Tag: New law

  • دبئی میں شاپنگ بیگز کیلئے نیا قانون نافذ

    دبئی میں شاپنگ بیگز کیلئے نیا قانون نافذ

    یو اے ای : متحدہ عرب امارات دبئی میں شاپنگ سینٹرز اور تمام تجارتی مراکز نے جمعہ یکم جولائی سے ڈسپوزیبل بیگز پر صارفین سے25 فلس وصول کرنا شروع کردیے۔

    الامارات الیوم کے مطابق دبئی کے حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ دو برس کے دوران ڈسپوزیبل پلاسٹک بیگز کا استعمال مکمل طور پر بند کردیا جائے گا۔ 25 فلس فی بیگ وصولی اس جانب پہلا قدم ہے۔

    دبئی بلدیاتی کونسل کا کہنا ہے کہ تمام تجارتی مراکز کو صارفین سے ڈسپوزیبل پلاسٹک بیگ پر 25 فلس وصول کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔

    تجارتی مراکز کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ڈسپوزیبل پلاسٹک بیگز کے متبادل مہیا کریں اوراس کی قیمت متعین کی جاسکتی ہے۔

    بلدیاتی کونسل کا کہنا ہے کہ 25 فلس ڈسپوزیبل پلاسٹک بیگز پر ہی وصول کیے جائیں گے، بلدیاتی کونسل کے مطابق فیس کی وصولی لازمی ہے، اس کی قیمت خریداری بل میں شامل کی جائے گی۔

  • سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہونے والوں کیلئے نئے قانون کا نفاذ

    سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہونے والوں کیلئے نئے قانون کا نفاذ

    ریاض : سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہونے والے افراد کیلئے سخت قوانین عائد کیے گئے ہیں، جس کے تحت سعودی عرب سے نکالے جانے والے افراد کو اہم ہدایات دی گئی ہیں۔

    نئے قوانین کے تحت "ہروب” اور ڈی پورٹ ہونے والوں کے بارے میں بھی کافی ترامیم کی گئی ہیں جن پرعمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

    ہروب کے حوالے سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ سال2018 میں ہروب فائل ہونے پر پاکستان ڈی پورٹ ہوا تھا معلوم یہ کرنا ہے کہ خروج کا پرنٹ کہاں سے حاصل کیا جاسکتا ہے؟

    سعودی امیگریشن کے نئے قوانین کے تحت وہ تارکین جو "ہروب” یعنی فرار کے الزام میں ایگزٹ ہوتے ہیں ان پر ہمیشہ کے لیے مملکت میں آنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔

    ایسے افراد جو ہروب کے الزام میں یا کسی اور وجہ سے ڈی پوٹیشن سینٹر سے اپنے ملکوں کو جاتے ہیں وہ بھی تاحیات مملکت کے لیے بلیک لسٹ کر دیے جاتے ہیں۔

    بلیک لسٹ ہونے والے افراد صرف عمرہ اور حج ویزے پر ہی مملکت آسکتے ہیں کسی قسم کی ورک ویزے پر ان کا مملکت میں داخلہ منع ہوتا ہے۔

    واضح رہے نئے قانون سے قبل ایسے افراد جنہیں مملکت سے ڈی پورٹ کیا جاتا تھا انہیں محدود مدت کے لیے بلیک لسٹ کیا جاتا تھا۔

    ماضی میں بلیک لسٹ کیے جانے کی مدت کا تعین کیس کا افسر جرم کی نوعیت اور مقدمے کی کارروائی کو دیکھ کر کرتا تھا جو تین سے 10 برس کے درمیان ہوتی تھی۔

    نئے قانون کے بعد سے ڈی پورٹ ہونے والے افراد تاحیات مملکت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایسے افراد کی فائل جوازات کے مرکزی کمپیوٹر میں سیز کردی جاتی ہے جبکہ ماضی میں ان پر مدت کا تعین کیا جاتا تھا مگر جب سے نیا قانون نافذ کیا گیا ہے ایسے افراد کی فائل کو مستقل طور پر سیز کردیا جاتا ہے۔

    جہاں تک جوازات کا پرنٹ حاصل کرنے کی بات ہے تو وہ کوئی بھی غیر ملکی کارکن اپنے اسپانسر کے مقیم پلیٹ فارم کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں جوازات سے رجوع کر کے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پرنٹ حاصل کرنے کے لیے اقامہ نمبر درکار ہوتا ہے جس کے ذریعے جوازات کا پرنٹ جس میں کارکن کا اسٹیٹس اقامہ نمبر اور اقامے کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔

    خروج و عودہ کے حوالے سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ خروج و عودہ پر جانے والے اگر واپس نہ آئیں تو اس صورت میں کتنی مدت میں کینسل ہوتا ہے؟

    سوال کے جواب میں جوازات کا کہنا تھا کہ خروج و عودہ پر جانے والے کے لیے لازمی ہے کہ وہ مقررہ مدت کے دوران واپس آئیں (موجودہ کورونا حالات کے علاوہ)۔

    جوازات کے مرکزی کمپیوٹر میں خروج و عودہ ویزے پر جا کر واپس نہ آنے والے افراد کی فائل خروج وعودہ کی مدت ختم ہونے کے چھ ماہ بعد از خود کینسل کر دی جاتی ہے اور انہیں ’خرج ولم یعد‘ کی کیٹگری میں شامل کر دیا جاتا ہے۔

    واضح رہے جوازات کے قانون کے مطابق ایسے افراد جو خروج و عودہ کے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں مملکت کے لیے تین برس تک بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔

    یہ قانون صرف کارکنوں کے لیے لاگو ہوتا ہے، کارکنوں کے اہل خانہ پر نہیں۔ بلیک لسٹ کیے جانے والے کارکن مقررہ مدت کے دوران اگر چاہیں تو اپنے سابق کفیل کے دوسرے ویزے پر مملکت آسکتے ہیں بصورت دیگر وہ مقررہ تین برس کی مدت گزرنے کے بعد دوسرے ورک ویزے پر آسکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں انہیں مقررہ بلیک لسٹ کی جانے والی مدت کے دوران عمرہ اور حج ویزے پر آنے کی اجازت ہوتی ہے۔

  • امارات میں کاروبار کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے خوشخبری

    امارات میں کاروبار کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے خوشخبری

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں کاروبار کرنے والے غیر ملکیوں کو بڑی سہولت دے دی گئی، نئے قانون کا اطلاق یکم جون سے ہوگا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی وزارت اقتصادیات نے کہا ہے کہ غیر ملکیوں کو اپنے نام سے مکمل کمپنی قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

    وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ یکم جون سے اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا، یہ اقدام امارات میں تجارتی سرگرمیوں میں آسانی پیدا کرنے کی ایک نئی اصلاحی کوشش ہے۔

    وزارت اقتصادیات کا کہنا تھا کہ تجارتی کمپنیوں کا نیا اماراتی قانون یکم جون سے نافذ ہوگا، اس کی بدولت سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو اپنی مکمل کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت حاصل ہو جائے گی۔

    اماراتی وزیر نے کہا کہ غیر ملکیوں کو یہ سہولت فراہم کرنے کا مقصد قومی معیشت کو مضبوط کرنا، لچکدار پالیسی کے نظام کو فروغ دینا اور سرمایہ کاری کے ماحول کو عالمی سطح تک لے جانا ہے۔

    اس سے قبل متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں پر پابندی تھی کہ وہ امارات میں اپنی کمپنی کی برانچ کھولتے وقت کسی مقامی شہری کو ڈیلر کی حیثیت سے شریک کریں تاہم تجارتی کمپنیوں کے قانون میں ترمیم کر کے یہ پابندی اٹھالی گئی ہے۔

    اماراتی وزیر عبداللہ المری نے کہا کہ نیا قانون امارات کو سرمایہ کاری کے انٹرنیشنل فرنٹ کی حیثیت دلانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

  • سعودی عرب: اقامہ فیس کے حوالے سے اہم وضاحت

    سعودی عرب: اقامہ فیس کے حوالے سے اہم وضاحت

    ریاض: سعودی حکام نے نئے قانون کے تحت غیر ملکیوں کی اقامہ فیس کے طریقہ کار کی وضاحت کی ہے، نیا قانون 15 مارچ 2021 سے نافذ ہوگا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی وزارت محنت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ملازمت کے نئے قانون میں کفالت کے بجائے ملازمت کا معاہدہ اہم ہوگا۔ آجر کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ کارکن کی مرضی کے بغیر اس کے سفر پر پابندی عائد کرے یا کسی دوسری جگہ ملازمت کرنے پر پابندی لگائے۔

    مملکت میں نئے قانون محنت کے حوالے سے، جو 15 مارچ 2021 سے نافذ کیا جانے والا ہے ایوان ہائے صنعت و تجارت نے وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود آبادی کی مخصوص کمیٹی کے اشتراک سے آن لائن سیمینار منعقد کیا تھا۔

    سیمینار میں ملازمت کے ماحول کو بہتر بنانے والی تفتیشی کمیٹی کے سیکریٹری سطام بن عامر الحربی اور وزارت کے محنت کے سیکریٹری برائے منصوبہ بندی انجینئر ہانی عبد المحسن المعجل کے علاوہ متعدد سرمایہ کاروں و صنعت کاروں نے شرکت کی۔

    وزارت کی جانب سے بتایا گیا کہ مجوزہ قانون کا مقصد مملکت میں لیبر مارکیٹ کو بہتر بنانا اور خامیوں کو دور کرتے ہوئے آجر و اجیر کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے جس کے لیے اہم ترین شق معاہدہ ملازمت ہوگا۔

    وزارت کا کہنا تھا کہ مجوزہ قانون کے لیے ملازمت کی منتقلی کے حوالے سے 700 سے زائد سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی آرا حاصل کی گئی ہیں علاوہ ازیں کارکن کے خروج و عودہ اور دیگر نکات پر ان کی رائے حاصل کی گئی۔

    وزارت کے سیکریٹری سطام الحربی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ آجر و اجیر کا بنیادی تعلق معاہدہ ملازمت سے ہوگا جس کی پاسداری دونوں پر لازم ہوگی جبکہ کارکن کو یہ حق ہو گا کہ وہ ابشر اکاؤنٹ کے ذریعے اپنا ایگزٹ ری انٹری ویزہ حاصل کر سکے تاہم اس عمل کے لیے درکار ضروری شرائط طے کی جائیں گی۔

    فریقین ورک ایگریمنٹ پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے، کسی بھی اختلاف کی صورت میں لیبر کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔

    سیکریٹری کا مزید کہنا تھا کہ نئے قانون محنت کے تحت کسی بھی کارکن کو ایک ادارے یا کمپنی سے دوسرے ادارے یا کمپنی میں جانے کی اجازت ہوگی، اس مد میں سعودی یا غیر ملکی کارکن میں کوئی تخصیص نہیں ہوگی۔

    کارکن معاہدے کی پاسداری کا پابند ہوگا جبکہ آجر اپنے تحفظات کے حوالے سے کارکن کو آگاہ کرے گا تاکہ انہیں مدنظر رکھتے ہوئے معاہدہ کیا جائے۔ تاہم کسی بھی طور آجر کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ سفر کے حوالے سے کارکن کو پابند بنائے۔

    معاہدہ ملازمت ابشر سسٹم کے ذریعے مربوط کیا جائے گا تاکہ فریقین اس کی پابندی کریں اور کسی بھی تنازعے کی صورت میں وہ دستاویز متعلقہ ادارے کو پیش کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کارکن کو یہ حق ہوگا کہ وہ ایگریمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد خروج نہائی یا خروج عودہ حاصل کر سکے۔

    کارکن اس امر کا بھی پابند ہوگا کہ اگر اسے مقررہ مدت کے دوران کسی دوسرے ادارے یا کمپنی میں ملازمت نہیں ملے تو وہ مملکت سے چلا جائے۔

    سیکریٹری برائے منصوبہ بندی ہانی عبد المحسن المعجل کا کہنا ہے کہ کفالت سسٹم کا کوئی وجود نہیں بلکہ مشروط معاہدہ ملازمت ہی قابل عمل قانون ہوگا، کارکن کے جانے کی صورت میں اگر کمپنی گرین کیٹگری میں ہوگی تو اسے فوری طور پر دوسرا ویزہ جاری کردیا جائے گا جبکہ ریڈ کیٹگری کی صورت میں متبادل ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا۔

    کارکن کے اقامے اور اس کی فیسوں کے حوالے سے کہا گیا کہ اس حوالے سے نکات پر غور جاری ہے، ممکن ہے کہ اقامہ فیس سالانہ کے بجائے سہ ماہی کردی جائے۔ نئے قانون کے مطابق اگر کارکن نے 2 برس کا معاہدہ کیا ہے اور اسے مکمل کرنے سے قبل چلا گیا تو اس پر جرمانہ عائد ہوگا جس کی وضاحت پہلے سے کی گئی ہوگی۔

  • بھارت میں ایک ساتھ تین طلاق کا قانون سپریم کورٹ میں چیلنج

    بھارت میں ایک ساتھ تین طلاق کا قانون سپریم کورٹ میں چیلنج

    نئی دہلی:بھارت کی ریاست کیرالا میں علما کی تنظیم سمستھا کیرالا جمعیت العلما نے ایک ساتھ تین طلاق کو قابل سزا جرم دینے کے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق قانون کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے کیرالا میں مسلمانوں کی علما اور اسکالرز کی سب سے بڑی تنظیم نے گزشتہ روز عدالت سے رجوع کیا تھا۔

    واضح رہے کہ 30 جولائی کو بھارت میں لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے بعد راجیا سبھا (ایوان بالا) سے بھی ایک ساتھ تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھاجس پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی مسلم ویمن (پروٹیکشن رائٹس آن میریج) بل 2017 منظور ہونے پر مسرت کا اظہار کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بل کے تحت ایک ساتھ تین طلاق دینے والے شخص کو 3 سال کی سزا ہوگی۔

    سمستھا کیرالا جمعیت العلما کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ اگر مقصد ازدواجی تعلقات پر ناخوش مسلم عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو ایک ساتھ طلاق دینے پر شوہر کر ناقابل ضمانت تین سال قید کی سزا ناقابل فہم ہے۔

    تنظیم کے وکیل ذوالفقار نے کہا کہ شوہروں کی قید سے بیویوں کا تحفظ ممکن نہیں ہوسکتا،انہوں نے کہا کہ 2017 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں مسلمان مردوں کی جانب سے ایک ہی وقت میں 3 طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

  • اردن: متنازعہ انکم ٹیکس قانون واپس لے لیا جائے گا’ نامزد وزیر اعظم

    اردن: متنازعہ انکم ٹیکس قانون واپس لے لیا جائے گا’ نامزد وزیر اعظم

    عمان: اردن کے سابق وزیر اعظم ’حانی الملکی‘ کے مستعفی ہونے کے بعد نئے نامزد وزیر اعظم ’عمر الرزاز‘ نے کہا ہے کہ ہم متنازعہ انکم ٹیکس قانون واپس لے لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اردن میں ان دنوں حکومتی پالیسی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر ملک کو بحران سے نکالے اور عوام پر ناجائز انکم ٹیکس میں اضافے کا قانون واپس لے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اردن کے نامزد وزیر اعظم عمر الرزاز نے آج پارلیمانی میٹنگ کی اس دوران ملک میں جاری بحران اور متنازعہ قانون پر عوامی ردعمل کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد انکم ٹیکس قانون کو واپس لینے پر اتفاق کر لیا گیا۔


    عمر رزاز اردن کے نئے وزیر اعظم نامزد


    میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر الرزاز کا کہنا تھا کہ ہم خطے کو بحران سے نکالنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اس متنازعہ قانون کو واپس لے رہے ہیں، اس قانون کی وجہ سے اردن میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور جس کی وجہ سے حکومت پر دباؤ بڑھایا گیا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں سابق وزیر اعظم حانی الملکی کی سربراہی میں عالمی مالیاتی فنڈ کی پالیسیوں کی روشنی میں یہ متنازعہ قانون تشکیل دیا گیا تھا، جس پر ناقدین نے کہا تھا کہ اس قانون کے اطلاق سے شہریوں کی معیار زندگی متاثر ہو جائے گی۔


    بے روزگاری میں اضافے کے خلاف مظاہرہ، اردن کے وزیر اعظم مستعفی


    خیال رہے کہ اردن کی معیشت اس وقت حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہے، علاوہ ازیں مملکت میں بے روزگاری کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی معاشی ماہرین یہ خیال ظاہر کررہے ہیں کہ نئے آنے والے وزیر اعظم کو بھی ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی اور اہم فیصلے لینے ہوں گے تاکہ تباہ ہوتی معیشت بچائی جاسکے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔