Tag: nishan e haider

  • نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر محمد اکرم شہید کا 49واں یوم شہادت

    نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر محمد اکرم شہید کا 49واں یوم شہادت

    کراچی : 1971 کے پاک بھارت معرکہ کے ہیرو میجر محمد اکرم شہید کا 49واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے، انہیں جرات و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر نشان حیدر عطا کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاک بھارت معرکہ کے ہیرو شہید میجر محمد اکرم 4 اپریل 1938ء کو ڈنگہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے، ابتداء میں وہ نان کمیشنڈ عہدے کے لئے منتخب ہوئے مگر پھر ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کرنے اور خصوصی امتحانات پاس کرنے کے بعد 1963ء میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ پاکستان آرمی کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے وابستہ ہوئے۔

    سن 1965ء میں انہیں کیپٹن کے عہدے پر ترقی دی گئی اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ظفر وال سیکٹر میں خدمات انجام دیں جبکہ 1970ء میں میجر کے عہدے پر تقرر کیا گیا۔

    سن 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کے علاقے ہلی کے محاذ پر میجر محمد اکرم نے اپنی فرنٹیئر فورس کی کمانڈ میں مسلسل پانچ دن اور پانچ راتیں اپنے سے کئی گنا زیادہ بھارتی فوج کی پیش قدمی روک کر دشمن کے اوسان خطا کر دیئے۔

    میجر محمد اکرم نے دشمن کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے 5دسمبر 1971کو جام شہادت نوش کیا۔

    میجر محمد اکرم شہید کا شمار پاک فوج کے ان ہی جانباز افسروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مادر وطن کے دفاع کیلئے اپنی جان قربان کردی، 1971ءکی جنگ میں ان کی لازوال بہادری و شجاعت پر دشمن بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔

    میجر اکرم کو ” ہیرو آف ہلی “ کے نام سے شہرت ملی اور جرات و بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پر شہید کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔

  • میجر طفیل محمد شہید نشان حیدر کا61 واں یوم شہادت

    میجر طفیل محمد شہید نشان حیدر کا61 واں یوم شہادت

    لاہور : لکشمی پور مشرقی پاکستان میں دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے والے میجر طفیل محمد شہید نشان حیدر کا61 واں یوم شہادت آج منایاجارہا ہے، میجر طفیل محمد نشان حیدر کا اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت تھے۔

    تفصیلات کے مطابق میجرطفیل محمدشہید کا شمار قوم کے ان جانبازسپوتوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے وطن کی آن، شان اور حفاظت کیلئےجان کا نذرانہ پیش کیا ،میجر طفیل محمد شہید 22 جولائی1914 میں مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1943 میں پنجاب ریجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور 1947ء میں جب وہ میجر کے عہدے تک پہنچے تو اپنے پورے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور یہاں فوج میں خدمات انجام دینے لگے۔

    میجر طفیل شہید جہاں ایک ذمے دار آفیسر تھے، وہیں ایک ذہین اور تجربہ کار انسٹرکٹرکی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔

    میجر طفیل محمد کو کمپنی کمانڈر بنا کر مشرقی پاکستان رائفلز میں تعینات کیا گیا، 7 اگست 1958 کو لکشمی پور میں بھارتی فوج کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے بحیثیت کمانڈر میجر طفیل نے اپنے ونگ کے ساتھ دشمن کی چوکی کے عقب میں پہنچ کر فقط 15 گز کے فاصلے سے حملہ آور ہوئے۔

    دشمن نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے مشین گن سے فائرنگ شروع کردی، میجر طفیل چونکہ اپنی پلاٹون کی پہلی صف میں تھے اس لیے وہ گولیوں کی پہلی ہی بوچھاڑ سے زخمی ہوگئے تاہم وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے ایک دستی بم پھینک کر دشمن کی مشین گن کو ناکارہ بنایا۔

    میجر طفیل محمد نے لکشمی پور مشرقی پاکستان میں جرات و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے بھارتی چوکیوں کا صفایا کیا اور گھمسان جنگ کے بعد ملک کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے کرشہادت کا درجہ حاصل کیا۔

    میجر طفیل محمد کو فاتح لکشمی پور بھی کہا جاتا ہے جبکہ 5 نومبر 1959ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کراچی میں ایوان صدر میں منعقد ہونے والی تقریب میں میجر طفیل محمد کی صاحبزادی نسیم اختر کو یہ اعزاز عطا کیا۔

    میجر طفیل محمد شہید کی لازوال قربانی کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا، میجر طفیل محمد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت تھے۔

  • پاک فوج کا پہلا نشانِ حیدر- کیپٹن سرورشہید

    پاک فوج کا پہلا نشانِ حیدر- کیپٹن سرورشہید

    پاکستان میں پہلا نشان حیدر پانے والے ، ہمت اور بہادری سے دشمن کے دانت کھٹے کردینے والے جانباز کیپٹن سرور شہید کا آج 71واں یوم شہادت ہے۔

    کیپٹن راجہ محمد سرور شہید ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں سنگھوری میں10 نومبر 1910 میں پیدا ہوئے، محمد سرور شہید نے اپنی ابتدائی تعلیم فیصل آباد سے حاصل کی، 1929 میں انہوں نے فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی، 1944میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، جس کے بعد انہوں نے برطانیہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا، شاندار فوجی خدمات کے پیشِ نظر 1946 میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

    قیام پاکستان کے بعد سرور شہید نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے ، جب انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔

    27 جولائی 1948ء کو انہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔ دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔

    نشانِ حیدر کس طرح تیار کیا جاتا ہے

    کارروائی کے دوران دشمن کی کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں لیکن انہوں نے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہوچکا تھا، اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پرآخری حملہ کیا۔

    دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کپٹن سرور کی جانب کر دیا، یوں ایک گولی کپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہاں شہادت پائی، مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کربھاگ گئے۔

    ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں جہاں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا، وہیں 27اکتوبر 1959ء کو انہیں نشانِ حیدر کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا، انہیں پہلا نشانِ حیدرپانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے 3 جنوری 1961ء کو صدرپاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں وصول کیا تھا۔

    مادر وطن کی خاطر بیرونی دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنےوالے کیپٹن سرور شہید آج دہشت گردوں اور اندرونی چیلنجز سے نبردآزما پاک فوج کے جری سپوتوں کے لئے بہادری کی روشن مثال ہیں۔

  • نشان حیدر حاصل کر نے والے پہلے سپاہی سوارمحمد حسین کا 47 واں یوم شہادت

    نشان حیدر حاصل کر نے والے پہلے سپاہی سوارمحمد حسین کا 47 واں یوم شہادت

    کراچی :1971 کی جنگ میں جان وطن پر قربان کرنے والےسوارمحمد حسین شہید نشان حیدر کا آج یوم شہادت منایا جارہا ہے ، سوار محمد حسین وہ پہلے سپاہی ہیں جنہیں نشان حیدر کا  اعزاز ملا ۔

    سوارمحمد حسین شہید 18 جون 1949 کو پنجاب کے علاقے گوجرخان کے قریب ڈھوک پیر بخشمیں پیدا ہوئے، تین ستمبرانیس سوچھیاسٹھ کو سترہ برس کی عمر میں انھوں نے پاکستان آرمی میں ڈرائیورکی حیثیت سے شمولیت اختیارکی اور ڈرائیور ہونے کے باوجود 1971 کی عملی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔

    1971کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر مسلسل پانچ دن تک دشمن کی گولہ باری کے باوجود اگلے مورچوں تک اسلحہ پہنچاتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک فوج نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے۔

    دس دسمبرشام چار بجے سوارحسین نے دشمن کی مشین گن سے نکلنے والی گولیاں لگنے سے جام شہادت نوش کیا، جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی، ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔

    ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا، سوار محمد حسین وہ پہلے سپاہی ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا، قبل ازیں پہلے نو اعزاز پانے والے تمام فوجی افسران تھے۔

  • نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر عزیز بھٹٰی شہید کا آج 53 واں یوم شہادت

    نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر عزیز بھٹٰی شہید کا آج 53 واں یوم شہادت

    کراچی : نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر عزیز بھٹی شہید کا آج 53 واں یوم شہادت منایا جارہا ہے، انھوں نے جرات و بہادری کی ایسی تاریخ رقم کی، جو نصف صدی گزرنے کے باوجود قوم کو یاد ہے، وطن پر جان نچھاور کرنے والے اس بہادر سپاہی کو آج بھی قوم عقیدت سے یاد کرتی ہے۔

    راجہ عزیز بھٹی شہید 16 اگست 1928 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد اکیس جنوری 1948 کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے، انہوں نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیرِ اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل حاصل کیا اور ترقی کرتے کرتے انیس سو چھپن میں میجر بن گئے۔

    انیس سو پینسٹھ میں جب بھارت نے پاکستان کی طرف پیش قدمی کی تو قوم کا یہ مجاہد سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوا، سترہ پنجاب رجمنٹ کے اٹھائیس افسروں سمیت عزیز بھٹی شہید نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے اور ایک سو اڑتالیس گھنٹے تک مقابلہ کیا۔

    لاہور میں ناشتے کے خواب دیکھنے والا دشمن الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہوا۔

    بارہ ستمبر انیس سو پیسنٹھ کو میجرراجہ عزیز بھٹی صبح کے ساڑھے نو بجے دشمن کی نقل وحرکت کا دوربین سے مشاہدہ کررہے تھے تو اسی دوران توپ کا ایک گولہ ان کے سینے کو چیرتا ہوا پار ہو گیا، جس کے باعث انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔

    میجرراجہ عزیز بھٹی کی جرات و بہادری پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا۔

    راجہ عزیز بھٹی شہید آُس عظیم خاندان کے چشم و چراغ تھے کہ جس سے دو اور مشعلیں روشن ہوئیں ایک نشان حید اور نشان جرات پانے والے واحد فوجی محترم میجر شریف جب کہ دوسرے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔

    یاد رہے میجر شریف شہید اور موجودہ چیف آرمی چیف راحیل شریف سگے بھائی ہیں جب کہ میجر عزیز بھٹی اِن کے ماموں ہیں۔

  • نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدرحاصل کرنے والے شیردل سپوت

    نشانِ حیدر افواجِ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے شیر دل فوجیوں کو دیا جاتا ہے، اب تک پاکستان کے دس سپوت یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔

    پاکستان میں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے دس فوجیوں میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں 40 سال سے

    بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس تھے جنہوں نے دورانِ تربیت 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت کے منصب پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔ اب تک بری فوج کے حصہ میں 9 جبکہ پاک فضائیہ کے حصے میں ایک نشان حیدر آیا ہے۔

    نشانِ حیدر کے مساوی ’ہلال کشمیر ‘ ہے جو کہ آزاد کشمیر کی فوج سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو دیا جاتا ہے ، اب تک یہ اعزاز صرف ایک فوجی سیف اللہ جنجوعہ کے حصے میں آیا ہے۔

    نشانِ حیدر


    نشان حیدر کا اجراء 16 مارچ 1957 سے کیا گیا، اور سنہ 1947 سے اس وقت تک اس نشان کے حق دار شہدا ء کو اس اعزاز سے نوازا گیا۔ یہ پاکستان میں دیے جانے والے تمام سول اور ملٹری اعزازوں میں سب سے بڑا امتیازی نشان ہے۔

    یہ اعزاز پیغمبر اسلام ﷺ کے نامور صحابی اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے جن کا لقب حیدرِ کرار ہے اوران کا شمار جلیل القدر، جری اور دلیرصحابہ کرام میں ہوتا ہے۔

    فوج کے کسی بھی رینک اور شعبے سے تعلق رکھنے والے بہادر کو اس اعزاز سے نوازا جاسکتا ہے، اسے حاصل کرنے کا معیار حالت ِ جنگ میں انتہائی خطرے کے مقام پر جرات وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوجانا ہے۔

    نشانِ حیدر پاکستان منٹ میں وزارتِ دفاع کے خصوصی آرڈر پر تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تشکیل میں دشمن سے چھینے گئے اسلحے کی دھات کو استعمال کیا جاتا ہے، نشانِ حیدر 88 فیصد کاپر ، 10 فیصد ٹن اور 2 فیصد زنک کے امتزاج سے تشکیل دیا جاتا ہے۔

    کیپٹن محمد سرور شہید


    کیپٹن سرور 1910 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان سے قبل 1944 میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی ، 1948 میں کشمیر آپریشن میں ہندوستان کی فوج کے مقابلے میں اوڑی کے مقام پر 50 گز کے فاصلے پر فائرنگ کی زد میں آئے، اس وقت وہ خاردار تاریں کاٹ کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیپٹن سرور کی شہادت کے وقت عمر 38سال تھی۔

    میجر طفیل محمد شہید


    طفیل محمد 1914 میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1943 میں پاک و ہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔1958 میں مشرق پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ہندوستان کی فوج نے بین الاقوام سرحد کی خلاف ورزی کی اور ایک گاؤں میں داخل ہوئی، اس گاؤں کو انہوں نے ہندوستان کی فوج سے واگزار کروالیا، مگر اس دوران وہ دست بدست بھی مخالف فوج سے لڑنے سے شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی شہادت ہوئی۔میجر طفیل شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 44 سال تھی، وہ سب سے زیادہ عمر میں نشان حیدر حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔

    میجر راجہ عزیز بھٹی شہید


    راجہ عزیز بھٹی 1928 میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق گجرات سے تھا، عزیز بھٹی نے 22 سال کی عمر میں پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔1965 کی جنگ میں مشہور زمانہ بی آر بی نہر کے کنارے برکی میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے، نہر کے کنارے ایک مقام پر ہندوستان کی فوج قابض ہو گئی تھی، انہوں نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج سے علاقہ واگزار کروا لیا مگر ہندوستانی فوج کے ٹینک کا ایک گولہ ان کو آ کر لگا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔ میجر عزیز بھٹی شہید کی جس وقت شہادت ہوئی ان کی عمر 37 سال تھی۔ یاد رہے کہ راجہ عزیز بھٹی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ماموں تھے۔

    میجر محمد اکرم شہید


    محمد اکرم 4 اپریل 1938 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1959 میں فوج میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے 1965 کی جنگ میں شرکت کی اور کئی محاذوں پر ہندوستان کی فوج کا مقابلہ کیا۔1971کی جنگ میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ڈسٹرکٹ دیناج پور اپنے علاقے کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے خیال رہے کہ دیناج پور جنگ اسی علاقے میں شامل تھا جہاں 23 نومبر 1971 سے 11دسمبر 1971 تک بوگرہ جنگ لڑی گئی، اس جنگ میں محمد اکرم کو ہیرو کا درجہ ملا۔31 سال 8 ماہ کی عمر میں شہید ہونے والے میجر محمد اکرم کو مشرقی پاکستان (موجود بنگلہ دیش) میں ہی دفنایا گیا، البتہ بعد ازاں ان کے آبائی علاقے جہلم میں یاد گار تعمیر کی گئی۔

    پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید


    راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 13 مارچ 1971 کو پاک فضائی میں شمولیت اختیار کی، اسی سال 20 اگست کو دوران تربیت ان کے استاد (انسٹرکٹر) مطیع الرحمن نے پاکستان کے جہاز کواغواء کرکے پندوستان لے جانے کی کوشش کی تو جہاز کے کاک پٹ میں پہلے دست بدست لڑائی ہوئی ،بعد ازاں راشد منہاس نے جہاز کو ہندوستان کے بارڈر سے 51 کلومیٹر دور ہی زمین سے ٹکرا دیا جس سے ان کی شہادت ہوئی۔

    راشد منہاس فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر پانے والے کم عمر ترین فوجی ہیں شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 20 سال اور6ماہ تھی جبکہ ان کو پاکستان ائر فورس کا حصہ بنے بھی صرف 5 ماہ ہوئے تھے۔

    میجرشبیرشریف شہید


    شبیر شریف 28 اپریل 1943 کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1964 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی، ان کے والد شریف احمد بھی فوج میں میجر رہے تھے۔1965 کی جنگ میں وہ بحیثیت سیکنڈ لفٹیننٹ شریک ہوئے ان کو کشمیر میں تعینات کیا گیا تھا۔

    سنہ 1971 میں جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جنگ جاری تھی، تو پنجاب میں ہیڈ سلیمانکی کو ہندوستان کی فوج کے قبضے سے واگزار کروانے میں کامیابی حاصل کی اس جنگ میں ہندوستان کے 4 ٹینک تباہ، 42 فوجی ہلاک اور 28 قیدی بنائے گئے۔ملک کے بڑے رقبے کو پانی فراہم کرنے والے بند ہیڈ سلیمانکی پر حفاظت کے دوران ان کو ہندوستان کے ٹینک کا گولہ لگا جس سے28 سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔ آپ سابق آرمی چیف راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔

    جوان سوار محمد حسین شہید


    سوار محمد حسین جنجوعہ 18 جون 1949 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، وہ 17 سال کی عمر میں پاک فوج میں بحیثیت ڈرائیور شامل ہوئے۔1971 کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر گولہ بارود کی ترسیل کرتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک آرمی نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے، 10 دسمبر 1971 کو ہندوستانی فوج کی شیلنگ کی زد میں آکر سوار محمد حسین شہید ہوئے۔

    جس وقت سوار محمد حسین کی شہادت ہوئی ان کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔وہ پاک فوج کے پہلے سب سے نچلے رینک کے اہلکار یعنی سپاہی تھے جن کو ان کی بہادری پر نشان حیدر دیا گیا۔

    لانس نائیک محمد محفوظ شہید


    محمد محفوظ 25 اکتوبر 1944 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو ٹھیک 16 سال کی عمر میں فوج میں بحیثیت سپاہی شمولیت اختیار کی۔1971 کی جنگ میں ان کی تعیناتی واہگہ اٹاری سرحد پر تھی، وہلائٹ مشین گن کے آپریٹر تھے، ہندوستان کی فوج کے شیلنگ سے ان کی مشین گن تباہ ہوئی جبکہ ان کی کمپنی (فوجی داستہ) مخالف فوج کی زد میں آگیا۔

    شیلنگ سے لانس نائیک محمد محفوظ کی دونوں ٹانگیں زخمی ہو گئیں انہوں نے اسی زخمی حالت میں ہندوستان کے ایک بنکر (جہاں سے پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا جا رہا تھا) میں غیر مسلح حالت میں گھس کر حملہ کیا اور ایک ہندوستانی سپاہی کو گلے سے دبوچ لیا، البتہ ایک اور ہندوستانی فوجی نے ان پر خنجر سے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔لانس نائیک محمد محفوظ کی بہادری کا اعتراف ہندوستان کے فوجیوں نے بھی کیا۔

    ان کی شہادت کے بعد 23 مارچ 1972 کو بہادری پر سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر انہوں سے نوازا گیا۔بعد ازاں ان کے گاؤں پنڈ مایکان کو محفوظ آباد کا نام بھی دیا گیا۔

    کیپٹن کرنل شیر خان شہید


    کرنل شیر خان یکم جنوری 1970 کو خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی میں پیدا ہوئے۔1999 میں جب کارگل میں جنگ شروع ہوئی تو 17 ہزار فٹ کی بلندی پر انہوں نے ہندوستان کی فوج پر اس وقت حملہ کیا جب وہ با آسانی پاک فوج (کیپٹن کرنل شیر خان کی بٹالین) کی نقل و حرکت کو باآسانی دیکھ سکتے تھے، ان کا حملہ مخالف فوج کے لیے نہ صرف حیران کن تھا بلکہ انڈین آرمی کو بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ اس طرح سے بھی کوئی فوجی افسر حملہ کرسکتا ہے۔ ہندوستان کی فوج نے پاکستان کی چوکیوں کو گھیرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ مخالف فوج پر حملہ کردیا۔

    شیر خان کے ہمراہ ان کی دو بٹالین نے ہندوستان کی فوج سے نہ صرف اپنے 5 چوکیوں کو محفوظ بنایا بلکہ ان کی کئی چوکیوں پر بھی قبضہ کیا اور ہندوستانی فوج کو ان کے بیس کیمپ تک واپس دھکیل دیا البتہ 5 جولائی 1999 کو کرنل شیر خان کی چوکی ایک بار ہندوستانی فوج کی زد میں آئی، اس دوران وہ مشین گن کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے اور ان کی شہادت ہوگئی۔کرنل شیر خان خیبر پختونخوا سے پہلے فوجی اہلکار تھے جن کو نشان حیدر دیا گیا، شہادت کےوقت ان کی عمر 29 سال 7 ماہ تھی۔

    حوالدار لالک جان شہید

    لالک جان یکم اپریل 1967 کو گلگت بلتستان کےضلع غذر میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1984 میں پاک فوج میں 17 سالہ کی عمر میں سپاہی کی حیثیت میں شمولیت اختیار کی۔1999 میں جب کارگل جنگ کا آغاز ہوا تو وہ ناردرن لائت انفنٹری ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات تھے انہوں نے زمینی جنگ کی اطلاع ملنے پر اصرار کرکے اپنی تعیناتی جنگ کے محاذ پر کروائی۔

    7 جولائی 1999 کو شہادت سے قبل لالک جان نے اپنی پوسٹ پر 3 دن کے دوران ہونے والے ہندوستانی فوج کے 17 حملوں کو ناکام بنایا۔7 جولائی کو تین اطراف سے ہونے والے حملے میں لالک جان کو کمپنی کمانڈر کی جانب سے پوسٹ چھوڑنے کی بھی تجویز دی گئی مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور ہندوستانی فوج سے مقابلہ کیا، اس دوران ان کے سینے پر مشین گن کا برسٹ لگا البتہ زخمی حالت میں بھی انہوں نے تین گھنٹوں تک مخالف فوج کا مقابلہ کیا، بعد ازاں جب پاک فوج کی نفری چوکی پر پہنچی تو ان کی شہادت ہوچکی تھی۔

    جس وقت لاک جان کی شہادت ہوئی ان کی عمر 32سال تین ماہ تھی، وہ نشان حیدر حاصل کرنے والے اب تک کے آخری فوجی اہلکار ہیں۔

    سیف اللہ جنجوعہ ( ہلالِ کشمیر)۔


    سیف اللہ جنجوعہ 1922 کو نکیلا میں پیدا ہوئے، 18 سال کی عمر میں 1940 میں پاک وہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت حاصل کی۔1948 میں کشمیر رجمنٹ کی جانب سے لڑتے ہوئے انہوں نے مشین گن سے ہندوستان کا طیارہ مار گرایا تھا جبکہ توپ کا گولہ ان کی پوسٹ پر لگا، ان کو ہلال کشمیر سے نوازا گیا جو کہ پاکستان کے نشان حیدر کے مساوی ہے۔جس وقت نائیک سیف اللہ جنجوعہ کی شہادت ہوئی ان کی عمر 26 سال 6 ماہ تھی۔

  • پاک فوج نے ’ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘ کا نیا پرومو جاری کردیا

    پاک فوج نے ’ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘ کا نیا پرومو جاری کردیا

    اسلام آباد : پاک فوج کی جانب سے 6 ستمبر یوم دفاع و شہدا 2018 کی مناسبت سے نشان حیدر  پانے والے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تیار کردہ ترانے ’ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘ کا نیا پرومو جاری کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہمارے نشان حیدر ہمارا فخر ’ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘ کے نام سے یوم دفاع و شہداء پر ریلیز کیے جانے والے ترانے کا نیا پرومو جاری کیا۔

    آئی ایس پی آر کی جانب سے یوم دفاع و شہدا 2018 سے متعلق ترانے کی ویڈیو میں پاکستان کی خاطر جانیں قربان کرنے والے جوانوں کو  خراج تحسین پیش کیا گیا۔

    پاک فوج کی جانب سے ترانے ’ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘ کی پرومو ویڈیو جاری ہونے کے بعد ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔


    مزید پڑھیں : یومِ دفاع: پاک فوج کا بے نظیر، سراج رئیسانی اور بشیر بلور سمیت شہدا کو خراج عقیدت


    یاد رہے کہ دو روز قبل پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک نئی ویڈیو جاری کی ہے، جس میں پہلی بار ملک کے ان سیاست دانوں کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے جو دہشت گردوں کے حملوں میں شہید ہوئے۔

    آئی ایس پی آر کی جاری کردہ ویڈیو میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو، بلوچستان عوامی پارٹی کے میر سراج خان رئیسانی، سابق صوبائی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر احمد بلور سمیت پولیس افسر چوہدری اسلم خان، ہنگو کے طالب علم اعتزاز حسن بنگش، سابق وزیرِ داخلہ پنجاب شجاع خان زادہ کو خراج عقیدت اور سلام پیش کیا گیا۔

    واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو روز قبل کہا تھا کہ یومِ دفاع و شہدا 2018 پر قوم کے شہیدوں اور ان کے گھر والوں کو یاد کیا جائے گا۔

  • میجرطفیل محمد شہید نشان حیدر کا آج 59 واں یوم شہادت ہے

    میجرطفیل محمد شہید نشان حیدر کا آج 59 واں یوم شہادت ہے

    کراچی : میجرطفیل محمد شہید نشان حیدر کا آج اُنسٹھواں یوم شہادت انتہائی عقیدت و احترام میں منایا جارہا ہے۔

    بہادری و شجاعت کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت میجر طفیل محمد شہید 1914 میں مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے،1947 میں میجر طفیل محمد نے پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور اپنے پورے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور یہاں فوج میں خدمات انجام دینے لگے۔

    میجر طفیل شہید جہاں ایک ذمے دار آفیسر تھے، وہیں ایک ذہین اور تجربہ کار انسٹرکٹرکی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔

    میجر طفیل محمد کو کمپنی کمانڈر بنا کر مشرقی پاکستان رائفلز میں تعینات کیا گیا، 7 اگست 1958 کو لکشمی پور میں بھارتی فوج کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے بحیثیت کمانڈر میجر طفیل نے اپنے ونگ کے ساتھ دشمن کی چوکی کے عقب میں پہنچ کر فقط 15 گز کے فاصلے سے حملہ آور ہوئے۔

    دشمن نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے مشین گن سے فائرنگ شروع کردی، میجر طفیل چونکہ اپنی پلاٹون کی پہلی صف میں تھے اس لیے وہ گولیوں کی پہلی ہی بوچھاڑ سے زخمی ہوگئے تاہم وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے ایک دستی بم پھینک کر دشمن کی مشین گن کو ناکارہ بنایا۔

    گھمسان جنگ اس وقت تک جاری رہا جب تک بھارتی فوج کو بھاگنے پر مجبور کردیا، دشمن اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑ گیا، میجر طفیل محمد شہید نے گھمسان کی جنگ کے بعد اسی دن ملک کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے کرشہادت کا درجہ حاصل کیا۔

    میجر طفیل محمد کو فاتح لکشمی پور بھی کہا جاتا ہے، میجر طفیل محمد شہید کی لازوال قربانی کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا، میجر طفیل محمد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت تھے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • آج کارگل کے بہادرسپوت کیپٹن کرنل شیرخان کا یومِ شہادت ہے

    آج کارگل کے بہادرسپوت کیپٹن کرنل شیرخان کا یومِ شہادت ہے

    آج جہاں ملک میں ضیاالحق کے آمرانہ تسلط کے خلاف یومِ سیاہ منایا جارہاہے وہیں پاک فوج کے ایک بہادر سپوت کی شہادت کی یاد بھی منائی جارہی ہے۔

    کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1970–1999) پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع صوابی ایک گاؤں نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔

     

    کیپٹن کرنل شیر خان نے 14 اکتوبر 1994 میں پاک فوج میں شمولیت اختیارکی تھی۔

    شیر خان شہید نے ککارگل کی جنگ میں بے پناہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کردئیے۔

    انہوں نے اپنے مٹھی بھر جوانوں کے ہمراہ گلتیری کے مقام پر17000 فٹ کی بلندی پردفاعی نوعیت کے پانچ انتہائی اہم مورچے قائم کیے اورپھرانتہائی جانفشانی سے ان کا دفاع کرتے رہے۔

    کئی ناکام کوششوں کے بعد بھارتی افواج نے 5 جولائی 1999 کو دو بٹالین اور بھاری توپ خانے کے ہمراہ حملہ کیا اور ان کے ایک مورچے کے کچھ حصے پر قبضہ کرلیا۔ انتہائی بھاری گولہ باری کے باوجود شیر خان نے جوابی حملہ کیا اور اپنے مورچے کی قبضہ شدہ جگہ واپس چھین لی اور اسی جدوجہد میں ایک مشین گن کی گولیوں کی زد میں آگئے اور جام شہادت نوش کیا۔

  • نشان حیدر کبڈی ٹورنامنٹ پاک آرمی نے جیت لیا

    نشان حیدر کبڈی ٹورنامنٹ پاک آرمی نے جیت لیا

    رحیم یارخان :تیسرا آل پاکستان نشان حیدر کبڈی ٹورنامنٹ پاک آرمی نے جیت لیا۔ فائنل میچ میں پاک آرمی نے پاک فضائیہ کو 9پوائنٹ سے شکست دی۔

    پاک فوج کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کےلئے نشان حیدر آل پاکستان کبڈی ٹورنامنٹ جناح اسپورٹس کمپلیکس صادق آباد میں اختتام پذیر ہو گیا۔کبڈی ٹورنامنٹ میں 8 ٹیموں نے حصہ لیا ۔

    پاکستان آرمی،ائرفورس، واپڈا، پولیس، سوئی سدرن گیس ، پی او ایف،پاکستان ریلوے اور پنجاب کی ٹیمیوں نے حصہ لیا۔ جناح اسپورٹس کمپلیکس میں شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔

    پاکستان ایئر فورس اور پاکستان آرمی کے درمیان دلچسپ مقابلہ ہوا۔ پاک آرمی کی ٹیم پاک فضائیہ پر غالب آگئی اور میچ 40کے مقابلے میں 49اسکور سے جیت لیا۔

    آخر میں فاتح ٹیم کو ڈیڑھ لاکھ روپے،ٹرافی اور رنر اپ ٹیم کو ایک لاکھ روپے اور ٹرافی و دیگرانعامات دیئے گئے ۔ کبڈی ٹورنامنٹ کے مہمان خصوصی لیفٹننٹ جنرل طارق ندیم حلال امتیاز ملٹری نے ٹیموں میں انعامات تقسیم کئے۔