Tag: Nelson Mandela

  • نیلسن منڈیلا کی جماعت نے 30 سال بعد اکثریت کھو دی

    نیلسن منڈیلا کی جماعت نے 30 سال بعد اکثریت کھو دی

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی جماعت نے 30 سال بعد انتخابات میں اکثریت کھو دی۔

    تفصیلات کے مطابق نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جس افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) پارٹی نے جنوبی افریقہ کو نسل پرستی سے آزاد کروایا تھا، تیس سال بعد اس نے تاریخی انتخابی نتیجے میں اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دی ہے۔

    بدھ کے انتخابات میں ایک عرصے سے غالب رہنے والی اے این سی کو تقریباً 40 فی صد ووٹ ملے ہیں، اس لیے حکومت بنانے کے لیے اسے اپوزیشن کی 3 بڑی پارٹیوں میں سے کسی ایک سے اتحاد کرنا ہوگا، اس کے بعد ہی ملک کے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔

    سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی، ڈیموکریٹک الائنس کو 21 فی صد ووٹ ملے ہیں جب کہ سابق صدر جیکب زوما کی پارٹی کو 14 فی صد ووٹ ملے، انتخابات میں 50 سے زیادہ سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا۔

    حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس نتیجے کو گہری غربت اور عدم مساوات سے نبرد آزما ملک کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے، مرکزی اپوزیشن لیڈر جان اسٹین ہیوسن نے کہا کہ جنوبی افریقہ کو بچانے کا طریقہ اے این سی کی اکثریت کو توڑنا ہے اور ہم نے ایسا کیا ہے۔

  • نیلسن منڈیلا کا دن: کبھی نہ گرنا عظمت نہیں، گرنے کے بعد اٹھنا عظمت ہے

    نیلسن منڈیلا کا دن: کبھی نہ گرنا عظمت نہیں، گرنے کے بعد اٹھنا عظمت ہے

    آج دنیا بھر میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کا دن منایا جارہا ہے، یہ دن ہر سال ان کے یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ آج منڈیلا کا 101 واں یوم پیدائش ہے۔

    رنگ اور نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ میں طویل جدوجہد کرنے والے قابل احترام رہنما نیلسن منڈیلا کے یوم پیدائش پر ان کا عالمی دن منانے کا فیصلہ، اقوام متحدہ نے سنہ 2009 میں کیا تھا۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو ترغیب دینا ہے کہ وہ اپنے آس پاس موجود افراد کی مدد کریں۔

    سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے منڈیلا نے جیلیں بھی کاٹیں، جلا وطنیوں کا دکھ بھی سہا، تکالیف، اذیت اور اپنوں سے دوری کا غم بھی جھیلا، اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آیا جب وہ سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔

    یہ نیلسن منڈیلا ہی تھے جن کی طویل جدوجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ کیا۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے اعلان کیا۔ ’آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں‘۔

    آج اس عظیم رہنما کے عالمی دن کے موقع پر یقیناً آپ ان کے زندگی بدل دینے والے اقوال پڑھنا چاہیں گے۔

    زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے۔

    والدین کے لیے ایک کامیاب اولاد سے بہتر کوئی انعام نہیں۔

    آپ اس وقت تک اس قوم کی اخلاقی حالت کے بارے میں نہیں جان سکتے جب تک آپ وہاں کی جیلوں میں وقت نہ گزار لیں۔ کسی قوم کی شناخت اس کے اس رویے سے نہیں ہوتی جو وہ اپنے اعلیٰ طبقے کے ساتھ روا رکھتا ہے، بلکہ اس رویے سے ہوتی ہے جو وہ اپنے نچلے طبقے سے اپناتا ہے۔

    زندگی میں اہم یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کے لیے کیا کیا۔

    ہمیشہ پیچھے سے رہنمائی کرو۔ دوسروں کو یہ باور کرواؤ کہ رہنما وہ ہیں۔

    جب تک کوئی کام نہ کرلیا جائے تب تک وہ ناممکن محسوس ہوتا ہے۔

    اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ کام کریں، اس کے بعد وہ آپ کا پارٹنر بن جائے گا۔

    باہمت لوگ امن کے لیے کبھی بھی معاف کرنے سے نہیں گھبراتے۔

    امن کا نوبیل انعام پانے والے نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے 27 قیمتی سال قید میں گزارے۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جیل میں ڈال دیے جانے کے بعد چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جیسے جب دل چاہے چہل قدمی کرلینا یا قریبی دکان تک جانا اور اخبار خرید لینا‘۔

    جیل سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے کہا، ’جب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو مجھے آزادی کی طرف لے جارہا تھا، تب میں جانتا تھا کہ اگر میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑ دیا تو میں ہمیشہ قیدی ہی رہوں گا‘۔

    موت کے بارے میں منڈیلا کا خیال تھا، ’موت ناگزیر ہے۔ جب کوئی شخص اس ذمہ داری کو پورا کرلیتا ہے جو قدرت نے اس کی قوم اور لوگوں کی بہتری کے لیے اس کے ذمے لگائی ہوتی ہے، تب وہ سکون سے مرسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی ذمہ داری نبھا چکا ہوں۔ اب میں ابدیت کی زندگی میں سکون سے سو سکتا ہوں‘۔

    آزادی اور حقوق کی علامت اور بیسویں صدی کی قد آور سیاسی شخصیت نیلسن منڈیلا 5 دسمبر سنہ 2013 کو 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

  • نیلسن منڈیلا کے عالمی دن پر ان کے خوبصورت اقوال پڑھیں

    نیلسن منڈیلا کے عالمی دن پر ان کے خوبصورت اقوال پڑھیں

    جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر آج دنیا بھر میں ان کا دن منایا جارہا ہے۔

    رنگ اور نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ میں طویل جدوجہد کرنے والے قابل احترام رہنما نیلسن منڈیلا کی سالگرہ کے دن کو نیلسن منڈیلا کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے سنہ 2009 میں کیا تھا۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو ترغیب دینا ہے کہ وہ اپنے آس پاس موجود افراد کی مدد کریں۔

    سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے منڈیلا نے جیلیں بھی کاٹیں، جلا وطنیوں کا دکھ بھی سہا، تکالیف، اذیت اور اپنوں سے دوری کا غم بھی جھیلا، اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آیا جب وہ سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔

    یہ نیلسن منڈیلا ہی تھے جن کی طویل جدوجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ کیا۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے اعلان کیا، ’آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں‘۔

    آج اس عظیم رہنما کے عالمی دن کے موقع پر یقیناً آپ ان کے زندگی بدل دینے والے اقوال پڑھنا چاہیں گے۔

    زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے۔

    والدین کے لیے ایک کامیاب اولاد سے بہتر کوئی انعام نہیں۔

    آپ اس وقت تک اس قوم کی اخلاقی حالت کے بارے میں نہیں جان سکتے جب تک آپ وہاں کی جیلوں میں وقت نہ گزار لیں۔ کسی قوم کی شناخت اس کے اس رویے سے نہیں ہوتی جو وہ اپنے اعلیٰ طبقے کے ساتھ روا رکھتا ہے، بلکہ اس رویے سے ہوتی ہے جو وہ اپنے نچلے طبقے سے اپناتا ہے۔

    زندگی میں اہم یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کے لیے کیا کیا۔

    ہمیشہ پیچھے سے رہنمائی کرو۔ دوسروں کو یہ باور کرواؤ کہ رہنما وہ ہیں۔

    جب تک کوئی کام نہ کرلیا جائے تب تک وہ ناممکن محسوس ہوتا ہے۔

    اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ کام کریں، اس کے بعد وہ آپ کا پارٹنر بن جائے گا۔

    باہمت لوگ امن کے لیے کبھی بھی معاف کرنے سے نہیں گھبراتے۔

    امن کا نوبیل انعام پانے والے نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے 27 قیمتی سال قید میں گزارے۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جیل میں ڈال دیے جانے کے بعد چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جیسے جب دل چاہے چہل قدمی کرلینا یا قریبی دکان تک جانا اور اخبار خرید لینا‘۔

    جیل سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے کہا، ’جب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو مجھے آزادی کی طرف لے جارہا تھا، تب میں جانتا تھا کہ اگر میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑ دیا تو میں ہمیشہ قیدی ہی رہوں گا‘۔

    موت کے بارے میں منڈیلا کا خیال تھا، ’موت ناگزیر ہے۔ جب کوئی شخص اس ذمہ داری کو پورا کرلیتا ہے جو قدرت نے اس کی قوم اور لوگوں کی بہتری کے لیے اس کے ذمے لگائی ہوتی ہے، تب وہ سکون سے مرسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی ذمہ داری نبھا چکا ہوں۔ اب میں ابدیت کی زندگی میں سکون سے سو سکتا ہوں‘۔

    آزادی اور حقوق کی علامت اور بیسویں صدی کی قد آور سیاسی شخصیت نیلسن منڈیلا 5 دسمبر سنہ 2013 کو 95 برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نیلسن منڈیلا کی جیل میں ایک رات قیام کا کرایہ 3 لاکھ ڈالر مختص

    نیلسن منڈیلا کی جیل میں ایک رات قیام کا کرایہ 3 لاکھ ڈالر مختص

    کیپ ٹاؤن : جنوبی افریقہ کے حکام نے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی جیل کو ان کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر نیلام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق رابن نامی جزیرے پر واقع جیل جس میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا نے 18 برس گزارے تھے، جنوبی افریقی حکام نے اس تاریخی قید خانے میں ایک رات قیام کرنے کا تین لاکھ ڈالر کرایہ مختص کیا ہے۔

    جنوبی افریقہ کے مشہور ہوٹل سلپ آؤٹ کی انتظامیہ کے مطابق نیلسن منڈیلا کی جیل کا کرایہ 3 لاکھ ڈالر اس لیے رکھا گیا ہے تاکہ متعدد خیراتی اداروں کے لیے رقم جمع کی جاسکے۔

    خیال رہے کہ جنوبی افریقہ کے پہلے جمہوری سیاہ فام صدر کو کیپ ٹاؤن کے رابن نامی جزیرے پر بنائی گئی جیل میں 27 سال تک قید میں رکھا گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جیل کے 8 فٹ لمبے تاریخی بیرک کو قیدی نمبر 46664 (نیلسن منڈیلا) کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر خیراتی اداروں کے لیے فنڈ جمع کرنے سلسلے میں نیلام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ’جنوبی افریقہ کی جیل میں قید افراد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے نیلسن منڈیلا کی جیل کو نیلام کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ قیدیوں کی تعلیم کے لیے رقم جمع کی جاسکے۔

    جنوبی افریقہ کے سلپ آؤٹ ہوٹل کی ترجمان کا نیلسن منڈیلا کی جیل کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اس بات کا فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا ہے کہ مذکورہ قید خانے کو صرف ایک رات فنڈز جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا یا نہیں‘۔

    خیال رہے کہ سنہ 1962 میں نیلسن منڈیلا کو موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے جرم میں رابن نامی جزیرے پر واقع جیل میں قید کیا گیا تھا۔ جہاں انہوں نے 27 برس قید میں گزارے اور 1990 میں رہائی پائی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • آج دنیا بھر میں منڈیلا ڈے منایا جارہا ہے

    آج دنیا بھر میں منڈیلا ڈے منایا جارہا ہے

    نیلسن منڈیلا نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی ایسی علامت ہیں جسے انسانی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور جہموری جدوجہد کے ہیرو کی سالگرہ کے دن آج دنیا بھر میں منڈیلا ڈے منایا جارہا ہے۔
    نیلسن منڈیلا اٹھارہ جولائی انیس سو اٹھارہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام رولیہلا ہلا ڈالی بھنگا تھا۔ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انیس سو چوالیس میں افریقن نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے اور حکمران نیشنل پارٹی کی نسل پرستانہ حکمت عملیوں کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں انہیں چودہ جون انیس سو چونسٹھ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
    ستائیس برس جیل کی کال کوٹھری میں گزارے۔ نوے میں رہائی کے وقت وہ زندگی کی ستر بہاریں دیکھ چکے تھے، عوام کا ایک سمندر ان کے استقبال کے لئے سڑکوں پر آیا۔ عوام کے پیار سے سرشار منڈیلا نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ لوگ اپنی محبت سے انہیں مار دیں گے۔
    رہائی کے بعد منڈیلا نے مفاہمت کی سیاست پر زور دیا۔ ملک کے پہلے الیکشن میں فتح کے بعد وہ انیس سو چورانوے میں پانچ برس کے لئے صدر منتخب ہوئے۔ اقوام متحدہ کے تحت کی ان کی سالگرہ پرسڑسٹھ منٹ معاشرے کی فلاح کے لئے وقف کئے جاتے ہیں۔