Tag: Nobel Peace Prize

  • ہلیری کلنٹن نے ٹرمپ کو نوبل انعام دلانے کیلیے شرط رکھ دی

    ہلیری کلنٹن نے ٹرمپ کو نوبل انعام دلانے کیلیے شرط رکھ دی

    واشنگٹن(16 اگست 2025): سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک شرط پر نوبل امن انعام کے لیے نامزد کریں گی۔

    سابق امریکی وزیر خارجہ اور ٹرمپ کے صدارتی انتخاب کی حریف ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ پیوٹن ملاقات سے متعلق ایکس پر پوسٹ شیئر کیا، ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک شرط کے تحت نوبل امن انعام کے لیے نامزد کریں گی۔

    انہوں نے کہا کہ شرط یہ ہے کہ اگر ٹرمپ یوکرین کو اپنا علاقہ چھوڑے بغیر روس یوکرین جنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ انہیں نوبل انعام کیلئے نامزد کریں گی۔

    سابق امریکی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیوٹن وقت کے ساتھ ساتھ اس علاقے سے دستبردار ہو جائیں گے جس پر انہوں نے قبضہ کیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ ختم کروائی، نوبل انعام ملنا چاہیے، وائٹ ہاؤس

    ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ جنگ بندی کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں، جو ان کی عالمی امن ساز کے طور پر ساکھ کو مضبوط کر سکتا ہے لیکن اس عمل میں یوکرین کا کوئی علاقہ روس کو نہ دیا جائے یوکرین جنگ کا پرامن اختتام تاریخی اقدام ہوگا۔

    واضح رہے کہ اس ہفتے کے شروع میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ کچھ "علاقوں کی تبدیلی” ہو سکتی ہے، یاد رہے کہ روس اس وقت یوکرین کے تقریباً 18 فیصد علاقے پر قابض ہے۔

    یاد رہے کہ اسرائیل سمیت متعدد ممالک ڈونلڈ ٹرمپ کو امن معاہدے یا جنگ بندی کروانے کیلیے نوبل انعام کا حقدار سمجھتے ہیں اور انہوں نے امریکی صدر کو اس کیلیے نامزد بھی کیا ہے۔

    واضح رہے کہ ہر سال سینکڑوں امیدواروں کا انتخاب ناروے کی نوبل کمیٹی کرتی ہے جس کے پانچ اراکین کا تقرر ناروے کی پارلیمنٹ 19ویں صدی کے سویڈش صنعت کار الفریڈ نوبل کی مرضی کے مطابق کرتی ہے۔

  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا

    نیتن یاہو نے ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا

    واشنگٹن: اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کو صدر ٹرمپ سے عشائیے پر ملاقات کے دوران انکشاف کیا کہ انھوں نے انھیں امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔

    نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں عشائیے کے دوران کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کو نوبل انعام کمیٹی کو بھیجے گئے نامزدگی خط کی ایک نقل پیش کی ہے، انھوں نے کہا ٹرمپ اس نامزدگی کے پوری طرح حق دار ہیں کیوں کہ انھوں نے معاہدہ ابراہیم طے کیا، اور وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک کے بعد دوسرے ملک اور خطے میں امن قائم کر رہے ہیں۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے خط وصول کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ انھیں نامزدگی کی بات معلوم نہیں تھی، انھوں نے کہا ’’آپ کا بہت شکریہ، اس کا خاص طور پر آپ کی طرف سے آنا میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔‘‘


    نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کر دیا


    نوبل انعام کے لیے یہ نامزدگی ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ٹرمپ قطر اور مصر کے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل اور حماس کو اس امر پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ایک ایسے معاہدے پر رضامند ہوں، جس کے تحت غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی ہو اور 10 زندہ یرغمالیوں کے علاوہ 18 لاشیں بھی واپس کی جا سکیں۔

    رواں برس جن دیگر شخصیات نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا ہے، اُن میں ریاست جارجیا سے ریپبلکن رکن کانگریس بڈی کارٹر بھی شامل ہیں، جنھوں نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ صدر اس اعزاز کے حق دار ہیں کیوں کہ اُنھوں نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔

    یوکرین کے رکن پارلیمنٹ اولیکساندر مریژکو نے بھی گزشتہ برس ٹرمپ کو اس اعزاز کے لیے نامزد کیا تھا، تاہم بعد ازاں اُنھوں نے کہا کہ وہ یہ نامزدگی واپس لے لیں گے۔

  • امن کا نوبل انعام 2 صحافیوں کے نام

    امن کا نوبل انعام 2 صحافیوں کے نام

    اوسلو: نوبل امن انعام 2021 کا اعلان کردیا گیا، رواں برس امن کا نوبل انعام فلپائنی صحافی ماریہ ریسا اور روسی صحافی دمتری مراتوف کو دیا جارہا ہے۔

    امن انعام دونوں صحافیوں کو آزادی اظہار کے تحفظ کی کوششوں کے لیے دیا گیا ہے۔

    امن انعام کے لیے 329 امیدوار نامزد تھے، جن میں سے 234 افراد اور 95 تنظیمیں شامل تھیں۔ امن کے نوبل انعام کا اعلان نارویجن کمیٹی کرتی ہے جب کہ باقی تمام انعامات کا اعلان سویڈش اکیڈمی کرتی ہے۔

    امن کا نوبیل انعام جیتنے والے دونوں صحافیوں کو رواں برس 10 دسمبر کو ناروے کے شہر اوسلو میں ایوارڈ اور 10 لاکھ ڈالر کی رقم دی جائے گی۔

    گزشتہ روز ادب کا نوبل انعام تنزانیہ کے ادیب عبدالرزاق گرناہ نے اپنے نام کیا تھا، کیمسٹری کا نوبل انعام جرمنی کے بینجمن لسٹ اور برطانیہ کے ڈیوڈ ڈبلیو سی میک ملن کو جبکہ فزکس کا نوبل انعام 3سائنسدانوں کو دیا گیا تھا۔

    طب 2021 کا انعام دو امریکی سائنسدانوں کو دیا گیا ہے۔

  • کیا آپ جانتے ہیں کہ نوبل امن ایوارڈ اب تک کتنی تنظیموں کو دیا گیا اور کیوں؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ نوبل امن ایوارڈ اب تک کتنی تنظیموں کو دیا گیا اور کیوں؟

    کراچی: امن کا نوبل انعام دنیا کا سب سے بڑا اور معتبر ایوارڈ تصور کیا جاتا ہے، یہ ایوارڈ ان شخصیات، اداروں اور تنظیموں کو دیا جاتا ہے جنھوں نے تنازعات کے خاتمے، امن کے قیام اور اقوام کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہو۔

    یہ انعام اب تک (1901 سے 2020 تک) 107 افراد اور 23 تنظیموں کو دیا جا چکا ہے، بین الاقوامی ریڈ کراس کو تین مرتبہ امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا جب کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کو 2 بار دیا گیا۔

    رواں سال 2020 کا امن نوبل ایوارڈ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کو دیا گیا ہے، ڈبلیو ایف پی کو جنگ زدہ علاقوں میں بھوک مٹانے میں اہم کردار ادا کرنے پر نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔

    نوبل امن کا یہ ایوارڈ سابق امریکی صدور بارک اوباما اور جمی کارٹر کے علاوہ نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ اور ملالہ یوسف زئی کو بھی دیا جا چکا ہے،اس کے علاوہ یہ باوقار ایوارڈ 23 تنظیموں کو بھی دیا گیا۔

    امن کے نوبل پرائز کا اعلان کردیا گیا

    جن تنظیموں کو یہ ایوارڈ دیا جا چکا ہے ان میں دنیا بھر کی اہم تنظیمیں شامل ہیں، جیسا کہ 2020 میں ورلڈ فوڈ پروگرام کو یہ ایوارڈ دیا گیا ہے، اس سے قبل 2017 میں انٹرنیشنل کیمپین ٹو ابالش نیوکلیئر ویپن نامی تنظیم کو یہ اعزاز دیا گیا، اور 2015 میں نیشنل ڈیلاگ کوارٹر جب کہ 2013 میں آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کمیکل ویپن کو نوبل انعام دیا گیا۔

    2012 میں یوروپین یونین، 2007 میں انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج، 2006 میں گرامین بنک، 2005 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی، 2001 میں یونائٹیڈ نیشن، 1999 میں میڈیسنس سین فرنٹیریرس، 1997 میں انٹرنیشنل کیمپین ٹو بین لینڈ مائنس اور 1995 میں پگواش کانفرنس آن سائنس اینڈ ورلڈ افیئرز کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    1988 میں یونائٹیڈ نیشنس پیس کیپنگ فورس، 1985 میں انٹرنیشنل فزیشنز فار دی پریونٹ نیوکلیئر وار، 1954 اور 1981 میں آفس آف دی یونائٹیڈ نیشنز ہائی کمشنر فار رفیوجیز، 1977 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، 1969 انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، 1965 یونائٹیڈ نیشنز چلڈرنس فنڈ کو یہ اعزاز دیا گیا۔

    جب کہ 1917، 1944 اور 1963 میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کو یہ اعزاز حاصل ہوتا رہا، 1947 میں فرینڈ سروس کونسل، 1938 میں نانسن انٹرنیشنل آفس فار رفیوجیز، 1910 میں پرمیننٹ انٹرنیشنل پیس بیورو اور 1904 میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل لا کو نوبل امن انعام دیا گیا۔

  • امن کے نوبل پرائز کا اعلان کردیا گیا

    امن کے نوبل پرائز کا اعلان کردیا گیا

    اوسلو : امن کا نوبل انعام رواں سال اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو دیا گیا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام کو ایوارڈ بھوک سے نمٹنے کی کوششوں پر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نوبیل انعام برائے امن 2020ءکا اعلان کر دیا گیا، یہ انعام اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنے نام کرلیا، ڈبلیو ایف پی کو نوبیل امن انعام جنگ زدہ علاقوں میں بھوک مٹانے میں کردار ادا کرنے پر دیا گیا۔

    امن کا نوبیل انعام اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو دینے کا فیصلہ ناروے کی نوبیل کمیٹی نے کیا ہے، اس مقابلے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، گریٹا تھنبرگ، ڈونلڈ ٹرمپ اور جیسنڈا آرڈن بھی پسندیدہ تصور کیے جا رہے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ برس امن کا نوبل انعام اتھوپیا کے وزیراعظم علی احمد ابی کو دیا گیا تھا، اس سال امن کے نوبل امن انعام کے لیے مجموعی طور پر 318 نامزدگیاں شامل تھیں جس میں 211 افراد اور 107تنظیموں کے نام جمع کرائے گئے تھے۔

    دیگرنامزدگیوں میں بلیک لائیو میٹر مومنٹ، کمیٹی تو پروٹیکٹ جرنلسٹس، رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین کو بھی شامل کیا گیا تھا، اس کے علاوہ سوئیڈن کی کم سن لڑکی گریتا تونبرگ کو بھی امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا تھا۔

  • ٹرمپ نے خود کو امن کے نوبل انعام کا اصلی حقدار قرار دے دیا

    ٹرمپ نے خود کو امن کے نوبل انعام کا اصلی حقدار قرار دے دیا

    اوہائیو : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں نوبل امن انعام کا حق دار ہوں، آبے احمد نہیں ، میں نے ایک ملک کو بڑی جنگ سے بچایا ہے، گزشتہ سال اکتوبر میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبے احمد کو امن کی کاوشوں کے اعتراف میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست اوہائیو میں ایک مہم کے دوران اپنے حمایتوں سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں آج آپ کو نوبل انعام کے بارے میں بتاتا ہوں، میں نے معاہدہ کرکے ایک ملک کو بڑی جنگ سے بچایا اور میں نے ابھی سنا ہے اس ملک کے سربراہ کونوبل انعام دیا جارہا ہے، مگر اس کا اصلی حقدار تو میں ہوں۔

    اگرچہ امریکی صدر نے خطاب میں کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ افریقی ملک ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبے احمد کی بات کررہے ہیں۔

    گذشتہ سال اکتوبر میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبے احمد کو اریٹریا اور ایتھوپیا کے درمیان دہائیوں سے جاری خونی جنگ کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کرنے اور امن کاوشوں کے اعتراف میں نوبل امن انعام کے حقدار ٹھہرایا گیا تھا۔

    آبے احمد ایتھوپیا کی تاریخ کے اب تک کے کم عمر ترین وزیراعظم ہیں، حکومت مخالف مظاہروں کے کئی مہینوں کے بعد اپنے پیشرو کے مستعفیٰ ہونے پر اپریل 2018 میں انہوں نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ آبے احمد کے 11 اکتوبر کو نوبل انعام ملنے کے اعلان کے بعد ٹرمپ نے انہیں مبارکباد تک نہیں دی تھی۔

  • عمران خان کو نوبیل پرائز دینے کا مطالبہ بھارت میں‌ بھی سامنے آگیا

    عمران خان کو نوبیل پرائز دینے کا مطالبہ بھارت میں‌ بھی سامنے آگیا

    دہلی: پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو نوبیل پرائز دینے کا مطالبہ بھارت میں‌ بھی سامنے آگیا.

    تفصیلات کے مطابق پاک بھارت کشیدگی میں عمران خان کے مثبت کردار کو جہاں ملکی و بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا، وہیں بھارت سے بھی پاکستانی وزیر اعظم کی حمایت میں  آوازیں سنائی دینے لگیں۔

    سابق بھارتی سول سرونٹ نے نہ صرف وزیر اعظم عمران خان کو امن کا نوبیل انعام دینے کا مطالبہ کیا ہے، بلکہ ڈٹ کر اس کا دفاع بھی کیا.

    سرکاری ملازمت چھوڑ کر سیاست کی سمت آنے والے کشمیری نوجوان شاہ فیصل نے اپنے موقف کا معروف بھارتی صحافی برکھادت کے پروگرام میں بھرپور انداز میں دفاع کیا.

    مزید پڑھیں: آپ دہشت گرد اکھاڑنے گئے تھے یا درخت؟ سدھو کا مودی سے چھبتا ہوا سوال

    شاہ فیصل نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پائلٹ واپس کر کے جو کام کیا، وہ برصغیرمیں کسی نے نہیں کیا، وہ بھی ایسے حالات میں، جب  ایٹمی جنگ کا خطرہ تھا۔

    شاہ فیصل نے کہا کہ یہ انسانیت اور امن کے لیے اٹھایا جانے والا اقدام تھا، جو قابل تعریف ہے اور اس کی موجودہ حالات میں‌ توقع نہیں کی جارہی تھی.

    یاد رہے کہ پاکستان نے بھارتی در اندازی کے مطابق بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا، مگر وزیر اعظم نے جذبہ خیر سگالی کے تحت اسے رہا کردیا.

  • امن کا نوبل انعام جنسی تشدد کے خلاف برسر پیکار نادیہ مراد اور ڈاکٹر ڈینس مک وگی کے نام

    امن کا نوبل انعام جنسی تشدد کے خلاف برسر پیکار نادیہ مراد اور ڈاکٹر ڈینس مک وگی کے نام

    نوبل انعام 2018 برائے امن کا اعلان کردیا گیا ہے جو رواں برس جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والے افراد نادیہ مراد اور ڈاکٹر ڈینس مک وگی کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔

    سنہ 2018 کے کیمیا، طبیعات اور طب کے انعامات کے بعد امن کے نوبل انعام کا بھی اعلان کردیا گیا۔

    رواں برس یہ انعام عراق سے تعلق رکھنے والی نادیہ مراد اور افریقی ملک کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مک وگی کو دیا جارہا ہے۔ دونوں افراد دنیا بھر میں جنگی علاقوں میں خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

    نادیہ مراد

    نادیہ مراد طحہٰ کا تعلق عراق کے اقلیتی یزیدی قبیلے سے ہے۔ خوفناکی و بربریت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والی دہشت گرد اور سفاک تنظیم داعش نے سنہ 2014 میں عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر عراقی شہر سنجار کے قریب ان کے اکثریتی علاقے پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔

    داعش کے جنگجو ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور انہیں شدید جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    نادیہ انہی میں سے ایک تھی جو خوش قسمتی سے داعش کی قید سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی، اور اب داعش کے خلاف نہایت ہمت اور حوصلے سے ڈٹ کر کھڑی ہے۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب داعش نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم مسلمان ہوجائیں۔ جب ہم نے انکار کردیا تو انہوں نے عورتوں اور بچوں کو مردوں سے علیحدہ کردیا‘۔

    نادیہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد داعش نے تمام مردوں کو ذبح کیا۔ وہ سب اپنے باپ، بھائی، بیٹوں اور شوہروں کو ذبح ہوتے دیکھتی رہیں اور چیختی رہیں۔ اس کے بعد داعش کے جنگجوؤں نے عورتوں کو اپنے اپنے لیے منتخب کرلیا۔

    وہ کہتی ہیں، ’مجھ سے ایک خوفناک اور پر ہیبت شخص نے شادی کرنے کو کہا۔ میں نے انکار کیا تو اس نے زبردستی مجھ سے شادی کی‘۔ بعد ازاں نادیہ کو کئی جنگجوؤں نے بے شمار روز تک بدترین جسمانی تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    اقوام متحدہ میں نادیہ نے اپنے دردناک دنوں کی داستان سناتے ہوئے بتایا، ’وہاں قید لڑکیوں کے لیے قانون تھا کہ جس لڑکی کے پاس سے موبائل فون برآمد ہوگا اسے 5 دفعہ زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ کئی لڑکیوں اور عورتوں نے اس ذلت اور اذیت سے بچنے کے لیے اپنی شہ رگ کاٹ کر خودکشی کرلی۔ جب جنگجو ان لڑکیوں کی لاشیں دریافت کرتے، تو وہ بقیہ لڑکیوں کو اس عمل سے باز رکھنے کے لیے لاشوں تک کی بے حرمتی کیا کرتے‘۔

    نادیہ بتاتی ہے کہ اس نے ایک دو بار داعش کی قید سے فرار کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئی اور داعش کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے برہنہ کر کے ایک کمرے میں بند کردیا تاکہ وہ دوبار بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔

    تاہم اپنی فرار کی ایک اور کوشش میں وہ کامیاب ہوگئی اور داعش کے چنگل سے نکل بھاگی۔

    وہ کہتی ہیں، ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں‘۔

    نادیہ اپنی واپسی کے بعد سے مستقل مطالبہ کر رہی ہیں کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے، داعش کی قید میں موجود خواتین کو آزاد کروایا جائے اور داعش کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے جس میں انہیں شکست ہو، اور اس کے بعد داعشی جنگجؤں کو جنگی مجرم قرار دے انہیں عالمی عدالت میں پیش کیا جائے۔

    سنہ 2016 میں نادیہ کو اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی مقرر کیا گیا جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنے پر کام کریں گی۔

    نادیہ کو یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف پرائز سے بھی نوازا گیا۔

    ڈاکٹر ڈینس مک وگی

    کانگو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینس مک وگی نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ کانگو میں جنسی تشدد کا شکار خواتین کے لیے کام کرتے ہوئے گزارا ہے۔

    وہ ڈاکٹر بھی ہیں اور انہوں نے کئی افریقی ممالک میں اس اندوہناک صدمے سے گزرنے والی خواتین کا علاج بھی کیا ہے۔

    ڈاکٹر ڈینس مک وگی پنزی اسپتال اور پنزی فاؤنڈیشن کے بھی بانی ہیں۔ سنہ 2014 میں انہیں بھی سخارووف پرائز سے نوازا جا چکا ہے۔

  • جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنے والی عالمی مہم نے امن کانوبل انعام جیت لیا

    جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنے والی عالمی مہم نے امن کانوبل انعام جیت لیا

    اوسلو : جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنے والی عالمی مہم  آئی سی اے این نے امن کانوبل انعام جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ناورے کی نوبل امن کمیٹی اس سال کا امن نوبل انعام پانے والے کا اعلان کردیا ،اس برس امن کا نوبل انعام جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے چلائی جانے والی ایک بین الاقوامی مہم آئی سی اے این کے نام رہا ۔

    ناورے کی نوبل کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے چلائی جانے والی اس بین الاقوامی مہم آئی سی اے این کے تحت جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے ہونے والے تباہ کن اثرات کی جانب توجہ دلائی گئی۔

    نوبل کمیٹی نے امن کا نوبل انعام دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، طویل عرصے بعد ایک بار پھر دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بڑھ گیا ہے، کچھ ممالک ہیں جو اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنا رہے ہیں، جس کی مثال شمالی کوریا بھی ہے۔

    اس سے قبل کہا جارہا تھا کہ اس سال نوبل انعام شامی رضا کار تنظیم ’وائٹ ہیلمٹ‘ کو دیا جانے کا امکان ہے جبکہ ایسے امکانات بھی تھے کہ یہ انعام ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کو دیا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری ڈیل ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    امن کا نوبل انعام جیتنے کے بعد آئی سی اے این کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے ہماری جدوجہد پر امن کا نوبل انعام ہمارے لیے عزت کا باعث ہے۔

    خیال رہے دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی عالمی مہم آئی سی اے این دنیا کے 100ممالک سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد کا نام ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • آنگ سانگ سوچی سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ، آن لائن پیٹیشن پر3 لاکھ سے زائد افراد کے دستخط

    آنگ سانگ سوچی سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ، آن لائن پیٹیشن پر3 لاکھ سے زائد افراد کے دستخط

    میانمار : امن کا نوبیل انعام پانے والی میانمارکی رہنما آنگ سانگ سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کا مطالبہ زورپکڑنے لگا، دوسری جانب مختلف ملکوں میں روہنگیا مسلمانوں کے حق میں مظاہرے جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امن کا نوبل انعام پانے والی آنگ سانگ سوچی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کیخلاف آواز اٹھانے کے بجائے خاموش ہیں آنگ سانگ سوچی کی خاموشی پرلوگ خاموش نہ رہ سکے۔

    آن لائن پیٹیشن میں سوچی سے نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ کردیا، سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کی پیٹیشن پراب تک تین لاکھ سے زائد افراد دستخط کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    دوسری جانب روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مختلف ملکوں میں احتجاج کیا جارہا ہے، بھارت کے شہر کولکتہ میں مظاہرین نے برتن اور پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کیا۔

    انڈونیشیامیں مظاہرین نے میانمار کے سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔

    انڈونیشیا کی وزیرخارجہ نے آنگ سانگ سوچی سے ملاقات کی اور روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام رکوانے کیلئے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔


    مزید پڑھیں : برما: 7 دن میں 400 روہنگیا مسلمان قتل، 40 ہزار گھروں کو چھوڑ گئے


    یاد رہے کہ اگست میں میانمار حکومت کی جانب سے اگست میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا، فسادات میں برما کی آرمی اور بودھوں نے 400 سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو قتل کردیا، 87000روہنگیا بنگلہ دیش ہجرت کرنے پرمجبور ہوئے جبکہ 2800گھرجلا دئیے گئے۔

    میانمارحکومت نے اقوام متحدہ کی امداد بھی روک لی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔