Tag: #noconfidencemotion

  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف قرارداد عدم اعتماد نمٹا دی گئی، اجلاس ملتوی

    اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف قرارداد عدم اعتماد نمٹا دی گئی، اجلاس ملتوی

    لاہور: اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف قرارداد عدم اعتماد نمٹا دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق آج اتوار کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس پینل آف چیئرمین وسیم بادوزئی کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس شروع ہوتے ہی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف قرارداد کا ذکر کیا گیا۔

    اجلاس میں ن لیگ اور اتحادیوں کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث تحریک پر بات نہیں کی گئی، پینل آف چیئرمین نے حکومتی اتحاد کی جانب سے جواب نہ ملنے پر تحریک نمٹا دی۔

    پولیس نے پنجاب اسمبلی کا کنٹرول سنبھال لیا

    چیئرمین پینل نے تحریک عدم اعتماد کے محرک کو بار بار پکارا تاہم تحریک کے محرک سامنے نہ آنے پر قرارداد نمٹا دی گئی، اور ن لیگی ارکان کے ایوان میں داخل ہوتے ہی اجلاس 6 جون تک ملتوی کر دیا گیا۔

    واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس کے لیے سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی، جب کہ اسمبلی ملازمین کو بھی ایوان کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

    پنجاب اسمبلی: 4 ڈی سیٹ ارکان کی جگہ نئے رکن حلف اٹھا سکتے ہیں، ذرائع

    ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن نے طے کیا تھا کہ پہلے مرحلے میں میڈیا کو ساتھ لے کر 15 سے 20 ارکان پنجاب اسمبلی جائیں گے، کیوں کہ اطلاعات ہیں کہ اسمبلی کے اندر کچھ غیر متعلقہ افراد موجود ہیں، تاہم جیسے ہی ن لیگی ارکان ایوان میں داخل ہوئے پینل آف چیئر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔

  • پرویز الہٰی، دوست مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمل درآمد نہ ہو سکا

    پرویز الہٰی، دوست مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمل درآمد نہ ہو سکا

    لاہور: پنجاب میں نئے آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمل درآمد تاحال نہیں ہو سکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قواعد و ضوابط کے تحت 3 دن، اور 7 دن میں تحریک عدم اعتماد پر عمل کرنا ہوتا ہے، لیکن 10 روز گزرنے کے باوجود عدم اعتماد کی دونوں تحریکوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔

    خیال رہے کہ اسمبلی رولز پروسیجر کے تحت عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے۔

    دوست مزاری کے خلاف 6 اپریل اور پرویز الہٰی کے خلاف 7 اپریل کو تحریک جمع کرائی گئی تھی، ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے خلاف پی ٹی آئی جب کہ اسپیکر پرویز الہٰی کے خلاف ن لیگ نے تحریک جمع کروائی۔

    ڈپٹی اسپیکر نے 18 اپریل کو اجلاس طللب کر کے اسے منسوخ کر دیا تھا، پی ٹی آئی اور ن لیگ نے تحریک پر عمل درآمد نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • بڑی خبر: اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے استعفیٰ دے دیا

    بڑی خبر: اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے استعفیٰ دے دیا

    اسلام آباد: تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے حکومت نے تُرپ کا پتہ کھیل دیا۔

    ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔

    قومی اسمبلی اجلاس کے چوتھی بار آغاز پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اجلاس کےدوران مجھے وفاقی کابینہ کی جانب سے  خفیہ دستاویزات بھجوائی گئیں,  خط سے حکومتی مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔

    اسد قیصر نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے، سب سےپہلےملک کاسوچناہے، عمران خان نےاسٹینڈ لیا ہے،خوددارقوم کیلئے زندگی گزاریں گے۔

    ا نہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کیساتھ اپنی زندگی کا لمباعرصہ گزارا ہے، آئین اورحلف کاپابندہوں، حلف کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔

     اسدقیصر نےکہا  کہ ہم نے ملک کےتحفظ کاحلف اٹھایاہواہے، آئین کاپابندہوں اور اسی کے تحت حلف اٹھایاہواہے۔ فیصلہ کرتاہوں کہ اسپیکر کےعہدے سےمستعفی ہوتا ہوں ۔

    واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کے اہم ترین اجلاس کے بعد اسپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیراعظم ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کی، جس میں کابینہ اراکین کی منظوری کی روشنی میں عمران خان نے دھمکی آمیز خط اسد قیصر سے شیئر کیا تھا۔

    ملاقات ختم ہونے کے بعد اسد قیصر پارلیمنٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے تو وزیراعظم نے انہیں دوبارہ طلب کیا، جس پر وہ فوراً واپس پہنچے، اس دوران ڈپٹی اسپیکر بھی وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور بعد ازاں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔

  • کابینہ اجلاس: دھمکی آمیز خط اہم ملکی شخصیات سے شیئر کرنےکی منظوری

    کابینہ اجلاس: دھمکی آمیز خط اہم ملکی شخصیات سے شیئر کرنےکی منظوری

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اہم ترین اجلاس میں دھمکی آمیز خط اہم ملکی شخصیات سے شیئر کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

    ذرائع کے مطابق یہ اہم ترین فیصلہ وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا، وفاقی کابینہ نے اس کی متفقہ منظوری دے دی ہے۔

    فیصلے کے تحت اسپیکر، چیئرمین سینیٹ اور چیف جسٹس سے دھمکی آمیز خط شیئر کیا جائے گا، یہ پہلا موقع ہوگا جبکہ کسی آفیشل سیکریٹ کو اہم شخصیات سے شیئر کیا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد دھمکی آمیز خط کو ڈی کلاسیفائیڈ کیا جائے گا۔

    دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے اہم ترین ملاقات جاری ہے، ملاقات میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے متعلق طریقہ کار کو وضع کررہے ہیں۔

    وزیراعظم عمران خان کا پارلیمنٹ ہاؤس آمد کا امکان

    ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا ابھی پارلیمنٹ ہاؤس آمد کا امکان ہے، پارلیمنٹ میں وزیراعظم عمران خان چیمبر کھول دیا گیا ہے اور چیمبر کی سیکورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ مراسلہ ایک سائفر پیغام تھا جو ٹاپ سیکریٹ ہوتا ہے، میڈیا کو مراسلہ نہیں دے سکتا ہوں کیونکہ اس میں کوڈ ہوتا ہے، مراسلہ منظرعام پر لائے تو دنیا کو ہمارے کوڈ کا پتا چل جائے گا۔

  • ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’، عوام نے فیصلہ سنادیا ؟

    ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’، عوام نے فیصلہ سنادیا ؟

    اسلام آباد: ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’، امریکی مداخلت کیخلاف عوام نے تاریخی احتجاج ریکارڈ کرادیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر آج ووٹنگ ہونے جارہی ہے، جس کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، اس وقت نماز عشا کا وقفہ ہے۔

    ایک طرف عوامی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جارہی ہے تو دوسری جانب عوام نے بھی اس پر سخت ردعمل دے دیا ہے، اس وقت ٹوئٹر پر ‘ امپورٹڈ حکومت نامنظور’ ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔

     

    امریکی مداخلت کیخلاف آن لائن احتجاج کےذریعےٹوئٹر پر ٹوئٹس کی بھرمار ہے اس آن لائن احتجاج پر چودہ لاکھ سے زائد افراد نے احتجاج ریکارڈ کرادیا ہے۔

    امپورٹڈ حکومت نامنظور کے ٹرینڈز پر عوام کی جانب سے سخت ردعمل بھی دیا جارہا ہے اور وہ اپوزیشن رہنماؤں کی تصاویر کو بطور میمز بناکر اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔

    عوام الناس کی جانب سے کئے گئے کچھ ٹوئٹس

    https://twitter.com/Sufia__J/status/1512806760737820678?s=20&t=vWV5_XC9MCVA5Rj0gEwoYw

  • کیا سپریم کورٹ اور عدلیہ میں تمام فیصلے اچھے ہوتے ہیں؟ اسد عمر کا سوال

    کیا سپریم کورٹ اور عدلیہ میں تمام فیصلے اچھے ہوتے ہیں؟ اسد عمر کا سوال

    اسلام آباد: پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کے معاملے میں دخل اندازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اگر غلط فیصلہ کیا تو کیا سپریم کورٹ اور عدلیہ میں تمام فیصلے اچھے ہوتے ہیں؟

    تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ کے حکم پر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بلائے گے قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے فوری ووٹنگ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاہم ووٹنگ تاخیر کا شکار ہے۔

    اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا سپریم کورٹ کی بہت عزت ہے، یہ جمہوری نظام کا اہم ستون ہے، ہم جمہوریت کے ماننے والے ہیں تو پارلیمانی سپریمسی کو بھی ماننے والے ہیں، ان کی بات اگر مان لیتے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر نے غلط فیصلہ کیا، کیا سپریم کورٹ اور عدلیہ میں تمام فیصلے اچھے ہوتے ہیں؟

    اسد عمر نے کہا کیا سپریم کورٹ کے فیصلوں کو جوڈیشل مرڈر نہیں کہاگیا، کیا یہ درست ہوتا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے کام میں مداخلت کرے، سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کے معاملے میں دخل اندازی ہے۔

    انھوں نے کہا کیا یہ درست ہوتا پارلیمان سپریم کورٹ کے ججز کے آنے اور جانے کا فیصلہ کرتی، کیا یہ درست ہوتا کہ پارلیمان فیصلہ کرتا کون سا کیس کب لگنا ہے، یہ فیصلہ کرنا ہوگا پارلیمان کا اختیار کسی کو لینے کا اختیار نہیں، جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پارلیمان کی سپریمسی کا یقین ہونا ضروری ہے۔

  • رولنگ صحیح ہے یا نہیں اس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کرنی ہے: شاہ محمود

    رولنگ صحیح ہے یا نہیں اس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کرنی ہے: شاہ محمود

    اسلام آباد: سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر کی رولنگ صحیح ہے یا نہیں اس کی تشریح اعلیٰ عدلیہ نے کرنی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بدھ کو پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود نے کہا کہ رولنگ درست ہے یا نہیں وہ الگ تفصیل ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کہا جو انفارمیشن آئی اس پر تحریک کو ڈس الاؤ کرتا ہوں، اب سپریم کورٹ میں اس پر کارروائی چل رہی ہے۔

    انھوں نے کہا اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ آئین شکنی ہو گئی، پی ٹی آئی کو آئین کی اہمیت کا احساس ہے، آئین کی پاسداری احترام لازم تھا، ہے اور رہے گا، آئین سے ہٹ کر کچھ کرنا ہماری حکمت عملی تھی، ہے، نہ ہوگی۔

    شاہ محمود نے کہا عدم اعتماد پیش کرنااپوزیشن کا حق ہے تسلیم کرتے ہیں، اپوزیشن نے عدم اعتماد پیش کی، پروسس ہوتے ہوئے ووٹنگ کے لیے مقرر ہو گیا، عدم اعتماد پر 3 اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی، لیکن ڈپٹی اسپیکر کے سامنے جب حقائق آئے تو یہ معمولی چیز نہیں تھی، ڈپٹی اسپیکر نے حقائق سامنے آنے پر کہااس کی چھان بین ضروری ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما نے واضح کیا کہ عدم اعتماد سے انکار نہیں اس پر عمل ہوگا، عدم اعتماد منطقی انجام تک پہنچانے میں ڈپٹی اسپیکر نے انکار نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے بلاوجہ رولنگ نہیں دی، آئینی ذمہ داری سے پہلے قومی سلامتی کے مفاد میں ان ایشوز پر تہہ تک جانا ہوگا، اعلیٰ عدلیہ تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا فارن آفس میں جو سفارت کار ہیں پروفیشنل اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں، ان کی ایمانداری پر نہ شبہ تھا اور نہ ہوگا، اپنے سفارت کاروں کو بلاوجہ انڈرمائن نہ کریں۔

    شاہ محمود نے کہا اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سفیر کو عجلت میں امریکا سے ہٹا کر برسلز پوسٹ کر دیا گیا، وہ سفیر منجھے ہوئے سفارت کار اور اپنا ٹنیور مکمل کر چکے تھے، ٹنیور مکمل ہونے کے باعث ان کا تبادلہ ضروری تھا، ہم نے سفیر کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے برسلز تبادلہ کیا۔

  • کویتی حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل مستعفی

    کویتی حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل مستعفی

    کویت: کویتی حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل مستعفی ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کویت کی حکومت نے منگل کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل استعفیٰ دے دیا۔

    سرکاری خبر رساں ایجنسی کونا نے رپورٹ کیا کہ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ سے پہلے، حکومت نے ایک ایسے وقت میں استعفیٰ پیش کیا ہے جب ایک طویل سیاسی تنازع نے خلیجی تیل پیدا کرنے والے ممالک میں مالیاتی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔

    وزیر اعظم شیخ صباح الخالد کی جانب سے حکومت کا استعفے کا خط ولئ عہد الشيخ مشعل الأحمد الجابر الصباح کو موصول ہو گیا ہے، جنھوں نے گزشتہ سال کے اواخر میں حکمران امیر کے فرائض سنبھالے تھے۔

    کویت کے نئے وزیراعظم کی تقرری

    شیخ صباح، حکمران الصباح خاندان کے رکن اور 2019 کے اواخر سے وزیر اعظم ہیں، ان کو کابینہ کے سربراہ کے طور پر مسلسل ایک متحارب مقننہ کا سامنا کرنا پڑا ہے، انھیں حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے مبینہ بدعنوانی سمیت دیگر مسائل پر تابڑ توڑ سوالات کا سامنا ہے۔

    عدم اعتماد کا ووٹ بدھ کو ہونا تھا۔ موجودہ حکومت کی تقرری دسمبر میں عمل میں آئی تھی، یہ منتخب پارلیمنٹ کے ساتھ جاری تعطل کے درمیان 2021 میں تیسری حکومت تھی۔

    امیر کویت نے وزیراعظم اور کابینہ کے استعفے منظور کر لیے

    واضح رہے کہ کویت نے اپنی اسمبلی کو دیگر خلیجی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ اثر و رسوخ دیا ہے، جس میں قانون پاس کرنے اور روکنے، وزرا سے سوال کرنے اور اعلیٰ سرکاری اہل کاروں کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اختیار شامل ہے۔

    کویت میں مستقل سیاسی تنازعات کی وجہ سے اکثر کابینہ میں رد و بدل یا پارلیمنٹ کی تحلیل، ملک میں سرمایہ کاری اور مالیاتی و اقتصادی اصلاحات کو روکتی رہی ہے۔ فروری میں دفاع اور داخلہ کے وزرا، جو کہ حکمران خاندان کے افراد بھی تھے، نے اس بات پر استعفیٰ دے دیا تھا کہ بقول ان کے وزرا سے ‘ظالمانہ’ پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

  • 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مخدوم علی خان کے دلائل

    8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مخدوم علی خان کے دلائل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسپیکر رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران آج منگل کو مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

    مخدوم علی خان نے کہا 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ پر ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی تھی، 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کی اجازت دی، اور مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی، رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، لیکن اکتیس مارچ کو قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی۔

    مخدوم نے کہا 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی، لیکن 3 اپریل کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا، یہ مقدمہ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا ہے، معاملہ اسمبلی قواعد پر عمل درآمد کا نہیں بلکہ آئین کی خلاف ورزی کا ہے، اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعظم کا رہنا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سوال یہ ہے کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کا اختیار تھا؟ وزیر اعظم اکثریت کھو دے تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، وکیل ن لیگ نے کہا رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں، آرٹیکل 69 بے ضابطگیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتا، جسٹس منیب نے کہا ووٹنگ پروسیجر سیکنڈ شیڈول میں آتا ہے کیا آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں؟ وکیل نے کہا پارلیمانی کارروائی میں بے ضابطگی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے، لیکن اسپیکر کی غیر آئینی رولنگ کو آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    انھوں نے کہا کوئی قواعد و ضوابط آئین سے ماورا نہیں ہو سکتے، جسٹس منیب اختر نے کہا ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق 7 دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، کسی وجہ سے ووٹنگ 8 ویں دن ہو تو کیا غیر آئینی ہوگی؟ مخدوم علی خان نے کہا 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ پر ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔

    وکیل نے آئینی تحفظ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی، ججز کنڈکٹ پر بات نہ کرنا آئین اور اسمبلی قواعد کا حصہ ہے، اسمبلی کے رولز آئین پر عمل درآمد کے لیے بنائے گئے ہیں، ججز کنڈکٹ پر بات کرنے والا رکن آرٹیکل 68 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا، آئین کی خلاف ورزی کرنے والے رکن کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

    انھوں نے کہا اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، اسمبلی رولز آئین کے آرٹیکل 95 سے بالاتر نہیں ہو سکتے، ڈپٹی اسپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جسٹس منیب نے کہا آرٹیکل 95 میں صرف عدم اعتماد اور اس پر ووٹنگ کا ذکر ہے، جب کہ عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے۔

    وکیل نے کہا کیا ایسا ممکن ہے کہ اسپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیر اعظم کے خلاف ہو، اور اسپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے وجوہ دیکھی جا سکتی ہیں؟ وکیل نے بتایا تحریک عدم اعتماد کے لیے وجوہ بتانا ضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اعجاز نے نکتہ اٹھایا کہ 20 فی صد لوگ قرارداد جمع کرائیں کیا اتنے ہی اسے پیش کرنے کے لیے بھی کافی ہیں، وکیل نے کہا جی نہیں قرارداد پیش کرنے کے لیے اکثریت درکار ہوتی ہے، جسٹس منیب نے استفسار کیا عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کے لیے 20 ارکان کا ہونا ضروری ہے، اگر 20 فی صد منظوری دیں مگر موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پرووٹنگ ضروری ہے، چیف جسٹس نے کہا آئین کو رولز کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔

    وکیل نے کہا رولنگ آرٹیکل 95 کے منافی ہے، یہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، وزیر اعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے، وکیل نے کہا اسپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے، جسٹس جمال نے استفسار کیا کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ وکیل نے کہا غیر آئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائیڈ لائن نہیں کر سکتا، اس پر جسٹس جمال نے کہا ہمیں مطمئن کریں کہ رولنگ صرف قواعد کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ آئین کی بھی ہے۔

    مخدوم علی نے کہا آئین فرد واحد کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی قرارداد پر ووٹنگ روک دے، عدالت غیر قانونی، غیر آئینی اقدام پر جوڈیشل نظر ثانی کر سکتی ہے، جسٹس منیب نے کہا قومی و صوبائی اسمبلی کے اسپیکرز اپنے ایوان کے ماسٹرز ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہم نے اسپیکر کی رولنگ کو دیکھنا ہے کیا انھیں استثنیٰ ہے کہ نہیں، یہ ہماری روایت نہیں کہ ہم ریاست اور فارن پالیسی ترتیب دیں، ہم نے معاملے کو آئینی اور قانونی طور پر دیکھنا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔

  • اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کے اجلاس کی صدارت کیوں نہیں کی؟

    اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کے اجلاس کی صدارت کیوں نہیں کی؟

    اسلام آباد: اسپیکر کے قریبی حلقے نے اس سوال، کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کے اجلاس کی صدارت کیوں نہیں کی؟ یہ جواب دیا ہے کہ اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی تھی جس پر انھوں نے اجلاس کی صدارت نہیں کی۔

    پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر اسد قیصر نے ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی کارروائی بڑھانے کی ہدایت کی تھی، تحریک عدم اعتماد ابھی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی، اس لیے ایوان کے تقدس کی خاطر اسپیکر قومی اسمبلی نے صدارت نہ کی۔

    جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا اسپیکر کو آرٹیکل 5 کے آپشن کو دوران اجلاس زیر غور لانے کا مشورہ دیا گیا؟ تو اسپیکر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ قانونی و آئینی ماہرین آپشنز پر غور کرتے اور مشورے دیتے ہیں، یہ معمول کی بات ہے، اچھنبے کی بات نہیں۔

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    ذرائع نے کہا کہ اسپیکر واضح کر چکے تھے کہ اجلاس کو آرٹیکل 5، ضابطہ 37 کے مطابق چلایا جائے گا، اسپیکر قواعد و ضوابط کے تناظر میں اجلاس کی کارروائی بڑھانے کے لیے کمٹڈ رہے ہیں۔

    انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اجلاس سے قبل اسپیکر چیمبر میں مشاورت ہوئی تھی، اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا تھا، اب جب کہ رولنگ، اس سے جڑے معاملات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں، اس لیے ان پر مزید بات نہیں کی جا سکتی۔