پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے منفی پروپیگنڈا اور پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے بیان جاری نہ کرنے پر ایک طویل بحث نے جنم لیا۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں وزیر اعظم کے مشیر اور ن لیگ کے مرکزی رہنما رانا ثنااللہ نے تفصیلی جواب دیا اور اس کی وجہ بھی بیان کی۔
میزبان انیقہ نثار نے سوال کیا کہ سرحدی کشیدگی کے دوران جب بھارت نے جنگ مسلط کی تو پاکستان نے بھارت کو تگڑا جواب دیا اس کے ساتھ حکومت اور سفارتی نمائندوں کی جانب سے بھی مضبوط مؤقف سامنے آیا لیکن میاں نواز شریف کی جانب سے ایسا کوئی سخت بیان سامنے کیوں نہیں آیا؟
اس کے جواب میں رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میاں نواز شریف اس معاملے کو پورا ٹیک اوور کرلیتے اور روزانہ بیان جاری کرتے تو مخالفین کی جانب سے ان پر تنقید پھر بھی ہونا تھی پھر لوگ یہ کہتے کہ وزیر اعظم شہباز شریف تو چپ ہیں وہ تو سامنے ہی نہیں آرہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میاں نواز شریف خاموش پھر بھی نہیں تھے انہوں نے پیچھے رہتے ہوئے وفاق اور حکومت پنجاب کی رہنمائی کی اور مشورے دیئے۔
وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ دنیا نے تنقید تو ہر صورت میں کرنا ہوتی ہے، بہرحال نواز شریف کی اس حکمت عملی نے اچھا تاثر چھوڑا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ جنگ بندی برقرار رہنی چاہیے اور عالمی برادری کو بھارت پر دباؤ رکھنا چاہیے، مودی کا جیسا ماضی ہے ہمیں زیادہ توقعات بھی نہیں، ہمیں تیاری رکھنی چاہیے، جنگ بندی کرانے والوں پر ذمہ داری ہے کہ بھارت پردباؤ برقرار رکھے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دوبارہ بھارتی جارحیت ہوتی ہے تو پاکستان پھر سے بھرپور اور منہ توڑ جواب دے گا، پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، بھارت نے جعلی خبریں پھیلائی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت نے پہلے بھی جارحیت کی اور عالمی سطح پر پروپیگنڈا کیا، اس مرتبہ بھارتی جارحیت کو عالمی سطح پر ناپسند کیا گیا ہے، پاکستان کو سفارتی سطح پر بھارت پر واضح کامیابی رہی ہے۔
اسلام آباد : جے یو آئی ف کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان جس اسمبلی کو جعلی کہتے تھے وہاں سے صدارتی الیکشن لڑا ان کے بیٹے بھی وہیں موجود ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کے دوران چوہدری شجاعت کے ساتھ چند لوگوں سے ملے تھے وہ صرف اتنا ہی بتادیں کہ وہ لوگ کون تھے جن سے ملے تھے یا جنہوں نے یہ کہا تھا کہ مارچ تک عمران خان کو نکال دیں گے، ایک طرف استعفے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن نہیں لڑیں گے۔
حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اسمبلی کو جعلی کہتے تھے، انہوں نےاسی اسمبلی سے نوازشریف کے ایک فون پر صدارتی الیکشن کیوں لڑا؟ اسمبلی کو جعلی کہتے ہیں تو ان کے بیٹے وہاں اب تک کیوں موجود ہیں؟ پارٹی کا اجتماعی فیصلہ ہوا کہ مولانا صدارتی الیکشن نہیں لڑیں گے لیکن اجلاس کے بعد مولانا کو فون آتا ہے اور وہ صدارتی الیکشن لڑتے ہیں۔
مولانا ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم اس لیے ناراض ہوئے کہ ہمیں سینیٹ ٹکٹ نہیں دیا گیا، ہم تو چاہتے ہیں جے یو آئی ف میں بھی الیکشن شفاف ہونے چاہئیں، پانی سر سے اونچا ہوجائے تو یقیناً لوگ بولیں گے، ہم کوئی الگ پارٹی یا گروپ نہیں بنائیں گے، ہم پارٹی دستور کے مطابق ہی پارٹی کو چلانے کی کوشش کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں جے یو آئی ف کے رہنما کا کہنا تھا کہ اب تک جو بھی گفتگو کی نوازشریف کی تقریر کیخلاف کی، نوازشریف نے فوج کو بغاوت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، ان کی گفتگو پی ڈی ایم کے بیانیے میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی جے یوآئی نوازشریف کی فوج سے متعلق اس گفتگو پر اتفاق رکھتی ہے، میں نے فضل الرحمان یا نوازشریف کیخلاف گفتگو نہیں کی، مجھے شوکاز دیا گیا اور پھر فوری طور پر پارٹی سے بھی نکال دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے جو فوج کیخلاف گفتگو کی وہ درست نہیں تھی کیونکہ وہ خود جنرل جیلانی کی پیداوار تھے اور انہیں ضیاالحق لے کر آئے تھے، نوازشریف زندگی کے اس حصے میں آکراسٹیبلشمنٹ کیخلاف ہوگئے، اب وہ کہتے ہیں کہ میں بدل گیا ہوں اور ووٹ کوعزت دو، نوازشریف نے پرویزمشرف کے ساتھ بھی10سال کی ڈیل کی تھی۔
حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بناکر عالمی طاقتوں کے ذریعے باہر کیوں گئے؟ نواز شریف بدل چکے تو خواجہ آصف فون کرکے کیوں کہتے کہ میں ہار رہا ہوں، واقعی کسی میں جرات ہے تو لندن میں چھپ کرنہ بیٹھے، میدان میں آئے ہم ساتھ ہیں، ہمیں بلا کرایک بار نہیں تین بار دھوکا کیا گیا، مولانا فضل الرحمان ایسے لوگوں کو کیوں نہیں روکتے، جمہوریت کسی کی میراث یا جاگیر نہیں ہے۔
اسلام آباد : وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف سے ملاقات کرکے رواں صدی کا سب سے بڑا یوٹرن لیا ہے، آج بھٹو کے خون پر میثاق صلح ہوگیا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراطلاعات فواد چوہدری کا چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی جیل میں نوازشریف سے ملاقات پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کیا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آج ذوالفقارعلی بھٹو کے نواسے کی ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے سے ملاقات ہوئی ہے، بلاول بھٹو زرداری کی یہ ملاقات رواں صدی کا سب سے بڑا یوٹرن ہے، آج بھٹو کے خون پر میثاق صلح ہوگیا۔
وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ ن لیگ سے مایوس نوازشریف کا ملاقاتی اب بلاول ہی رہ گیا ہے، دو سیاسی مایوسوں کی ملاقات سے مایوسی ہی برآمد ہوئی، بلاول بھٹو زرداری خود کو سیاسی مزار کا مجاور دکھا کر سیاسی میلہ لوٹنا چاہتے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف اپنی پارٹی سے بڑے نالاں ہیں، ان کی صحت پر سیاست خود اپوزیشن قائدین کر رہے ہیں، اپوزیشن نہیں چاہتی نوازشریف جلد صحت مند ہوں یا ان کا بروقت علاج ہو۔
اسلام آباد : پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ سزا کے بعد نواز شریف کا وطن واپس آنا ان کی مجبوری ہے، یہ انتخابات کو متنازع بننا چاہتے ہیں۔
یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں ایون فیلڈ فیصلے پر رد عمل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، شیری رحمان نے کہا کہ مقدمے میں نواز شریف قانونی طور پر اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے، مریم اور نوازشریف کا وطن واپس آنا ان کی مجبوری بن گیا ہے، نواز شریف انتخابات کو متنازع بننا چاہتے ہیں.
ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف نے نظام، پارٹی اور خود کو مشکل میں ڈال دیاہے، وہ اس معاملے کو سیاسی کیس بنانا چاہتے ہیں، وہ اپنے ساتھ اپنےبھائی شہباز شریف کو بھی مشکل میں ڈالیں گے کیونکہ ن لیگ نے اس معاملے کو اپنی ذات کی جنگ سمجھا۔
ایک سوال کے جواب میں شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ن لیگ تتر بتر ہو چکی ہے، نواز شریف نے ووٹ کی عزت کو بے توقیر کیا۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو دس سال قید اورجرمانے کی سزا سنادی ہے جبکہ مریم نواز کو سات سال قید مع جرمانہ جبکہ کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنادی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر دس سال تک سیاست کیلئے نااہل ہوچکے ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد :سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کافیصلہ سنا دیا ہے جس کی رو سے نوازشریف ن لیگ کی صدارت کے لئے بھی نااہل ہوچکے ہیں اور ان کے بحیثیت پارٹی صدر تمام فیصلے بھی کالعدم قرار پا گئے جس میں سینیٹ کے ٹکٹ بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت بعد چیف جسٹس نے فیصلہ سنا دیا، فیصلے کے تحت سابق وزیر اعظم نوازشریف پارٹی صدارت سے نا اہل قرارپا گئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے تاریخ کے اہم انتخابی اصلاحات کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ2017 کی شق203 میں ترمیم کالعدم قرار دے دی، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نااہل شخص پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا، اٹھائیس جولائی کے بعد نوازشریف کے کیے گئے فیصلے کالعدم تصور کیے جائیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی تھی۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے سب سے پہلے ریمارکس دیئے کہ طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو نوازشریف کا نام بطور پارٹی صدر ہٹانے کا حکم بھی جاری کردیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 28 جولائی 2017 کو وزیراعظم کو نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے کے بعد نہ صرف یہ کہ نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے برطرف ہوگئے تھے بلکہ انتخابی اصلاحات کی شق نمبر کے تحت پارٹی کی صدارت کرنے کے بھی اہل نہیں رہے تھے جس کے باعث مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار یعقوب کو صدر منتخب کرلیا گیا تھا۔
نااہل شخص کو پارٹی صدر بنوانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اپنی عددی اکثریت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 2 اکتوبر 2017 کو قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل شق نمبر 203منظور کروا یا تھا جس کے بعد نواز شریف کو دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کرلیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں پولیٹیکل پارٹی آرڈر سال 2002 میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کوئی بھی ایسا شخص پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا جب تک وہ رکن قومی اسمبلی بننے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔
کیس کی سماعت اور چیف جسٹس کے ریمارکس
قبل ازیں سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم فریق نہیں ہیں، ہم کسی کو وضاحت دینے کے پابند نہیں. ہم نے کسی رکن پارلیمنٹ کو چور ڈاکو نہیں کہا عدالتی کارروائی سے متعلق تمام ریکارڈنگ موجود ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں میں بھی انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں، ہمارے ہاں مختلف صورتحال ہے، پارٹی سربراہ کے گرد ساری چیزیں گھوم رہی ہوتی ہیں۔
اس موقع پر بیرسٹرفروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اخلاقی اقدار بنیادی نکتہ ہے، سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف عدالت کا فیصلہ موجود ہے۔
دوران سماعت بابر اعوان ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے ٹکٹ نااہل شخص نے جاری کئے ہیں، لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کا اختیار عدالت کو عوام نے دیا۔
سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے، مذکورہ تحریری فیصلہ پانچ صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نےجاری کیا ہے۔
فیصلے کے مطابق آئین کے آرٹیکل62،63کے تحت نااہل شخص پارٹی کی صدارت کا اہل نہیں ہوسکتا، نااہلیت آرٹیکل62، 63کے تحت قابلیت بحال ہونے تک برقرار رہے گی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نااہل شخص کے تمام اقدامات اوراحکامات کالعدم تصور ہوں گے، اس کے علاوہ نااہل شخص کی جانب سےبحیثیت سربراہ جاری دستاویزات بھی کالعدم قرار دے دی گئیں ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس شخص کے اقدامات اور احکامات سے متعلق ایسا تصورکیا جائے گا کہ جیسے یہ کام ہوئے ہی نہیں ہیں۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن کو اپنے ریکارڈ سے نوازشریف کا نام بطور پارٹی صدر ہٹانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انتخابی اصلاحات کیس2017 کا پس منظر
آئینی طور پر نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کے عہدے کا اہل نہیں ہوسکتا، پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نواز شریف وزیراعظم کے عہدے کے ساتھ پارٹی صدر کے لئے نااہل ہوگئے۔
سابق نااہل وزیراعظم کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اکتوبر2017 میں انتخابی اصلاحات ایکٹ2017 کی شق203میں ترمیم کی۔ پارلیمنٹ سے نئے بل کی منظوری کے بعد نواز شریف3اکتوبر کو پارٹی صدر منتخب ہوگئے۔
میاں نواز شریف کے پارٹی صدر بننے اور پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری کے بعد تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں اس کیخلاف درخواستیں دائر کی گئیں تھیں۔
یکم جنوری 2018 کو عدالت نے درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیا، بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
کیس کی سماعت کے دوران عوامی مسلم لیگ کی جانب سے فروغ نسیم، تحریک انصاف کی جانب سے بابر اعوان اور پیپلز پارٹی کی جانب سے لطیف کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
لندن: نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا، نوازشریف اور ان کے بچے کلثوم نواز کو لیکرگھر روانہ ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق گلے کے کینسر کے عارضے میں مبتلا نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو ان کی تیسری بار سرجری کرنے کے بعد ہارلی اسٹریٹ کلینک سے فارغ کردیا گیا، وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ اسپتال سے رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوگئیں۔
اس موقع پر میڈیا سے بہت مختصر گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے، لندن سے ملنے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی تیسری سرجری بھی کامیاب رہی ہے جس بعد انہیں گھر منتقل کیا جارہا ہے۔
کلثوم نواز کے صاحبزادے حسین نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی والدہ کی مزید رپورٹس آنا باقی ہیں ، قوم سے دعاﺅں کی درخواست ہے۔
Just brought Ami home. She is Alhamdolillah recovering well after her 3rd surgery. Jazak’Allah for your valuable prayers.
واضح رہے کہ گلے کے کینسر میں مبتلا بیگم کلثوم نواز لندن میں زیر علاج ہیں، کینسر کی تشخیص کے بعد بیگم کلثوم نواز کے دو آپریشن ہوچکے ہیں، جس میں حلق اور سینے کا آپریشن کیا گیا تھا، بعد ازاں ماہر معالجین کی ٹیم نے ایک اور آپریشن کا فیصلہ کیا تھا۔
سیالکوٹ: وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ آج میرا احتساب ہورہا ہے تو کل کسی اور کا بھی ہوگا، ہم سازشوں سے گھبرانے والے نہیں ہیں، دھرنوں اور ٹانگیں کھینچنے والی سازشیں نہ ہوتیں تو آج ملک میں زیادہ ترقی ہوتی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سیالکوٹ میں لیگی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کیا، وزیر اعظم نے کہا کہ4سال تک ہماری ٹانگیں کھینچی گئیں اس کے باوجود ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہورہا ہے۔
مخالفین چور دروازہ اختیار کرکے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، پاکستان کے عوام انہیں چوردروازے سے آنے نہیں دینگے، مخالفین کو اسی بات کا غصہ ہے کہ پاکستان اندھیروں سےنکل رہا ہے، اگر یہ لوگ غداری نہ کرتے تو آج پاکستان اور زیادہ ترقی کرچکا ہوتا۔
وزیر اعظم نے عمران خان کا نام لیے بغیر ان شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے آپ کی حرکتوں کے باعث پاکستان پیچھے رہ گیا،1999ء کے بعد خلل نہ پڑتا تو آج دنیا کے صف اول کے ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا، مخالفین سوچتے ہیں کہ ہم ووٹوں سے تو جیت نہیں سکتے، تمہیں عوام نے ووٹ ہی نہیں دیا توکس بات کے وزیراعظم؟
انہوں نے اپنے مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے ا ن کے لئے شعر کا ایک مصرعہ بھی پڑھا کہ ۔
کعبے کس منہ جاؤ گے غالب شرم تم کومگر نہیں آتی
ہمارےحوصلے کو داد دو کیونکہ ہم تمہیں تمہاری باتوں کا جواب نہیں دیتے، ہمارا جواب پوری قوم تم کو2018 کے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے دےگی۔
انہوں نے کہا کہ56 ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری گزشتہ دو سالوں سے پاکستان میں ہو رہی ہے اور اس کی تاریخ میں نظیرنہیں ملتی، ہم دن رات کام کرکے پاکستان صف اول کے ممالک میں جلد شامل کروائیں گے۔
وزیراعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ ہماری تین نسلوں کا احتساب ہورہا ہے ،آج میرا احتساب ہورہا ہے تو کل کسی اور کا بھی ہوگا، نواشریف کا احتساب کرو لیکن بتاؤ کس چیز کااحتساب کررہے ہو؟ مجھے احتساب کی فکرنہیں لیکن بتاؤ تو سہی آخر مجھ پر مقدمہ کون سا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ بھٹو دور میں ہماری فیکڑیاں قومیائی گئیں، لوٹ کر ہم سے ہی منی ٹریل کا پوچھتے تھے، منی ٹریل کا تم بتاؤ، پیسہ لوٹ کر کہاں لے گئے تھے، بات بات پر ہم سے پوچھتے ہیں، تم یہ تو بتاؤ کہ ہم نے کس کا کیا لوٹا ہے؟ بتاؤ کیا ہم نے موٹر وے بنانے میں کمیشن کھایا۔
انہوں نے بتایا کہ قوم کا درد دل میں نہ ہوتا تو بل کلنٹن سے5ارب ڈالر لے کر ایٹمی دھماکے نہ کرتا، میرے دل میں پاکستانی عوام کیلئےدرد ہے، کسی کو ہماری حب الوطنی پر شک نہیں ہونا چاہئیے۔
وزیراعظم نوازشریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک مولوی صاحب باہر سے آکر روزانہ الزامات لگانے والے کو جھپی ڈالتے ہیں اور کنٹینر پر چڑھ جاتے ہیں۔
ان سے کہتا ہوں کہ پاکستان کی ترقی کو نہ روکیں، ملک کی ترقی روکنا غداری ہے، ہمارے خلاف دھرنوں اور ٹانگیں کھینچنے والی سازشیں نہ ہوتیں تو آج ملک میں زیادہ ترقی ہوتی۔
لاڑکانہ: پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم نے ان کے چار مطا لبات نہ ما نے تو دما دم مست قلندر ہو گا ساتھ ہی انہوں نے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر کے لیے نامزد افراد کے ناموں کا اعلان بھی کیا۔
لاڑکانہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف کو خبردار کیا اور چار مطالبات تسلیم کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو دنیا دیکھے گی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگرپاناما بل پر وزیراعظم نے دستخط نہیں کیے تو دما دم مست قلندر ہوگا ساتھ ہی انہوں نے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر کے لیے نامزد افراد کے ناموں کااعلان بھی کیا۔
دریں اثنا پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ گونواز گو کا نعرہ شہید متحرمہ بے نظیر بھٹو نے 1996ء میں لگایا تھا۔
اسلام آباد : وزیراعظم نے انٹیلی جنس بیوروکےسربراہ آفتاب سلطان کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی بیورو آفتاب سلطان کی مدت ملازمت میں توسیع غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر کی گئی ہے۔
ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کاکنٹریکٹ دو اپریل دو ہزار سولہ تک بڑھادیا گیا۔دو ہزار تیرہ میں آفتاب سلطان کو انٹیلی جنس بیورو کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ دو ہزار چودہ میں بھی ڈائریکٹر جنرل آئی بی آفتاب سلطان کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تھی۔
اسلام آباد: صدر ممنون حسین سمیت ملک بھر کی اہم شخصیات نے نوبل انعام حاصل کرنے پر ملالہ یوسف زئی کو مبارکباد پیش کی ہے۔
صدر ممنون حسین نے ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام ملنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس انعام سے قوم کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے ملالہ یوسف زئی کو مبارکباد دیتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی ہر بچی زیور تعلیم سے آراستہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ دنیا بھر میں پاکستان کی طرف سے امن کی سفیر ہے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے امن کا نوبل انعام ملنے پر ملالہ یوسفزئی کو مبارکباد دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسف زئی نے جبر کے ماحول میں استقامت کا مظاہرہ کرکے پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ ملالہ قوم کی بہادر بیٹی ہے، جس نے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ نئیر بخاری سندھ اور بلوچستان کے وزرا اعلیٰ ق لیگ کی سینیئر نائب صدر روبینہ سلہری نے بھی ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر مبارکبا دی، ان کا کہنا تھا ملالہ یوسفزئی کو نوبل پرائز ملنا پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔