Tag: Nile River

  • دریائے نیل نے اچانک رنگ بدل لیا، لوگ خوفزدہ

    دریائے نیل نے اچانک رنگ بدل لیا، لوگ خوفزدہ

    مصر میں بہنے والے دریائے نیل کے پانی کا رنگ اچانک تبدیل ہوگیا جس سے وہاں کے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا ہے۔

    مصر کے شہری منگل کے روز اٹھے تو دریائے نیل کے پانی کا رنگ اچانک بدل چکا تھا اور بہنے والے پانی کا رنگ زردی مائل تھا۔ دریا کے پانی کی بدلی رنگت نے وہاں کے رہائشیوں کو خوف میں مبتلا کردیا اور مختلف قسم کی افواہوں نے جنم لے لیا۔

    غیرملکی ویب سائٹ کے مطابق شہریوں کے خوف میں مبتلا ہونے کے بعد اس حوالے سے مصری وزیر پانی وآبپاشی محمد عبدالعاطی نے شہری اس بارے میں خوف کا شکار نہ ہوں۔

    وزیر آبپاشی نے دریا کے پانی کی رنگت کی تبدیلی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ دریائے نیل کے پانی کی رنگت میں تبدیلی کی وجہ سیلاب ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک میں گزشتہ کئی روز سے موسلادھار بارشوں کے باعث سیلابی ریلوں کو دریا میں چھوڑا گیا ہے اور سیلابی پانی میں بڑی مقدار میں مٹی اور ریت شامل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دریا کا پانی مٹیالا ہوگیا ہے۔

    وزیرآبپاشی نے واضح کیا کہ دریا کی رنگت میں تبدیلی سے پانی کا معیار متاثر نہیں ہوتا، دریائے نیل کا پانی آج بھی معیاری اور پینے وآبپاشی کے لیے موزوں ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سیلابی ریلوں کا زور ٹوٹتے ہی آئندہ دو تین دنوں میں دریائے نیل کا پانی اپنی اصل رنگت میں واپس آجائے گا۔

  • دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا دریا کون سا ہے؟

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا تاریخی اہمیت کا حامل دریائے نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    آئیں آج اس عظیم دریا کے بارے میں کچھ حیران کن حقائق جانتے ہیں۔

    6 ہزار 6 سو 70 کلو میٹر کے فاصلے پر محیط یہ دریا افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں۔

    ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے، دریائی گھوڑے اور مگر مچھ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا ایک زبردست دلدل سے گزرتا ہے۔ یہ دلدل دنیا کی سب سے بڑی دلدل تقریباً 700 کلو میٹر طویل ہے۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔

    یہ گھاس اتنی گھنی اور مضبوط ہے کہ اس پر ایک ہاتھی بھی کھڑا ہوجائے تو وہ نیچے نہیں جائے گا اور سیدھا کھڑا رہے گا۔ دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

    دریائے نیل کے سارے معاون دریا حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم دریا نیلا ہے اور نیل کہلاتا ہے۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہری کھائی میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔

    خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔

    خرطوم کے بعد دریائے نیل میں کئی اتار آتے ہیں، یہ تقریباً 6 مقامات پر ہیں۔ دریا کی تہہ میں مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

    سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل یعنی جھیل ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔

    اس بند سے آبپاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔

    اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50، 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے اور یہ علاقہ نہایت سر سبز و شاداب اور آباد ہے۔ اسی وجہ سے مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے۔

    قاہرہ سے گزر کر دریا بہت خاموشی اور آہستہ آہستہ مختلف شاخوں میں بٹ کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔

    دریا کی رفتار اور پانی کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے مصری لوگ ایک پیمانہ بناتے تھے۔ یہ دریا کے کنارے ایک کمرا ہوتا تھا، اسے نیلو میٹر کہتے تھے۔ اس میں ایک سرنگ سے دریا کا پانی آتا رہتا تھا۔ اس پیمانے سے پانی کی حرارت، رنگ اور کیفیت معلوم ہوتی تھی اور اس کا سال بھر کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔

    اسی ریکارڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ طغیانی آئے گی یا نہیں اور اگر آئے گی تو کیا اثرات ہوں گے اور فصلوں کے لیے فائندہ مند ہوگی یا نقصان دہ ہوگی۔

    دریائے نیل کے آغاز کا مقام جاننے کے لیے پہلی بار سترہویں صدی میں کوشش کی گئی۔ تحقیق اور سفر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دریا جھیل تانا سے نکلتا ہے مگر اس کے کنارے کنارے کوئی نہ چل سکا، کیوں کہ یہ بڑے خطرناک پہاڑوں اور کھڈوں میں سے گزرتا ہے۔

    دریا کے تیز پانی نے چٹانوں کو کچھ اس طرح کاٹا ہے کہ دونوں طرف دیواریں سی بن گئی ہیں اور ان چٹانی دیواروں پر سے کوئی نہیں گزر سکتا۔

    اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کیے۔ رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک سنہ 1857 میں افریقہ کے مشرقی ساحل سے روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستوں، جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرے، مچھروں کی وجہ سے ملیریا میں مبتلا ہوئے۔

    ایک مقام پر برٹن اتنا بیمار ہوا کہ آگے نہ بڑھ سکا، مگر اسپیک چلتا رہا اور جھیل وکٹوریہ تک پہنچ گیا۔ اسپیک کے مطابق یہی جھیل دریائے نیل کے نکلنے کی جگہ تھی، جس کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔ یہ جھیل یوگنڈا میں ہے۔ یوگنڈا کا دارالحکومت کمپلا اسی جھیل کے کنارے آباد ہے۔

    وادی نیل کا سب سے بڑا شہر قاہرہ ہے۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر واقع ہے۔ قاہرہ کے قریب اہرام اور ابو الہول واقع ہیں۔ مصری بادشاہوں کے مقبرے ہیں، جن میں ممی (حنوط شدہ لاشیں) رکھی ہوئی ہیں۔ قاہرہ کا عجائب گھر بھی منفرد مقام ہے۔

    دریائے نیل کے دہانے پر اسکندریہ کا شہر آباد ہے۔ اس کا نام سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں ایک لائٹ ہاؤس بھی تھا جو عجائبات عالم میں شمار ہوتا تھا، مگر زلزلے نے اس کو گرا دیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • قاہرہ: دریائے نیل میں کشتی ڈوبنے سے 4 پاکستانی جاں بحق

    قاہرہ: دریائے نیل میں کشتی ڈوبنے سے 4 پاکستانی جاں بحق

    قاہرہ: دریائے نیل میں کشتی ڈوبنے سے چار پاکستانی جاں بحق ہوگئے جبکہ چھ کو بچالیا گیا ہے ۔

    مغربی خبر ایجنسی کے مطابق کشتی دریائے نیل میں بنے پُل کے ستون سے ٹکرانے کے بعد ڈوبی ۔ ڈوب کر جاں بحق ہونے والے چار افراد کا تعلق پاکستان سے ہے، کشتی کے چھ مسافروں کو بچالیا گیا۔

    مصر کے میرین پولیس چیف کے مطابق کشتی میں سوار افراد قانونی طور پر سفر کر رہے تھے۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین خاندانوں کے دس افراد کشتی پر مصر کے تاریخی دریائے نیل کی سیر کو نکلے کہ ان کی کشتی دریا میں پل کے ایک ستون سے ٹکرا کر ڈوب گئی، امدادی ٹیموں نے دس میں سے چھ افراد کو بچالیا۔

    حادثے میں ڈوب کر جاں بحق ہونیوالوں میں فیصل خان اور اسکی اہلیہ ثناعروج سمیت پانچ سالہ بچی رومیسا اور دو سال کی آمنہ بھی شامل ہے۔

    دفتر خارجہ کے مطابق فیصل خان کی لاش دریا سے نکال لی گئی ہے جبکہ دیگر کی تلاش کا کام جاری ہے۔