Tag: New Variant

  • ہیپا ٹائٹس کی نئی قسم میں دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے، ڈبلیو ایچ او

    ہیپا ٹائٹس کی نئی قسم میں دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے، ڈبلیو ایچ او

    جنیوا : اس وقت دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں میں ایک خطرناک اور پراسرار بیماری کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے جسے ڈبلیو ایچ او نے ہیپاٹائٹس کی نئی قسم قرار دیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ یورپ سے شروع ہونے والی "ہیپاٹائٹس” کی پُراسرار قسم اب تک دنیا بھر کے30 ممالک تک پھیل چکی ہے اور اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد650 تک جاپہنچی ہے۔

    ہیپاٹائٹس کی پراسرار قسم رواں برس اپریل کے آغاز میں ابتدائی طور پر برطانیہ میں بچوں کے اندر پائی گئی تھی جس کے بعد مذکورہ وائرس امریکا سمیت چند یورپی ممالک میں بھی پایا گیا۔

    تاہم اب مذکورہ مشکوک قسم دیگر ممالک تک پھیل گئی ہے اور اس متاثرہ ممالک کی تعداد 30 جب کہ بچوں کی تعداد 650 تک جا پہنچی۔

    عالمی ادارہ صحت نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ بچوں کے جگر کو سخت متاثر کرنے والی ہیپاٹائٹس کی قسم کے کیسز میں مارچ اور مئی کے درمیان نمایاں اضافہ ہوا اور متاثرہ بچوں کی تعداد 650 تک جا پہنچی۔

    اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ مذکورہ پراسرار قسم سے متاثرہ 650 میں سے 70 سے زائد بچے ایسے تھے، جن کا ہنگامی بنیادوں پر جگر کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

    26 مئی 2022 تک مذکورہ قسم کے 650 کیسز سامنے آ چکے تھے—فوٹو: عالمی ادارہ صحت

    مذکورہ وائرس سے سب سے زیادہ برطانیہ میں بچے متاثر ہوئے ہیں، جہاں متاثرین کی تعداد 220 تک جا پہنچی ہے، دوسرے نمبر پر امریکا ہے، جہاں یہ تعداد 115 تک پہنچ چکی ہے۔

    اب تک "ہیپاٹائٹس” کی مذکورہ پُراسرار قسم کے کیسز یورپ، ایشیا، امریکا، مشرق وسطیٰ کے 30 ممالک میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔

    تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ خطرناک پراسرار قسم کے پانچ کیس جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ میں بھی سامنے آئے ہیں جب کہ اس کے کیسز جنوبی کوریا اور انڈونیشیا سمیت سنگاپور میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

    ہیپاٹائٹس” کی مذکورہ پُراسرار قسم کے پانچ مشتبہ کیسز فلسطین میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ اسرائیل میں اس کے12 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

    اب تک مذکورہ وائرس برطانیہ، امریکا، فرانس، بیلجیم، بلغاریہ، میکسیکو، ڈنمارک، سویڈن، اسپین، سلواکیہ، آئرلینڈ، ناروے، جاپان، اٹلی، سربیا اور یونان میں بھی رپورٹ ہوچکے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ماہرین مذکورہ وائرس کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں تاہم تاحال اس کی مکمل تشخیص نہیں ہوسکی اور مذکورہ وائرس اکتوبر2021 سے بچوں میں پھیلنا شروع ہوا۔

    اس سے قبل بھی ماہرین نے کہا تھا کہ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ جن بچوں میں پراسرار بیماری کی تشخیص ہوئی، انہوں نے کسی بھی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا اور وہ پہلے صحت مند زندگی گزار رہے تھے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ بعض بچوں میں بیماری کی شدت اتنی سنگین پائی گئی کہ ہنگامی بنیادوں پر ان کے جگر کا ٹرانسپلانٹ کرنا پڑا، کیوں کہ ان کے جگر فیل ہوچکے تھے۔

    فوری طور پر ماہرین کو ہیپاٹائٹس کی مذکورہ پُر اسرار قسم سے متعلق کوئی بھی ایسے شواہد نہیں ملے، جن سے بیماری کی ابتدا اور اس کی نوعیت کا علم لگایا جا سکے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہیپاٹائٹس کا وائرس جگر کو متاثر کرتا ہے اور مرض بڑھ جانے سے ہیپاٹائٹس کینسر میں تبدیل ہوجاتا ہے، مذکورہ پراسرار وائرس بھی بچوں کے جگر کو سخت متاثر کر رہا ہے، تاہم اس وائرس پھیلنے کی وجوہات کا فوری طور پر علم نہیں ہوسکا۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم، ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی نئی قسم، ماہرین پریشان

    عالمی ماہرین نے کرونا وائرس کی نئی قسم کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے وبا ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہے، ماہرین کے مطابق اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی تعداد حیران کن ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ایک ایسی نئی قسم سامنے آئی ہے جس میں اتنی زیادہ تعداد میں میوٹیشنز ہوئی ہیں جو جسمانی دفاع پر حملہ آور ہو کر بیماری کی مزید لہروں کا باعث بن سکتی ہے۔

    بی 11529 نامی اس نئی کووڈ قسم کے صرف 10 کیسز کی تصدیق 3 ممالک میں جینومک سیکونسنگ کے ذریعے ہوئی مگر اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ قسم مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔

    بی 11529 قسم کے اسپائیک پروٹین میں 32 میوٹیشنز ہوئی ہیں، اسپائیک پروٹین وائرس کا وہ حصہ ہے جس کو زیادہ تر ویکسینز میں مدافعتی نظام کی مزاحمت کے لیے ہدف بنایا جاتا ہے۔

    اسپائیک پروٹین میں میوٹیشنز سے وائرس کی خلیات کو متاثر کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، مگر اس سے مدافعتی خلیات کے لیے بھی وائرس پر حملہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

    یہ نئی قسم سب سے پہلے افریقی ملک بوٹسوانا میں دریافت ہوئی تھی جہاں اب تک اس کے 3 کیسز کی سیکونس سے تصدیق ہوئی، جنوبی افریقہ میں 6 جبکہ ہانگ کانگ میں ایک ایسے فرد میں اس کی تصدیق ہوئی جو جنوبی افریقہ سے واپس آیا تھا۔

    امپرئیل کالج لندن کے وائرولوجسٹ ڈاکٹر ٹام پیکوک نے اس نئی قسم کی تفصیلات ایک جینوم شیئرنگ ویب سائٹ پر پوسٹ کیں۔ انہوں نے اسپائیک پروٹین میں بہت زیادہ میوٹیشنز کے بارے میں بتاتے ہوئے بتایا کہ یہ فکرمند کردینے والی قسم ہے۔

    انہوں نے اپنے ٹویٹس میں بتایا کہ اس قسم کی بہت زیادہ مانیٹرنگ کی ضرورت ہے جس کی وجہ خوفناک اسپائیک پروفائل ہے۔ مگر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ممکنہ طور پر یہ بہت زیادہ متعدی قسم ہے یا کم از کم انہیں یہی امید ہے۔

    یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کے ماہرین نے بتایا کہ دنیا بھر کے سائنسی اداروں کی شراکت داری کے ذریعے برطانوی ادارہ دنیا بھر میں ابھرنے والی کرونا وائرس کی اقسام کی مانیٹرنگ کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وائرسز میں اکثر تبدیلیاں ہوتی ہیں تو یہ غیرمعمولی نہیں کہ نئی میوٹیشنز سے کووڈ کی نئی اقسام منظر عام پر آئے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا نے بتایا کہ انہوں نے لیبارٹری میں تحقیقی کام کے دوران اس نئی قسم میں 2 ایسی میوٹیشنز دریافت کیں جو اسے زیادہ متعدی اور اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرنے والا بناتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز کو دیکھتے ہوئے اس کی مانیٹرنگ کرنا ضروری ہے، مگر کسی وائرس کی اہم ترین خصوصیت اس کا متعدی ہونا جس نے ڈیلٹا کو دنیا بھر میں پھیلنے میں مدد فراہم کی، مدافعتی نظام سے بچنا تصویر کا بس ایک پہلو ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر فرانسس بیلوکس نے بتایا کہ اس قسم میں میوٹیشنز کی بڑی تعداد سے بظاہر عندیہ ملتا ہے کہ یہ کووڈ کے کسی بہت زیادہ بیمار فرد میں ہونے والے وائرس کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ایلفا یا ڈیلٹا سے بننے والی وائرس ناکارہ بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف یہ قسم مزاحمت کرسکتی ہے، مگر اس مرحلے میں یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ یہ کتنی متعدی ہوسکتی ہے، بس کچھ عرصے تک مانیٹرنگ اور تجزیہ کرنا ہوگا۔