Tag: Nawaz Sharif

  • وزیراعظم کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کوکھانا فراہم کرنیکی ہدایت

    وزیراعظم کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کوکھانا فراہم کرنیکی ہدایت

    اسلام آباد: شہراقتدارمیں وزیراعظم نوازشریف کی دسترخوان کی بساط بچھاکر دھرنے کے شرکا کوکھانے فراہم کرنے کی ہدایت کردی ۔ سیاست سیاست ہی ہوتی ہے۔ چاہے وہ آزادی مارچ کی ہو یا دسترخوان کی۔ وزیراعظم نوازشریف نےرات بھر بارش میں بھیگتے پی ٹی آئی دھرنے میں شریک ہم وطنوں کوطعام کی پیشکش کرڈالی جو اپنی اعلٰی قیادت کی بے رخی کا شکار ناشتے سے بھی محروم نظر آئے۔

    شہر اقتدارمیں وزیراعظم کی ہدایت کے بعد ممبر قومی اسمبلی طارق فضل اور اشرف گجرطعام کا بندوبست کرنے میں مصروف ہوگئے۔کھانے میں کیا ہوگا!کیا نہیں ۔اس بات سے ہٹ کر ن لیگ نے مخالف محاذ کو اپنا نے کی کوشش کی ہے۔ میاں صاحب نے ایسے وقت کھانے کی چال چلی جب دھرنے کی اعلیٰ قیادت شرکاء میں موجود نہیں۔

    ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے بعض کارکنان کپتان کے ٹیم کو چھوڑکر جانے پر خوش نظر نہیں آتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کی جانب سے بھیجا جانےوالاکھانا کھا یا جائے گا یا ن لیگ دسترخوان کی سیاست پر پی ٹی آئی کارکنان کو اپنا بنالے گی۔

  • پاکستان، جمہوریت اور آئین کوبچایا جائے، سراج الحق

    پاکستان، جمہوریت اور آئین کوبچایا جائے، سراج الحق

    لاہور: جماعت اسلامی نے سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے چار نکاتی فارمولہ پیش کردیا ، امیر جماعت سراج الحق کہتے ہیں حکومت احتجاج سے نمٹنے کے بجائے اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دے۔

    منصورہ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لئے انکی جانب سے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا جارہا ہے، فارمولے کے مطابق پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر کی قیادت میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی کمیٹی بنا ی جائے جبکہ حکومت احتجاج کرنے والوں کے ساتھ فوری مذاکرات شروع کرے۔

    سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی جانب سے ماورائے آئین اقدام پر دئیے جانے والے فیصلے پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ عدلیہ پہلے ان سے نمٹے جنھوں نے ماضی میں آئین توڑا، جماعت اسلامی کے امیر کا کہنا تھا کہ چار نکاتی فارمولے پر وہ حکومت اور تحریک انصاف کے رہنماﺅں سے رابطے میں ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ لانگ مارچ کے دوران اب گوجرانولہ جیسا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔

  • پتھراؤ کرنے والوں کی گرفتار کیا جائے،  وزیر اعلیٰ پنجاب

    پتھراؤ کرنے والوں کی گرفتار کیا جائے، وزیر اعلیٰ پنجاب

    لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گوجرانوالہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پتھراؤ کرنے والوں کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ افسوسناک واقعہ میں ملوث شر پسندوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ کسی کو امن سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شہباز شریف نے پاکستانی عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور مخالفین کی اشتعال انگیز باتوں پر کارکن ردعمل ظاہر نہ کریں۔

  • وزیر اعظم سے شہباز شریف اور چوہدری نثار کی ملاقات

    وزیر اعظم سے شہباز شریف اور چوہدری نثار کی ملاقات

    اسلام آباد : وزیر اعظم نواز شریف سے شہباز شریف اور چوہدری نثار نے ملاقات کی ، جس میں سیاسی صورتحال پر مشاورت کی گئی۔

    وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ار وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں وزیر اعظم سے ملاقات کی، جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، دونوں رہنماؤں نے اس سے قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی تھی۔

  • چاہے جیل جانا پڑےاسلام آباد جائیں گے، عمران خان

    چاہے جیل جانا پڑےاسلام آباد جائیں گے، عمران خان

    لاہور: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس فیصلے کی سمجھ نہیں آرہی۔

    عمران خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ہم کسی سے لڑنے اسلام آباد نہیں جارہے، ہمارا لانگ مارچ پرامن ہے،ہم غیرآئینی مارچ نہیں کریں گے، عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر انہیں جیل بھی جانا پڑے پھر بھی مارچ نہیں رکے گا،لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کی سمجھ نہیں آرہی، چیئرمین تحریک انصاف نے جاوید ہاشمی کی نارضگی پر کہا کہ جاوید ہاشمی کو تحفظات تھے تو مجھ سے بات کرتے، دھاندلی سے جیتنے والوں کی کوئی حیثیت نہیں۔

  • سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    لاہور: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے اہم ملاقات کہتے ہیں حالات کی بہتری میں پر امید ہوں اگر بات نہ سنی گئی تو پھر کسی نہ کسی کا چالان لازمی ہوگا۔

    وزیراعلی پنجاب شہبازشریف سے ماڈل ٹاؤن میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ بہت سی ایسی قوتیں سرگرم ہیں جو نہیں چاہتیں کہ حالات بہتر ہوں لیکن ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ عمران خان سے بھی ملاقات کی ہے اور شہبازشریف کے سامنے بھی ایجنڈا رکھا ہے میں ابھی تک مایوس نہیں امید ہے کوئی صورتحال نکل آئے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اگر روڈ پر ٹریفک حادثہ ہواتو پھر چالان بھی ہوتا ہے ، سراج الحق نے کہا کہ طاہر القادری صاحب سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ اپنے مطالبات مذاکرت کے ذریعے منوائیں اگر حالات خراب ہوئے تو پھر کسی کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے اور ذمہ داروہی قوتیں ہوں گی جو کسی سمجھوتے پرتیار ہونے کو راضی نہیں۔

  • عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    گو کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلابی ایجنڈا کافی وضاحت طلب ہے مگروہ عمران خان کے ایک یا دو نکاتی ایجنڈا سے زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کا سارا فوکس دھاندلی، صاف شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن کی تبدیلی پر مرکوز ہے ایسے میں ان کے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افتخار چوہدری کے جانے کے بعد عدلیہ مکمل طور پر غیر جانبدار یا پاک ہو کرایک مثالی عدلیہ بن چکی ہے؟موجودہ نظام عدل اور دستور پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ تو ہمیشہ سپریم ہی رہے گی توپھر اس بات کی بھی کیاگارنٹی ہے کہ آئندہ کبھی کوئی چیف جسٹس الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کریگا؟افتخار چوہدری بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ جو راستہ دکھاگئے ہیں اس کے اندھیرے میں آج نہیں تو کل پھر کوئی ایسا چیف جسٹس آ سکتا ہے جو اس بد مست ہاتھی کی بے انتہا طاقت کا ناجائز استعمال پھر سے شروع کر دے۔اس طاقت کے ناجائز استعمال کو کون کیسے روکے گا؟۔

    ہمارے دستور میں کسی بھی چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوئی دستوری نظیر موجود نہیں ما سوائے اس کے کہ جب بڑا ہاتھی چھوٹے ہاتھیوں کو دستور سمیت گھر بھیج دیتا ہے۔ان حالات میں آپ محض الیکشن کمیشن سے تمام توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں؟ تھوڑے دن پہلے تحریک انصاف کے ہی ایک ایم این اے علی خان صاحب یہ فرما رہے تھے کہ ان کی جماعت کے ایک ایم این اے کو ساٹھ ہزار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار تھے جو انھوں نے چندہ جمع کر کے پورے کئےتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگے نظام عدل سے آپ کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہو؟ جو بندہ ستر لاکھ دے کر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہا ہے اگر اسے انصاف مل بھی جائے تو وہ اس انصاف کے ملنے کے بعد کیا ایمانداری دکھائے گا؟جہاں محض ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار ہوں وہاں عوام کی حکمرانی کیسے ممکن ہے؟جمہور کا لیڈر ستر لاکھ سے کم حیثیت کا مالک نہ ہو اس سے زیادہ جمہوریت کی اور کیا توہین ہوگی؟اس سے زیادہ عدل کی کیا توہین ہوگی؟میرے خیال میں تو ایسا عدل اور دستورخود ایک توہین سمجھا جائے گا جو اس طرح کی شرط رکھے گا۔

    میڈیا سے لے کرہر سطحی سوچ کا مالک پاکستانی ہر وقت کرپشن کا راگ الاپتا رہتا ہے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس کی جڑیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔نظام عدل کی کمزوری نظام کی بنیادی ترین خرابیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں کرپشن کے سورج کو کبھی غروب نہیں ہونے دیتی۔اراکین الیکشن کمیشن کتنے ہی غیر جانبدار کیوں نہ ہوں لیکن وہ کوئی ولی پیغمبر تو نہ ہونگے۔یہاں دلوں کے حال کون جانتا ہے؟کیا بھٹو صاحب نے ضیاءکو آرمی چیف بناتے ہوئے سوچا تھا کہ وہ انھیں تختہ دار تک لے جائے گا؟ کیا میاں صاحب نے مشرف کے بارے میں سوچا تھا کہ وہ انھیں ملک سے ہی نکال دے گا؟کیا خود جنرل مشرف نے یہ سوچا تھا کہ محترمہ اور شریف برادران کو واپسی کی اجازت دینے اوردرجنوں نیوز چینلز کولائسنس اور ڈھیر ساری آزادی دینے کے بعد اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا؟بہترنظام کی جڑیں کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت ورترین اداروں میں پنہاں ہوتی ہیں لہٰذا اداروں میں اصلاح کے بغیر بہتری کی کوئی گنجائش اورکوئی اُمید نہیں نکلتی۔اسی وجہ سے خان صاحب کے موجودہ مطالبات سے کسی تبدیلی یا نئے پاکستان کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

    طاہرالقادری کا ایجنڈا نظام عدل اور سستے انصاف کے حوالے سے نسبتا زیادہ واضع محسوس ہوتا ہے۔تاہم وہ بھی یہ واضع نہیں کرپاتے کہ موجودہ اعلی عدلیہ اور اس کے ججوں کے ساتھ یہ خواب کیسے ممکن ہے؟جبکہ افتخار چوہدری صاحب اپنی رخصتی سے پہلے بہت سے پسندیدہ افراد کو اعلی عدلیہ کا حصہ بنا گئے ہیں۔

    علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر معروف الزامات کچھ اس طرح کے ہیں۔”طاہرالقادری جھوٹ بہت بولتے ہیں“تو کیا میاں برادران اور دیگر سیاسی و مذہبی قیادت جھوٹ نہیں بولتی؟”طاہرالقادری لالچی ہیں “ کیا دیگر سیاسی و مذہبی قیادت لالچی نہیں ہے؟رہی بات قادری صاحب سے کوئی بڑی اُمید رکھنے کی تو وہ یقینا درست نہ ہوگی۔ وہ ایک مخصوس مذہبی فکر کے ترجمان ہیں اور مولوی کے لیبل کے نیچے پاکستان میں کبھی بھی مقبول سیاسی قیادت کے طور پر سامنے نہیں آسکتے۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ ریاست کے بعض بڑے معروف اور مقتول طبقات کی آواز بن کر ابھرے ہیں۔میرے نزدیک یہ ان کی بڑی کاوش ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کیونکہ ریاست یا ریاستی ادارے ان مظلوم طبقات کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ وہ اُلٹا ایسے گروہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ملوث ہیں کہ جو ان مظلوم طبقات کے قتل میں شامل ہیں۔

    اگر کسی میں تھوڑی سی بھی معاملہ فہمی ہو تووہ بآسانی یہ حقیقت جان سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو شہید ماننے والی جماعت اسلامی اب دستور کی باتیں کیوں کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی حکومت اور تحریک انصاف میں مفاہمتی کردار ادا کرنے کے لیے کیوں تیار ہو گئی ہے؟ کارکن عوامی تحریک کے مارے جا رہے ہیں مگر جماعت کی مفاہمتی کوششیں صرف تحریک انصاف اور حکومت تک محدود ہیں۔اس متعصب معاشرے کی ہر بدبودار گہرائی میں کہیں نہ کہیں فرقہ واریت کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم دوسرے کو جانے بغیریا آدھی بات سن کر حمایت یا مخالفت شروع کر دیتے ہیں ۔تحقیق کے بغیر لوگوں کو مکمل ہیرو یا ولن مان لیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی اکثریت کو افتخار چوہدری کی حمایت پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی طرح سے آصف زرداری کی حد سے زیادہ غیر معقول مخالفت بھی بہت سے لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔دوسری طرف ہمارے روشن خیال طبقات کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک طرف تو ہر طرح کے مولوی کو نفرت و معاشرتی برائی کا استعارہ تعبیر کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اسے مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے اس سے پیغمبرانہ صفات کے متقاضی نظر آتے ہیں۔قادری صاحب نے آج تک مولویوں والی بات نہیں کی۔وہ اسی بے دست و پا دستور کے حوالے دیتے ہیں۔انھوں نے کبھی اپنی پسند کی شریعت کے نفاذ کا بھی نہیں کہا۔ان کے مذہبی چہرے سے ہٹ کر وہ تمام پاکستانی مولویوں یا ان سیاستدونوں سے بہتر ہی محسوس ہوتے ہیں کہ جو آج تک یو ٹیوب پر پابندی بھی ختم نہیں کرسکے۔ پاکستان کا دستور اور ریاست ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ہاں ان کا باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عملدرآمد کا مطالبہ زمینی حقائق کے منافی تھااوراس پر وہ خودبھی شاید پورے نہیں اتر سکتے۔لیکن کیا کسی نے باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عمل کیا یا کروایا؟ کیا اٹھارہویں ترمیم پاس کروانے والوں نے جنرل ضیا کی ڈلوائی ہوئی اس شق کوختم کرنے کی کوشش کی؟اگر باسٹھ ،تریسٹھ درست ہے تو اس پر عمل کرو نہیں تو اس کو باہر کرو یہ منافقت اور جھوٹ کا رویہ اور پھر آئین کی پاسداری کے دعوے۔ یہ سب کیا ہے؟

    دوسری طرف بعض لبرل اور جمہوریت پسندلوگ طاہرالقادری کے تازہ بیانات کے بعد ان کے لیے طرح طرح کی سزائیں تجویز کر رہے ہیں۔میرا ان سب سے سوال ہے کہ آج تک آپ نے مولانا صوفی محمد اور مولانا عبدالعزیز جیسے لوگوں کا کیا بگاڑ لیا ہے جو آپ طاہرالقادری کو مجرم گردان کر سزا کی سفارشات مرتب کر رہے ہیں؟آپ کون سے آئین اور کیسی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟ایک فکر کے لوگ گزشتہ تین دھائیوں سے ریاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ،ان کے مدرسوں میں ہر طرح کے جہادی تیار ہوتے ہیں۔ ایکسپورٹ بھی ہوتے ہیں اور ملک میں بھی کام آتے ہیں۔اس بیمار ریاست اور اس کے اپاہج دستور نے کیا بگاڑ لیا؟ کیا ریاست نے حکیم اللہ محسودکو شہید کہنے والے منور حسن پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا؟ہم اتنے اندھے کانے اور متعصب کیوں ہیں کہ ہم انصاف کو برابری اور غیر جانبداری کی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں پاتے؟ہمیں عمران خان یا طاہرالقادری کے طرز سیاست یا دیگر نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔

  • وزیر اعظم نواز شریف آج قوم سے خطاب کریں گے

    وزیر اعظم نواز شریف آج قوم سے خطاب کریں گے

    اسلام آباد : وزیراعظم نواز شریف آج قوم سے خطاب کریں گے، جس میں وزیراعظم ملک کی سیاسی صورتحال پر قوم کو اعتماد میں لیں گے۔

    وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اپنے خطاب میں حکومت کی کارکردگی قوم کے سامنے رکھیں گے اور سیاسی صورتحال پر قوم کو اعتماد میں لیں گے، وزیر اعظم کے خطاب کا وقت رات آٹھ بجے طے ہوا ہے، وزیر اعظم یہ خطاب ایسے وقت کر رہے ہیں جب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک آزادی اور انقلاب مارچ کرنے جا رہی ہیں۔ عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے اور وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بات چیت کی پیشکش مسترد کر رکھی ہے۔

  • طاہر القادری سے انتخابی انقلاب کی بات کی جائے گی، عمران خان

    طاہر القادری سے انتخابی انقلاب کی بات کی جائے گی، عمران خان

    لاہور: عمران خان کہتے ہیں طاہر القادری سے انتخابات کے ذریعے انقلاب کی بات کی جائے گی، چودہ اگست کے بعد وہ خود وزیراعظم کو ملاقات کی دعوت دیں گے۔

    چودہ اگست کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ ساتھ ساتھ ہوگا اور عمران خان نے آزادی مارچ کے بعد اپنی پہلی ترجیح بھی بتا دی،تحریک  انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں یہ پورے پاکستان کی آزادی کا معاملہ ہے۔ علامہ طاہر القادری سے بات کی جائے گی کہ وہ انتخابی انقلاب کے ذریعے اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگیوں میں انقلاب لائیں۔

    عمران خان علامہ طاہر القادری سے انتخابی عمل میں اصلاحات کی بات کریں گے، کپتان پہلے ہی کہہ چکے ہیں وزیراعظم نواز شریف کے استعفے اور وسط مدتی انتخابات کے مطالبات کی منظوری تک وہ اسلام آباد میں بیٹھے رہیں گے،عمران خان کہتے ہیں چودہ اگست کے بعد وہ خود وزیراعظم کو ملاقات کی دعوت دیں گے۔

  • عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے کیلئے لاہور پہنچ گئے

    عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے کیلئے لاہور پہنچ گئے

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے کیلئے لاہور پہنچ گئے ہیں۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آزادی مارچ کی قیادت کرنے لاہور پہنچ گئے،زمان پارک برقی قمقموں سے جگمگا اٹھا پرجوش کارکنوں نےاپنےقائدکا استقبال بھی پرجوش اوروالہانہ کیا، عمران خان جب بنی گالہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے نکلے،توان گاڑیوں کا قافلہ بھی ساتھ نکلا،پرجوش کارکن اپنے قائد اور آزادی مارچ کیلئے نعرے لگاتے رہے، پولیس اسکواڈ سیکیورٹی دیتا رہا، گاڑی میں بیٹھے عمران خان کا پر اعتماد چہرہ چودہ اگست کے آزادی مارچ کی کہانی بتارہا تھا، ہشاش بشاش عمران خان کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے رہے۔

    PTI-PMLN

    دوسری جانب عمران خان کے لاہور پہچنے سےقبل لاہورکازمان پارک اکھاڑا بن گیا، زمان پارک لاہور میں عمران خان کی رہائش کے باہر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے کارکن آمنے سامنے آگئے  پتھراؤ اور جوابی پتھراؤسے کشیدگی پھیل گئی لیکن معاملہ وقتی طور پر ٹل گیا۔

    آزادی مارچ سےقبل تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد جانے کیلئے پرجوش ہیں، تو ن لیگ والے بھی موقع کی کھوج میں ہیں، مقابلہ سخت،اور فضاؤں میں کشیدگی پھیل چکی ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے سیاسی قیادت نے افہام و تفہیم کا مظاہرہ نہ کیا،تو نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔