Tag: no-confidence motion

  • وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد، ایم کیو ایم فیصلے کے قریب

    وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد، ایم کیو ایم فیصلے کے قریب

    کراچی: اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم اپنے فیصلے کے قریب پہنچ گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے کارکنان کا اہم جنرل ورکرز اجلاس 20 مارچ بروز اتوار طلب کر لیا ہے، جس میں کارکنان کو اپوزیشن سے ہونے والی ملاقاتوں پر اعتماد میں لیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق اجلاس میں کارکنان سے اس بات پر رائے لی جائے گی کہ عدم اعتماد کی تحریک پر حکومت کا ساتھ دینا ہے یا نہیں، جنرل ورکرز اجلاس میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان اتحاد کے حوالے سے بھی کارکنان سے رائے طلب کی جائے گی۔

    ایم کیو ایم نے اندرون سندھ سمیت ملک بھر کے ورکرز کا ویڈیو لنک اجلاس بھی پیر 21 مارچ کو طلب کر لیا ہے۔

    ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے پارٹی کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اب بہت دیر ہو چکی ہے، ایم کیو ایم تحریک انصاف کی گورنر راج کی تجویز سے متفق نہیں ہے۔

  • تحریک عدم اعتماد: الیکشن کمیشن کا اہم بیان سامنے آگیا

    تحریک عدم اعتماد: الیکشن کمیشن کا اہم بیان سامنے آگیا

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سےمتعلق الیکشن کمیشن نے اہم ترین بیان جاری کردیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب اور عدم اعتماد سے الیکشن کمیشن کا تعلق نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی یہ کارروائی بطور پریزائیڈنگ افسر سرانجام دیتے ہیں۔

    اعلامیہ میں کہا گیا کہ پارٹی سربراہ تحریری طور پر متعلقہ ممبر پارلیمنٹ کے انحراف کی ڈیکلیریشن کرے گا، پارٹی سربراہ مذکورہ کاپی پریذائیڈنگ آفیسر اور چیف الیکشن کمشنر کو ارسال کرے گا،انحراف کے اعلان سے پہلے پارٹی سربراہ متعلقہ ممبر کو سننے کا موقع دے گا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کا کردار اسپیکر کی جانب سے ڈیکلیریشن کے بعد شروع ہوگا، الیکشن کمیشن ڈیکلیریشن کے بعد 30یوم میں فیصلہ کرےگا۔

    الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آئین وقانون کے مطابق احسن طریقے سے کام کررہاہے، ضروری اختیارات تفویض کئےجائیں تو الیکشن کمیشن فریضہ کو سرانجام دےسکتاہے۔

  • اپوزیشن کی جانب سے حکومتی ارکان سندھ ہاؤس میں چھپا کر رکھنے کا انکشاف

    اپوزیشن کی جانب سے حکومتی ارکان سندھ ہاؤس میں چھپا کر رکھنے کا انکشاف

    اسلام آباد: اپوزیشن کی جانب سے حکومتی ارکان کو سندھ ہاؤس میں چھپا کر رکھنے کا انکشاف ہوا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ جب وزیر اعظم نے سوات جلسے میں سندھ ہاؤس میں ضمیر فروشی کا ذکر کیا تو اس کا اشارہ بھی اسی طرف تھا۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن نے کچھ حکومتی ایم این ایز کو سندھ ہاؤس، اور فارم ہاؤس پر چھپا کر رکھا ہے، کچھ حکومتی ارکان کو اپوزیشن نے اپنے پارلیمنٹ لاجز میں بھی چھپا کر رکھا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن نے جن ارکان کو چھپایا ہوا ہے، حکومت کو ان کے نام پتا چل گئے ہیں، مذکورہ ارکان میں 3 خواتین ایم این ایز بھی شامل ہیں، پیپلز پارٹی نے اسی سبب سے سندھ ہاؤس میں سندھ پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات کر رکھی ہے۔

    ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ 3 خواتین ایم این ایز کو 24 گھنٹے میں سکھر منتقل کیا جا سکتا ہے، ان خواتین ارکان کو سینئر ترین پی پی رہنما کی گاڑی میں سکھر لے جایا جائے گا، ایم این ایز کو پہلے بذریعہ طیارہ لے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تاہم بے نقاب ہونے کے ڈر سے بذریعہ روڈ سکھر لے جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

    دوسری طرف حکومت نے ارکان کی رضا کارانہ واپسی کے لیے اپوزیشن سے بیک ڈور رابطے بھی کیے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے اپوزیشن کو پیغام دیا کہ ان کے ارکان رضا کارانہ طور پر واپس کیے جائیں، اگر ارکان واپس نہ کیے گئے تو دن دہاڑے بازیاب کرائیں گے۔

    حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کوبھی حکومتی ارکان کی بازیابی کی ہدایت کر دی ہے۔

  • کیا حکومتی وفد کو تحریک عدم اعتماد پر ایم کیو ایم سے جواب مل گیا؟

    کیا حکومتی وفد کو تحریک عدم اعتماد پر ایم کیو ایم سے جواب مل گیا؟

    اسلام آباد: حکومتی وفد کی ایم کیو ایم پاکستان کے وفد سے ملاقات ختم ہو گئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعت کی جانب سے حکومتی وفد کو خاطر خواہ جواب نہیں مل سکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومتی وفد کی اتحادی جماعت سے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے ذرائع نے کہا کہ حکومتی وفد نے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے ایم کیو ایم کا فیصلہ جاننا چاہا، لیکن ایم کیو ایم وفد ایک بار پھر حکومت کو واضح جواب دینے سے قاصر رہا۔

    ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے ان کی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان ملاقات کا دوسرا دور تھا، ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی، تحریک انصاف کا وفد اتحادی جماعت سے ملاقات کے لیے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔

    ایم کیو ایم وفد نے کہا کہ جمہوریت کے منافی کوئی بھی فیصلہ نہ تو قبول ہوگا نہ اس کا ساتھ دیں گے، ایم کیو ایم جمہوریت کے استحکام اور پارلیمان کی بالا دستی پر یقین رکھتی ہے، موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سیاسی ملاقاتوں کا تسلسل اور جمہوری تقاضوں کی تکمیل ہو، نیز ایم کیو ایم کا فیصلہ ملک و قوم کے مفاد اور جمہوری روایات کے عین مطابق ہی ہوگا۔

    تحریک انصاف کے وفد میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، علی زیدی، اسد عمر جب کہ ایم کیو ایم وفد میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، امین الحق، عامر خان، خواجہ اظہار اور جاوید حنیف شریک تھے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات میں آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کے شہری سندھ میں اسٹیک اور مینڈیٹ کو تسلیم کر لیا تھا، اور کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے تمام مطالبات درست ہیں، شہری سندھ کی ترقی کے لیے جو مدد اور تعاون سندھ حکومت کا درکار ہوا دیا جائے گا۔

    تاہم، پی پی وفد کی جانب سے مکمل سپورٹ کے عندیے کے باوجود جب سابق صدر نے عدم اعتماد پر ایم کیو ایم سے حمایت مانگی تو ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے انھیں بھی اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا۔

  • شہباز شریف سے ایم کیوایم کے وفد کی ملاقات کا اعلامیہ جاری

    شہباز شریف سے ایم کیوایم کے وفد کی ملاقات کا اعلامیہ جاری

    لاہور : پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ایم کیوایم پاکستان کی خالد مقبول صدیقی زیر قیادت وفد کی اہم ملاقات ہوئی ہے۔

    اس موقع پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خصوصی دعوت پر ملاقات میں شرکت کی، خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں وفد میں عامرخان، وسیم اختر اور معین الحق شامل تھے۔

    ملاقات میں دونوں جماعتوں کے قائدین نے قومی اور عوامی اہمیت کے امور پر رابطے اور تعاون سے متعلق تجاویز کا تبادلہ جاری رکھنے پر مشاورت کی۔

    ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیر اعظم کیخلاف چلائ یجانے والے تھریک عدم اعتماد اور دیگر سیاسی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    اہم شخصیات کی ملاقات کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق اپوزیشن قائدین اور ایم کیوایم رہنماؤں میں ملاقات کل پارلیمنٹ لاجزمیں ہوگی۔

  • تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہوگا؟ اپوزیشن کنفیوژن کا شکار ہو گئی

    تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہوگا؟ اپوزیشن کنفیوژن کا شکار ہو گئی

    اسلام آباد: تحریک عدم اعتماد کے بعد کا سیٹ اپ کتنی دیر کا ہوگا، اپوزیشن جماعتیں اس سلسلے میں کنفیوژن کا شکار ہو گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ابھی پیش نہیں ہوئی ہے، تاہم ن لیگی رہنما نئے الیکشن کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

    سعد رفیق کا کہنا ہے کہ 15 ماہ میں مسائل حل نہیں ہو سکتے، فوری الیکشن کی طرف جانا ہوگا۔

    دوسری جانب شہباز شریف اسمبلی مدت پوری کرنے، اور نواز شریف فوری انتخابات کے حامی ہیں، جب کہ مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی بھی موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کے حامی ہیں۔

    تحریک عدم اعتماد: حکومتی جماعت اور ق لیگ کے درمیان اعلیٰ سطح کا رابطہ

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی ڈیڑھ سال کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھالنا چاہتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ق) چند ماہ کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ قبول کرے گی؟

    ق لیگ کو وزارت اعلیٰ کی پیش کش پر ن لیگی ایم پی ایز کے تحفظات بھی سامنے آ گئے ہیں، ن لیگی ارکان کی رائے ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اٹھائے گی۔

    ادھر شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پنجاب میں فی الحال تحریک عدم اعتماد نہیں آ رہی، تو ق لیگ کو وزارت اعلیٰ کی پیش کش کیوں کریں؟

  • ہمارے ارکان کو15 سے20کروڑ روپے کی پیشکش ہوئی، فواد چوہدری

    ہمارے ارکان کو15 سے20کروڑ روپے کی پیشکش ہوئی، فواد چوہدری

    اسلام آباد : وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہمارے3 ارکان کو 15 سے 20کروڑ روپے کی پیشکش ہوئی، عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد یہ 3جوکرز نظر نہیں آئیں گے۔

    کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر بات ہوئی، کمیٹی نے عمران خان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

    فوادچوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ ایسے وقت میں قیادت صرف عمران خان ہی کرسکتے ہیں، ایک بار پھر ثابت ہوا کہ کوئی وفاقی جماعت ہے تو وہ صرف پی ٹی آئی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ننھے منے جلوس لے کر آنے والوں کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں، 27مارچ کو ڈی چوک پر مدر آف جلسہ ہونے جارہا ہے، پی ٹی آئی نے اپوزیشن کی جانب سے لوگوں کو خریدنےاور لوٹا کریسی کو مسترد کیا ہے۔

    وزیر اطلاعات نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی شدید مذمت کرتے ہیں، جس جس کو آفر ہوئی اس نے پارٹی کو آگاہی دی، اب تک ہمارے تین لوگوں کو آفرز ہوئی ہیں، ایک کو 15کروڑ اور ایک کو 20 کروڑ روپے کی آفر ہوئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف عمران خان ہر پاکستانی کی عزت، غیرت اور ہرے پاسپورٹ کی عزت کی جنگ لڑرہے ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی کا حامل ملک دیکھا جاسکتا ہے، کسی میں اتنی جرات نہیں کہ کوئی ملک پاکستان کو ڈکٹیٹ کرے، آج ہر پاکستانی فخر سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، پاکستان کی آزادی پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ روس یوکرین جنگ کے بعد بڑے بڑے لوگوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد ہوئے، اس بات سے پاکستان میں بھی کچھ سیاستدان اور میڈیا مالکان ڈرے ہوئے ہیں۔

    اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد نہ لاتی تو ہماری پارٹی بھی سست ہوگئی تھی، انہوں نے سوئے ہوئے شیروں کو جگا دیا ہے، یہ لوگ عمران خان کے مقابلے میں تیسرے درجے کا جلسہ بھی کرکے دکھادیں۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی ماضی میں کبھی بلیک نہیں ہوئے، ہم سب عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ اپوزیشن کو ہاتھ ملتے دیکھیں گے ان کو سمجھ نہیں آئیگی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ تاش کے سارے پتے ہمارے پاس ہیں ہم فیصلہ کریں گے اگلی چال کیا ہوگی تحریک عدم اعتماد ان تین جوکرز کا آخری کھیل ثابت ہوگا، تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد یہ تینوں نظر نہیں آئیں گے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت کو وزیراعظم اپنے بھائیوں کی طرح سمجھتے ہیں، شیخ رشید بھی اپنے بیان پر وضاحت دے چکے، پرویزالہٰی نے ہمیشہ ق لیگ میں سپورٹ کیا ہے، ہر پارٹی نے اپنے لوگوں کو اعتماد میں لینا ہوتا ہے وہ اس عمل سے گزر رہے ہیں۔

    تحریک انصاف میں کوئی بھی منحرف نہیں ، گلےشکوے ہوتے ہیں، کوئی آدمی پی ٹی آئی میں ایسا نہیں جو اس موقع پر عمران خان سے غداری کرے، ہمارے کارکنان بھی مستعد ہیں ۔

  • تحریک عدم اعتماد : حکومت  کا اوآئی سی اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

    تحریک عدم اعتماد : حکومت کا اوآئی سی اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے اوآئی سی اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا، جس کے بعد تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 29 مارچ کو کرانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے اوآئی سی اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا ، اوآئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس 22اور23مارچ کو ہورہا ہے۔

    وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 29 مارچ کو کرانے کا امکان ہے۔

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کورکمیٹی کا اجلاس ہوا تھا ، جس میں کور کمیٹی نے عدم اعتماد سے متعلق فیصلوں کا اختیار وزیراعظم کو دیا اور اتفاق کیا کہ ڈی چوک پرملکی تاریخ کا سب سے بڑاجلسہ ہوگا۔

    اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری تمام تیاریاں مکمل ہیں، عدم اعتماد سےکوئی پریشانی نہیں صورتحال اطمینان بخش ہے۔

    عمران خان کا اتحادیوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اتحادی کہیں نہیں جا رہے ہمارے ساتھ ہیں، ڈی چوک پر انسانوں کا سمندر ہو گا۔

  • تحریک عدم اعتماد :  ‘قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار وزیراعظم کو دے دیا گیا’

    تحریک عدم اعتماد : ‘قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار وزیراعظم کو دے دیا گیا’

    اسلام آباد : وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے قومی اسمبلی کااجلاس بلانےکا اختیار وزیراعظم کو دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کااجلاس بلانےکا اختیار وزیراعظم کو دیا گیا ہے۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا ہے اتحادیوں سے معاملات کافی بہتر ہیں، انشااللہ اتحادی ہمارے ساتھ ہوں گے۔

    وفاقی وزیر نے کہا وزیراعظم نے ڈی چوک جلسے میں 10لاکھ لوگ لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے کونے کونے سے لوگوں کو ڈی چوک لایا جائے۔

    دوسری جانب ڈی چوک پروزیراعظم عمران خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے جلسے کے حوالے سے تحریک انصاف اسلام آباد کی ایڈوائزری کونسل نے اہم ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔

    صدر تحریک انصاف اسلام آباد علی نواز اعوان اجلاس کی صدارت کریں گے ، اجلاس میں ڈی چوک جلسے کے انتظامات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا ۔

    خیال رہے پاکستان تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد کے روز اسلام آباد میں بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور چکوال کے ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں میں حتمی پروگرام ترتیب دیا گیا جبکہ وزیر اعظم نے اسلام آباد کی تنظیم کو میزبانی کا ٹاسک سونپ دیا۔

    ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو اسلام آباد میں10 لاکھ لوگوں کو جمع کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔

  • تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ : اسپیکر قومی اسمبلی  نے منحرف اراکین  کے حوالے سے 3سوالوں کے جواب مانگ لئے

    تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ : اسپیکر قومی اسمبلی نے منحرف اراکین کے حوالے سے 3سوالوں کے جواب مانگ لئے

    اسلام آباد : اسپیکر اسد قیصر نے تحریک عدم اعتماد پر منحرف اراکین کی ووٹنگ کے حوالے سے 3سوالوں کے جواب مانگ لئے، جس پر قومی اسمبلی کے شعبہ قانون سازی کا کہنا ہے کہ کسی بھی رکن کوووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اور اسپیکر اسد قیصر آمنے سامنے آگئے ، ذرائع نے بتایا کہ اسپیکر نے سوال کیا کیا منحرف اراکین کو ووٹ ڈالنے سے روک سکتا ہوں ، جس پر اسمبلی شعبہ قانون سازی کا کہنا تھا کہ کسی بھی رکن کوووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

    ذرائع قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ کوئی رکن پارٹی پالیسی کے خلاف ہے تو کاروائی ایکٹ کے بعد ہوگی، آئین کا آرٹیکل 63 ون اے بالکل واضح ہے۔

    ذرائع کے مطابق اسپیکر نے سوال کیا وزیراعظم یاپارٹی چیف وہپ مشکوک نام بھجوائےتوکیاہوسکتا ہے؟ جس پر ذرائع کا کہنا تھا کہ آپکا کردار پارٹی چیئرمین کے ڈیکلریشن کے بعد شروع ہوگا۔

    اسپیکر اسمبلی نے تیسرا سوال کیا کہ کیا منحرف اراکین پرووٹنگ سے پہلے رولنگ دی جا سکتی ہے تو ذرائع اسمبلی نے کہا رولنگ اسپیکر کااختیارہےتاہم معاملے پر آئین وقانون واضح ہے۔

    اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تحریک عدم اعتماد ووٹنگ سے قبل ناکام بنانے پر صادق سنجرانی سے مشاورت کی تھی ، ذرائع کا کہنا تھا کہ اسپیکرتحریک عدم اعتماد کو رولنگ کے ذریعے ناکام بنانا چاہتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے رولنگ کو بنیاد بناکر تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے پر بھی مشاورت کی تاہم چیئرمین سینیٹ نے انھیں اس حوالے سے کوئی ایڈوائس نہیں دی، ایڈوائس نہ دینے کی وجہ سینیٹ اور اسمبلی قواعد کا بعض امور پر مختلف ہونا ہے۔