کھٹمنڈو : نیپال میں دو دن کی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے زبردست تباہی مچادی، اب تک 170 افراد ہلاک اور درجنوں لاپتہ ہیں، تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔
اس حوالے سے نیپالی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں دو دن کی شدید بارش کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کے نتیجے میں 170 افراد ہلاک ہوگئے، تین ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا گیا لیکن درجنوں افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس دوران لینڈ سلائیڈنگ سے سینکڑوں گھر بھی تباہ ہوگئے جبکہ سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جنہیں طبی امداد کیلیے مختلف اسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
کھٹمنڈو میں ہونے والے شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے دارالحکومت کا نظام درہم برہم کردیا، مشرقی اور وسطی نیپال کا بڑا حصہ سیلاب کے باعث زیرآب آگیا ہے، طوفانی بارشوں سے ایئرپورٹس کا نظام درہم برہم ہے ہوگیا۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کئی شاہراہیں بند ہوگئیں اور کھٹمنڈو کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہو گیا اور شاہراہوں سے ملبے کے ڈھیر کو صاف کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ 3 ہزار سے زائد لوگوں کو بچا لیا گیا ہے۔
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے اطراف کے علاقے ڈوب گئے، متاثرہ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی جان بچانے کے لیے ایک چھت سے دوسری چھت پر چھلانگ لگانی پڑی، ہزاروں گھر سیلاب میں ڈوب گئے، مکین چھتوں پر محصور ہیں۔
پاکستان کا نیپالی عوام سے اظہار ہمدردی
دوسری جانب پاکستان نے نیپال میں سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ نیپال کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
ترجمان نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ نیپال میں سیلاب سے جانی نقصان اور تباہی پر دکھ ہے، ہماری دعائیں سیلاب متاثرین کے ساتھ ہیں۔
کھٹمنڈو: نیپال میں مون سون اسپیل نے تباہی مچا دی، مختلف واقعات میں 47 افرد ہلاک ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق دارالحکومت کھٹمندو سمیت نیپال کے دیگر شہروں میں شدید بارش اور لینڈ سلائیڈ نے نظام زندگی درہم برہم کر دیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق بارش کا موسم شروع ہونے کے بعد سے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں نیپال میں سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں کم از کم سنتالیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سب سے زیادہ ہلاکتیں مٹی کے تودے گرنے سے ہوئیں، جن کی تعداد 24 ہے جب کہ 19 افراد زخمی ہوئے ہیں، 46 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے اور 36 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
شدید بارش کے باعث شاہراہیں تالاب بن گئیں، متعدد علاقے زیر آب آ گئے، جس سے ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ نیپال میں سالانہ بنیادوں پر مون سون کے دوران لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی وجہ سے زیادہ تر اموات واقع ہوتی ہیں۔
کھٹمنڈو : نیپال میں گزشتہ روز مسافر طیارہ حادثے کی ایک اور ویڈیو نے صارفین کو افسردہ کردیا، ایک مسافر اپنے موبائل فون سے ٹوئٹر پر لائیو ویڈیو میں دوستوں سے رابطے میں تھا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز نیپال کے پوکھارا انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بدنصیب مسافر طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 72 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
مذکورہ طیارہ حادثے سے چند لمحے قبل ایک مسافر خوشگوار موڈ میں ٹوئٹر پر اپنی زندگی کی آخری لائیو ویڈیو میں دوستوں کے ساتھ رابطے میں تھا، ٹوئٹر پر لائیو ویڈیو کرنے والے بدنصیب مسافر کی فوٹیج منظر عام پر آگئی۔
ٹوئٹر ویڈیو دیکھ کر صارفین بھی افسردہ ہوگئے، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نوجوان نے مسکراتے ہوئے خود کو دکھایا پھر کیمرہ جہاز کی کھڑکی کی جانب کردیا جہاں سے باہر کے مناظر دکھائی دیئے۔
🚨Trigger Warning.
The guy who’s shooting this is from Ghazipur India. Moments before the crash. https://t.co/hgMJ187ele
حادثے سے قبل جہاز بہت زیادہ اونچائی پر نہیں تھا اور زمین واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی اسی دوران نوجوان مسافر نے کیمرے کا رخ مسافروں کی جانب کیا اور پھر اپنے جانب جس میں وہ مسکراتا ہے اور اچانک سے کیمرے کا توازن بگڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ لائیو اسٹریمنگ کے دوران دھواں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اس ویڈیو کو اب تک پونے پانچ لاکھ سے زائد صارفین دیکھ چکے ہیں، جہاز ایئر پورٹ پر اترنے سے چند لمحے قبل جہاز کے اندرونی منظر یہ دردناک ویڈیو سوش میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جسے بہت سے صارفین خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
نیپال: پوکھارا انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا، حادثے میں 48 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق نیپال میں 72 افراد کو لے جانے والا طیارہ گر کر تباہ ہونے سے کم از کم اڑتالیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں، حادثے کے بعد پوکھارا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فضائی آپریشن معطل کر دیا گیا۔
ایئر لائن کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ نیپال کی یٹی ایئر لائنز کے جڑواں انجن والے اے ٹی آر 72 طیارے میں 72 افراد سوار تھے، جن میں 2 شیر خوار بچے، عملے کے 4 ارکان اور 10 غیر ملکی شہری شامل تھے، بھارتی میڈیا کے مطابق 5 مسافروں کا تعلق بھارت سے اور 4 کا روس سے تھا۔
Tragic News coming in.
Plane Crash in Nepal with 72 On-board. Yeti Air (ATR72)
کٹھمنڈو: نیپال میں عدالت نے سیاح لڑکیوں اور لڑکوں کے خطرناک سیریل کلر چارلس سوبھراج کو 19 سال بعد رہا کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق بدھ کو نیپال کی سپریم کورٹ نے سیریل کِلر چارلس سوبھراج نامی فرانسیسی شہری کی رہائی کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ قیدی کو مسلسل جیل میں رکھنا انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
اے ایف پی کے مطابق عدالت نے کہا کہ چارلس سوبھراج کے خلاف کوئی اور کیس زیر التویٰ نہیں ہے تو یہ عدالت اس کی رہائی اور 15 دنوں کے اندر اس کی ملک واپسی کا حکم دیتی ہے۔
چارلس سوبھراج کو دنیا بھر میں ’سانپ‘ اور ’بکنی کِلر‘ کے ناموں سے جانا جاتا ہے، اس پر ہالی ووڈ میں فلم اور نیٹ فلیکس سیریز بھی بنی، اس پر ایشیا میں 20 سے زیادہ نوجوان سیاحوں کو قتل کرنے کا الزام تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ سوبھراج نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں سیاحوں کے مسلسل قتل کیے، آج جمعرات کو اسے کھٹمنڈو کی سینٹرل جیل سے رہا کیا جانا ہے۔
بدنام زمانہ 78 سالہ قاتل کو نیپال کے دارالحکومت میں ایک امریکی خاتون کونی جو برونزیچ اور اس کے کینیڈین سیاح دوست لارینٹ کیریری کے قتل کے جرم میں 20،20 سال کی دو عمر قیدوں کی سزا ہوئی تھی، خیال رہے کہ نیپال میں عمر قید کی سزا 20 سال ہے۔
چارلس سوبھراج نے پورے ایشیا میں کم از کم 20 نوجوان مغربی سیاحوں کو ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں نشہ آور چیز دے کر قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا، تاہم نیپال میں 2004 میں پہلی بار وہ عدالت میں مجرم پایا گیا۔
تھائی لینڈ نے سب سے پہلے 1970 کی دہائی کے وسط میں پٹایا کے ساحل پر 6 خواتین کو منشیات دینے اور قتل کرنے کے الزام میں اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔
سوبھراج کو ’دی سرپنٹ‘ (سانپ) کے نام سے اس لیے جانا جاتا تھا کیوں کہ وہ پکڑ سے بچنے کے لیے اپنا بھیس بدلنے، جیل سے فرار ہونے، دوسری شناختیں اختیار کرنے، اور نوجوان خواتین کو اپنی جانب راغب کرنے میں بہت ماہر تھا۔ وہ 1980 کی دہائی کے وسط میں بھارت کی ایک جیل سے محافظوں کو نشہ دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔ بعد میں اسے پکڑا گیا اور 1997 تک نئی دہلی کی سب سے زیادہ حفاظت والی تہاڑ جیل میں قید رکھا گیا، جہاں اس نے 20 سال قید کاٹی۔ اس کے بعد وہ ستمبر 2003 میں کھٹمنڈو کے ایک کیسینو میں دوبارہ سامنے آیا۔
ماضی
چارلس سوبھراج کا بچپن اچھا نہیں تھا، بچپن ہی سے اس نے جرائم کا آغاز کر دیا تھا، اور فرانس میں وہ کئی بار جیل کی ہوا کاٹ کر آیا، 1970 کی دہائی کے اوائل میں اس نے دنیا کا سفر کرنا شروع کیا، اور وہ یورپ سے جنوب مشرقی ایشیا تک ہپیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے نوجوان سیاحوں سے دوستی اور ان سے لوٹ مار کرنے لگا۔
بنکاک میں 1975 میں اس نے مدد اور رہائش کے لیے نادین گیرس نامی خاتون سے دوستی کی، اس خاتون نے سوبھراج کو ’مہذب اور شائستہ‘ آدمی قرار دیا، لیکن وہ بہت تیز تیز باتیں کرتا تھا، مگر جلد ہی وہ اس سے خوف زدہ ہو گئی اور اسے ’لٹیرا، دھوکے باز، اور قاتل‘ قرار دے دیا، اس وقت سوبھراج نے جواہرات کے تاجر کا روپ دھارا ہوا تھا تاکہ آسانی سے نوجوان اور قلاش سیاحوں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔
وہ سیاحوں کو گلا گھونٹ کر مار دیتا تھا یا جلا دیتا تھا، اور اکثر اپنے مرد شکار کے پاسپورٹ کو اپنی اگلی منزل تک جانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ 2008 میں جیل میں، سوبھراج نے نیہیتا بسواس سے شادی کی، جو اس سے 44 سال چھوٹی اور اس کے نیپالی وکیل کی بیٹی تھی۔ سوبھراج کا 2017 میں دل کا پانچ گھنٹے کا آپریشن بھی ہوا۔
رہائی کیسے؟
نیپال کی سپریم کورٹ نے بدھ کے روز سوبھراج کی رہائی کا حکم دیا، اس کی قانونی ٹیم نے کامیابی کے ساتھ ایک درخواست دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سوبھراج کو اس کی عمر 78 سال اور اچھے برتاؤ کی وجہ سے قید کی سزا میں رعایت دی جانی چاہیے۔ نیپالی قانون میں ایک شق ایسے قیدیوں کو رہا کرنے کی اجازت دیتی ہے جنھوں نے اچھے کردار کا مظاہرہ کیا ہو اور اپنی قید کی 75 فی صد مدت پوری کر لی ہو۔
کھٹمنڈو / نئی دہلی: جنوبی ایشیائی ملک نیپال میں 6.6 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جس میں اب تک 6 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، بھارت کے کئی شہروں میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز علیٰ الصبح نیپال کے متعدد علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے، نیپالی سسمولوجیکل سینٹر کے مطابق زلزلے کی شت 6.6 تھی۔
زلزلے کے جھٹکے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت متعدد بھارتی شہروں میں بھی محسوس کیے گئے، پچھلے 24 گھنٹے میں زلزلے کے تین جھٹکے محسوس کیے گئے۔
زلزلے کا مرکزبھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر پیلی بھیت سے 158 کلومیٹر دور اور نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے 340 کلو میٹر دور دیپایل کا قصبہ تھا۔
زلزلے کے بعد نیپال میں اب تک کم از کم 6 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں، درجنوں مکانات منہدم ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نیپال کے وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا نے متاثرین کے ساتھ دلی ہمدری کا اظہار کیا ہے، اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ میں نے متعلقہ ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ زخمیوں اور دیگر متاثرین کے فوری اور مناسب علاج کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔
نیپالی آرمی کے ایک ترجمان نارائن سیلوال کا کہنا ہے کہ راحت اور بچاؤ ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی ہیں اور 2 ہیلی کاپٹروں کو بھی تیار رکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ نیپال میں اپریل 2015 میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں تقریباً 9 ہزار افراد ہلاک اور 5 لاکھ سے زائد مکانات منہدم ہو گئے تھے۔
اس زلزلے نے کئی قصبوں اور صدیوں پرانے مندروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا، نیپالی معیشت کو اس زلزلے کی وجہ سے 6 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔
’میں کبھی اسکول نہیں گئی، لیکن ہمیشہ سے پڑھنا چاہتی تھی، شادی ہونے کے بعد اپنے بچوں کو پڑھانا اور انہیں بڑا آدمی بنانا چاہتی تھی لیکن جیب اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ لیکن اب زندگی نے ایسی کروٹ لی ہے کہ میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے قابل ہوگئی ہوں‘، 35 سالہ جمنا کے چہرے کا اطمینان بتا رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلی سے بے حد خوش ہیں۔
اور ایک جمنا ہی نہیں، نیپال کے اس گاؤں کی رہائشی درجنوں خواتین بے حد خوش ہیں، 3 سال قبل شروع کی جانے والی باغبانی نے ان کی زندگی پہلے کے مقابلے میں خاصی بہتر کردی ہے۔
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع گاؤں کوئیکلٹھمکا میں چند سال قبل تک حالات خاصے دگرگوں تھے، معلومات اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے گاؤں والے سال بھر میں کوئی ایک فصل اگا پاتے تھے، جس کی فروخت سے وہ جیسے تیسے زندگی گزار رہے تھے۔
اس فصل پر کیڑے مار ادویات کے استعمال سے گاؤں میں مختلف امراض بھی عام تھے جن میں جلدی الرجی سرفہرست تھی، معاشی پریشانی کی وجہ سے بہت کم لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے قابل تھے۔
پھر یہاں ایک انقلاب در آیا، حکومتی سرپرستی کے تحت چلنے والے ایک ادارے نے یہاں گھریلو باغبانی یا ہوم گارڈننگ کا سلسلہ شروع کروایا اور اس کے لیے خواتین کو چنا گیا۔
مختصر تربیت کے بعد خواتین نے اپنے گھروں میں سبزیاں اگانی شروع کیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کا نقشہ بدل گیا، وہ گاؤں جہاں پہلے غربت کے ڈیرے تھے، اب وہاں خوشحالی، صحت اور سکون کی فراوانی ہوگئی۔
دنیا بھر میں بدلتے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی کلائمٹ چینج نے زندگی کے مختلف ذرائع پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور زراعت بھی انہی میں سے ایک ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے گزشتہ 60 برسوں میں دنیا بھر کی زراعت میں 21 فیصد کمی آئی ہے۔
کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر اثر انداز ہونے والے عناصر میں سب سے اہم پیداواری موسم میں کمی ہے، یعنی غیر متوقع طور پر ہونے والی بارشیں اور موسم گرما کے دورانیے میں اضافہ فصلوں کو متاثر کر رہا ہے۔
موسم گرما کے دورانیے میں اضافے سے ایک طرف تو سرد موسم میں پیدا ہونے والی فصلوں کو افزائش کے لیے کم وقت مل رہا ہے، دوسری جانب طویل دورانیے کی گرمی، موسم گرما میں پیدا ہونے والی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔
دنیا بھر میں پیدا ہونے والی قلت آب بھی اس کا اہم سبب ہے، علاوہ ازیں بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جب فصل بڑھانے کے لیے دوائیں استعمال کی جاتی ہیں اور زمین کی استطاعت سے زیادہ پیداوار کی جاتی ہے تو زمین جلد بنجر ہوجاتی ہے یوں زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جاتا ہے۔
مستقبل قریب میں غذائی قلت کے ان خطرناک امکانات کو دیکھتے ہوئے مختلف طریقے متعارف کروائے جارہے ہیں، اور انہی میں سے ایک طریقہ ہوم گارڈننگ یا گھر میں سبزیاں اگانا بھی ہے۔
نیپال کے ایک گاؤں میں اس ہوم گارڈننگ نے مقامی خواتین کی زندگی بدل دی ہے۔
نیپال ۔ کلائمٹ چینج سے نمٹنے کی کوشش کرتا ملک
لگ بھگ 2 کروڑ 92 لاکھ آبادی والا جنوب ایشیائی ملک نیپال اپنے 25 فیصد رقبے پر جنگلات رکھتا ہے تاہم یہاں بھی کلائمٹ چینج کے اثرات نمایاں ہیں۔
زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے سی جی آئی اے آر کے مطابق نیپال میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر پڑنے والے منفی اثرات، ممکنہ غذائی قلت، آبی قلت، اور جنگلات میں کمی کی وجہ سے لاکھوں نیپالی خطرے کا شکار ہیں۔
پہاڑوں سے گھرے اس ملک میں پانی کا اہم ذریعہ گلیشیئرز ہیں تاہم درجہ حرارت میں اضافے سے ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوچکا ہے، بدلتے موسموں نے خشک علاقوں کی خشکی اور مرطوب علاقوں کی نمی میں اضافہ کردیا ہے اور زراعت کے لیے یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال نیپال کی جی ڈی پی میں کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ڈیڑھ فیصد تک کی کمی واقع ہو رہی ہے، سنہ 2050 تک یہ شرح 2.2 فیصد اور رواں صدی کے آخر تک 9.9 فیصد تک جا پہنچے گی۔
چھوٹی چھوٹی کوششیں جو لوگوں کی زندگی تبدیل کر رہی ہیں
بدلتے موسموں کی وجہ سے زراعت پر ہونے والے نقصانات نئی ترجیحات اور اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں جن میں سب سے آسان گھر میں باغبانی یا ہوم گارڈننگ ہے تاکہ ہر گھر اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوسکے۔
اس کی ایک بہترین مثال نیپال کے چند گاؤں ہیں جہاں ہوم گارڈننگ نے مقامی افراد کی زندگی بدل دی ہے۔
ہوم گارڈننگ کی وجہ سے جمنا کے بچے اسکول جانے کے قابل ہوگئے ہیں
35 سالہ جمنا ادھیکاری کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع ایک پہاڑی علاقے کوئیکلٹھمکا کے ایک گاؤں کی رہائشی ہیں، 3 سال قبل جب انہوں نے اپنے گھر میں باغبانی شروع نہیں کی تھی تب وہ اور گاؤں کے دیگر گھرانے مخصوص خوراک کھانے پر مجبور تھے، اس کی وجہ مارکیٹس کا گاؤں سے دور ہونا اور معاشی پریشانی تھی۔
جمنا بتاتی ہیں کہ اس وقت گاؤں میں عموماً سبھی کسان سرسوں اگاتے تھے جسے فروخت کر کے وہ ایک محدود رقم حاصل کر پاتے، اس معمولی رقم سے جیسے تیسے زندگی گزر رہی تھی۔
پھر 3 سال قبل چند اداروں کی مدد سے انہیں گھر میں سبزیاں اگانے کے حوالے سے تربیت دی گئی، اس کا بنیادی مقصد تو گاؤں والوں کی غذائی ضروریات پورا کرنا تھا تاکہ انہیں اپنے گھر میں ہی مختلف سبزیاں حاصل ہوسکیں، ان کی رقم کی بچت ہو جبکہ سبزیاں خریدنے کے لیے گاؤں سے دور آنے جانے کی مشقت بھی ختم ہوسکے۔
لیکن اب تین سال میں گاؤں کی تمام خواتین نے اس باغبانی کو اس قدر وسعت دے دی ہے کہ نہ صرف ان کے گھر کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ وہ اس سبزی کو فروخت بھی کر رہی ہیں۔
’اس سبزی کی فروخت سے ہر گھر کو سالانہ تقریباً 1 لاکھ روپے تک کی آمدن حاصل ہوتی ہے، اتنی بڑی رقم ہم نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی‘، جمنا چمکتی آنکھوں کے ساتھ بتاتی ہیں۔
اپنے گھر میں ہونے والی باغبانی کے حوالے سے جمنا بتاتی ہیں کہ وہ دو حصوں میں باغبانی کرتی ہیں، ایک گھر کی ضرورت کے لیے، دوسرا فروخت کے لیے۔ گھر کے لیے وہ 21 قسم کی سبزیاں اگاتی ہیں جن میں پھول گوبھی، بند گوبھی، ٹماٹر، مرچ، بینگن اور گاجر وغیرہ یکے بعد دیگرے اگاتی ہیں۔
تجارتی مقصد کے لیے اگائی جانے والی سبزیوں کی تعداد کم لیکن مقدار زیادہ ہے۔
گاؤں والوں کو تربیت دینے والی نیپال کی ایک مقامی تنظیم CEAPRED کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کرن بھوشل اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب اس گاؤں میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ گاؤں والے غذائی عدم توازن کا شکار تھے کیونکہ وہ چند مخصوص غذائیں ہی کھا رہے تھے۔
’اس کی وجہ معاشی طور پر کمزور ہونا اور شہر کی مارکیٹ تک عدم رسائی تھی، ہم نے یہ خیال پیش کیا کہ اگر گاؤں والے اپنے گھر میں ہی سبزیاں اگائیں تو ان کے لیے خوراک کا حصول آسان ہوسکتا ہے، جبکہ اضافی دیکھ بھال سے وہ اس موسم میں بھی سبزیاں حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے جو نسبتاً خشک سالی کا موسم ہوتا ہے اور فصل کی پیداوار کم ہوتی ہے‘، کرن نے بتایا۔
تاہم اس سے آمدن کا حصول ایک اضافی فائدہ تھا جس نے گاؤں والوں کی زندگی خاصی بہتر بنائی، جمنا بتاتی ہیں کہ ایک غریب خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اسکول نہیں جاسکیں، لیکن اب اس آمدن نے انہیں اس قابل کردیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہی ہیں۔
نقصان دہ کیمیکل فرٹیلائزر سے نجات
نیپال کے ان دیہات میں کاشت کاری اور باغبانی کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد ’جھولمال‘ استعمال کی جارہی ہے، یہ کھاد جانوروں کے گوبر، گلی سڑی سبزیوں پھلوں اور پتوں سے تیار کی جاتی ہے۔
فصلوں پر گائے کے پیشاب سے تیار کردہ ایک اسپرے بطور کیڑے مار دوا استعمال کیا جارہا ہے۔
کرن بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل تک جب گاؤں والے اپنی فصل پر نقصان دہ کیڑے مار ادویات استعمال کیا کرتے تھے تب وہ مختلف طبی مسائل میں مبتلا تھے، ’اس وقت گاؤں میں اسکن الرجی اور سر درد کی بیماریاں عام تھیں، پھر کیمیکل فرٹیلائزر بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کا مستقل استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، تاہم اب کمرشل فصل اور گھریلو باغبانی دونوں کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد اور اسپرے استعمال کیا جارہا ہے اور لوگوں کے صحت کے مسائل میں خاصی کمی آئی ہے‘۔
امریکی تحقیقاتی ادارے ڈرگ واچر کے مطابق فصلوں پر چھڑکی جانے والی اور زمین کی زرخیزی کے لیے استعمال کی جانے والی کیمیکل ادویات جلد کی الرجی سے لے کر سانس، ہاضمے کے مسائل اور کینسر تک کا سبب بن سکتی ہیں۔
کرن کہتے ہیں کہ گھر میں کی جانے والی آرگینک فارمنگ نے مقامی افراد کو نقصان دہ فرٹیلائزر اور کیڑے مار ادویات سے تحفظ فراہم کردیا ہے۔
پانی کی فراہمی کے لیے مقامی ذرائع
سارا سال سبزیوں کے حصول کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خشک سالی سے نمٹنا تھا، کرن کے مطابق بارشوں کے موسم میں کچھ بھی اگا لینا تو بے حد آسان تھا لیکن مسئلہ تب ہوتا جب بارشیں ختم ہوجاتیں۔
اس وقت پانی کی کمی گاؤں والوں کی تجارتی فصل کی پیداوار کو بھی متاثر کرتی۔
سوائل سیمنٹ ٹینک
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گاؤں میں جگہ جگہ خاص قسم کے ٹینکس بنائے گئے، چکنی مٹی، ریت اور سیمنٹ سے تیار کردہ ان ٹینکس میں بارش کا پانی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے جو بارش کا سیزن ختم ہوجانے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔
’ہوم گارڈننگ کی وجہ سے ہمارے حالات خاصے بہتر ہوگئے ہیں، معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہمیں صحت کا تحفہ بھی ملا ہے، ذرا سی محنت اور معمولی کوشش سے ہماری زندگی اتنی بہتر ہوجائے گی، ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا‘، جمنا جھلملاتی مسکراہٹ کے ساتھ بتاتی ہیں۔
کٹھمنڈو: نیپال میں مردہ خور جانور گِدھوں کی ضیافت کے لیے کئی ریسٹورنٹ کھل گئے ہیں۔
نیپال میں دنیا کی نایاب گِدھ جاتی کے تحفظ کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ایک طرف سرکار کی طرف سے مال مویشیوں کو دی جانے والی ایک قسم کی دوا ڈائیکلوفینک پر پابندی لگائی تو دوسری طرف رضاکارانہ طور پر مقامی افراد نے گِدھوں کی ضیافت کے لیے ریسٹورنٹ کھول دیے ہیں۔
گِدھ جاتی کے تحفظ کے لیے نیپال کا پہلا ریسٹورنٹ ایک کاروباری شخصیت دھان بہادر چوہدری نے ایک این جی او کے تعاون سے چھوٹے سے گاؤں پیتھاؤلی میں 2010 میں کھولا تھا، پیتھاؤلی کا گاؤں چٹوان نیشنل پارک کے باہر واقع ہے۔
دوسرا ریسٹورنٹ پوکھارا میں 2014 میں قائم کیا گیا تھا، یعنی پیتھاؤلی گاؤں کے ریسٹورنٹ کے چار سال بعد، پوکھارا کا قصبہ گاہا چوک وادی میں میں واقع ہے، یہ وادی کوہِ ہمالیہ کی ترائیوں پھیلی ہوئی ہے۔
اس علاقے میں اس پہاڑی ملک کی ان 7 برادریوں میں سے ایک آباد ہے، جنھوں نے پہاڑی جنگلوں میں بسنے والی گِدھوں کے لیے خصوصی ریسٹورنٹس قائم کر رکھے ہیں۔
ریسٹورنٹس کھلنے کی وجہ سے اس بلند و بالا پہاڑیوں میں گھرے ملک میں گِدھ کی کم ہوتی نسل میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ریسٹورنٹ کا کھانا
ریسٹورنٹ قائم کرنے والے دھان بہادر چوہدری کہتے ہیں کہ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں گدھ کیمیائی مادوں سے صاف خوراک کھا سکیں۔ ان ریسٹورنٹس میں ایسے مال مویشی کاٹ کر ڈالے جاتے ہیں جو عمر رسیدہ ہو جاتے ہیں۔
کسی مقام پر گر کر مر جانے والے ایسے جانوروں کو بھی گِدھوں کی خوراک بنایا جاتا ہے، یہ ریسٹورنٹ زیادہ عمر کے جانور خریدتے بھی ہیں، زیادہ عمر کی گائے کی طبعی موت کے بعد اس کی جلد اتار لی جاتی ہے اور بقیہ نعش گِدھ نسل کے مخصوص ریسٹورنٹ کے علاقے میں رکھ دی جاتی ہے۔
نعش رکھنے کے کچھ ہی دیر بعد درختوں پر ڈھیرے ڈالے بے شمار گِدھ اتر آتے ہیں اور صرف آدھ گھنٹے میں قریب قریب ساری نعش چٹ کر جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں گِدھ کی برصغیر میں پائی جانے والی 9 میں سے 4 اقسام اس وقت معدومیت کا شکار خیال کی جاتی ہیں۔
کھٹمنڈو : انتہا پسندبھارت سے تنگ نیپال نے بھارتی نیوز چینلز پر پابندی عائدکردی، بھارتی میڈیا گزشتہ کئی ہفتوں سے نیپالی وزیراعظم کیخلاف مہم چلا رہا تھا۔
تفصیلات کے مطابق نیپال نے بھارتی نیوز چینلز پر پابندی عائد کردی، پابندی نیپالی وزیراعظم کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے پر لگائی گئی ہے، بھارتی میڈیا گزشتہ کئی ہفتوں سے نیپالی وزیراعظم کیخلاف مہم چلا رہا تھا۔
نیپالی وزیر اعظم کے چیف ایڈوائزر بشنو رامال کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے خلاف بھارتی میڈیا میں گمراہ کن رپورٹس آرہی تھیں، جو انتہائی قابل اعتراض تھیں۔
اس سے قبل نیپال کے وزیر خزانہ نے قابل اعتراض مواد نشر کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے ہمسایہ ملک سمیت تمام میڈیا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایسی خبریں نشر نہ کریں جو ہمارے ملک کی شبیہہ کو نقصان پہنچائیں۔
خیال رہے نیپال کے نئے نقشے میں شامل تین علاقوں پربھارت اپنا دعویٰ کرتا ہے جبکہ نیپال نے بھارتی دعوے کومسترد کردیا ہے۔
یاد رہے نیپال کے نئے سیاسی نقشے میں لیپولیکھ، لمپیادھورا اور کالاپانی کو نیپال کی سرحد کے اندر دکھایا گیا تھا ، نقشے کی تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم بل ایوان زیریں میں بحث کے لیے پیش کیا گیا جسے اراکین نے بھاری اکثریت سے منظور کرلیا تھا۔
کھٹمنڈو : نیپال کی حکومت نے ہلاکت خیز کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو کوہ پیماؤں کے لیے بند کردی، کوہ پیماؤں کے اجازت نامے منسوخ کردئیے گئے۔
تفصیلات کے مطابق حکومت نیپال نے مہلک کرونا وائرس کے پیش نظر ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کیلئے آنے والے کوہ پیماؤں کے اجازت ناموں کو 14مارچ سے 30 اپریل تک معطل کردیا ہے۔
نیپالی حکومت نے سیاحوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ 14 مارچ سے ملک میں آنے والے سیاح 14 روز کا قرنطینہ اختیار کریں۔ جب کہ چین نے اس سے قبل ہی اپنے علاقے سے ماؤنٹ ایورسٹ کو بند کررکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق نیپال ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کرنے والوں کو اجازت نامے جاری کر کے تقریباً 4 ملین ڈالر کماتا ہے۔ امریکا، بھارت، چین، برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا سے زیادہ تر مہم جو ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی کے لیے آتے ہیں جب کہ یہ حکومت کے ریونیو کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔
نیپالی وزیر اعظم کے دفتر کے سیکریٹری نارائن پرساد بیدار نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ حکومت نے 30اپریل تک تمام سیاحتی ویزے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سیزن کی مہم جوئی کو منسوخ کردیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ہلاکت خیز کرونا وائرس سی او وی آئی ڈی-19سے بھارت میں اب تک 78 افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ ایک مریض مہلک وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد دنیا سے ہی رخصت ہوگیا۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس میں مبتلا 4،990 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ 135،165 افراد متاثر
ہوچکے ہیں، کرونا وائرس کے وبائی صورت اختیار کرنے کے باعث چین کے بعد اٹلی میں سب سے زیادہ اموات واقع ہوئی ہیں۔
چین اور یورپ سمیت دنیا بھر کے ممالک کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں تاحال ناکام ہیں لیکن اس وبا میں مبتلا ہونے والے70،407افراد صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔