Tag: new research

  • پلاسٹک کی بوتلیں پانی میں پھینکیں‌تو کیا ہوتا ہے؟ نئی تحقیق

    پلاسٹک کی بوتلیں پانی میں پھینکیں‌تو کیا ہوتا ہے؟ نئی تحقیق

    نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلیں پانی میں جانے کے بعد ایسے  سینکڑوں کیمائی اجزا خارج کرتی ہیں جو آبی حیات کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

    پلاسٹک ہماری زندگیوں میں لازم وملزوم کی صورت اختیار کیا گیا ہے اب پانی پینا ہو یا سافٹ ڈرنک یا کوئی مائع دوا سب پلاسٹک کی بوتلوں میں ہی ملتا ہے لیکن یہ پلاسٹک بالخصوص پانی میں جاکر کتنی خطرناک ہوجاتی ہے اس کا اندازہ یہ رپورٹ پڑھ کر ہوجائے گا۔

    سمندروں میں ہر ایک منٹ میں کئی سو ٹن کچرا شامل ہورہا ہے جس میں بڑا حصہ پلاسٹک پر مشتمل ہے اور یہ سب کو ہی پتہ ہے کہ پلاسٹک سمندری حیات اور اندرونی ماحول کو تیزی سے تباہ کررہی ہے۔

    لیکن ایک تازہ تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ایک بوتل کو اگر پانی میں ڈال دیا جائے تو کم سے کم 400 مختلف کیمیائی اجزا دھیرے دھیرے خارج کرتی ہے۔

    جامعہ کوپن ہیگن کے سائنسدانوں نے اس حوالے سے ایک تحقیق کی ہے۔

    اس نئی تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے مختلف اقسام کی پلاسٹک کی بوتلوں کو جب پانی میں ڈالا گیا تو 24 گھنٹوں بعد ہی ان میں سے کیمیائی اجزا خارج ہونے لگے، ان میں سے بعض اجزا اس سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے تھے، اگرچہ اس پر مفصل تحقیق کی جارہی ہے لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کئی طرح سے صحت اور خود آبی حیات کے لیے انتہائی نقصاندہ ہے۔

    یونیورسٹی سے وابستہ جین ایچ کرسچن سن اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ پلاسٹک بوتلوں سے سینکڑوں اور ڈش واشر صابن سے 3500 مرکبات خارج ہوکر سمندر اور دریاؤں اور دیگر آبی ذخائر میں گھل رہے ہیں ان میں سے 70 فیصد اجزا کے زہریلے ہونے کا اب تک اندازہ ہی نہیں کیا گیا ہے۔

    ان کیمیائی اجزا میں سب سے خطرناک جزو فوٹوانشی ایٹرقسم سے تعلق رکھتے ہیں اور جانداروں کے اینڈوکرائن نظام متاثر کرنے کے علاوہ کینسر کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔

    سائنسدانوں نے  اس صورتحال کے تدارک کے لیے ایک جانب تو بہت سخت قانون سازی پر زور دیا ہے تو دوسری جانب پلاسٹک کی بوتلیں بنانے والے کمپنیوں کو بھی خبردار کیا ہے۔

  • مونگ پھلی بچوں کے لیے انتہائی مفید، نئی تحقیق

    مونگ پھلی بچوں کے لیے انتہائی مفید، نئی تحقیق

    موسم سرما کی سوغات مونگ پھلی کو بچوں کی خوراک میں شامل کرکے انہیں الرجی سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

    مونگ پھلی کا شمار آج بھی ان خوش ذائقہ خشک میوہ جات میں شمار ہوتا ہے جو مہنگائی کے اس دور میں بھی غریبوں کی دسترس میں ہیں، بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول مونگ پھلی کو سردی کی راتوں میں لحافوں میں بیٹھ کر کھانے بھی اپنا ہی لطف ہے۔

    تاہم ماہرین نے خوراک نے اس خوش ذائقہ میوے کا ایک ایسا نادر فائدہ دریافت کیا ہے جو بچوں کو مختلف امراض سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ماہرین نے ایک تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ شیرخوار اور کمسن بچوں میں عمر کی مطابقت سے خوراک میں مونگ پھلی شامل کرتے رہنے سے ان میں الرجی کے خلاف زیادہ مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔

    اس تحقیق میں پیدائش سے 3 سال تک کی عمر کے 146 بچوں کو شامل کیا گیا اور انہیں 2 گروپوں میں تقسیم کرکے ان پر ڈھائی برس تک تجربہ کیا گیا۔

    ان میں سے 96 بچوں پر مشتمل ایک گروپ کو روزانہ ’’پی نٹ پروٹین پاؤڈر‘‘ دیا گیا اور اس خوراک کو مرحلہ وار 6 مونگ پھلیوں کے برابر کیا گیا۔

    دوسرے گروپ کے بچوں کو جو کے آٹے سے بنایا گیا ایک مکسچر دیا گیا۔

    جن بچوں کو مونگ پھلی کا پاؤڈر دیا گیا ان میں سے 20 بچوں میں الرجی میں کمی ہوئی اور تھراپی ختم ہونے کے 6 ماہ بعد تک الرجی نہیں ہوئی۔

    اس کے برعکس دوسرے گروپ میں شامل صرف ایک بچے میں الرجی میں کمی دیکھی گئی۔

    تھراپی کے 6 ماہ بعد جن بچوں میں الرجی میں کمی ہوئی تھی وہ 16 مونگ پھلیوں کے برابر خوراک لینے لگے۔

    تحقیق کے مطابق 12 ماہ سے کم عمر کے بچوں میں اس حوالے سے زیادہ بہتری نظر آئی۔ اس تحقیق کے معاون سٹیسی جونز کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کی ابتدا میں ان کی خوراک میں مونگ پھلی شامل کردی جائے تو الرجی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

    ریسرچ کے مطابق مغربی ممالک میں دو فیصد بچے مونگ پھلی سے پیدا ہونے والی الرجی کا شکار ہوتے ہیں جو تمام عمر ان کے ساتھ رہتی ہے، یہ بچے ان لوگوں سے بھی متاثر ہوسکتے ہیں کہ جنہوں نے مونگ پھلی کھائی ہو اور ان کے ساتھ گلے ملے ہوں۔

    ’’ایسے متاثرہ بچوں کو مونگ پھلی نہیں دینی چاہیے اور الرجی سے پیدا ہونے والے جھٹکوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔‘‘

    معاون ریسرچر ویسلے برکس کا اس سے متعلق کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں کوئی علاج ممکن نہیں جس سے الرجی شدہ بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

  • یہ جانور بھی انسانوں کے کورونا سے متاثر ہونے کا سبب! نئی تحقیق

    یہ جانور بھی انسانوں کے کورونا سے متاثر ہونے کا سبب! نئی تحقیق

    ہانگ کانگ کے محققین کی ایک نئی تحقیق کے مطابق چوہوں کی ایک قسم ہیمسٹر سے کورونا وائرس انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    ایک غیر ملکی جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ کے محققین کو شواہد ملے ہیں کہ ہیمسٹر انسانوں میں وائرس منتقل کرسکتے ہیں۔

    تحقیق کے لیے پالتو جانوروں کی دکانوں سے جمع کیے گئے جانوروں کے نمونوں کی جانچ کی گئی۔

    اس تحقیق میں ہیمسٹر سے انسانوں میں وائرس کی منتقلی کے دو مختلف کیسز کا مشاہدہ کیا گیا۔

    مطالعہ کے مطابق زیربحث ہیمسٹرز ہانگ کانگ کو درآمد کرنے سے پہلے وائرس کا شکار تھے۔

    اس تحقیق سے محققین نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ پالتو جانوروں کی تجارت سرحدوں کے پار کوویڈ 19 کے پھیلاؤ میں سہولت فراہم کرنے کا ایک طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ’’گھریلو ہیمسٹر‘‘ نہ صرف کوویڈ 19 سے متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ وائرس کو دوبارہ انسانوں میں منتقل کرسکتے ہیں۔

  • خبردار، سست رفتاری سے چلنا دل کے لیے خطرناک! نئی تحقیق

    خبردار، سست رفتاری سے چلنا دل کے لیے خطرناک! نئی تحقیق

    امریکا میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تیز چلنے والے افراد میں ہارٹ فیل کا خطرہ سست روی سے چلنے والے افراد کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    دل کے امراض دنیا میں عام ہوچکے ہیں اور ہارٹ فیل کے باعث ہر سال لاکھوں افراد لقمہ اجل بنتے ہیں، بہت سے مریضوں کو تو اپنے اندر  ان علامات کا علم ہی نہیں ہوتا جو اس مرض کا سبب بنتی ہیں، اپنے روزمرہ کے معمولات میں ایک معمولی تبدیلی لاکر آپ بھی اس خطرے سے خود کو دور کرسکتے ہیں۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی میں ہارٹ فیلیئر کا اسباب جاننے سے متعلق ایک تحقیق ہوئی جس میں 50 سال سے زائد عمر کی 25 ہزار سے زائد خواتین کی صحت کا جائزہ لیا گیا اور ان کے چلنے کی رفتار کو جانچا گیا۔

    تحقیق کے مطابق جن خواتین کا دعویٰ تھا کہ ان کے چلنے کی اوسط رفتار 2.3 میل فی گھنٹہ تھی ان میں ہارٹ فیلیئر کا خطرہ سست روی سے چلنے والوں کے مقابلے میں 27 فیصد کم دریافت ہوا، اسی طرح 3 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی خواتین میں یہ تناسب مزید کم ہوکر 34 فیصد ہوگیا۔

    محقیقن نے اس تحقیق سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے بتایا کہ تیز چلنے والے افراد ممکنہ طور پر جسمانی طور پر زیادہ فٹ ہوتے ہیں جس کے مثبت اثرات دل کی شریانوں پر بھی پڑتے ہیں اور اس سے ہارٹ فیل کا خطرہ کم ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ چلنے کی رفتار سے دل کی صحت کا اندازہ ہوتا ہے اور نتائج سے گزشتہ تحقیقی رپورٹس کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اکثر افراد کے لیے ورزش کو عادت بنانا مشکل ہوتا ہے تو کم وقت کے لیے تیز رفتاری سے چلنا بھی ہر ہفتے 150 منٹ کی معتدل جسمانی سرگرمیوں جتنے فوائد جسم کو پہنچاسکتی ہے۔

    محققین نے کہا کہ اس تحقیق سے ان افراد کی شناخت میں مدد مل سکے گی جن میں ہارٹ فیلیئر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، لوگ چلنے کی رفتار کو بڑھا کر اس خطرے کو کسی حد تک کم کرسکتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق ہر ہفتے ایک گھنٹے تک تیز چہل قدمی سے اس مرض کا خطرہ اتنا ہی کم کیا جاسکتا ہے جتنا کہ ہر ہفتے 2گھنٹے تک عام رفتار سے چہل قدمی، تیز چلنا دل کے دیگر امراض کا خطرہ بھی کم کرتا ہے، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن گیراٹرکس سوسائٹی میں شائع ہوئے ہیں۔

    واضح رہے کہ ہارٹ فیلیئر ایسا ناقابل علاج مرض ہے جس میں دل جسمانی طلب کے مطابق خون فراہم کرنے سے قاصر ہوتا ہے جو موت کا باعث بنتا ہے۔

  • اومیکرون وائرس انسانی جلد پر کب تک زندہ رہتا ہے؟ نئی تحقیق

    اومیکرون وائرس انسانی جلد پر کب تک زندہ رہتا ہے؟ نئی تحقیق

    جاپان میں ہوئی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اومیکرون کورونا وائرس کی سابقہ اقسام کی نسبت انسانی جلد اور پلاسٹک کی سطح پر زیادہ دیر زندہ رہتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کی سطح پر کورونا وائرس کی اصل قسم  اور  ایلفا، بیٹا گیما اور ڈیلٹا کے زندہ رہنے کا اوسط وقت بالترتیب 56 گھنٹے، 191.3 گھنٹے، 156.6 گھنٹے، 59.3 گھنٹے اور 114 گھنٹے ہے۔ اس کے مقابلے میں اومیکرون کا وقت 193.5 گھنٹے دریافت ہوا۔

    جلد کے نمونوں میں وائرس کی اوریجنل قسم کے زندہ رہنے کا اوسط وقت 8.6 گھنٹے تھا جبکہ ایلفا کا 19.6 گھنٹے، بیٹا کا 19.1 گھنٹے، گیما کا 11 گھنٹے، ڈیلٹا کا 16.8 گھنٹے اور اومیکرون کا 21.1 گھنٹے تھا۔

    تاہم تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کورونا وائرس کی یہ تمام اقسام الکحل ملے ہینڈ سینیٹائزر کے استعمال سے 15 سیکنڈ میں مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہیں، محققین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ہاتھوں کی مناسب صفائی اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اہم ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور bioRxiv میں جاری کیے گئے۔

    اس سے قبل طبی جریدے جرنل کلینیکل انفیکشیز ڈیزیز میں شائع تحقیق میں بتایا تھا کہ کورونا وائرس انسانی جلد پر 9 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے، اس کے مقابلے میں فلو کا باعث بننے والا وائرس انسانی جلد پر 2 گھنٹے تک ہی رہتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ وائرس براہ راست رابطے پر زیادہ پھیل سکتا ہے کیونکہ یہ فلو وائرس کے مقابلے میں جلد پر زیادہ مستحکم رہتا ہے۔

    یہ وائرس نظام تنفس کو متاثر کرتا اور ہوا میں موجود ذرات سے پھیلتا ہے جو کسی متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینک سے خارج ہوتے ہیں جو قریب موجود انسان کی ناک یا منہ پر گرتے یا سانس لینے کے دوران اندر چلے جاتے ہیں، مگر کسی میں اس سے متاثر ہونے کا خطرہ اس وقت بھی ہوتا ہے جب وہ کسی ایسی چیز کی سطح کو چھوئے جس پر یہ وائرل ذرات موجود ہوں اور اس کے بعد ان ہی ہاتھوں سے اپنے منہ، ناک یا آنکھوں کو چھوئے۔

    تحقیق میں کورونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں اومیکرون کو زیادہ متعدی خیال کیا جاتا ہے۔ بہتر ماحولیاتی اسستحکام اس کے متعدی ہونے کی صلاحیت کو برقررا رکھتا ہے اور اسی کے نتیجے میں اومیکرون کو ڈیلٹا کی جگہ لینے میں مدد ملی اور وہ برق رفتاری سے پھیل رہا ہے۔

  • بروکولی (شاخ گوبھی)سے کینسر کا علاج، نئی تحقیق

    بروکولی (شاخ گوبھی)سے کینسر کا علاج، نئی تحقیق

    جاپانی سائنسدانوں نے بروکولی یعنی شاخ گوبھی میں ایسا کیمیکل دریافت کیا ہے جس سے کینسر کے علاج میں مدد مل سکتی ہے۔

    ہیروشیما یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بروکولی پر نئی تحقیق کی ہے جس میں دریافت ہوا ہے کہ شاخ گوبھی میں ایک ایسا کیمیکل موجود ہے جو کینسر کے خلاف نہایت موثر ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے کینسر جیسے موذی مرض کے علاج میں مدد مل سکتی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماہرین کا اس تحقیق کے حوالے سے کہنا ہے کہ بروکولی غذا کے ساتھ دوا بھی ہے، شاخ گوبھی میں پایا جانے والا ڈی آئی ایم کیمیکل سرطان کے خلیے بننے سے روکتا ہے اور مستقبل میں یہ سبزی یا اس کے اجزا سرطان کے خلاف بننے والی کسی دوا کا اہم مرکب ثابت ہوسکتے ہیں۔

    پبلک لائبریری آف سائنس ون میں ہیروشیما یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے خمیر (فشن ییسٹ) پر گوبھی کا اہم کیمیکل ڈی آئی ایم یعنی 3، 3 Diindolylmethane آزمایا، جس سے معلوم ہوا کہ یہ قدرتی مرکب خلیے کی زندگی مکمل ہونے پر اسے نہ صرف ختم کردیتا ہے بلکہ اس کی باقیات کو ری سائیکل بھی کرتا ہے۔

    کینسر میں خلیات اپنی مدت پوری کرکے ختم نہیں ہوتے اور رسولیوں میں ڈھلتے رہتے ہیں جنہیں دنیا ٹیومر کے نام سے جانتی ہے، تاہم خمیر کے بعد ڈی آئی ایم کی انسانوں پر آزمائش ہونا ابھی باقی ہے۔

  • کافی کے وہ فائدے جس سے ہم لاعلم ہیں! نئی تحقیق

    کافی کے وہ فائدے جس سے ہم لاعلم ہیں! نئی تحقیق

    ایک نئی تحقیق میں کافی کو صحت کے لیے مفید قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کافی‘‘ ہاضمے کی عام شکایات، پتھری اور جگر کی بعض بیماریوں سے بچاتی ہے

    ’’کافی‘‘ ایک ذائقہ دار گرم مشروب ہے جس کا استعمال موسم کی مناسبت سے آج کل تقریباْ ہر دوسرے گھر میں ہورہا ہوگا، لیکن کافی پینے کے شوقین افراد کے لیے ہے خوشخبری کہ ان کا پسندیدہ مشروب اب صرف منہ کا ذائقہ ہی تبدیل نہیں کرتا بلکہ کئی امراض سے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

    غذاؤں کی تحقیق سے متعلق ایک میگزین ’’نیوٹریئنٹس جرنل‘‘ میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق کافی پینے سے ہاضمہ اور آنتوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق کافی نظام ہضم کو متحرک کرکے ہاضمے سے متعلق عام شکایات، پتھری اور جگر کی بعض بیماریوں سے بچاتی ہے۔

    یہ انکشاف 194 تحقیقی اشاعتوں کے جائزے کے بعد ہوا ہے، جس کے مطابق دن بھر میں 3 سے 5کپ کافی پینا نظام ہاضمہ کے لیے بہترین ہے، اس سے ہاضمہ سے متعلق مختلف اعضا نقصان سے بچے رہتے ہیں۔

    تحقیق میں کافی کے حوالے سے 2اہم بیماریوں سے متعلق تحفظ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ایک پتھری کے خطرے میں کمی اور دوسرا لبلبے میں مرض کے کم خطرے کا ثبوت ملا ہے تاہم اس حوالے سے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    تحقیق میں کافی کے معدے پر پڑنے والے 3 مثبت اثرات کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کے مطابق کھانے کو ہضم کرنے کے لیے گیسٹرک، بِلیاری اور لبلبے کی رطوبتوں کا ہونا ضروری ہے اور تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ کافی ہاضمے کے ہارمون گیسٹرن کی پیداوار کو متحرک کرتا ہے۔

    کافی کا تعلق بڑی آنت کی حرت سے بھی ہے یعنی وہ عمل جس کے ذریعے کھانا ہاضمے کے راستے سے گزرتا ہے، جانزہ لینے والے اعداد وشمار کے مطابق کافی بڑی آنت میں حرکت پذیری کو متحرک کرسکتی ہے جو کہ سیریلز، ڈی کیفین والی کافی سے 23 فیصد زیادہ یا ایک گلاس پانی سے 60 فیصد زیادہ ہے اور اس کا تعلق دائمی قبض کے خطرے کو کم کرنے سے ہوسکتا ہے۔

    نظرثانی شدہ مطالعات میں کافی کا استعمال گٹ مائیکرو بائیوٹا کی ساخت میں تبدیلیاں لاتا ہے واضح رہے کہ معدے کی نالی کا جگہ پر رہنے والا تعلق گٹ مائیکرو بائیوٹا کی ساخت میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہوتا ہے۔

    حالیہ تحقیق میں کافی جگر کی بیماریوں کے خلاف بھی تحفظ فراہم کرتی ثابت ہوئی ہے جس میں ہیپاٹو سیلولر کارسنوما شامل ہے جو جگر کے کینسر کی سب سے عام اقسام میں سے ایک ہے۔

  • بھولنا بیماری نہیں اچھی ذہانت کی نشانی، نئی تحقیق میں انکشاف

    بھولنا بیماری نہیں اچھی ذہانت کی نشانی، نئی تحقیق میں انکشاف

    ہمارا دماغ ہزاروں لاکھوں خلیوں پر مشتمل ہے جس میں ان گنت واقعات کی یادوں کا خزانہ موجود ہے، کبھی انسان ان یادوں میں سے کچھ کو بھول بھی جاتا ہے جو پریشان کن نہیں

    ہماری ایک نسل  پرائمری کی اردو کتاب میں شان الحق حقی کی ایک دلچسپ نظم ‘‘بھائی بھلکڑ’’ پڑھ کر بڑی ہوئی ہے ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کئی باتیں بھول جاتے ہیں جنہیں لوگ مذاقاْ بھائی بھلکڑ یا کمزور دماغ کا قرار دیتے ہیں۔

    لیکن نئی تحقیق نے اس بات کی نفی کردی ہے کہ بھولنا کوئی بیماری ہے۔

    آئرلینڈ میں اس حوالے سے ہونے والی نئی تحقیق میں یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ بھولنا کوئی بری علامت نہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر سیکھنے کی ایک قسم ہوسکتی ہے۔

    ٹرینیٹی کالج میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مخصوص یادوں تک رسائی کے حوالے سے ہماری صلاحیت میں ماحولیاتی تبدیلیاں ماحولیاتی فیڈ بیک اور قابل پیشگوئی جیسے عناصر کے باعث آتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق بھول جانا دماغ کا ایک فعال فیچر ہوسکتا ہے جس سے وہ ماحول کے ساتھ جڑنے کے قابل ہوتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کچھ یادوں کو فراموش کرنا زیادہ لچکدار رویوں اور بہتر فیصلہ سازی کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے، اس طرح ہم کچھ یادوں کو بھولنا اور اہم باتوں کو یاد رکھنا سیکھتے ہیں۔

    تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ یادیں انگرام سیلز نامی نیورونز میں محفوظ ہوتی ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ بھولنا سرکٹ ری ماڈلنگ کا نتیجہ ہوتا ہے جس کے ذریعے قابل رسائی انگرام سیلز ناقابل رسائی ہوجاتے ہیں اور یہ سیکھنے کے عمل کا ایک حصہ ہے تاکہ ہم ان یادوں تک ہی رسائی حاصل کرسکیں جو موجودہ ماحول سے مطابقت رکھتی ہوں۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر ریویوز نیوروسائنسز میں شائع ہوئے ہیں۔

    اس سے قبل 2017 میں ہونے والی ایک  طبی تحقیق میں بھی کہا گیا تھا کہ بہت زیادہ بھلکڑ ہونا قابل تشویش ہوسکتا ہے مگر کبھی کبھار بھولنا  اچھی ذہانت کی نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ آپ کی یاداشت کا نظام صحت مند اور درست طریقے سے کام کررہا ہے۔

  • امریکی سائنسدانوں نے کورونا کا "علاج” ڈھونڈ لیا، تحقیق کے بعد بڑا دعویٰ

    امریکی سائنسدانوں نے کورونا کا "علاج” ڈھونڈ لیا، تحقیق کے بعد بڑا دعویٰ

    "عالمی وبا کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے اس کے سد باب کیلئے سائنسدان اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دوا کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔

    اس حوالے سے کیلیفورنیا میں واقع اسکرپس ریسرچ میں وَرم انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ میڈیسن کے پروفیسر کِم جانڈا اور جونیئر پروفیسر ایلی کیلاوے نے ٹیپ وَرم کو ٹھیک کرنے والی دوا سے کووڈ-19 کو ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    پیٹ کے کیڑوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال میں لائی جانے والی دوا سے کورونا وائرس انفیکشن کا علاج ممکن ہے۔ اس بات کا انکشاف ایک نئی اسٹڈی میں ہوا ہے جس میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ٹیپ وَرم (پیٹ کا کیڑا) کی دوا میں ایسا مجموعہ ہے جو کووڈ-19 کو ٹھیک کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

    محقیقن کے مطابق یہ بات پریکٹیکل روم میں ثابت ہو چکی ہے۔ حال ہی میں یہ اسٹڈی اے سی ایس انفیکشیس ڈیزیز نام کے جرنل میں شائع بھی ہوئی ہے۔

    کیلیفورنیا واقع اسکرپس ریسرچ میں وَرم انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ میڈیسن کے پروفیسر کِم جانڈا اور جونیئر پروفیسر ایلی آر. کیلاوے نے ٹیپ وَرم کو ٹھیک کرنے والی دوا سے کووڈ-19 کو ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ٹیپ وَرم کی دوا میں سیلی سائلینیڈلس کلاس کا ایک کیمیکل ہوتا ہے جو کورونا کو روکنے میں کارگر ہے۔ کم جانڈا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15-10 سالوں میں یہ بات پختہ تھی کہ سیلی سائلینلڈس الگ الگ طرح کے وائرس کے خلاف سرگرمی کے ساتھ کام کرتا ہے۔

    حالانکہ یہ آنتوں سے متعلق اور اس کا ٹاکسک اثر بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم نے چوہوں اور خلیات پر الگ الگ طرح کے تجربہ گاہوں میں ٹیسٹ کیا، تاکہ اپنی بات کی پختہ طور پر تصدیق کر سکیں۔

    کم جانڈا نے کہا کہ سیلی سائلینلڈس اینٹی انفلامیٹری ڈرگ ہے، اس کی دریافت سب سے پہلے 1950 میں جرمنی میں ہوئی تھی تاکہ مویشیوں کو ٹیپ وَرم کی بیماری نہ ہو۔ بعد میں اس کی کئی طرح کی دوائیں بازار میں تیار کی گئیں، جو الگ الگ جانداروں کے لیے تھیں۔

    ایک کا نام ہے نکلوسیمائیڈ جس کا استعمال انسانوں اور جانوروں دونوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ٹپ وَرم کے انفیکشن سے لوگوں کو بچاتا ہے۔ جانڈا اور کیلاوے نے سیلی سائلینلڈس کا نیا کمپاؤنڈ یعنی مرکب بنایا ہے کیونکہ جانڈا کو پتہ تھا کہ اس مرکب میں اینٹی وائرس خوبیاں ہیں۔

    جانڈا نے پہلے بھی اس مرکب پر کام کیا تھا۔ انھوں نے پہلے اپنے آرکائیو سے سارے ڈیٹا کو نکالا پھر دی یونیورسٹی آف ٹیکساس میڈیکل برانچ اور سورینٹے تھیراپیوٹکس کے ساتھ مل کر کورونا انفیکشن والے خلیات میں سیلی سائلینلڈس کا استعمال کیا جو کہ اثردار ثابت ہوا۔

  • لاکھوں افراد لانگ کووڈ سے متاثر

    لاکھوں افراد لانگ کووڈ سے متاثر

    واشنگٹن: امریکا میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے بعد سامنے آنے والے اثرات یعنی لانگ کووڈ پر ایک مفصل تحقیق کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاکھوں امریکی شہریوں کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مختلف طبی مسائل کے باعث طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا، حالانکہ کرونا وائرس سے قبل ان کو ان بیماریوں کا سامنا نہیں تھا۔

    اس تحقیق میں امریکا میں لگ بھگ ایسے 20 لاکھ افراد کے ہیلتھ انشورنس ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں گزشتہ سال کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے بعد 23 فیصد افراد کو نئی بیماریوں کے لیے علاج کروانا پڑا۔

    ان میں تمام عمر کے افراد بشمول بچے بھی شامل تھے اور سب سے عام طبی مسائل میں اعصاب اور مسلز کی تکلیف، سانس لینے میں دشواری، کولیسٹرول کی شرح میں اضافہ، شدید ترین تھکاوٹ اور ہائی بلڈ پریشر شامل تھے۔

    دیگر مسائل میں آنتوں کے مسائل، آدھے سر کا درد، جلدی مسائل، دل کے افعال میں خرابیاں، نیند کے مسائل اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے بے چینی اور ڈپریشن قابل ذکر ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے بعد طبی مسائل ایسے افراد میں بھی عام تھے جو اس وائرس سے بیمار بھی نہیں ہوئے تھے یعنی اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ بیماری کو شکست دینے کے بعد مسائل کا سامنا کرنے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا، مگر 27 فیصد افراد ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی، جبکہ 19 فیصد ایسے تھے جن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم بغیر علامات والے مریضوں میں لانگ کووڈ کی شرح دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تحقیق میں جن 19 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی ان میں 50 فیصد سے زیادہ بغیرعلامات والے تھے۔

    40 فیصد میں علامات ظاہر ہوئی تھی مگر انہیں اسپتال داخل نہیں ہونا تھا، جبکہ صرف 5 فیصد کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ بغیر علامات والے افراد میں لانگ کووڈ کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جو بہت اہم دریافت ہے، جس سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو کرونا وائرس کے مابعد اثرات کے امکان پر غور کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اس تحقیق میں جن مریضوں کے ریکارڈ کو دیکھا گیا تھا ان میں کووڈ کی تشخیص فروری سے دسمبر 2020 میں ہوئی تھی اور ان کی مانیٹرنگ فروری 2021 تک کی گئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ 4 لاکھ 54 ہزار 477 افراد نے بیماری کے 30 دن یا اس کے بعد ڈاکٹروں سے مختلف علامات کی وجہ سے رجوع کیا۔