Tag: new research

  • مسوڑوں کی تکالیف کورونا مریضوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، نئی تحقیق

    مسوڑوں کی تکالیف کورونا مریضوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، نئی تحقیق

    کورونا وائرس سے متاثرہ بعض افراد صحت یاب ہونے کے بعد اس کی شدت سے متاثر رہتے ہیں جس کی ایک اہم وجہ سائنسدانوں نے دریافت کرلی، مسوڑوں کے امراض کورونا مریضوں کو خطرے کی لکیر تک لے جاتے ہیں۔

    طبی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 سے متاثر ہونے والے اکثر افراد صحتیاب تو ہوجاتے ہیں مگر چند میں اس کی شدت بہت زیادہ سنگین ہوتی ہے۔

    ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے اس عالمی وبا کے آغاز سے ہی سائنسدان کام کررہے ہیں اور اب ایک بڑی ممکنہ وجہ سامنے آئی ہے۔ درحقیقت مسوڑوں کے امراض اور کوویڈ 19 کی پیچیدگیوں اور اموات کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔

    کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مسوڑوں کے ورم کا سامنا کرنے والے افراد میں کوویڈ 19 سے موت کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 8.8 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح ایسے افراد میں کوویڈ 19 سے اسپتال میں داخلے کا امکان 3.5 گنا جبکہ وینٹی لیٹر کی ضرورت 4.5 گنا یادہ ہوتی ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ کی اچھی صحت کوویڈ 19 کی پیچیدگیوں کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ مسوڑوں کے امراض اور کوویڈ کے سنگین نتائج کے درمیان مضبوط تعلق موجود ہے۔

    دانتوں اور مسوڑوں کے درمیان بیکٹریا کے اجتماع کے نتیجے میں ورم کا سامنا ہوتا ہے اور علاج نہ کرانے پر مریض کو مختلف اقسام کے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ منہ کی اچھی صفائی بشمول روزانہ خلال، برش کرنا اور دانتوں کا معائنہ کرانا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    محققین کے مطابق مسوڑوں کے امراض کو پہلے ہی متعدد امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ ٹو اور نظام تنفس کے امراض کے لیے خطرہ بڑھانے والا عنصر سمجھا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں قطر کے حماد میڈیکل کارپوریشن کے 568 مریضوں کے دانتوں اورر صحت کے لیے الیکٹرونک ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    محققین نے مختلف عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد دریافت کیا کہ مسوڑوں کے امراض کے شکار افراد کے خون میں ورم کی سطح بہت نمایاں ہوتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کوویڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں میں ورم کا یہ ردعمل پیچیدگیوں اور موت کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹھوس نتائج تک ضروری ہے کہ لوگ منہ کی صحت کا خیال رکھیں کیونکہ دونوں امراض کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    نوٹ : اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف کلینیکل

    Periodontology میں شائع ہوئے۔

  • وہ انفیکشن جو کورونا سے محفوظ رکھتا ہے، نئی تحقیق

    وہ انفیکشن جو کورونا سے محفوظ رکھتا ہے، نئی تحقیق

    ایک نئی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ سال نزلہ اور زکام کا شکار ہونے والے افراد اس سال کورونا وائرس کا شکار نہیں ہو رہے یا پھر اُن میں کورونا وائرس کی علامتیں زیادہ سنگین نظر نہیں آ رہیں۔

    اس تحقیق میں 27 ہزار سے زائد کورونا وائرس کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو 2020ء میں کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور 13 ہزار ایسے افراد کا معائنہ کیا گیا تھا جو کہ گزشتہ سال کورونا وائرس کا شکار نہیں ہوئے تھے مگر انہیں نزلہ زکام کی شکایت رہی تھی۔

    تحقیق کے نتائج کے مطابق گزشتہ سال نزلہ زکام کا شکار ہونے والے 13 ہزار میں سے صرف 4 فیصد افراد میں کورونا وائرس مثبت آیا تھا جبکہ جو گزشتہ سال نزلہ زکام یا وبا کا شکار نہیں ہوئے تھے اُن میں اس سال کورونا سے متاثر ہونے کی شرح زیادہ پائی گئی تھی۔

    محققین کے مطابق اس پر ابھی مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا گزشتہ سال نزلہ زکام کا شکار ہونے والے افراد میں اس سال وبا سے بچنے کے لیے ایس او پیز پر کتنی سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

    محقیقین کا نتائج سے متعلق مزید کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ تاثر بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے کہ گزشتہ سال کورونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد یا نزلہ زکام سے متاثر ہونے والے کے لیے کورونا ویکسین ضروری نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین وبا سے بچاؤ کے لیے بنائی گئی ہے جو کہ ہر انسان کے لیے ضروری ہے چاہے وہ کورونا وائرس ایس او پیز پر سختی سے عمل ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔

  • کورونا ویکسین لگنے کے بعد کورونا مثبت آنے پر نئی تحقیق سامنے آ گئی

    کورونا ویکسین لگنے کے بعد کورونا مثبت آنے پر نئی تحقیق سامنے آ گئی

    لاہور : کورونا ویکسین لگنے کے بعد کورونا مثبت آنے پر نئی تحقیق سامنے آ گئی، سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کا کہنا ہے کہ ویکسین لگنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی احتیاط کرنا ہرگز مت چھوڑیں۔

    تفصیلات کے مطابق ویکسین کی پہلی ڈوز لگنے کے بعد ہیلتھ کئیر ورکرز میں کورونا مثبت آنے کی خبر کے معاملے پر ویکسین لگنے کے بعد کورونا مثبت آنے پر نئی تحقیق سامنے آ گئی۔

    سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر قاری محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ویکسین کی پہلی خوراک لگنے کے 14 دن بعد اینٹی باڈی بننے شروع ہوتے ہیں، ویکسین لگنے کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی احتیاط کرنا ہرگز مت چھوڑیں، اس وقت دستیاب ویکسین ہی کورونا وائرس کے خلاف بہترین تحفظ ہے۔

    محمد عثمان نے کہا کہ ویکسین بہت سے اقسام کے خلاف موثر ہے جو انتہائی خوش آئند اور اہم ہے، پہلے مرحلے میں فرنٹ لائن ہیلتھ کئیر ورکرز کو ویکسین لگا کر زیادہ سے زیادہ محفوظ بنا رہے ہیں۔ اب تک 62 ہزار سے زائد فرنٹ لائن ہیلتھ کئیر ورکرز کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔

    سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد کو ویکسین لگائیں گے، عوام سے گزارش ہے کہ اپنے 60 سال سے زائد عمر کے بزرگوں کی رجسٹریشن فوراََ کروائیں اور رجسٹریشن کے لیے 60 سال سے زائد عمر کے بزرگوں کا شناختی کارڈ نمبر 1166 پر ایس ایم ایس کریں۔

  • فیس ماسک پہننے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ماہرین کی نئی تحقیق

    فیس ماسک پہننے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ماہرین کی نئی تحقیق

     نیو یارک : امریکہ کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے فیس ماسک اس طرح پہننا چاہیے کہ وہ ضرورت سے زیادہ ڈھیلے نہ ہوں۔

    کووڈ 19 کی وبا کے بعد سے فیس ماسک کے استعمال پر دنیا بھر میں تحقیقی کام کیا جارہا ہے، تاہم زیادہ توجہ فیس ماسک کی تیاری میں استعمال ہونے والے میٹریل اور افادیت پر دی جارہی ہے۔

    جب ہم کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے فیس ماسک پہنتے ہیں تو صرف خود کو نہیں بلکہ ارگرد موجود افراد کو بھی تحفظ فراہم کررہے ہوتے ہیں۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ درحقیقت اگر فیس ماسک ڈھیلا بھی ہے تو بھی یہ کوویڈ 19سے تحفظ کے لیے اسے نہ پہننے سے زیادہ بہتر ہے۔

    ڈیلاویئر یونیورسٹی کی تحقیق میں ہوا میں موجود ذرات سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے فیس ماسکس کی افادیت جانچنے کا ایک منفرد طریقہ کار تیار کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیق کے دوران انہوں نے دریافت کیا کہ اچھی طرح فٹ ماسک ڈھیلے فیس ماسکس کے مقابلے میں وائرس سے بچاؤ میں زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق ڈھیلے فیس ماسک بھی کوویڈ 19 سے بچانے میں ان کو نہ پہننے کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ تحقیق کے مذکورہ نتائج طبی جریدے پلس ون میں شائع ہوئے۔

    اس تحقیق میں فیس ماسک میں موجود خلا اور اطراف سے ہوا میں موجود وائرل ذرات کے جسم تک پہنچنے کے عمل کو دیکھا گیا، محققین نے اس مقصد کے لیے ایک ٹیسٹ ٹیوب ماڈل تیار کیا گیا جس میں وائرل ذرات کی منتقلی کے لیے نیولائزر کا استعمال کیا گیا۔

    تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ درست طریقے سے فٹ این 95 ماسک وائرل ذرات سے بچانے کے لیے سب سے مؤثر ہوتا ہے۔ انہوں نے موازنہ کرکے دریافت کیا کہ ڈھیلے این 95 ماسکس، سرجیکل ماسکس اور کپڑے کے ماسکس پہننے والوں کے منہ اور ناک سے زیادہ ذرات خارج ہوکر ہوا میں پہنچ جاتے ہیں۔

    تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ایک ماسک پہننے سے چشموں کے شیشے دھندلے ہونے کی وجہ ماسک کے اندر نمی ہوتی ہے، جو منہ اور ناک سے خارج ہونے والے ذرات کا حجم بڑا کرنے میں مدد دیتی ہے۔

  • کرونا وائرس مریض نئی پریشانی میں مبتلا ہوگئے، تحقیق میں انکشاف

    کرونا وائرس مریض نئی پریشانی میں مبتلا ہوگئے، تحقیق میں انکشاف

    فن لینڈ : کورنا وائرس اب ڈراؤنے خواب کی علامت بن گیا، اس وباء کے خوف سے عوام طبی معاشی اور دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ رات کو چین کی نیند بھی نہیں سوسکتے۔

    کوویڈ 19دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، وبا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، نئی تحقیق کے مطابق یہ بیماری متعدد افراد کے لیے حقیقی معنوں میں ایک بھیانک خواب بن چکی ہے۔

    درحقیقت اس بہیماری میں مبتلا لاتعداد افراد اس وقت رات کو نیند کے دوران ڈراؤنے خواب دیکھ رہے ہیں، یہ دعویٰ فن لینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

    اس سلسلے میں طبی جریدے فرنٹیئرز ان سائیکولوجی میں شائع تحقیق میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ہزاروں افراد کے خوابوں کے مواد کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں 50 فیصد سے زیادہ افراد ڈراؤنے خواب دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس تحقیق میں فن لینڈ میں لاک ڈاؤن کے چھٹے ہفتے کے دوران 4 ہزار سے زائد افراد کے نیند اور تناؤ کا ڈیٹا جمع کیا گیا، جبکہ 800نے اپنے خوابوں کے بارے میں بتایا، اکثر نے وبا کے دوران ذہنی بے چینی کی شکایت بھی کی۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان افراد میں کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کا بہت اثر ہوا، نتائج سے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں مدد ملی کہ مشکل حالات میں دیکھے جانے والے خوابوں سے یادداشت پر مرتب اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    تحقیق کے دوران لوگوں کے خوابوں کو تحریر کرکے اس ڈیٹا کو اے آئی الگورتھم میں فیڈ کیا گیا جو خوابوں کے مرکزی خیالات کے مطابق انہیں مخلتف مجموعوں کی شکل دے دیتا۔

    اس کے نتیجے میں 33 مجموعے بنے جن میں سے 20 مجموعوں کو ڈراؤنے خواب قرار دیا گیا، جبکہ 55 فیصد مواد وبا سے متعلق تھا جیسے سماجی دوری میں ناکامی، کورونا وائرس سے متاثر ہونے، حفاظتی آلات، قیامت جیسی تباہی اور دیگر۔

    محققین نے بتایا کہ اے آئی پر مبنی تجزیاتی ڈیٹا کا استعمال خوابوں کی تحقیق کے لیے ایک بالکل نیا طریقہ ہے، ہمیں توقع ہے کہ مستقبل میں اس طرح کا مزید کام کیا جائے گا۔

    تحقیق میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران لوگوں کی نیند کی عادات اور تناؤ کی سطح پر بھی روشنی ڈالی گئی، مثال کے طور پر

    50فیصد سے زیادہ افراد نے بتایا کہ وہ لاک ڈاؤن سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ سونے لگے ہیں جبکہ10فیصد کے لیے نیند کا حصول مشکل ہوگیا جبکہ 25 فیصد سے زیادہ نے مسلسل بھیانک خواب دیکھنے کو رپورٹ کیا۔

    50فیصد سے زیادہ افراد میں تناؤ بڑھ گیا اور جو سب سے زیادہ تناؤ کا شکار تھے ان میں وبا سے متعلق خوابوں کی شرح بھی دیگر سے زیادہ تھی۔

  • کرونا وائرس کے حوالے سے خوفناک انکشاف

    کرونا وائرس کے حوالے سے خوفناک انکشاف

    کیلیفورنیا : امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ خوفناک انکشاف کیا گیا ہے کہ کوویڈ 19 کا باعث بننے والا کورونا وائرس ہوا میں پانچ میٹر تک سفر کرسکتا ہے۔

    کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے بھرے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ننھے ذرات ہوا میں طویل وقت تک موجود رہ سکتے ہیں اور اس عرصے میں زیادہ افراد کو بیماری کا شکار کرسکتے ہیں۔

    سائنسدان فلوریڈا یونیورسٹی ہیلتھ شانڈز ہاسپٹل میں زیرعلاج مریضوں سے 4.8 میٹر کی دوری پر وائرس والے وبائی ذرات کو الگ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

    نتائج اس لیے اہم ہیں کیونکہ اس وقت سماجی دوری کے لیے دو میٹر کی دوری کا مشورہ دیا جاتا ہے، جس کے بارے میں محققین کا کہنا تھا کہ اس سے لوگوں میں سیکیورٹی کا غلط احساس ہوتا ہے اور متعدد افراد وبائی مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں سائنسدانوں میں کئی ماہ سے یہ بحث ہورہی ہے کہ منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات ہوا میں رہ کر کس حد تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کررہے ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے اور اس میں بتایا گیا کہ نتائج سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کووڈ 19 ہوا کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق اس وقت کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جو طریقے اپنائے گئے ہیں، ان میں سماجی دوری، فیس ماسک کا استعمال اور ہاتھوں کی صفائی ہے۔

    کچھ طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج احتیاط سے جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ابھی یہ واضح نہیں کہ محققین نے وائرس کے جن نمونوں کو الگ تھلگ کیا، وہ مقدار کسی کو بیمار کرنے کے لیے کافی تھی یا نہیں۔

    کولوراڈو یونیورسٹی کی ماہر شیلی ملر کا کہنا تھا کہ ہوا سے حیاتیاتی میٹریل کے نمونے اکٹھے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، ہمیں اس طرح کے نمونوں کے حوالے سے زیادہ دانشمندانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

    تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے اسپتال میں مریضوں کے کمرے میں 2 میٹر اور 4.8 میٹر سے نمونے اکٹھے کیے، وہ دونوں فاصلوں سے وائرس کو اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے۔

    لیبارٹری ٹیسٹوں سے انکشاف ہوا کہ نمونے خلیات کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھے، سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاردیواری کے اندر وائرس کے پھیلنے کا خطرہ سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔

    محققین نے تحقیق کے دوران وہ طبی طریقہ کار استعمال نہیں کیا جس کو ماضی میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہوا سے بیماری کے پھیلاؤ کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے۔ مزید براں ہسپتال کے کمرے کی ہوا کو مسلسل خصوصی آلات کے ذریعے صاف کیا جارہا تھا۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کیسز کی تعداد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ہوا میں موجود ذرات کے حوالے اقدامات کے لیے واضح رہنمائی کی ضرورت ہے۔

  • کیا ڈیری مصنوعات فالج سے نجات کا باعث ہیں؟

    کیا ڈیری مصنوعات فالج سے نجات کا باعث ہیں؟

    لندن : برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈیری مصنوعات کا مستقل استعمال فالج کے مرض سے بچانے میں معاون ہوتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف برطانوی یونیورسٹی آکسفورڈ میں ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا ہے جو ایک سروے کے بعد کی گئی تھی۔

    میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 9 یورپی ممالک کے سروے کے دوران 4 لاکھ افراد سے ان کی صحت اور روزمرہ استعمال کی جانے والی غذاؤں سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔

    سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ روزمرہ کی بنیاد پر ڈیری مصنوعات جیسے دودھ، دہی، پنیر یا دیگر ڈیری مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں وہ مستقل طور پر اپاہج کرنے والے فالج جیسے خطرناک مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ ایک گلاس دودھ پینے سے اشکیامک اسٹروک کا خطرہ 5 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سروے کے دوران پھلوں سے متعلق سوالات بھی پوچھے گئے جس سے معلوم ہوا کہ فائبر سے بھرپور پھل اور سبزیوں کا استعمال بھی فالج سے محفوظ رکھتا ہے۔

    یورپی ہارٹ جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں طبی ماہرین نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر 200 گرام پھل اور سبزیاں کھانی چاہیے جو فالج کے خطرے کو 13 فیصد تک کم کردیتی ہیں۔

    ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ انڈہ بھی فالج کے خطرے کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

    نوٹ : کسی بھی بیماری کی صورت میں اپنے معالج سے ضرور رابطہ کریں۔