Tag: Nobel

  • دو مزید ممالک نے ٹرمپ کے لیے امن نوبل انعام کی تجویز دے دی

    دو مزید ممالک نے ٹرمپ کے لیے امن نوبل انعام کی تجویز دے دی

    واشنگٹن (09 اگست 2025): آرمینیا کے وزیر اعظم اور آذربائیجان کے صدر نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو امن نوبل انعام دینے کی تجویز دے دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی سطح پر پڑوسی ممالک کے درمیان جنگیں رکوانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دیے جانے کی تجاویز بڑھتی جا رہی ہیں، اب ان ممالک میں آرمینیا اور آذربائیجان بھی شامل ہو گئے ہیں، تاہم دوسری طرف اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں 60 ہزار فلسطینیوں کا قتل امریکا اور ٹرمپ کی امن پالیسی پر بڑا سوال ہے۔

    وزیر اعظم آرمینیا نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امن نوبل انعام کے حق دار ہیں، آج کے دن محفوظ اور پرامن مستقبل کی بنیاد پڑی ہے، امریکی صدر کی کوششوں کی وجہ سے امن معاہدہ ممکن ہوا، امریکا کے ساتھ مل کر امن اور خوش حالی کے لیے کام کریں گے، میں ٹرمپ کو گیم چینجنگ ڈیل کرانے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    آذربائیجان کے صدر نے کہا کہ ٹرمپ کو امن نوبل انعام دینے کے لیے نوبل کمیٹی کو خط لکھیں گے، وہ نوبل کے اصل حق دار ہیں، انھوں نے گزشتہ 6 ماہ میں امن کے لیے معجزے کیے ہیں، صدر آذربائیجان نے کہا میں امریکی صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ پابندیاں ہٹا دیں، اب دوطرفہ تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون کا بہترین موقع ہے، ہمارے عوام آج کا دن اور ٹرمپ کا کردار یاد رکھیں گے۔


    5 ممالک کے وزرائے خارجہ نے غزہ پر اسرائیلی قبضے کے پلان کی مذمت کر دی


    صدر آذربائیجان نے مزید کہا آذربائیجان اور آرمینیا نے جنگ میں بہت سال ضائع کیے، اس میں صرف تباہی ہوئی، اب دونوں ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھیں گے، کوشش ہوگی کہ ہم آئندہ نسلوں کو پرامن مستقبل دیں۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور امن معاہدہ کرا دیا ہے، جس کے تحت آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی ہو گئی، صدر ٹرمپ، سربراہ آرمینیا اور صدر آذربائیجان نے امن معاہدے پر دستخط کیے۔ بعد ازاں تینوں سربراہان نے مشترکہ نیوز کانفرنس کی۔

    ٹرمپ نے کہا آذربائیجان اور آرمینیا کے سربراہان نے یقین دلایا ہے کہ اب جنگ نہیں ہوگی، دونوں ممالک جنگ کی بجائے تجارت اور اقتصادیات کو ترجیح دیں گے، دونوں سے امریکا الگ الگ تجارتی معاہدے کرے گا، انرجی، ٹریڈ اور ٹیکنالوجی میں دونوں ملکوں سے دو طرفہ معاہدہ ہوگا، اور ٹیکنالوجی معاہدوں میں اے آئی ڈیلز شامل ہوں گی۔

  • کیرولین لیوٹ کی جانب سے ٹرمپ کو نوبل انعام کا حقدار قرار دینے پر تنقید

    کیرولین لیوٹ کی جانب سے ٹرمپ کو نوبل انعام کا حقدار قرار دینے پر تنقید

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ٹرمپ نوبل انعام کے حق دار ہیں۔

    تاہم، کیرولین لیویٹ کے اس بیان پر آن لائن تنقید کی بوچھاڑ کی گئی ہے، اور اس بیان کو مزاحیہ، فریب اور مضحکہ خیز قرار دیا گیا، سوشل میڈیا صارفین کے درمیان اس پر گرما گرم بحث بھی ہونے لگی ہے۔

    جس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کے مطالبات میں تیزی آ رہی ہے اسی طرح ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔

    کیرولین لیویٹ نے اپنے X اکاؤنٹ پر نکول رسل کی ایک تحریر شیئر کی جو یو ایس اے ٹوڈے میں شائع ہوئی تھی، پریس سیکریٹری نے اپنی پوسٹ میں اس تحریر کی سرخی نقل کی، جس میں لکھا تھا ’’ٹرمپ امن کے نوبل انعام کے مستحق ہیں۔ پہلے جو لوگ یہ انعام جیت چکے ہیں، ٹرمپ نے ان سے کہیں زیادہ کارنامہ دکھایا۔‘‘

    دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نوبل امن انعام کی اس بولی نے آن لائن بحث چھیڑ دی ہے، ناقدین نے لیویٹ کی تجویز کو ’’بالکل مزاحیہ‘‘ اور ’’فریب اور مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا اور اس کا مذاق اڑایا۔


    یورپ اور میکسیکو کو ٹرمپ کا بڑا جھٹکا، تمام اشیا پر 30 فی صد ٹیرف لگا دیا


    دی مرر کی رپورٹ کے مطابق قدامت پسند صحافی کیسینڈرا فیئربینکس نے جواب دیتے ہوئے کہا ’’یہ بالکل مضحکہ خیز ہے کہ کسی دوسرے ملک پر بمباری کرنے، اور اسرائیل کے قتل عام پر ہمیں ادائیگی پر مجبور کرنے پر ٹرمپ امن انعام کے مستحق ہیں۔‘‘

    قدامت پسند وکیل اور مبصر شان راس کالگان نے بھی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ہنی، میں نے انھیں آپ کے مقابلے میں زیادہ بار ووٹ دیا ہے لیکن یہ تو فریب اور مضحکہ خیز ہے۔‘‘

  • نوبل انعام سے 13 بار محروم رہ جانے والا ڈاکٹر

    نوبل انعام سے 13 بار محروم رہ جانے والا ڈاکٹر

    اگر آپ کی پرواز تخیل بہت بلند ہے اور آپ نوبل انعام پانے کی خواہش رکھتے ہوں گے تو یقیناً آپ ملالہ یوسفزئی کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتے ہوں گے جس نے نہایت کم عمری میں نوبل انعام حاصل کر کے پاکستان اور نوبل انعام دونوں کی تاریخ میں اپنا نام درج کروالیا۔

    لیکن شاید آپ اس ماہر طب کو نہیں جانتے جسے 13 بار نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا لیکن ہر بار اس کے حصے کا انعام کسی دوسرے شخص کو ملتا رہا۔

    مزید پڑھیں: امن کا نوبل انعام ملالہ کے نام

    وہ ڈاکٹر کوئی اور نہیں بلکہ یورپی ملک آسٹریا کا نیورولوجسٹ اور معروف مصنف سگمنڈ فرائیڈ ہے۔

    اس عظیم ماہر طب نے نفسیاتی تجزیے یعنی سائیکو اینالسس کی تکنیک متعارف کروائی تھی جس کے تحت ڈاکٹر اور مریض آپس میں گفتگو کرتے اور باتوں باتوں میں مریض اپنی جسمانی و دماغی کیفیات سے آگاہ کرتا جاتا۔

    سگمنڈ فرائیڈ کی اس دریافت شدہ تحقیق پر آگے چل کر مزید کام کیا گیا۔

    مادام تساؤ میوزیم میں سگمنڈ فرائیڈ کا مجسمہ

    فادر آف سائیکو اینالسس کہلائے جانے والے فرائیڈ کے کام کو ایک طرف تو بے حد سراہا گیا تاہم دوسری جانب ان پر بے تحاشہ تنقید بھی کی گئی۔

    انہیں پہلی بار سنہ 1915 میں طب کے شعبے میں نوبل انعام کے لیے ایک امریکی ڈاکٹر کی جانب سے نامزد کیا گیا، اور اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ ان کی موت سے ایک سال قبل 1938 میں جب انہیں ایک بار پھر نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تو یہ ان کی نوبل انعام کے لیے 13 ویں نامزدگی تھی۔

    سگمنڈ فرائیڈ کو 12 دفعہ طب جبکہ 1 دفعہ ادب کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔

    انہیں متعدد ماہرین طب اور سائنسدانوں کی جانب سے انعام کے لیے حمایت بھی حاصل رہی مگر سب کچھ بے فائدہ رہا اور وہ ایک بار بھی نوبل انعام حاصل نہ کرسکے۔

    بدقسمتی سے اس وقت ان کے نظریے سائیکو اینالسس کو ایک مفروضہ سمجھا گیا۔

    اس وقت کے ماہرین طب کا کہنا تھا کہ عصبیات کا کوئی ماہر کیسے اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کے مریض کے ساتھ بچپن میں جنسی زیادتی ہوئی اور وہ اس کے لاشعور میں دبے اس خوف کا کیسے علاج کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: نفسیاتی مریضوں کے لیے ڈاکٹرز کی سنگین حد تک کمی

    جب سگمنڈ فرائیڈ 70 سال کے تھے تب اس وقت انہیں جبڑے کا کینسر لاحق ہوگیا تھا۔

    اس وقت فرانسیسی سپہ سالار نپولین پونا پارٹ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی معروف مصنفہ میری بونا پارٹ، جو نہ صرف فرائیڈ کی قریبی دوست تھیں بلکہ ان کی لکھی گئی کتابوں کو ترجمہ بھی کرتی رہیں، نے کوشش کی کہ فرائیڈ کو طب کے شعبے میں نہ سہی، ادب کے شعبے میں ہی نوبل انعام مل جائے۔

    میری بونا پارٹ

    تاہم اس بار بھی فرائیڈ کو ناکامی کا منہ دیکھا پڑا۔ اس سال ایک اور ادب کے نوبل انعام یافتہ مصنف رومن رولینڈ نے نوبل کمیٹی کو فرائیڈ کی سفارش میں خط لکھا اور کہا، ’گو کہ فرائیڈ کا کام طب کے شعبے میں زیادہ ہے تاہم اگر ان کی تصنیفات کو دیکھا جائے تو وہ بھی کسی شاہکار سے کم نہیں‘۔

    تاہم سوئیڈش نوبل اکیڈمی نے ایک بار پھر ان کی نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نوبل انعام صرف ان کو دیا جاتا ہے جن کے نظریات اور ایجادات حقائق پر مبنی ہوں۔ ایک مفروضہ کی بنیاد پر کسی کو نوبل انعام نہیں دیا جاسکتا۔

    اس وقت کے عظیم سائنسدان آئن اسٹائن نے بھی فرائیڈ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی پر اختلاف کا اظہار کیا تھا۔ ان کا مؤقف بھی کم و بیش وہی تھا جو سوئیڈش اکیڈمی کا تھا۔ آئن اسٹائن کو سنہ 1921 میں طبیعات کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    آئن اسٹائن

    اس کے 5 برس بعد آئن اسٹائن اور سگمنڈ فرائیڈ نے ایک مشترکہ منصوبے پر کام شروع کیا جس کے تحت وہ ایک دوسرے کو خط لکھتے اور ان خطوط میں امن، تشدد اور انسانی فطرت کے بارت میں بحث و اظہار خیال کرتے۔ ان خطوں کی سیریز کا نام ’وائے وار ۔ جنگ ہی کیوں‘ رکھا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: آئن اسٹائن کے نظریات پر مبنی ٹی وی سیریز

    بعد ازاں آئن اسٹائن نے بھی فرائیڈ کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ’جہاں تک ادب اور لکھنے کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں فرائیڈ واقعی شاندار تھا اور اس شعبے میں، میں اس کی کامیابیوں کا اعتراف کرتا ہوں‘۔