Tag: Nile

  • دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا دریا کون سا ہے؟

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا تاریخی اہمیت کا حامل دریائے نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    آئیں آج اس عظیم دریا کے بارے میں کچھ حیران کن حقائق جانتے ہیں۔

    6 ہزار 6 سو 70 کلو میٹر کے فاصلے پر محیط یہ دریا افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں۔

    ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے، دریائی گھوڑے اور مگر مچھ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا ایک زبردست دلدل سے گزرتا ہے۔ یہ دلدل دنیا کی سب سے بڑی دلدل تقریباً 700 کلو میٹر طویل ہے۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔

    یہ گھاس اتنی گھنی اور مضبوط ہے کہ اس پر ایک ہاتھی بھی کھڑا ہوجائے تو وہ نیچے نہیں جائے گا اور سیدھا کھڑا رہے گا۔ دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

    دریائے نیل کے سارے معاون دریا حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم دریا نیلا ہے اور نیل کہلاتا ہے۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہری کھائی میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔

    خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔

    خرطوم کے بعد دریائے نیل میں کئی اتار آتے ہیں، یہ تقریباً 6 مقامات پر ہیں۔ دریا کی تہہ میں مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

    سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل یعنی جھیل ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔

    اس بند سے آبپاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔

    اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50، 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے اور یہ علاقہ نہایت سر سبز و شاداب اور آباد ہے۔ اسی وجہ سے مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے۔

    قاہرہ سے گزر کر دریا بہت خاموشی اور آہستہ آہستہ مختلف شاخوں میں بٹ کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔

    دریا کی رفتار اور پانی کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے مصری لوگ ایک پیمانہ بناتے تھے۔ یہ دریا کے کنارے ایک کمرا ہوتا تھا، اسے نیلو میٹر کہتے تھے۔ اس میں ایک سرنگ سے دریا کا پانی آتا رہتا تھا۔ اس پیمانے سے پانی کی حرارت، رنگ اور کیفیت معلوم ہوتی تھی اور اس کا سال بھر کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔

    اسی ریکارڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ طغیانی آئے گی یا نہیں اور اگر آئے گی تو کیا اثرات ہوں گے اور فصلوں کے لیے فائندہ مند ہوگی یا نقصان دہ ہوگی۔

    دریائے نیل کے آغاز کا مقام جاننے کے لیے پہلی بار سترہویں صدی میں کوشش کی گئی۔ تحقیق اور سفر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دریا جھیل تانا سے نکلتا ہے مگر اس کے کنارے کنارے کوئی نہ چل سکا، کیوں کہ یہ بڑے خطرناک پہاڑوں اور کھڈوں میں سے گزرتا ہے۔

    دریا کے تیز پانی نے چٹانوں کو کچھ اس طرح کاٹا ہے کہ دونوں طرف دیواریں سی بن گئی ہیں اور ان چٹانی دیواروں پر سے کوئی نہیں گزر سکتا۔

    اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کیے۔ رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک سنہ 1857 میں افریقہ کے مشرقی ساحل سے روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستوں، جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرے، مچھروں کی وجہ سے ملیریا میں مبتلا ہوئے۔

    ایک مقام پر برٹن اتنا بیمار ہوا کہ آگے نہ بڑھ سکا، مگر اسپیک چلتا رہا اور جھیل وکٹوریہ تک پہنچ گیا۔ اسپیک کے مطابق یہی جھیل دریائے نیل کے نکلنے کی جگہ تھی، جس کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔ یہ جھیل یوگنڈا میں ہے۔ یوگنڈا کا دارالحکومت کمپلا اسی جھیل کے کنارے آباد ہے۔

    وادی نیل کا سب سے بڑا شہر قاہرہ ہے۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر واقع ہے۔ قاہرہ کے قریب اہرام اور ابو الہول واقع ہیں۔ مصری بادشاہوں کے مقبرے ہیں، جن میں ممی (حنوط شدہ لاشیں) رکھی ہوئی ہیں۔ قاہرہ کا عجائب گھر بھی منفرد مقام ہے۔

    دریائے نیل کے دہانے پر اسکندریہ کا شہر آباد ہے۔ اس کا نام سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں ایک لائٹ ہاؤس بھی تھا جو عجائبات عالم میں شمار ہوتا تھا، مگر زلزلے نے اس کو گرا دیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو سائنس نے تسلیم کرلیا

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو سائنس نے تسلیم کرلیا

    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے تقریباً 15 سو سال قبل بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے آنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کئی معجزوں سے نوازا تھا۔

    ان کا ایک معجزہ دریائے نیل کا 2 حصوں میں منقسم ہوجانا بھی تھا۔ مصر کے حکمران، فرعون وقت رعمیسس نے جب حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی حد کردی تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے ماننے والوں کو مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔

    حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے بہت سے افراد مصر چھوڑنے کے لیے دریائے نیل کے کنارے پہنچے۔ فرعون بھی تخت و طاقت کے نشے میں چور کسی بدمست ہاتھی کی طرح انہیں مار ڈالنے کے لیے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا ان کے سروں پر جا کھڑا ہوا۔

    اس وقت شدید طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں اور دریائے نیل بپھرا ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ سخت پریشان تھے کہ فرعون سے بچنے کے لیے دوسری طرف کیسے جایا جائے۔ تب ہی خدا نے اپنا معجزہ دکھایا اور دریائے نیل کے پانی کو دیوار کی صورت دو حصوں میں تقسیم کردیا۔

    دریائے نیل کے منقسم ہوجانے کا منظر ۔ ایک مصور کی نظر سے

    دریا کے بیچ ایک خشک راستہ ابھر آیا اور حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے ماننے والے اس راستے سے باآسانی گزر کر دوسری جانب چلے گئے۔ فرعون نے بھی یہ راستہ دیکھا تو اپنی فوج کو اسی راستے پر اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا۔

    جب فرعون اور اس کی فوج دریا کے بیچ میں پہنچی تو اللہ کے حکم سے پانی واپس اپنی جگہ آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچوں بیچ غرق آب ہوگیا۔ فرعون کی حنوط شدہ لاش آج تک عقل رکھنے والوں کے لیے نشان عبرت ہے۔


    جدید سائنس کی توجیہہ

    جدید سائنس نے بھی اس معجزے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے خالصتاً فطری عمل قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق بحری سائنس کے ماہرین اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ انتہائی تیز رفتار ہوائیں اتنی طاقت رکھتی ہیں کہ دریا یا سمندر کے کسی مخصوص حصے سے پانی کو اڑا کر اس جگہ کو بالکل خشک بناسکتی ہیں، اور یہ جگہ دریا کے کسی بھی حصے میں ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کو اس تحقیق کی سند اس وقت ملی جب تاریخی موسمیاتی ریکارڈ کے مطابق سنہ 1882 میں ایسے ہی ایک طوفان نے دریائے نیل کو ایک بار پھر دو حصوں میں تقسیم کردیا اور بیچ میں ایک خشک راستہ ابھر آیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سمندر کا پانی ’لاپتہ‘ ہوگیا

    طوفان کی شدت کم ہونے کے بعد پانی واپس اپنی جگہ پر آگیا تھا۔

    ایسا ہی ایک اور واقعہ گزشتہ برس جزائر کیریبیئن میں بھی دیکھنے میں آیا جب طوفان ارما نے جزائر کیریبیئن میں بہاماس کے علاقے میں موجود سمندر بالکل خشک کردیا اور سمندر کی تہہ ایک راستے کی صورت نمودار ہوگئی۔

    یہاں طوفان کی شدت سے سمندر کا پانی اڑ گیا اور سمندر کا مذکورہ حصہ خشک دکھائی دینے لگا، تاہم طوفان کے گزر جانے کے بعد سمندر اپنی معمول کی حالت پر واپس آگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔