Tag: NDMA

  • ملک کے 48 اضلاع میں ٹڈی دل موجود ہے: این ڈی ایم اے

    ملک کے 48 اضلاع میں ٹڈی دل موجود ہے: این ڈی ایم اے

    اسلام آباد: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کے 48 اضلاع میں ٹڈی دل موجود ہے، گزشتہ 24 گھنٹے میں 4 ہزار 830 ہیکٹر رقبے پر اسپرے کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے ملک میں ٹڈی دل کے خلاف آپریشن کی تفصیلات جاری کردیں۔ این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کے 48 اضلاع میں ٹڈی دل موجود ہے۔

    ترجمان این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے 33، خیبر پختونخواہ کے 10، پنجاب کے 2 اور سندھ کے 3 اضلاع متاثر ہوئے ہیں، متاثر ہونے والے علاقوں میں خضدار، آواران، نوشکی، چاغی، گوادر، اتھل، کیچ، پنجگور، خاران، وشک اور کوئٹہ شامل ہیں۔

    این ڈی ایم اے کے مطابق ڈی آئی خان، ٹانک، شمالی و جنوبی وزیرستان کے علاقے، لکی مروت، کرک، کرم، اورکزئی، پشاور، خیبر، پنجاب کے میانوالی، ڈی جی خان اور سندھ میں سانگھڑ، شہید بے نظیر آباد اور حیدر آباد ٹڈی دل سے متاثر ہوئے ہیں۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے متاثرہ علاقوں کا سروے اور کنٹرول آپریشن جاری ہے، 1122 ٹیموں نے لوکسٹ کنٹرول آپریشن میں حصہ لیا۔

    ترجمان نے بتایا کہ 24 گھنٹے میں 3 لاکھ 55 ہزار ہیکٹر رقبے کا سروے ہوا، 24 گھنٹے میں 4 ہزار 830 ہیکٹر رقبے پر اسپرے کیا گیا، بلوچستان میں 34 سو ہیکٹر رقبے پر اسپرے کیا گیا، پنجاب میں 30 ہیکٹر، خیبر پختونخواہ میں 11 سو اور سندھ میں گزشتہ روز 300 ہیکٹر رقبے پر اسپرے کیا گیا۔

    ترجمان کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ملک میں 5 لاکھ 29 ہزار 300 ہیکٹر رقبے پر اسپرے کیا جا چکا ہے۔

  • این ڈی ایم اے کی جانب سے حفاظتی سامان کی پانچویں کھیپ کی ترسیل شروع

    این ڈی ایم اے کی جانب سے حفاظتی سامان کی پانچویں کھیپ کی ترسیل شروع

    اسلام آباد: نیشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے کرونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی سامان کی پانچویں کھیپ کی ترسیل شروع کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے 4 اسپتالوں کو کرونا حفاظتی سامان روانہ کر دیا گیا ہے، جس میں 3 پی سی آر ٹیسٹنگ مشینیں، 20 ہزار ٹیسٹنگ کٹس شامل ہیں۔

    ترجمان کے مطابق بھجوائے گئے سامان میں 20 ہزار سرجیکل ماسک، 6 ہزار ڈی 95، دس ہزار این 95 ماسک، 14 ہزار حفاظتی سوٹ، 16 ہزار دستانے، اور 500 گاؤنز بھی سامان میں شامل ہیں۔

    این ڈی ایم اے کا پی آئی اے کو ایک لاکھ ڈالر کی حفاظتی کٹس کا عطیہ

    این ڈی ایم اے ترجمان نے بتایا کہ بلوچستان کے لیے 500 فیس شیلڈ، 800 حفاظتی عینکیں بھی ارسال کی گئی ہیں، 8 ہزار سینیٹائزر کی بوتلیں بھی سامان میں شامل ہیں، دیگر صوبوں کے لیے بھی پانچویں کھیپ کا سامان بھیجا جا رہا ہے۔

    یاد رہے کہ دو دن قبل این ڈی ایم اے نے پی آئی اے کو بھی ایک لاکھ ڈالر کی حفاظتی کٹس عطیہ کی تھیں، کٹس میں حفاظتی لباس، ماسک اور عینکیں شامل تھیں۔ کٹس کا استعمال پی آئی اے کا عملہ دوران پرواز کر رہا ہے۔

  • بارشوں اور برفباری سے 100 افراد جاں بحق، متاثرین کو خیمے اور کمبل فراہم

    بارشوں اور برفباری سے 100 افراد جاں بحق، متاثرین کو خیمے اور کمبل فراہم

    اسلام آباد: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں بارشوں اور برفباری سے جاں بحق افراد کی تعداد 100 ہوگئی، متاثرین تک خیمے اور کمبل پہنچا دیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں برفباری اور بارش سے نقصانات میں اضافہ ہوگیا، جاں بحق افراد کی تعداد 100 ہوگئی۔

    این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں برفباری سے 20 افراد جاں بحق ہوگئے۔ آزاد کشمیر میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 76 ہوگئی۔ آزاد کشمیر کے سورنگن گاؤں میں برفانی تودہ گرنے سے 19 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں 2، 2 افراد جاں بحق ہوئے، مجموعی طور پر برفباری سے 90 افراد زخمی ہوئے۔

    این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ برفباری سے 213 گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ متاثرین تک 2 ہزار خیمے، ساڑھے 12 سو کمبل اور ساڑھے 22 سو کی تعداد میں دیگر اشیا پہنچا دی گئی ہیں۔

  • ملک بھر میں بارشوں اور برفباری سے 75 افراد جاں بحق: این ڈی ایم اے

    ملک بھر میں بارشوں اور برفباری سے 75 افراد جاں بحق: این ڈی ایم اے

    اسلام آباد: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں بارشوں اور برفباری سے 75 افراد جاں بحق اور 41 زخمی ہوئے جبکہ مختلف مقامات پر 35 گھر تباہ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق بارش اور برفباری سے نقصانات پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے رپورٹ جاری کردی۔ ملک بھر میں بارشوں اور برفباری سے 75 افراد جاں بحق اور 41 زخمی ہوئے۔

    این ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں سے 35 گھر تباہ ہوئے، 72 گھنٹے میں صرف بلوچستان میں 20 اموات اور 23 افراد زخمی ہوئے۔ خیبر پختونخواہ میں 3 افراد زخمی اور 5 گھر تباہ ہوئے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ آزاد کشمیر میں حالیہ بارشوں اور برفباری سے 55 افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوئے۔ سورنگن گاؤں میں 19 افراد برفانی تودے میں دب کر جاں بحق ہوئے۔ واقعے کے 10 افراد تاحال لا پتہ ہیں جبکہ 4 زخمیوں کو نکال لیا گیا ہے۔

    ترجمان این ڈی ایم اے کے مطابق زخمی افراد کو نکالنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ برف میں پھنسے افراد کو بذریعہ ہیلی کاپٹر نکالنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ آزاد کشمیر میں برفباری سے 30 گھر بھی تباہ ہوئے۔

    اسی طرح گلگت بلتستان میں 3 افراد زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کوئٹہ سے خانوزئی جانے والے 300 افراد کو ریسکیو کر لیا گیا، چاغی اور مند میں پھنسے لوگوں کو 2 ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نکالا گیا۔

    این ڈی ایم اے کے مطابق 72 گھنٹے میں سب سے زیادہ 66.25 ملی میٹر بارش بانڈی عباس پور میں ہوئی، دارالحکومت اسلام آباد میں 31.75 ملی میٹر بارش ہوئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ چکوٹی کے مقام پر 49.5 ملی میٹر بارش ہوئی۔

  • زلزلے میں جاتلاں سب سے زیادہ متاثر ہوا: چیئرمین این ڈی ایم اے

    زلزلے میں جاتلاں سب سے زیادہ متاثر ہوا: چیئرمین این ڈی ایم اے

    اسلام آباد: این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ زلزلے کے باعث میرپور میں 24 افراد اور جہلم میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔ پاک آرمی کی 20 مشینیں سڑک کی بحالی کا کام کر رہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ جاتلاں کل زلزلے میں زیادہ متاثر ہوا، زلزلے کے باعث میرپور میں 24 افراد اور جہلم میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔ زلزلے کے باعث 450 گھر متاثر ہوئے۔

    چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ زلزلے سے 135 گھر بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جاتلاں تک تقریباً 14 کلو میٹر کی سڑک متاثر ہوئی ہے۔ پاک آرمی کی 20 مشینیں سڑک کی بحالی کا کام کر رہی ہیں، سی این ڈی ڈبلیو کی 16 مشینیں بھی کام کر رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آج شام تک سڑک ہلکی ٹریفک کے لیے قابل استعمال ہوجائے گی، پاک فوج سمیت دیگر ادارے امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ صاف پانی اور کھانے پینے کی اشیا آج شام تک پہنچ جائیں گی۔ امدادی اشیا کی ضرورت پڑی تو ہم موبائل نمبر فراہم کریں گے۔

    لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا تھا کہ جن سفیروں نے رابطہ کیا ہے انہیں فی الحال کہا ہے کہ امداد کی ضرورت نہیں، متاثرین کو ضروری اشیا فراہم کی جارہی ہیں۔ پاک فوج، آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز ملک کے بیشتر شہروں میں 5.8 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، زلزلے سے آزاد کشمیر میں شدید تباہی پھیل گئی۔

    میر پور جاتلاں میں نہر اپر جہلم کے قریب سڑکوں میں گہرے شگاف پڑ گئے جس کے باعث کئی گاڑیاں الٹ گئیں۔ سڑکیں ٹوٹ کر دھنس گئیں، زلزلے کے باعث ایک عمارت بھی منہدم ہوئی ہے جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔

    زلزلے کے بعد میر پور آزاد کشمیر، جاتلاں اور گرد و نواح میں مواصلاتی نظام منقطع ہو چکا ہے۔ زلزلے کے باعث ایک نجی اسپتال کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

    اب تک زلزلے سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 30 بتائی جارہی ہے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔

  • قدرتی بہاؤ کے راستے پر ہم نے آبادیاں بنا لی ہیں: این ڈی ایم اے

    قدرتی بہاؤ کے راستے پر ہم نے آبادیاں بنا لی ہیں: این ڈی ایم اے

    اسلام آباد: نیشنل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ قدرتی بہاؤ کے راستے پر ہم نے آبادیاں بنا لی ہیں، جہاں سے پانی گزرتا ہے وہاں گھر نہ بنائیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے یہاں اچھی تیاری کی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 2 ماہ پہلے کہا تھا کراچی کے نالے پلاسٹک کی بوتلوں سے بھرے ہیں، پانی کے بہاؤ کے راستے صاف کیے جانے چاہیئں۔ آبادی بڑھنے سے دریا کے کنارے آباد شہروں کو خطرہ ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہم ساتویں نمبر پر ہیں۔ سیلاب اور دیگر تباہی قدرت کی طرف سے ہوتے ہیں۔

    چیئرمین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے بالا کوٹ میں جلد کام شروع کرنے کا کہا ہے، پی ڈی ایم اے کی تیاری بہترین ہے۔ قدرتی بہاؤ کے راستے پر ہم نے آبادیاں بنا لی ہیں۔ کچھ علاقوں میں بارش کا پانی روکنے کا انتظام کرنا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ ضلعی حکومتوں سے مل کر پانی کے بہاؤ کے راستے صاف کریں، جہاں سے پانی گزرتا ہے وہاں گھر نہ بنائیں۔ بلین ٹری میں حکومت ہم سے مل کر چترال میں درخت لگائے گی۔

    یاد رہے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گزشتہ 2 روز کی بارش سے سڑکیں ندی نالے بن گئے، نالے اور ڈیم ابل پڑے،مسلسل تیز بارش کے بعد بارش کا پانی سیلاب کی صورت اختیار کرگیا۔ دو روز کے دوران کرنٹ لگنے سے 17 افراد جاں بحق ہوئے۔

    کراچی کے علاوہ حیدر آباد، ٹھٹھہ، بدین، دادو، نواب شاہ، ٹندو جام اور تھر سمیت اندرون سندھ میں بھی مون سون کے بادل جم کر برسے، سب سے زیادہ بارش ٹھٹھہ میں 190 ملی میٹر ہوئی، حیدر آباد کی سڑکیں بھی بارش کے بعد تالاب کا منظر پیش کر رہی ہیں۔

  • بارشوں سے 23 افراد جاں بحق، 26 سو مکانات اور دکانیں زمین بوس ہوئیں: این ڈی ایم اے

    بارشوں سے 23 افراد جاں بحق، 26 سو مکانات اور دکانیں زمین بوس ہوئیں: این ڈی ایم اے

    اسلام آباد: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں کے باعث 23 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 26 سو مکانات اور دکانیں زمین بوس ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے حالیہ بارشوں سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کی رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق بارشوں کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد 23 ہوگئی ہے جبکہ مختلف حادثات میں 68 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

    این ڈی ایم اے کے مطابق بارش کے باعث سب سے زیادہ نقصان فاٹا میں ہوا، فاٹا میں 9 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہوئے۔ بلوچستان میں 6 افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوئے۔

    رپورٹ کے مطابق بارشوں سے پختونخواہ میں 3 اور آزاد کشمیر میں 5 افراد جان سے گئے۔ جاں بحق افراد کا تعلق کوٹلی، ٹانک اور چارسدہ سے ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ مختلف علاقوں میں 26 سو سے زائد مکانات اور دکانیں گریں، متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور ہیوی مشینری کام میں مصروف ہے۔

    این ڈی ایم اے کے مطابق متاثرین تک ٹینٹ، کمبل اور کھانے پینے کے 10 ہزار پیکٹ پہنچا دیے گئے ہیں جبکہ مزید امدادی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ چند دونوں میں موسم سرما کی آخری بارشوں نے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں تباہی مچا دی ہے، تباہ کن بارشوں سے مکران، مند، تمپ اور کیچ کے علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

    بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کا ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری ہے، مکران ڈویژن میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہیلی کاپٹروں میں محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

    مکران اور لسبیلہ میں ریلیف کیمپ بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔ لسبیلہ اور قلعہ عبداللہ میں 1500 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

  • قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے کا فنڈ خوش آئند ہے: شمشاد اختر

    قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے کا فنڈ خوش آئند ہے: شمشاد اختر

    اسلام آباد: نگراں وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے فنڈ وقت کی ضرورت ہیں، اس مقصد کے لیے این ڈی ایم اے کا فنڈ خوش آئند ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی تقریب سے خطاب کیا۔

    اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے فنڈ وقت کی ضرورت ہے۔ سنہ 2005 کا زلزلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرتی آفات خطرناک ہوتے ہیں۔

    شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے قدرتی آفات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گلیشیئر پگھلنے سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    نگراں وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے قحط اور زمین کے کٹاؤ میں اضافہ ہوا۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے کے فنڈ کا قیام خوش آئند ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بارشوں کے بعد وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ

    بارشوں کے بعد وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ

    نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بارشوں کے بعد مختلف شہروں میں وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں۔

    اس سلسلے میں این ڈی ایم اے کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو مراسلہ جاری کیا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کے سبب پانی آلودہ ہونے سے مختلف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔

    وفاقی حکومت کی جانب سے جاری مراسلے کی کاپی اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلی ہے۔

    مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کی ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ شہری حکومتیں، انتظامیہ اور متعلقہ ادارے اس حوالے سے اقدامات کو یقینی بنائیں۔

    مزید پڑھیں: بارش کے موسم میں بچوں کو ڈائریا سے بچائیں

    یاد رہے کہ اس سے قبل نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے طبی ماہرین نے بھی متعلقہ اداروں کو تجویز دی تھی کہ وہ بارشوں کے پیش نظر پانی اور خوراک کو زہریلا ہونے سے بچانے اور صحت و صفائی کے خصوصی اقدامات کریں بصورت دیگر اچانک کئی وبائی امراض پھیل سکتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

    ان کے مطابق ان بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ ان علاقوں میں زیادہ ہوگا جہاں بارشیں معمول سے زیادہ ہونے کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی اور اب جگہ جگہ پانی کھڑا ہے۔

    ماہرین نے زور دیا کہ اس وقت ضلعی سطح پر صحت کی ٹیموں کو فعال کیا جائے تاکہ کسی بھی مرض کو فوراً پکڑا جا سکے اور اسے جان لیوا ہونے سے بچایا جاسکے۔

    ان کے مطابق متعلقہ اداروں کو ادویات کا وافر اسٹاک رکھنے کی ضرورت ہے جن میں اینٹی بائیوٹکس، اینٹی ٹیٹنس، کتے اور سانپ سے کاٹے کی ادویات اور ٹائیفائڈ سے حفاظت کی ویکسینز اور علاج کی ادویات شامل ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    کراچی:نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر پاکستان میں گرمی کی شدت کی ایک وجہ ہیں کیونکہ ڈارک کول کی وجہ سے پاکستان کے گلیشیئرز پر بھیانک اثرات پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں۔

    یہ انکشاف این ڈی ایم اے ڈی آر آر کمیٹی کے ممبر اور اس ضمن میں وزیراعظم ہاوس کے مقررہ افسر احمد کمال نے ایک ورکشاپ کے بعد اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

    3-7

    احمد کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ناردرن سرحد کے قریب بھارت 9ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے، یہ بجلی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل ہوتی ہے لیکن ان بجلی گھروں میں استعمال ہونے والا کوئلہ پاکستان کے گلیشیئرز کے لیے خطرہ ثابت ہوا ہے،تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ڈارک کول کی وجہ سے خطرناک دھواں اٹھتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز بھی ڈارک ہو رہے ہیں اور بھارت کی کول امیشن سے ہمارے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے گرمی بھی پڑتی ہے اور موسم کا توازن بھی تبدیل ہور ہاہے ،پاکستان سفارتی سطح پر بھی بھارت سے اس مسئلے پر بات چیت کر رہا ہے۔

    2-7

     اتوار کو مقامی ہوٹل میں این ڈی ایم اے کے ذمے داروں کی کراچی کے صحافیوں سے ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ، وزیر اعظم ہاﺅس میں مقرر این ڈی ایم کے افسر احمد کمال اور این ڈی ایم اے کے ماہر پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کی چونکا دینے والی باتیں ملکی قدرتی آفات کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافے کی جانب نشاند ہی کرتی ہیں لیکن ان کی باتوں سے یہ بھی محسوس ہوا کہ قومی سطح پر یا وفاقی حکومت کی حد تک ابھی تک کوئی بہت بڑی سنجیدگی نہیں نظر آرہی، البتہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

    سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ نے بتایا کہ سندھ میں سمندری تباہی معمولی نوعیت کی نہیں ہے اب تو کراچی کے ساحل کو بھی خطرہ موجود ہے جس کی وجہ سے سینیٹ کمیٹی نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ کراچی کے کلفٹن کے ساحل کے سامنے دیوار تعمیر کی جائے تاکہ سمندر کی سطح میں کوئی اضافہ ہونے کی صورت میں خدانخواستہ فوری طور پر کسی تباہی سے بچا جا سکے۔

    سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹھٹھہ کی کوسٹل بیلٹ پر 22 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے اور انڈس ڈیلٹا بھیانک دور سے گزر رہا ہے، دریائے سندھ میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ ہونے کی وجہ سے سمندر آگے بڑھ رہا ہے اور تمام سمندری کریکس ختم ہو رہے ہیں۔

    4-3

    سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود میں واقع سرکریک پر بھارت کا دعویٰ غیر منطقی ہے کیونکہ سر کریک سے لے کر کورنگی کریک تک تمام سمندری کریکس تک دریائے سندھ سے میٹھا پانی داخل ہوتا تھا جس کی وجہ سے سمندر کی طغیانی رک جاتی تھی۔

    این ڈی ایم اے کے ماہر اور پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کا کہنا تھا کہ 2012ءتا 2015ءپاکستان میں سیلاب اور زلزلے دونوں ہی آرہے ہیں، سمندری طوفان اور زمینی طوفان دونوں بڑھ رہے ہیں، چند روز قبل اسلام آباد میں آنے والا طوفان بھی انتہائی خطرناک طوفان تھا جو بڑی تباہی پھیلاتا لیکن جلد طوفان کا رخ تبدیل ہوگیا اور زور ٹوٹ گیا ،ایسا طوفان کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔محکمہ ماحولیات ہو یا این ڈی ایم اے ،دونوں میں سہولیات کا فقدان ہے، ہمارے پاس اپنا سیٹلائٹ سسٹم بھی نہیں ہے، اب پرانا ری ایکٹر اسکیل بھی استعمال نہیں ہوتا، تربیت کے فقدان کو مد نظر رکھ کر 1092 افسران کو تربیت دی گئی ہے۔

    1-6

    ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تمام صنعتوں کے نقشے آن لائن ہوتے ہیں، این ڈی ایم اے کی کوشش ہے کہ پاکستان کی تمام فیکٹریوں کے نقشے آن لائن ہونے چاہئیں تاکہ کسی بھی فیکٹری میں حادثے یا آفت آنے کی صورت میں فوری طور پر پہنچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی توازن بگڑنے سے ہمارے ملک میں گرمیوں کی شدت بڑھ رہی ہے، ہیٹ اسٹروک بھی اس کی ایک بڑی علامت ہے، خشک سالی بڑھ رہی ہے، پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور بارشیں ایک سو کلومیٹر مشرق سے مغرب کی طرف چلی گئی ہیں لیکن ہم سب قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    چار گھنٹے کے اس ڈائیلاگ میں وجیہ احمد اور الوینہ آغا نے بھی حصہ لیا۔ گفتگو کے دوران کراچی کے صحافیوں کے سوالات بھی بڑے تلخ تھے اور جملے بھی تند و ترش لیکن مذکورہ ماہرین بہرحال سرکار نہیں تھے کہ ہمارے سوالات کے جوابات دیتے۔ پوری گفتگو میں ایک بات سمجھ میں آگئی کہ ماحولیات کا عالمی دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا، آئندہ چند برس میں پاکستان کے بھی بھیانک ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔