Tag: nepal qauke

  • نیپال : زلزلےسےہلاکتوں کی تعداد7ہزار سے زائد ہوگئی

    نیپال : زلزلےسےہلاکتوں کی تعداد7ہزار سے زائد ہوگئی

    کھٹمنڈو: نیپال میں قیامت خیز زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد سات ہزار سےزائد ہوگئی ہے۔

    نیپال میں زلزلے کے باعث کٹھمنڈو میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، لوگوں کو پانی کے حصول میں سخت دشواریوں کا سامنا ہے۔

    نیپال میں گزشتہ ہفتے آنے والے شدید زلزلے کے باعث جہاں ہلاکتوں کی تعداد سات ہزار ہو چکی ہے وہیں دارالحکومت کھٹمنڈو میں پینے کے پانی کا بحران سنگین ہو گیا ہے۔

     انفرا سٹرکچر تباہ ہونے سے امدادی اداروں کو پانی ٹرک کے زریعےلوگوں تک پہنچا نے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کےادارہ یونیسیف نے بھی انتباہ کیا ہے کہ چند ہفتوں بعد مون سون کی بارشیں شروع ہونے سے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں موجود سترہ لاکھ بچوں میں وبائی امراض پھیل سکتے ہیں، اقوام متحدہ کی نیپال میں زلزلہ زدگان کی امداد ی کام تیز کرنے کی اپیل کی ہے۔

  • نیپال: 50گھنٹے بعد ایک خاتون کو ملبے سے زندہ نکال لیا گیا

    نیپال: 50گھنٹے بعد ایک خاتون کو ملبے سے زندہ نکال لیا گیا

    کھٹمنڈو: نیپال میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد امدادی کام جاری ہیں ،پچاس گھنٹے بعد ایک خاتون کو ملبے سے زندہ نکال لیا گیا۔

    کہتے ہیں جسے خدا رکھے اسے کون چکھے،ایسا ہی کچھ ہوا نیپال میں جہاں شدید زلزلے کے تیسرے روز امدادی کارکنوں نے کئی گھنٹے کی محنت کے بعد ایک خاتون کو ملبے سے زندہ نکال لیا، خاتون کو ملبے تلے دبے پچاس گھنٹے گزر چکے تھے۔

     خاتون کو زندہ دیکھ کر اس کے گھر والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ایک رشتہ دار خاتون نے تصویر کی مدد سے بتایا کہ ملبے سے نکالی جانے والی خاتون کون تھی۔

     امدادی کام کرنے والی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ خاتون ملبے میں ایک سیلب کے نیچے دبی ہوئی تھی جسے نکالنے کیلئے انتہائی احتیاط سے کام لیا گیا ورنہ خاتون کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا۔

  • زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 10،000تک پہنچ سکتی ہے، نیپالی وزیراعظم

    زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 10،000تک پہنچ سکتی ہے، نیپالی وزیراعظم

    کھٹمنڈو: نیپالی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔

    نیپال میں بھونچال نے انسانی المیے کو جنم دے دیا،زلزلے سے پانچ ہزار ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے، لیکن تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے نیپال کے وزیر اعظم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تعداد دس ہزار تک جاسکتی ہے۔

     نیپال میں زمین کی ہلچل نے ہزاروں کو گھروں سے محروم کردیا اور زندگی سے بھرپور بستیوں میں قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کےمطابق زلزلے سے متاثرہ افراد کی تعداد اسی لاکھ ہے،تاریخ کے بدترین زلزلے نے جہاں بستیاں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹادیں وہیں آفٹر شاکس نے لوگوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔

    متاثرہ خاندان رات کھلے آسمان تلے رات گزار رہے ہیں، متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں تو جاری ہیں، لیکن کئی علاقے اب بھی دواؤں کھانے پینے کی اشیا سمیت ایندھن کی قلت کا شکار ہیں تو کچھ ایسے ہیں جہاں اب تک امداد نہیں پہنچ سکی ہے۔

     پاکستان کی جانب سے پاک فضائیہ کے مزید دو سی ون تھرٹی طیارے امداد لے کر کٹھمنڈو پہنچ چکے ہیں۔

  • زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    کراچی (ویب ڈیسک ) – قدرتی آفات میں زلزلے کا شمارانسان کے سب سے ہولناک اورتباہ کن دشمنوں میں ہوتا ہے انسانی تاریخ میں جتنا نقصان زلزلے نے کیا آج تک کسی قدرتی آفت نے نہیں کیا جس کی تازہ مثال رواں ماہ نیپال میں آنے والے زلزلہ ہے جس میں اب تک سارھے چار ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ 2005 میں پاکستان میں آنے والا زلزلے کا شمار انسانی تاریخ کے ہولناک ترین حادثوں میں ہوتا ہے جس میں لگ بھگ 85 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔

    گزرے وقتوں میں جب سائنس اورٹیکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی. کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کواپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے. مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے. اسی طرح ہندودیو مالائی تصوریہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اسکے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جن کے مطابق زمین کی تہوں میں موجو د ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں۔

    سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراس طرح ہرنئے سا نحے کے بعد اس کے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے. یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پذیرہونے سے پہلے پیشگی اطلاع فراہم ہوجاتی ہواوراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہےمثلاً سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں، انکی شدت اوران کے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹلائیٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اوراس سے بچاؤ کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں مگر زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ۔۔ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے۔

    بیشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد انکی شدت، انکے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں؛ ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اوردوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے. زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے .میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیں.ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دھنس جاتا ہے اورکچھ اوپرکو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے.

    زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اس کے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پرمنحصر ہے اسی طرح جب آتش فشاں پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوخارج ہوتا ہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کیلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفرکرتی ہیں اورماہیت کے حساب سے چار اقسام میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

    دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیں.پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے. سیکنڈری ویوز زمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں. ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا۔

    زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو انکی قوت سے پانی میں شدید طلاطم اور لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کیلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کرناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جس کی مثال 2004 ء کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔