈونباس علاقے میں کارروائیاں تیز کر رہا ہے، تاہم لاوروف نے کہا کہ خصوصی فوجی آپریشن منصوبہ بندی کے مطابق سختی سے جاری ہے۔

    واضح رہے کہ چین نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے اور ماسکو کے ساتھ اپنی مضبوط دوستی کا دفاع کیا ہے، سرکاری میڈیا پر اکثر جنگ پر روسی مؤقف کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

  • نیٹو اتحاد میں شامل ملک میں روس کی حمایت میں مظاہرہ

    نیٹو اتحاد میں شامل ملک میں روس کی حمایت میں مظاہرہ

    روم: اٹلی کی عوام مشرقی یورپ میں نیٹو کے توسیع پسندانہ اقدام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑا مطالبہ کردیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اٹلی کے دارالحکومت روم میں نیٹو کے خلاف اور روس کی حمایت میں بڑا مظاہرہ ہوا جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

    مظاہرین نے نیٹو کے اشتعال انگیز اقدامات کو یوکرین میں جنگ چھڑنے کی وجہ قرار دیا اور یوکرین میں فوری جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

    مظاہرے میں شامل افراد کا کہنا تھا کہ امریکہ سمیت نیٹو کے رکن ممالک یوکرین کو اسلحے کی سپلائی کے ذریعے جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: روس یوکرین جنگ سے متعلق امریکا کی ایک اور پیش گوئی

    مظاہرین نے امریکا کی پیروی میں یوکرین کو فوجی سازوسامان بھیجنے پر حکومتی اقدامات کی مذمت کی اور اس اقدام کو ملک کے آئین اور قومی مفاد کے خلاف قرار دیا، اس کے علاوہ ریلی میں شامل افراد نے اٹلی میں امریکا سمیت نیٹو کی فوجی چھاونیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

    ادھر امریکی جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روسی جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے، ایسے میں یوکرین کی مدد کرنے والے امریکا اور دیگر ممالک بھی اس جنگ میں کچھ عرصے تک شامل رہیں گے۔

    خیال رہے کہ روسی حملے سے بہت قبل امریکا بار بار کہہ رہا تھا کہ روسی افواج یوکرین پر بڑا حملہ کرنے والی ہیں۔

  • یوکرینی صدر کا نیٹو رکنیت سے متعلق بڑا اعلان

    یوکرینی صدر کا نیٹو رکنیت سے متعلق بڑا اعلان

    کیف: یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین فوجی تنظیم نیٹو میں شامل نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی زیر قیادت جوائنٹ ایکسپنڈیشنری فورس (جے ای ایف) کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین کے صدر نے کہا کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے، ہم نے برسوں سے سنا ہے کہ دروازے کھلے ہیں، لیکن ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ہم اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔

    انھوں نے کہا کہ یہ ایک سچائی ہے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے، واضح رہے کہ یوکرین پر حملہ کرنے سے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نیٹو کی اس کی رکنیت کو غیر معینہ مدت کے لیے مسترد کر دیا جائے۔

    یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے، اگرچہ اس نے با رہا کہا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اس میں شامل ہونا چاہتا ہے، کیف نے منگل کو کہا کہ وہ سمجھ گیا ہے کہ اس کے پاس نیٹو کی رکنیت کے لیے کوئی کھلا دروازہ نہیں ہے، اور اس لیے اب وہ دوسری قسم کی حفاظتی ضمانتوں کی تلاش میں ہے۔

    زیلنسکی نے ایک بار پھر مغربی اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ یوکرین کو جنگی طیارے فراہم کریں۔

    مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگرچہ نیٹو رکنیت سمیت روس کی جانب سے حملے کے جو جواز پیش کیے گئے ہیں، اور جس قوت سے روس حملہ آور ہوا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیوٹن یوکرین میں حکومت کی تبدیلی اور اس چھوٹے پڑوسی پر ایک ایسا مکمل غلبہ حاصل کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے، جسے چیلنج نہ کیا جا سکتا ہو۔

    دوسری طرف امریکا اور نیٹو کے دیگر ارکان نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ روس کے حملے سے لڑنے کے لیے یوکرین کی مدد کرتے رہیں گے، تاہم نیٹو کی اپنی سلامتی کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔ سفارت کاروں اور فوجی تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ نیٹو کے اتحادیوں نے 24 فروری کو حملے شروع ہونے کے بعد سے 20 ہزار سے زیادہ ٹینک شکن اور دیگر ہتھیار یوکرین کو بھیجے ہیں۔

  • یوکرین سرحد پر روسی فوج مزید بڑھادی گئی، نیٹو کا الزام

    یوکرین سرحد پر روسی فوج مزید بڑھادی گئی، نیٹو کا الزام

    برسلز : اتحادی افواج نیٹو کا کہنا ہے کہ روسی فوج سرحد سے واپس نہیں گئی بلکہ مزید بڑھا دی گئی ہے. اطلاعات کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع پر نیٹو نے روسی افواج کی واپسی کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے روس پر فوجی دستے بڑھانے کا الزام عائد کردیا۔

    نیٹو اور امریکا دونوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج کا جزوی یا واضح انخلا دیکھنے میں نہیں آیا لیکن کریملن سے سفارت کاری جاری رکھنے کے اشارے ملے ہیں۔

    یوکرین کے وزیر دفاع کا کہنا ہے ملک میں سیکورٹی صورتِ حال مستحکم ہے، دوسری جانب روس یوکرین کشیدگی میں کمی کے آثار کے بعد عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں 4 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔

    اس سے قبل ایک سینیئر امریکی اہلکار کے مطابق گذشتہ چند دنوں میں ہی روس کے سات ہزار اضافی فوجی یوکرین کی سرحد پر پہنچے ہیں اور روس کسی بھی وقت کوئی جھوٹا بہانہ بنا کر یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔

    روس کے عسکری حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات فوجیوں میں سے کچھ کو واپس بلا رہے ہیں۔

    روسی حکام کی جانب سے اس اعلان کو کشیدگی میں ممکنہ کمی کی جانب پہلے اشارے کے طور پر دیکھا گیا تھا تاہم مغربی ممالک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ابھی تک روسی فوجوں کے انخلاء کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

    واضح رہے کہ روس نے کرائمیا میں جاری فوجی مشقوں کے اختتام کا اعلان کردیا ہے، روسی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ ساودرن ملٹری ڈسٹرکٹ کے یونٹس اسٹریٹیجک مشقیں مکمل کرنے کے بعد مستقل تعیناتی کے مقام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ٹینک، گاڑیاں اور توپ خانہ ریل کے ذریعے کرائمیا سے روانہ ہو رہے ہیں۔ یوکرین کشیدگی پر ماسکو میں روسی صدر پوتن اور جرمن چانسلر اولف شولز کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔

  • بڑی خبر: نیٹو نے روس کے قریب افواج کو اسٹینڈ بائی کر دیا

    بڑی خبر: نیٹو نے روس کے قریب افواج کو اسٹینڈ بائی کر دیا

    ماسکو: روس یوکرین تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے، نیٹو نے روس کے قریب کسی بھی حملے کے لیے افواج کو اسٹینڈ بائی کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیٹو نے روس کے قریب بحری جہاز اور لڑاکا طیارے پہنچا دیے، اور افواج کو بھی پوری تیار کر لیا ہے۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے قریب روس کی جانب سے افواج کو جمع کرنے پر پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد نیٹو کے اتحادیوں نے بھی یورپ کے مشرقی دفاع کو تقویت دینے کے لیے افواج کو تیار کر کے بحری بیڑے اور لڑاکا طیارے بھیج دیے ہیں۔

    سیکورٹی اتحاد کا یہ اقدام، جس کا اعلان پیر کے روز کیا گیا، اس وقت سامنے آیا ہے جب برطانیہ نے یوکرین کے دارالحکومت کیف میں اپنے سفارت خانے سے عملے کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے کیوں کہ روسی حملے کا خدشہ برقرار ہے۔

    برطانیہ کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ "روس سے بڑھتے ہوئے خطرے” کے پیش نظر "سفارت خانے کے کچھ عملے اور ان کے گھر والوں” کو نکال رہا ہے، برطانیہ کے اس اقدام سے قبل امریکا نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

    واضح رہے کہ روس کی جانب سے اپنے پڑوسی ملک کے قریب 1 لاکھ فوجیوں کو جمع کرنے کے بعد یوکرین میں کشیدگی عروج پر ہے، مغرب کا کہنا ہے کہ ماسکو، جو کیف اور نیٹو کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے ناراض ہے، یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

    دوسری طرف کریملن نے بارہا دراندازی کی منصوبہ بندی کی تردید کی ہے، تاہم الجزیرہ کے مطابق روسی فوج نے پہلے ہی یوکرینی علاقے کا ایک حصہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا جب اس نے کریمیا پر قبضہ کیا، اور علیحدگی پسند قوتوں کی حمایت کی جنھوں نے 8 سال قبل مشرقی یوکرین کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

    ادھر یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی نے یورپی کونسل کے صدر چارلز مشیل اور یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے رہنماؤں کا روس کے ساتھ اپنے ملک کی کشیدگی کے دوران اظہار یک جہتی اور حمایت پر شکریہ ادا کیا ہے۔