Tag: new research

  • کافی ٹھنڈی پینی چاہیے یا گرم؟ نئی تحقیق

    کافی ٹھنڈی پینی چاہیے یا گرم؟ نئی تحقیق

    کافی ٹھنڈی ہو یا گرم اس کے پینے کے بہت سے طبی فوائد ہیں جو وزن کم کرنے سے لے کر سر درد، فالج، ذیابیطس اور دیگر بیماریوں سے بچانے میں بھی مددگار ہیں۔

    کافی کے سب سے بڑے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہے، جو آپ کے جسم اور خلیات کو بہتر طریقے سے کام کرنے ، بیماری کی روک تھام اور عام طور پر اچھی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

    لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھنڈی اور گرم کافی کے درمیان انتخاب اکثر الجھن میں ڈال دیتا ہے اس کیلیے کیا کیا جائے؟

    اس حوالے سے بھارت میں کی جانے والی ایک تحقیق کے ذریعے اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے نتائج ایک طبی ویب سائٹ میں شائع کیے گئے ہیں۔

    مذکورہ تحقیق کے نتائج سے یہ معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا ٹھنڈی کافی گرم کافی سے زیادہ صحت بخش ہے یا نہیں۔

    کولڈ کافی

    یہ پتہ چلتا ہے کہ کولڈ بریو کافی عام طور پر برف اور پانی سے تیار کی گئی فوری کافی کا استعمال کرتے ہوئے بنائی جاتی ہے۔
    تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کی بنیادی غذائیت گرم کافی جیسی ہے لیکن کولڈ کافی اکثر چینی، دودھ یا کریم جیسے اجزاء کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔

    یہ اضافی چیزیں اضافی کیلوریز اور شوگر میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ یہ کیفین کے میٹابولزم کو بڑھانے والے کچھ فوائد کو کم کر سکتی ہیں۔

     گرم کافی

    گرم کافی گرم پانی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی جاتی ہے جو ایسے مرکبات کو نکالتی ہے جن کے ہاضمے کے فوائد ہوتے ہیں۔

    گرم کافی کی گرمی گیسٹرک جوس کو متحرک کرنے اور ہاضمے کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ گرم کافی میٹابولزم پر بھی زیادہ فائدہ مند اثر ڈال سکتی ہے کیونکہ اس میں توانائی کو بڑھانے اور ہوشیار کرنے کی صلاحیت ہے۔

    گرم کافی کو صحت کے بہت سے فوائد سے بھی جوڑا گیا ہے، ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو، دل کی بیماری جیسی بیماریوں کو خطرے کو کم کرنا بھی شامل ہے۔

    صحت مند انتخاب

    اس کے علاوہ، گرم یا ٹھنڈی کافی کا صحت پر اثر نظام انہضام کی صحت، تیاری کا طریقہ، استعمال شدہ اجزاء اور صحت کے اہداف پر منحصر ہے۔

    کولڈ کافی کے مقابلے میں گرم کافی نظام ہاضمہ کو متحرک کرکے، آنتوں کی حرکت کو فروغ دے کر اور سوزش کو کم کرکے ہاضمے پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔

  • ٹیٹنس کی دوا سے ایک اور مرض کا علاج؟ تحقیق میں انکشاف

    ٹیٹنس کی دوا سے ایک اور مرض کا علاج؟ تحقیق میں انکشاف

    اکثر اوقات چوٹ لگنے کے بعد یا خراش لگنے کی صورت میں ٹیٹنس کا انجکشن لازمی لگانے کی ہدایت کی جاتی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ٹیٹنس اس کے علاوہ دوسرے مرض کیلئے بھی انتہائی کار آمد ہے۔

    ٹیٹنس ہوتا کیا ہے؟

    ٹیٹنس درحقیقت عضلات کے سخت تشنج کا مرض ہے جو کہ بہت کم لاحق ہوتا ہے تاہم اگر اس کا علاج نہ ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    Parkinson's

    اس کا بیکٹریا جلد پر کسی چوٹ یا خراش کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور عام طور پر یہ مٹی، زمین اور کھاد میں پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سڑک پر کسی چوٹ لگنے یا خراش آنے پر ٹیٹنس سے بچاؤ کا انجیکشن لگایا جاتا ہے۔

    بڑی عمر کے افراد کو ٹیٹنس کی ویکسین تب لگائی جاتی ہے جب فرش، سڑک یا ایسی جگہ سے زخم آئے جہاں پر کلوسٹریڈیم ٹیٹانی پائی جاسکتی ہو جو کہ ٹیٹنس کا سبب بنتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیٹنس کی ویکسین رعشے کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    Health

    حالیہ دنوں میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق عام طور پر دستیاب ٹیٹنس کی ویکسین رعشے کے مرض (پارکنسنز بیماری) کو روکنے کیلئے بھی مفید ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ٹیٹنس کے بیکٹیریا اس بیماری کے خلیوں پر کس طرح حملہ آور ہوتے ہیں اس بات کا تو علم نہیں لیکن محققین کا خیال ہے کہ یہ ناک میں موجود اعصابی خلیوں سے دماغ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ریکارڈ کا جائزہ لیا جس میں بڑی عمر کے افراد کو کسی بھی قسم کی دی گئی ویکسینز کے سبب رعشے کے خطرات میں اضافہ یا کمی دیکھی گئی۔

    Physiotherapy for Parkinson's Disease

    1500افراد پر تحقیق کی گئی جن لوگوں میں رعشے کی تشخیص ہوئی ان کی عمریں 45 سے 75 سال تھیں پھر ان کا موازنہ پانچ گُنا بڑے کنٹرول گروپ سے کیا گیا جو بیماری میں مبتلا تو نہیں تھے لیکن ان میں اس بیماری سے ملتی جلتی خصوصیات تھیں۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ رعشے کے مریضوں کی 1.6 فیصد تعداد کو بیماری کی تشخیص سے قبل ٹیٹنس کی ویکسین لگائی گئی تھی جبکہ صحت مند افراد میں یہ شرح 3.2 فیصد تھی۔

    وہ افراد جنہوں نے حال ہی میں یہ ویکسین لگوائی تھی ان میں اس بیماری کے خلاف حفاظتی اثر زیادہ تھا اور دو برسوں کے اندر کسی میں بھی پارکنسنز کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔

    اس حوالے سے ڈاکٹر ایریئل اسرائیل کا کہنا تھا کہ ویکسین لگے ہونے کو جتنا کم عرصہ گزرا ہوتا ہے بیماری کی تشخیص کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔

     

  • فاسٹ فوڈز کھانے کا انجام، نئی تحقیق نے خوفزدہ کردیا

    فاسٹ فوڈز کھانے کا انجام، نئی تحقیق نے خوفزدہ کردیا

    دور حاضر میں لوگ وقت کی بچت کیلئے بازاری کھانوں پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں جس کیلئے جنک فوڈ یا فاسٹ فوڈ منگوانے کے آرڈرز فون کال پر دینا اب عام سی بات ہوگئی اسی مناسبت سے اس کے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جنک فوڈ یا الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا زیادہ استعمال صحت کے لیے کتنا خطرناک ہے؟ فاسٹ فوڈ ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے، اس کے مضر اثرات ہارمونز کی تبدیلی کا بھی باعث بنتے ہیں۔

    مدافعتی کمزوری کے سبب ہر وقت تھکاوٹ، سستی اور طبیعت بوجھل محسوس ہوتی ہے اور آپ اپنے دن بھر کے کام احسن طر یقے سے انجام نہیں دے پاتے۔

    تاہم ایک نئی تحقیق میں فاسٹ فوڈز  کے مزید نقصانات کا احاطہ کیا گیا ہے جس کے مطابق ان غذاؤں کا استعمال 30 سے ​​زائد دماغی اور جسمانی امراض کے خطرے سے منسلک ہے۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈزکے مزیدار ذائقے اور آسان حصول جس میں پیک شدہ بیکڈ اشیا اور اسنیکس، میٹھے، کاربونیٹیڈ مشروبات، کینڈی، میٹھے اناج اور کھانے کے لیے تیار مصنوعات شامل ہیں نے صحت بخش غذا کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    ویسے تو لوگوں کی بڑی تعداد یو پی ایف کے زائد استعمال سے منسلک صحت کے خطرات سے بخوبی واقف ہیں، لیکن شاید آپ اس بات کو نہیں جانتے کہ یہ فاسٹ فوڈز آپ کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ صحت کیلئے نقصان دہ ہیں۔

    محققین نے الٹرا پروسیسڈ فوڈ (یو پی ایف) کے نقصانات کو جاننے کے لیے ماضی میں کیے جانے والے 45 الگ الگ مطالعات سے ڈیٹا اکٹھا کرکے ان کا تجزیہ کیا جسے ’امبریلا ریویوایویڈینس‘ کا نام دیا گیا۔

    اس جائزے میں شامل شرکاء کی کل تعداد 10 ملین کے قریب تھی تمام میٹا تجزیہ پچھلے تین سالوں میں شائع کیے گئے تھے اور کسی کو بھی یو پی ایف تیار کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے فنڈ نہیں دیا گیا تھا۔

    محققین کے مطابق ان اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی کہ یو پی ایف کا زیادہ استعمال 32 امراض کے خطرے سے منسلک تھا جس میں اموات، کینسر، دماغی، سانس سے متعلق، قلبی، معدے اور میٹابولک مسائل شامل تھے۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈ کا زیادہ استعمال امراض قلب سے ہونے والی اموات کے تقریباً 50 فیصد بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک تھا، اسی طرح اضطراب اور عام دماغی صحت کے امراض کا خطرہ 48 سے 53 فیصد اور ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 12 فیصد زیادہ تھا۔

    اسی طرح یو پی ایف کی زیادہ مقدار کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ 21 فیصد بڑھا دیتی ہے، جس میں امراض قلب سے موت کا خطرہ 40 سے 66 فیصد، موٹاپا، ٹائپ 2 ذیابیطس، اور کم نیند کا خطرہ 22 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دمہ، معدے کی صحت، کینسر کی کچھ اقسام اور کارڈیو میٹابولک خطرے والے عوامل جیسے کہ خون میں چکنائی کا بڑھ جانا اور اچھے’ کولیسٹرول کی کم سطح سے وابستہ امراض کے ثبوت محدود تھے۔

    اس تحقیق اور اس کے نتائج نے الٹرا پروسیسڈ فوڈ کے نقصانات سے آگاہی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے جس بعد لوگوں کی بڑی تعداد ان غذاؤں کو ترک یا محدود کرنے کے بارے کافی فکر مند دکھائی دے رہی ہے اور اسی طرح صحت بخش غذاؤں کی جانب راغب ہورہی ہیں۔

  • سبز چائے نقصان دہ بھی ہے؟ لیکن کیسے

    سبز چائے نقصان دہ بھی ہے؟ لیکن کیسے

    جسم سے مضر صحت مادوں کی صفائی اور خصوصی طور پر وزن میں کمی کیلئے سبز چائے کا استعمال ہمارے معاشرے میں کافی حد تک رائج ہے حالانکہ بہت سے لوگ اپنے تئیں وزن کم کرنے کیلئے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہی سبز چاہے کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔

    وزن میں کمی کے خواہشمند افراد یومیہ 2 سے 4 کپ تک سبز چائے کا استعمال کرتے ہیں مگر اس عمل سے جسم کے اہم ترین عضو جگر کو انتہائی نقصان پہنچ رہا ہے جس کے متعلق جاننا نہایت ضروری ہے۔

    سبز چائے کا استعمال انسانی جسم کے لیے انتہائی مفید قرار دیا جاتا رہا ہے، خصوصاً جو افراد وزن میں کمی چاہتے ہیں وہ دودھ والی روایتی چائے کا استعمال چھوڑ کر سبز چائے کا استعمال شروع کر دیتے ہیں، مگر نئی تحقیق کے نتائج نے محققین کی آنکھیں کھول دی ہیں جس کے بعد سبز چائے کے استعمال کو ترک کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔

    اسرائیل کی کلیٹ ہیلتھ سروس اور کپلان میڈیکل سینٹر کی جانب سے سبز چائے پر نئی تحقیق کی گئی ہے، اس تحقیق کے نتائج پر مبنی رپورٹ جریدے ”GastroHep“ میں شائع کی گئی ہے۔تحقیق کے نتائج کے مطابق سبز چائے کا استعمال جگر کی سوزش سے لے کر مکمل طور پر اسے ناکارہ بنانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے، سبز چائے کا استعمال جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    سبز چائے پر کی گئی تحقیق کے مطابق سبز چائے پینے کے سبب جگر پر آنے والی سوزش کے 100 سے زیادہ دستاویزی کیسز موجود ہیں، یہ سوزش چائے کے پودے میں نباتاتی زہریلے مواد کی براہ راست موجودگی اور غالباً میٹابولک ردِ عمل کا نتیجہ ہے۔

    تحقیق کے مطابق زیادہ سبز چائے پینا خاص طور پر خواتین میں جگر کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ سبز چائے میں پائے جانے والے کونسے اجزا جگر کو نقصان پہنچانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔

    محققین کی جانب سے اس مطالعے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ سبز چائے کے ساتھ دیگر جڑی بوٹیوں کو ملا کر پینا بھی جگر کی شدید بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔

     

  • موبائل فون کا زیادہ استعمال کس قدر نقصان دہ ہے؟ نیا ہوشربا انکشاف

    موبائل فون کا زیادہ استعمال کس قدر نقصان دہ ہے؟ نیا ہوشربا انکشاف

    ہماری روز مرہ کی زندگی میں آج کل موبائل فون کا استعمال ضرورت سے زیادہ ہونے لگا ہے، اس لیے اس کے نقصانات بھی یقیناً ہماری صحت پر بھی ضرور اثر انداز ہوتے ہیں۔

    موبائل فون کے زیادہ استعمال سے سب سے پہلے تو آنکھیں متاثر ہوتی ہیں اس کے علاوہ جوڑوں اور پٹھوں میں بھی درد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    موبائل فون کو تھامنے کیلئے ایک ہاتھ مستقل مصروف رہتا ہے جس کی وجہ سے ہاتھ اور انگلیوں کے جوڑوں اور کندھوں میں درد معمول بن جاتا ہے اور فون کال پر مسلسل مصروف رہنے سے گردن اور سر میں بھی درد کی شکایت رہتی ہے۔

    ایک تازہ تحقیق کے مطابق اسمارٹ فونز اور ٹیبلیٹس سے خارج ہونے والی نیلی روشنی سے مخصوص ہارمونز کی سطح بدل سکتی ہے جس سے قبل از وقت بلوغت کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    اسمارٹ ڈیوائسز سے خارج ہونے والی روشنی کو نیند کی کمی سے منسلک کیا جاتا ہے مگر اس نئی تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس سے بچوں کی نشوونما بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    اس تحقیق دوران چوہوں کو اسمارٹ ڈیوائسز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی کی زد میں رکھ کر ہارمونز کی سطح میں آنے والی تبدیلیوں کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    تحقیقی نتائج سے معلوم ہوا کہ جن چوہوں کو نیلی روشنی میں رکھا گیا تھا ان میں بلوغت کا آغاز قبل از وقت ہوگیا۔

    ان چوہوں میں میلاٹونین کی سطح گھٹ گئی جبکہ دو دیگر ہارمونز کی سطح بڑھ گئی جس سے بلوغت کا عمل قبل از وقت شروع ہوگیا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ڈیوائسز کی نیلی روشنی سے مخصوص ہارمونز کی سطح میں تبدیلی آتی ہے، ابھی ان نتائج کا اطلاق بچوں پر نہیں کیا جاسکتا مگر اسے خطرہ بڑھانے والا عنصر ضرور تصور کیا جانا چاہیے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے نیلی روشنی سے انسانی ہارمونز میں آنے والی تبدیلیوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • دنیا کے ہر شخص کی عمر دو سال کم ہوگئی، لیکن کیوں؟ ماہرین کا بڑا انکشاف

    دنیا کے ہر شخص کی عمر دو سال کم ہوگئی، لیکن کیوں؟ ماہرین کا بڑا انکشاف

    فضائی آلودگی انسانی صحت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے، دنیا کے گرد قدرتی طور پر اوزون کی تہہ کو دھوئیں اور دیگر کثافتوں کی وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہوگیا۔

    دھوئیں کی آلودگی کے باعث ماحول بدل رہا ہے بیماریاں پھیل رہی ہیں اس کے علاوہ موسموں میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی جارہی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے فضائی آلودگی کو دنیا میں صحت عامہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں ایسے ننھے ننھے ذرات چلے جاتے ہیں جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

    بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نے عالمی سطح پر ہر انسان کی اوسط عمر اور زندگی کی متوقع مدت دو سال کم کر دی ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلودگی کے باعث بننے والی یہ صورت حال ایڈز، سگریٹ نوشی یا دہشت گردی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

    امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ( ای پی آئی سی) کی منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 97 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں آلودگی کی سطح مقررہ معیار سے کہیں زیادہ ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے رہائشیوں نے سموگ کی وجہ سے اپنی زندگی کے پانچ سال کھو دیے ہیں جبکہ انڈیا کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہاں 2013 کے بعد سے فضائی آلودگی 44 فیصد بڑھی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

    تحقیق کے مطابق اگر چین عالمی ادارہ صحت کے معیار تک پہنچ جاتا ہے تو وہاں کی اوسط عمر دو اعشاریہ چھ سال بڑھ سکتی ہے۔

    چین وہ ملک ہے جہاں 2013 سے متوقع اوسط میں عمر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ اس نے آلودگی کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا تھا اور پی ایم دو اعشاریہ پانچ کو 40 فیصد تک کم کر دیا تھا۔

    تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کو ایک اہم عوامی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے جبکہ اس سے نمٹنے کے لیے ابھی تک فنڈز بھی ناکافی ہیں۔

    ای پی آئی سی نے آب و ہوا کے معیار کے حوالے سے نئی فہرست جاری کی ہے جس کے لیے سیٹیلائٹ ڈیٹا کو استعمال کیا گیا ہے جس سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے والے اجزا (پی ایم 2.5) کے آب و ہوا میں تناسب کا اندازہ لگا گیا ہے۔

    ای پی آئی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر پی ایم 2.5 کی سطح پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تک نیچے آ جائے جو کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظورشدہ ہے، تو اوسط متوقع عمر میں دو اعشاریہ دو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

    ای پی آئی سی کے ڈائریکٹر برائے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کریسٹا ہیسنکوف کا کہنا ہے کہ ’اب آلودگی کے حوالے سے معلومات میں بہتری آئی ہے اور یہ حکومتوں کے لیے ایسا معاملہ ہے جس کو فوری طور پر ترجیح دینی چاہیے۔

    ای پی آئی سی کے اعداد و شمار پچھلی تحقیقات پر مبنی تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ پی ایم ٹو پوائنٹ فائیو میں مسلسل 10 مائیکروگرام فی کیوبیک میٹر کا اضافہ اوسط عمر کو ایک سال کم کر دے گا۔

    2021میں فضائی آلودگی کے حوالے سے ہونے والے ایک سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس وقت تک کوئی بھی ملک عالمی ادارہ صحت کے اسٹینڈز تک نہیں پہنچا جو کہ پانچ مائیکروگرام ہے۔

  • ایسٹرا زینیکا ویکسین لگوانے والوں کیلئے بڑی خبر

    ایسٹرا زینیکا ویکسین لگوانے والوں کیلئے بڑی خبر

    ایک نئے تجزیے سے ظاہر ہوا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایسٹرازینیکا کی تیار کردہ ویکسین سے وائرس کی نئی قسم اومیکرون پر بھی باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔

    اس حوالے سے ایسٹرا زینیکا کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی تیار کردہ اینٹی باڈی کاک ٹیل اومیکرون کورونا وائرس اقسام کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    کمپنی کے ترجمان نے یہ بات لیبارٹری میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج شائع کرتے ہوئے بتائی۔ یہ پہلا ڈیٹا ہے جو ایسٹرا زینیکا کے تیار کردہ ایوو شیلڈ ٹریٹمنٹ کے اومیکرون کی اقسام بشمول بی اے ٹو کے حوالے سے اس کی افادیت کے بارے میں ہے۔

    اس سے قبل دسمبر میں ایسٹرا زینیکا نے ایک اور لیبارٹری تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کاک ٹیل اومیکرون کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    یہ نئی تحقیق واشنگٹن یونیورسٹی کی ہے جس میں چوہوں کے پھیپھڑوں میں اومیکرون کی ذٰلی اقسام کے وائرل لوڈ میں اس علاج کے بعد نمایاں کمی کو دریافت کیا گیا۔

    ایوو شیلڈ کو اومیکرون کی اقسام بی اے 1، بی اے 1.1 اور بی اے ٹو کے خلاف آزمایا گیا تھا اور دریافت ہوا کہ وائرل لوڈ میں کمی کے ساتھ ساتھ اس سے پھیپھڑوں کا ورم بھی محدود ہوتا ہے جو کووڈ کی زیادہ شدت والے کیسز کی اہم ترین علامت ہے۔

    ایسٹرا زینیکا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ان نتائج سے اس بات کو مزید سپورٹ ملتی ہے کہ ایوو شیلڈ زیادہ خطرے سے دوچار افراد کو کووڈ سے متاثر ہونے پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے اہم آپشن ہے۔

    حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے بتایا تھا کہ دنیا بھر میں کوویڈ19 کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے جو ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے کیونکہ اومیکرون اور اس کی ذیلی قسم بی اے 2 پابندیوں اور ٹیسٹنگ شرائط میں نرمی کے باعث پھیل رہی ہیں۔

    برطانوی ڈرگ ریگولیٹرز نے حال ہی میں بتایا تھا کہ ایسٹرا زینیکا کی دوا کووڈ کی علامات والی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ٹرائلز میں77 فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی تھی۔

    اس دوا کو ابتدائی علامات نظر آنے پر ایک ہفتے کے اندر استعمال کرانے سے مرض کی شدت بڑھنے اور زندگیاں بچانے کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔

    کمپنی کے مطابق ویکسینز سے بیماری کے خلاف مخصوص اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں مگر اس دوا سے بننے والی اینٹی باڈیز زیادہ طویل عرصے تک برقرار رہتی ہیں۔

    اس دوا کو امریکا میں پہلے ہی استعمال کی منظوری دی جاچکی ہے جبکہ یورپی یونین کی جانب سے اس کے حوالے سے جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔

  • جڑواں بچے ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں؟ نئی تحقیق

    جڑواں بچے ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں؟ نئی تحقیق

    جڑواں بچے ایک جیسی خصوصیات رکھتے، ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے رہتے ، یہ بات تحقیق میں کسی حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔

    جڑواں بچوں کے حوالے سے کئی باتیں دنیا میں مشہور ہیں اور اسی حوالے سے کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ جڑواں افراد میں سے کسی کے ساتھ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اسی موقع پر اس کے جڑواں کو بھی وہی خوشی یا تکلیف پہنچتی ہے اگر کسی کے درد ہوتا ہے تو جڑواں بھی وہی درد محسوس کرتا ہے، لیکن اب یہ باتیں صرف مفروضوں اور فلمی کہانیوں تک محدود نہیں رہیں۔

    تحقیق نے کسی حد تک ثابت کردیا ہے کہ جڑواں بچے ایک جیسی شخصی خصوصیات رکھتے ہیں اور ان کے دماغ میں اتنی ہم آہنگی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے درد کو لاشعوری طور پر محسوس کرتے ہیں۔

    ایڈن برگ اسکاٹ لینڈ یونیورسٹی میں بھی ’جڑواں لوگوں کی شخصیت ایک جیسی ہوتی ہے‘؟ کے حوالے سے تحقیق کی گئی۔

    اس تحقیق میں تقریباْ 800 جڑواں جوڑے ایک جیسی شخصی خصوصیات کے حامل پائے گئے، ان میں ظاہری مشابہت کے ساتھ ساتھ شخصی مشابہت بھی پائی گئی لیکن کچھ کیسز میں اگر ان کی علیحدہ علیحدہ پرورش کی گئی تو ہلکا پھلکا فرق بھی پیدا ہوگیا۔

    محققین کے مطابق یہ بات تھیوری نیچر اور نرچر کو تھوڑا بہت سپورٹ کرتی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق نیچر یا فطرت ہمیں اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملتی ہے جبکہ نرچر یا پرورش کا تعلق ہمارے ماحول سے ہوتا ہے، ہم اپنے ماحول سے سیکھتے اور پیدائش کے بعد ہماری شخصیت کا اہم حصہ ہماری زندگی کے تجربات ہوتے ہیں۔

    ہماری شخصیت نیچر اور نرچر کا ملاپ ہوتی ہے جیسے غصہ آپ کے ماحول سے آتا ہے کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابا یا دادا پر پڑا ہے وہ بھی اتنے ہی غصے والے تھے۔

    یونیورسٹی آف کمبرلینڈ کی ویب سائٹ کے مطابق محققین نے ایک طویل عرصے کی تحقیق کے بعد نتائج اخذ کیے ہیں۔

    اس تحقیق کے مطابق جڑواں بچوں کے دماغ میں اتنی ہم آہنگی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے درد کو لاشعوری طور پر محسوس کرتے ہیں جیسے کہ ایک بھائی کا سائیکل سے ایکسیڈنٹ ہوگیا اور اسکا ہاتھ ٹوٹ گیا جب وہ گھر آیا تو اس کے جڑواں بھائی کا ہاتھ بھی اسی جگہ سے سوجا پایا وہ بھی بغیر کسی وجہ کے یا ایک آدمی نے دل میں درد محسوس کیا تو عین اسی وقت دوسرے بھائی کو بھی ویسا ہی درد محسوس ہوا۔

  • برتن دھوئیں، جھاڑو لگائیں، کھانا پکائیں اور صحت پائیں، نئی تحقیق

    برتن دھوئیں، جھاڑو لگائیں، کھانا پکائیں اور صحت پائیں، نئی تحقیق

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ گھریلو امور انجام دینے والی خواتین کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں ساڑھے پانچ ہزار خواتین کا مطالعہ کیا جنہیں ایک ہفتے کے لیے حرکت ٹریک کرنے والے گیجٹس پہنائے گئے۔

    ایک ہفتے بعد جب ان کے نتائج اخذ کیے گئے تو پتہ چلا کہ جو خواتین روزمرہ کی زندگی میں کم از کم چار گھنٹے متحرک رہیں ان میں دل کے دورے یافالج سے مرنے کے امکانات ان خواتین کے مقابلے میں دو تہائی تک کم ہوگئے جو گھریلو امور کی انجام دہی میں دلچسپی نہیں لیتیں اور اس حوالے سے متحرک بھی نہیں ہوتیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق روزمرہ حرکات کا مطلب وہ گھریلو سرگرمیاں جن میں گھر کے کام، کھانا پکانا، صفائی کرنا، برتن دھونا ودیگر امور شامل ہیں۔

    جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ باقاعدہ ورزش کرنے سے محنت طلب سرگرمیاں بھی ممکنہ طور پر خواتین کے لیے صحت مند اور طویل زندگی میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

    اس سے پہلے ہونے والی تحقیق میں یہ بات پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ باقاعدگی سے ورزش دل کی صحت کے لیے اہم ہوتی ہے۔

    واضح ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی اموات میں سرفہرست وجہ امراض قلب ہیں۔

  • کافی کولیسٹرول سے کیسے بچاتی ہے؟ نئی تحقیق

    کافی کولیسٹرول سے کیسے بچاتی ہے؟ نئی تحقیق

    نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ کافی میں شامل کیفین کا زائد استعمال جسم میں برے کولیسٹرول کے بننے کے عمل کو روکتا ہے۔

    کافی ایک خوش ذائقہ مشروب ہے جس کے بہت سے طبی فوائد بھی ہیں، کافی کا ایک اہم جزو کیفین ہے جو مضرصحت کولیسٹرول یعنی ایل ڈی ایل کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے مگر ایسا کیسے ہوتا ہے اس کی سائنسی وجہ دریافت کرلی گئی ہے۔

    مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کافی کس طرح خطرناک کولیسٹرول ایل ڈی ایل کا خطرہ کم کرتا ہے پر ایک نئی تحقیق کی جس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ کیفین کا زائد استعمال خون میں موجود ایک قسم کے پروٹین ’’پی سی ایس کے نائن‘‘ کی مقدار کم کرتا ہے۔ یہ پروٹین جگر میں جاکر اسے برے یعنی ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو بننے کے عمل سے روکتا ہے یوں کولیسٹرول بڑھتا نہیں۔

    تحقیق میں شامل سینیئر سائنسدان ڈاکٹر رچرڈ آسٹن نے کیفین کا ایک اور کام بتایا جو ایس آر ای بی پی ٹو نامی ایک اور پروٹین کی سرگرمی کو روکتا ہے اور یہی پروٹین آگے چل کر پی سی ایس کے نائن کی پیداوار کو کم کرتا ہے یعنی کیفین دو طرح سے ایل ڈی ایل بننےکو روکتی ہے۔

    اس کے علاوہ ایس آر ای پی بی ٹو پروٹین ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ کئی امراض بھی بڑھاتا ہے جن میں ذیابیطس اور فیٹی لیور (چکنائی بھرے جگر) کا مرض شامل ہے۔

    لیکن یہ تحقیق صرف کافی کے ان ہی شوقین کے لیے اچھی ہے جو خالص کافی پیتے ہیں اور دیسی لوگ جن کی اکثریت کافی میں کریم اور شکر کے لوازمات بھی شامل کرتی ہے وہ مذکورہ تحقیق کے سائنسدانوں کا یہ انتباہ بھی جان لیں۔

    سائنسدان خبردار کررہے ہیں کہ اگر آپ کافی میں شکر اورکریم ملا کر پی رہے ہیں تو مذکورہ بالا سارے فائدے ضائع ہوسکتے ہیں کیونکہ اس طرح کیفین کی تاثیر کم سے کم ہوجاتی ہے، پھر سافٹ ڈرنگ اور میٹھے شربت کی عادت بھی سب کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔

    تاہم طبی ماہرین کے مطابق کیفین کی زائد مقدار بھی جسم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کافی کا استعمال معمول پر رکھنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

    امید کی جارہی ہے کہ کیفین پر مزید تحقیق کرکے اور اس کے سرگرم اجزا کو نوٹ کرکے مستقبل قریب میں اسے کسی سپلیمنٹ میں ڈھال کرایک موثر دوا کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ دوا دنیا بھر میں کولیسٹرول کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔