Tag: NETHERLANDS

  • قومی کرکٹرز کی چائے کے دھابے پر انٹری، شائقین حیران

    قومی کرکٹرز کی چائے کے دھابے پر انٹری، شائقین حیران

    لاہور: دورہ ہالینڈ سے قبل قومی کرکٹرز کی اچانک چائے کے دھابے پر انٹری نے شائقین کرکٹ کو حیران کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم نے دورہ ہالینڈ کے لئے اڑان بھرلی ہے، ٹیم غیر ملکی ایئر لائن کی پرواز سے نیدرلینڈ روانہ ہوئی۔

    پاکستان اور ہالینڈ کے درمیان تین میچوں پر متشمل ون ڈے سیریز سولہ اگست سے شروع ہوگی، یہ سیریز آئی سی سی کی’ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ سپر لیگ کے تحت کھیلی جارہی ہے۔

    غیر ملکی دورے سے قبل قومی کرکٹرز نے لاہور میں چائے کے دھابے پر انٹری کی تو لوگ حیران رہ گئے, وہاں موجود افراد نے کرکٹرز کو اپنے درمیان دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا، شاداب خان، نسیم شاہ، حارث رؤف اورمحمد نواز نے شائقین کرکٹ کے ساتھ گپ شپ لگائی اور چائے بھی پی۔

    اس موقع پر مداحوں نے قیمتی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور قومی کرکٹرز کے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں بنوا کر اسے بطور یادگار رکھ لیا۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی کرکٹرز کی چائے کے دھابے پر انٹری اور لوگوں کے ساتھ گپ شپ کی ویڈیو شیئر کی گئی ہے، جسے بہت پسند کیا جارہا ہے۔

  • نیدرلینڈز روانگی سے قبل قومی اسکواڈ کے اہم میچز

    نیدرلینڈز روانگی سے قبل قومی اسکواڈ کے اہم میچز

    لاہور: نیدرلینڈز روانگی سے قبل قومی اسکواڈ پاکستان شاہینز کے خلاف پریکٹس میچز کھیلے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بابر اعظم کی قیادت میں اعلان کردہ قومی ون ڈے انٹرنیشنل اسکواڈ نیدرلینڈز روانگی سے قبل پاکستان شاہینز کے خلاف 2 پریکٹس میچز کھیلے گا۔

    پچاس اوورز پر مشتمل یہ میچز 7 اور 10 اگست کو ایل سی سی اے گراؤنڈ لاہور میں کھیلے جائیں گے، جب کہ قومی اسکواڈ کا 7 روزہ تربیتی کیمپ 6 سے 11 اگست تک لاہور میں منعقد ہوگا۔

    ان میچز میں پاکستان شاہینز کی قیادت سعود شکیل کریں گے، جب کہ نیدرلینڈز کے لیے اعلان کردہ قومی ون ڈے انٹرنیشنل اسکواڈ میں شامل عبداللہ شفیق اور زاہد محمود ان میچز میں پاکستان شاہینز کی نمائندگی کریں گے۔

    اعلان کردہ 12 کھلاڑی:

    سعود شکیل (کپتان)، حسیب اللہ (وکٹ کیپر)، عبداللہ شفیق، زاہد محمود، کامران غلام، عبدالواحد بنگلزئی، قاسم اکرم، میر حمزہ، عباس آفریدی، ارشد اقبال، ابرار احمد، فیصل اکرم۔

    یہ پہلا موقع ہوگا جب قومی کرکٹ ٹیم اور پاکستان شاہینز آمنے سامنے آئیں گے، تاہم یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا، دونوں اسکواڈز کو مدمقابل لانے کا مقصد سیریز کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان شاہینز میں شامل بیک اپ کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور موقع فراہم کرنا ہے۔

    فاسٹ باؤلر حارث رؤف 7 اگست جب کہ وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان پہلے پریکٹس میچ کے بعد لاہور میں قومی ون ڈے انٹرنیشنل اسکواڈ کو جوائن کریں گے، اسکواڈ 11 اور 12 اگست کی درمیانی شب ایمسٹرڈیم روانہ ہوگا۔

    شیڈول:

    6 اگست بروز ہفتہ، سہ پہر 3 سے شام 5 بجے تک قومی اسکواڈ کا قذافی اسٹیڈیم لاہور میں نیٹ سیشن ہوگا، جب کہ اسکواڈ سے قبل قومی اسکواڈ کا ایک رکن میڈیا ٹاک کرے گا۔

    7 اگست بروز اتوار، صبح 9 سے شام 6 بجے تک قومی کرکٹ ٹیم بمقابلہ پاکستان شاہینز پہلا پریکٹس میچ ہوگا۔ 8 اگست بروز پیر، صبح 10 سے دوپہر 2 بجے تک قومی کھلاڑیوں کا نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر لاہور میں ٹریننگ سیشن منعقد ہوگا۔

    دورۂ نیدرلینڈز، ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ کے لیے قومی اسکواڈز کا اعلان

    9 اگست بروز منگل آرام کا دن ہوگا، 10 اگست بروز بدھ، صبح 9 سے شام 6 بجے تک قومی کرکٹ ٹیم بمقابلہ پاکستان شاہینز دوسرا پریکٹس میچ ہوگا۔ جب کہ 11 اگست بروز جمعرات، صبح 10 سے دوپہر 1 بجے تک قومی کھلاڑیوں کا نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر لاہور میں آپشنل ٹریننگ سیشن منعقد ہوگا۔ دوپہرساڑے بارہ بجے کپتان بابر اعظم پریس کانفرنس کریں گے۔

  • روس نے یورپی ملک کو گیس کی فراہمی روک دی

    روس نے یورپی ملک کو گیس کی فراہمی روک دی

    ماسکو: روس نے یورپی ملک نیدرلینڈز کو گیس کی فراہمی روک دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیدرلینڈز کی جانب سے روسی کرنسی روبل میں ادائیگی نہ کرنے کے فیصلے کے بعد روس نے نیدرلینڈز کو نیچرل گیس کی فراہمی روک دی۔

    نیدرلینڈز چوتھا یورپی ملک بن گیا ہے جسے روس نے گیس کی فراہمی روک دی ہے، روس کے توانائی کے بڑے ادارے گیزپارم نے منگل کو اعلان کیا کہ اس نے ڈچ ریاست کے توانائی کے ہول سیلر کو گیس کی سپلائی مکمل طور پر روک دی ہے۔

    ڈچ کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ گیس سپلائی بند ہونے کا مطلب ہے کہ یکم اکتوبر 2022 کو معاہدہ ختم ہونے کی تاریخ تک جتنی گیس کا معاہدہ ہوا ہے، وہ فراہمی نہیں ہو سکے گی۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل اپریل کے آخر میں روسی کمپنی نے بلغاریہ اور پولینڈ کو گیس کی برآمدات معطل کی تھیں، اور مئی میں فن لینڈ کو بھی گیس کی فراہمی منقطع کر دی تھی، اور اب روبل میں ادائیگی کی مانگ کو مسترد کرنے پر ڈنمارک کو بھی سپلائی روکے جانے کا سامنا ہے۔

    ماسکو کی نئی ادائیگی اسکیم کے تحت ‘غیر دوست’ ممالک سے گیس کی ادائیگیاں صرف روسی کرنسی میں قبول کی جا رہی ہیں، یہ وہ ممالک ہیں جنھوں نے گیزپارم بینک میں اکاؤنٹ کھولنے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

    اس ماہ کے شروع میں جرمنی اور اٹلی نے مبینہ طور پر قومی کمپنیوں کو قدرتی گیس کی ادائیگی کی نئی اسکیم کی تعمیل کرنے اور سپلائی میں کٹوتی سے بچنے کے لیے روس کے گیزپارم بینک کے ساتھ روبل اکاؤنٹس کھولنے کی اجازت دی تھی۔

  • نیدرلینڈز کا بھاری ہتھیاروں سے یوکرین کی مدد کا اعلان

    نیدرلینڈز کا بھاری ہتھیاروں سے یوکرین کی مدد کا اعلان

    ایمسٹرڈیم: نیدرلینڈز نے یوکرین کے شہر لیوف میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول لیا ہے، دوسری طرف ڈچ وزیر اعظم نے یوکرین کو مزید بھاری ہتھیار بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈچ وزیر اعظم مارک روٹے نے یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ فون کال کے بعد ٹویٹ کیا ہے کہ نیدرلینڈز پہلے ہی یوکرین کو بکتر بند گاڑیاں بھیج رہا ہے لیکن اب اضافی بھاری ہتھیار بھیجنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

    ڈچ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ فون پر ان کی جانب سے وزیر دفاع کاسا اولنگرین کی موجودگی میں یوکرینی صدر کو حمایت کا یقین دلایا گیا۔

    انھوں نے کہا روس نے یوکرین پر نئے سرے سے حملہ شروع کر دیا ہے، نیدرلینڈز یوکرین کو بکتر بند گاڑیوں سمیت بھاری سامان بھیجے گا، اتحادیوں کے ساتھ ہم اضافی بھاری ہتھیار کی فراہمی پر غور کر رہے ہیں۔

    دوسی جانب نیدرلینڈز نے یوکرین کے شہر لیوف میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول لیا ہے، تاہم اس مرتبہ کم اسٹاف کے ساتھ سفارت خانہ بحال کیا گیا ہے۔

    ڈچ وزارت خارجہ کے مطابق صورت حال مزید بہتر ہونے پر سفارت خانے کو لیوف سے کیف منتقل کیا جائے گا، کیف سے روسی افواج کے انخلا کے بعد سے کئی یورپی ملکوں نے اپنے سفارت خانے کیف منتقل کرنا شروع کر دیے ہیں۔

  • گھٹنے کے آپریشن کے بعد نوجوان مادری زبان بھول گیا

    گھٹنے کے آپریشن کے بعد نوجوان مادری زبان بھول گیا

    ایمسٹرڈیم: اردو میں ایک مشہور ضرب المثل ہے ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ، اس کی مصداق نیدرلینڈز میں ایک نوجوان گھٹنے کے آپریشن اپنی یادداشت ہی بھول گیا۔

    نیدرلینڈز کے شہر ماسٹرچٹ کے ایک اسپتال میں 17 سالہ نوجوان فٹ بالر کو جب گھٹنے کے آپریشن کے بعد ہوش آیا تو انکشاف ہوا کہ وہ اپنی مادری زبان ہی مکمل طور پر بھول گیا ہے، اور صرف انگریزی ہی بول سکتا ہے۔

    لڑکا، جس کا نام نہیں بتایا گیا ہے، ایک فٹ بال میچ کے دوران انجری کے بعد گھٹنے کے آپریشن کے لیے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، اینِستھیزیا سے ہوش میں آنے کے بعد وہ ڈاکٹروں کی زبان سمجھ یا ان سے ڈچ زبان میں بات نہیں کر پا رہا تھا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ صرف انگریزی بول سکتا تھا، جو اس نے صرف اسکول میں سیکھی تھی اور کلاس کے باہر کبھی استعمال نہیں کی تھی۔

    لڑکے نے آپریشن کے بعد اپنے والدین کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا، اور اس کا ماننا تھا کہ وہ امریکا میں رہتا ہے، حالاں کہ وہ کبھی بھی امریکا نہیں گیا تھا۔

    تاہم، 24 گھنٹے بعد، جب اس کے دوست عیادت کے لیے آئے، اور اس کے ساتھ باتیں کیں، تو رفتہ رفتہ اس کی دونوں صلاحیتیں یعنی ڈچ زبان بولنا اور سمجھنا ایک دم واپس آگئیں۔

    ایک میڈیکل جرنل میں اس کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ نوجوان میں فارن لینگویج سِنڈروم کا انتہائی نایاب کیس پیدا ہوا، ایسی حالت تب ہوتی ہے جب لوگ اچانک اپنی آبائی زبان بولنا بھول جاتے ہیں اور اس کی بجائے اپنی ثانوی زبان پر انحصار کرتے ہیں، اور بھلے وہ زبان انھوں نے برسوں نہ بولی ہو۔

    ڈاکٹر ابھی اس کی صحیح وجہ بتانے سے قاصر ہیں، لیکن اس طرح کے کیسز سرجری کے بعد ہی رپورٹ کیے گئے ہیں جس میں اینستھیزیا شامل ہے، یا سر میں تکلیف دہ چوٹ کے بعد۔

  • نیدر لینڈز میں کرونا پابندیوں کے خلاف پرتشدد مظاہرہ

    نیدر لینڈز میں کرونا پابندیوں کے خلاف پرتشدد مظاہرہ

    نیدر لینڈز میں کرونا وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کے پیش نظر حکومت نے پابندیاں عائد کردیں جن کے خلاف لوگ سڑکوں پر آگئے، احتجاج پرتشدد رنگ اختیار کرگیا جس کے بعد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس کی کاروں کو نذر آتش بھی کر دیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق روٹرڈیم میں ہونے والے مظاہرے کے دوران پولیس نے وارننگ شاٹس داغے اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہرے کے دوران گولیاں چلنے سے کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ایک شخص کو گولی لگنے کی ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس شخص کو کس نے اور کس طرح گولی ماری۔

    پولیس کے مطابق روٹرڈیم شہر کے مرکز میں اب بھی حالات کشیدہ ہیں اور کثیر تعداد میں پولیس فورس تعینات ہے۔ درجن بھر مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور مزید لوگوں کی گرفتاری باقی ہے۔

    پتھراؤ کی وجہ سے پولیس افسران سمیت 7 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مظاہرین کے آگ لگانے کے بعد شہر کے اہم ریلوے اسٹیشنز کو بند کرنا پڑا۔

    دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسا قانون لانا چاہتی ہے جس کے بعد کرونا پاس صرف ان لوگوں کو مل سکے گا جو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگا چکے ہوں۔

  • سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ میں کرونا پابندیاں ختم، رونقیں بحال

    سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ میں کرونا پابندیاں ختم، رونقیں بحال

    کورونا وائرس کے نئے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خطرے کے باوجود تین یورپی ممالک سویڈن، ڈنمارک اور نیدرلینڈز میں زندگی وبا سے پہلے کی طرح بغیر پابندیوں کے رواں دواں ہے یا ایسا ہونے والا ہے۔ اس کا راز کیا ہے؟

    اطلاعات یہ ہیں کہ نیدرلینڈ نے پچیس ستمبر سے مکمل ویکسی نیشن کرانے والے افراد کے کلبوں، پارٹیوں اور ریستورانوں میں جانے پابندی ختم کردی ہے تاہم ہر شہری کو ویکسی نیشن کارڈ ساتھ رکھنا لازمی قرار دیا ہے۔

    ادھر ڈنمارک بھی گذشتہ ہفتے کرونا کی تمام پابندیاں ختم کرنے والا پہلا یورپی ملک بنا، جہاں کرونا وبا سے پہلے کی زندگی لوٹ آئی ہے، ملک میں کہیں بھی ماسک پہننے کی پابندی ختم کردی گئی ہے اور کسی جم یا کنسرٹ میں جانے کے لئے ویکسین پاس ضروری نہیں ہے۔

    ڈنمارک کے وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب کووڈ نائنٹین ‘سماجی سطح پر خطرناک بیماری‘ تصور نہیں کی جائے گی۔

    دوسری جانب سویڈن بھی انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہونے والا ہے، ملک کی وزارت صحت نے بھی رواں ماہ کے آغاز پر اعلان کیا تھا کہ نجی اور عوامی اجتماعات میں مخصوص تعداد میں شرکت اور ہوم آفس کی ہدایت ستمبر کے اختتام پر ختم کر دی جائے گی، تاہم ویکیسن نہ لگوانے والے سیاحوں کو اب بھی نیگٹیو کرونا ٹیسٹ دکھانے کے ساتھ ساتھ قرنطینہ کرنا ہوگا۔

    واضح رہے کہ ڈنمارک کے اسی فیصد بالغ افراد کو ویکیسن لگ چکی ہے جبکہ سویڈن میں یہ شرح ستر فیصد سے زائد بنتی ہے، نیدرلینڈز میں یہ شرح محض ساٹھ فیصد ہے لیکن اس کے باوجود وہاں پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

  • وہ ملک جو عظیم سیلاب سے محفوظ رہا

    وہ ملک جو عظیم سیلاب سے محفوظ رہا

    عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی نے جہاں کئی خطرات کو جنم دیا ہے، وہیں ایک بہت بڑا خدشہ ساحلی علاقوں کو بھی لاحق ہے۔ تحقیق کے مطابق عالمی حدت بڑھنے کی وجہ سے سنہ 2040 تک سمندر کی سطح میں 2 فٹ کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو دنیا کے کئی ساحلی شہر زیرِ آب آجائیں گے۔

    بظاہر تو 2 فٹ کا اضافہ بہت زیادہ نہیں لگتا، لیکن در حقیقت اس کے اثرات بہت گمبھیر ہوں گے۔ مثلاً امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوبی علاقوں کی میٹھے پانی کے ذخائر تک رسائی ختم ہو جائے گی، نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ایک بہت بڑا علاقہ مستقل سیلابی پانی کی زد میں ہوگا۔

    اس کے علاوہ میامی کے مشہور ساحل اور کئی جزائر کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ چین، بھارت، مصر، بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں جہاں بہت بڑے دریائی ڈیلٹا موجود ہیں، وہاں سطح سمندر میں محض دو یا تین فٹ کے اضافے کا نتیجہ کروڑوں افراد کی نقل مکانی اور بہت بڑے پیمانے پر زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔

    یعنی مستقبل بہت بھیانک ہو سکتا ہے لیکن دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جو اس صورتحال کا نہ صرف سامنا کر چکا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر اب تک خود کو محفوظ بھی کر رکھا ہے، یہ ہے شمالی یورپ کا ملک نیدرلینڈز، جسے ہم ہالینڈ بھی کہتے ہیں۔

    جنوری 1953 میں بحیرہ شمال میں مد و جزر کی وجہ سے خطرناک لہروں نے نیدر لینڈز کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی تھی۔ تقریباً 2 ہزار افراد کی جانیں گئیں لیکن اس واقعے کے تقریباً 54 سال بعد جب ایک مرتبہ پھر یہی صورتحال پیدا ہوئی تو نیدر لینڈز پہلے سے تیار تھا۔

    نومبر 2007 میں ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں جیسے ہی سطحِ سمندر میں اضافہ ہوا، جدید کمپیوٹر سنسرز کی قبل از وقت اطلاعات مل گئی اور ہنگامی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ صرف 30 منٹ میں 240 میٹرز کے دو بہت بڑے آہنی دروازے آپس میں مل گئے اور یوں اس آبی راستے کو طوفانی لہروں سے بچا لیا گیا جس سے نیدر لینڈز کے اندرونی علاقوں میں سیلاب آنے کی توقع تھی۔ صبح تک طوفان ختم ہو چکا تھا اور اس غیر معمولی طوفان سے بہت معمولی سا سیلاب آیا۔

    یہ سب ایک عظیم بند کی وجہ سے ممکن ہوا جو 680 ٹن کے بال جوائنٹ کی مدد سے حرکت کرتا ہے اور لہروں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔ یہ اس بند کا پہلا عملی تجربہ تھا جس میں وہ بھرپور کامیاب بھی ہوا۔

    یہ انسان کا تیار کردہ دنیا کا سب سے بڑا حرکت پذیر ڈھانچا ہے اور بلاشبہ انجینیئرنگ کا ایک شاہکار بھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1998 میں مکمل ہونے والا بند سیلابی پانی پر قابو پانے کے لیے ایک عظیم انٹرلاکنگ سسٹم کا محض ایک حصہ ہے۔ اس پورے نظام کو ڈیلٹا ورکس کہا جاتا ہے جو دنیا بھر میں سیلاب سے بچنے کا سب سے پیچیدہ نظام ہے۔

    دراصل نیدر لینڈز یورپ کے تین بڑے دریاؤں رائن، شیلٹ اور میوز کے ڈیلٹا پر واقع ہے اور ملک کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سطح سمندر میں معمولی سے اضافے سے بھی یہاں سیلاب کا خدشہ کھڑا ہو جاتا ہے۔

    سنہ 1953 میں جب سمندری طوفان اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی لہروں نے ملک کے بڑے علاقے میں تباہی مچائی تو حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ڈیلٹا کمیشن تشکیل دیا، جس کا ہدف تھا کہ ملک کے جنوب مغربی علاقے کو تحفظ دینا۔

    اس کمیشن کی توجہ گنجان آباد شہروں میں سیلاب کے خدشات کو 10 ہزار میں سے 1 تک لانا تھا، یعنی ایک اوسط ساحلی شہر کے مقابلے میں بھی 100 گنا محفوظ بنانا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جنوب مغربی ساحلوں کے ساتھ بڑے انفرا اسٹرکچر کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے پہلی دفاعی لائن سمندری کھاڑیوں پر بند باندھنا تھی، جو سب سے زیادہ سیلاب کی زد میں ہوتی تھیں۔

    انہی کھاڑیوں سے دریاؤں کا پانی بحیرہ شمال میں گرتا ہے، لیکن سمندر میں طوفان کی صورت میں سیلابی پانی زمینی علاقوں میں داخل ہو کر تباہی مچا دیتا تھا۔ اس لیے ڈیلٹا کمیشن نے مختلف ڈیموں کے ذریعے ان کھاڑیوں کو وسیع و عریض جھیلوں میں بدل دیا۔ اس کے علاوہ پشتے، خندقیں اور کنکریٹ کی سمندری دیواریں بھی مختلف مقامات پر کھڑی کی گئیں بلکہ ڈیلٹا ورکس پروجیکٹ کا بیشتر حصہ انہی پر مشتمل ہے۔

    اگلی دہائیوں میں ڈیلٹا ورکس کو بہتر بنانے کے لی مزید اقدامات بھی اٹھائے گئے اور اندرونی علاقوں کو بھی سیلاب سے محفوظ بنانے کے لیے کام کیا گیا۔ ان میں سے ایک منصوبہ روم فار دا ریور تھا، جس کے تحت کھیتوں اور پشتوں کو ساحل سے دور نئی جگہ پر منتقل کیا گیا۔ یوں پانی کو مزید جگہ دی گئی کہ سیلابی صورت میں وہ نشیبی علاقوں میں جمع ہو جائے۔ یوں کئی آبی ذخائر نے جنم لیا اور مقامی جنگلی حیات کو نئے مساکن ملے۔ یوں نہ صرف سیلاب کا خطرہ گھٹ گیا بلکہ شہریوں کی منتقلی کی بدولت زیادہ گنجان اور پائیدار آبادیاں بنیں۔ ان میں سب سے شاندار شہر روٹرڈیم ہے۔ یہ ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی ساڑھے 6 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً پورا شہر کی سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔

    جب طوفان اور سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے تو شہر کے انتہائی گنجان آباد پرانے علاقے کو روایتی پشتوں سے تحفظ ملتا ہے۔ جبکہ نئے علاقوں تو مصنوعی طور پر اونچے کیے گئے علاقوں پر بنے ہوئے ہیں۔ بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے بیشتر گھروں کی چھتوں پر باغ بنائے گئے ہیں جبکہ شہر میں کئی عمارات کو بھی پانی محفوظ کرنے والی تنصیبات میں تبدیل کیا گیا ہے، مثلاً پارکنگ گیراج اور پلازے۔ اس کے علاوہ شہر کے ساحلوں کے ساتھ ایسے عوامی مقامات بنائے گئے ہیں جو پانی کی سطح پر تیرتے ہیں۔ ان میں شمسی توانائی اور پانی کی صفائی کے نظام بھی لگائے گئے ہیں۔

    یہ سب مل کر نیدرلینڈز کو دنیا کا جدید ترین واٹر مینجمنٹ سسٹم رکھنے والا ملک بناتے ہیں۔ البتہ یہ ملک اب بھی قدرتی آفات کے مقابلے میں اپنے شہروں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا بھر کے ساحلی نشیبی علاقے خطرے کی زد میں آرہے ہیں، نیدرلینڈز ایک عملی مثال ہے کہ کس طرح ارادہ، عزم اور ساتھ ہی انجینئرنگ انسانوں کو مشکل ترین حالات میں بھی جینے کے راستے دکھاتی ہے۔

  • ماہی گیر بن کر منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام

    ماہی گیر بن کر منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام

    لندن : برطانیہ میں سمندری راستے سے داخل ہونے والے منشیات اسمگلروں کو عدالت نے بڑی سزا سنادی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ روز دو برطانوی باشندے جو نیدرلینڈز سے برطانیہ جانے کی کوشش کررہے تھے کہ ساحل کے قریب ان کی لانچ ایندھن کی کمی کے باعث رک گئی۔

    ملزمان نے گشت پر مامور کوسٹ گارڈ کے عملے کو اس بات کی اطلاع دی اور مدد کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ماہی گیر ہیں جس پر ان کو ریسکیو کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر روانہ کیا گیا۔

    اسمگلنگ

    مذکورہ کشتی ساحل سے 27کلومیٹر کے فاصلے پر تھی، کشتی کو رکا ہوا دیکھ کر کوسٹ گارڈ نے ہیلی کاپٹر بھیجا مگر اس دوران اہلکاروں کو شک ہوا جنہوں نے تلاشی لی تو کشتی سے کوکین برآمد ہوئی۔

    پولیس نے ماہی گیر بن کر منشیات اسمگلنگ کرنے والے دونوں افراد کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جہاں دونوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو جج نے انہیں 7 سال قید کی سزا سنادی۔

    پولیس حکام کے مطابق کشتی سے لاکھوں پاؤنڈز مالیت کی منشیات برآمد ہوئی جسے تلف کردیا گیا ہے۔

  • کرونا وائرس: چلے بھی ’جاؤ‘ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    کرونا وائرس: چلے بھی ’جاؤ‘ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    یورپ کے خوبصورت ترین ملک نیدر لینڈز میں اس بار بہار تو آئی ہے، رنگین اور خوشبودار پھول بھی کھلے ہیں، لیکن یہ پھول اس بار لہلہانے کے بجائے کچرے کے ڈھیر میں بدل گئے ہیں۔

    کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں ہر طرح کے کاروبار کو شدید متاثر کیا ہے، وہیں نیدر لینڈز میں پھولوں کا کاروبار بھی رک گیا ہے۔

    نیدر لینڈز میں بہار کی آمد ہے، یہ وہ وقت ہے جب پورے ملک میں سرخ، گلابی، سفید، زرد اور ہر طرح کے پھول تیار ہوچکے ہیں اور اب انہیں ملک بھر میں کی جانے والی مختلف نمائشوں میں پیش کیا جانا تھا جبکہ دنیا بھر میں اس کی فروخت بھی کی جانی تھی، لیکن کرونا وائرس نے پوری دنیا کے کاروبار زندگی کو معطل کردیا ہے۔

    کرونا وائرس کے خدشے کے تحت دنیا بھر کے اجتماعات منسوخ کردیے گئے ہیں جس میں نیدر لینڈز میں ہونے والی پھولوں کی نمائشیں بھی شامل ہیں، جبکہ سرحدیں بند ہونے سے امپورٹ ایکسپورٹ بھی رک چکا ہے چنانچہ یہ لاکھوں کروڑوں پھول اب یونہی گوداموں میں پڑے ہیں۔

    پھولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد نے مجبوراً اب ان پھولوں کو کچرے کے ڈھیر میں پھینکنا شروع کردیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں رنگین اور خوشبودار پھولوں کو جب ٹرکوں کی مدد سے ڈمپ کیا جاتا ہے تو آس پاس کا علاقہ رنگوں اور خوشبوؤں سے نہا جاتا ہے۔

    پھولوں کے کاروبار سے وابستہ مائیکل وین کا کہنا ہے کہ ایسا ان کی زندگی میں پہلی بار ہورہا ہے، پھولوں کی نیلامی اور نمائش نیدر لینڈز میں تقریباً سو سال سے ہورہی تھی اور یہ پہلی بار ہورہا ہے جب ان کے عروج کے سیزن میں کاشت کار خود ہی انہیں کچرے میں پھینک رہے ہیں۔

    ان کے مطابق ملک بھر میں ہونے والی تقریباً 70 سے 80 فیصد پھولوں کی پیداوار اسی طرح ضائع کردی گئی ہے۔

    دنیا بھر میں ہونے والی پھولوں کی پیداوار کا نصف حصہ نیدر لینڈز میں کاشت ہوتا ہے، نیدر لینڈز اس میں سے 77 فیصد پیداوار دنیا بھر میں فروخت کرتا ہے۔ پھولوں کی یہ ایکسپورٹ زیادہ تر جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی میں کی جاتی ہے۔

    نیدر لینڈز کی یہ صنعت لگ بھگ 6.7 ارب ڈالر سالانہ کمائی کی حامل ہے اور یہ ملکی مجموعی معیشت یعنی جی ڈی پی میں 5 فیصد حصے کی شراکت دار ہے۔

    ملک بھر میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد پھولوں کی کاشت، اس کی ترسیل، تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہیں اور اب اس بدترین نقصان کے بعد یہ سب دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ زیادہ تر افراد خاندانی طور پر کئی دہائیوں سے اس صنعت سے وابستہ ہیں۔

    مائیکل وین کے مطابق ان کا مجموعی ریونیو رواں برس 85 فیصد گھٹ گیا ہے، اس نقصان کے بعد اب وہ ڈچ حکومت کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ پھولوں کے کاروبار سے منسلک تمام کمپنیز، تاجر اور کاشت کار شدید ترین مالی نقصان سے دو چار ہوئے ہیں۔

    ایک کاشت کار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے زیادہ تر پھول کھاد بنانے کے لیے دے دیے ہیں، ’بھاری بھرکم مشینوں کے نیچے جب میرے ہاتھ کے اگائے ہوئے رنگین خوبصورت پھول کچلے جاتے ہیں تو انہیں دیکھنا بہت مشکل کام ہے‘۔

    مائیکل کا کہنا ہے کہ کچھ افراد اپنے پھولوں کو پھینکنے کے بجائے اسپتالوں میں طبی عملے کو بھجوا دیتے ہیں اور سڑک پر دکھائی دیتے اکا دکا راہگیروں کو دے دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق صرف ایک نیدر لینڈز ہی نہیں، پھولوں کی کاشت سے منسلک دیگر ممالک بھی اسی صورتحال سے دو چار ہیں جن میں کینیا اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ دونوں افریقی ممالک گلاب کی پیداوار کے لیے سرفہرست ہیں۔

    کینیا میں پھولوں کی پیداوار کا 70 فیصد حصہ یورپ بھیجا جاتا ہے، وہاں بھی اب ان پھولوں کو کچرے میں پھینکا جارہا ہے۔