بھارت کے نوئیڈا میں ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانے والے افراد کے خلاف پولیس نے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گوتم نگر پولیس ڈپارٹمنٹ نے ہیلمٹ نہ پہننے والے افراد کے خلاف دلچسپ طریقہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیلمٹ نہیں تو پیٹرول نہیں۔
رپورٹس کے مطابق روڈ سیفٹی کو فروغ دینے کے لیے ایک جرات مندانہ اقدام کے طور پر گوتم بدھ نگر پولس ڈپارٹمنٹ نے ”نو ہیلمٹ – نو پیٹرول“ مہم شروع کی ہے۔
ضلع کے مختلف پیٹرول پمپوں پر یہ مہم جاری ہے، تاکہ موٹر سائیکل چلانے والوں میں ہیلمٹ پہننے کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کی جا سکے۔
گزشتہ روز ٹریفک پولیس کے افسران نے آگاہی مہم کے سلسلے میں متعدد پیٹرول پمپس کا دورہ کیا، مہم کے دوران ملازمین کو اس اقدام کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور ضروری ہدایات دی گئیں۔
موٹر سائیکل سواروں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ہیلمٹ پہنیں اور اپنی حفاظت کے لیے ٹریفک قوانین کی پابندی کریں۔ پولیس نے یہ بھی خبردار کیا کہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ضروری قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بھارت کے نوئیڈا میں مہم کے ایک حصے کے طور پر، موٹر سائیکل سواروں کو یاد دلایا گیا کہ ہیلمٹ کے بغیر کسی کو پیٹرول نہیں دیا جائے گا، یہ ایک اصول ہے جس کا مقصد جانوں کی حفاظت ہے۔
ٹریفک پولیس کے افسر کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد موٹر سائیکل سواروں کو حفاظتی سامان کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ ٹریفک کے ضوابط کی تعمیل کریں۔
نوئیڈا: بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر نوئیڈا میں مسلمانوں کے خلاف ایک اور بھیانک ’’ہیٹ کرائم‘‘ سامنے آیا ہے، دو ہندوؤں نے ایک مسلمان کو چاقو مار کر موٹرسائیکل سے باندھا اور راستے میں گھسیٹ کر لے گئے۔
تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، جن میں نوئیڈا کے ایک مسلمان شہری مہندی حسن کے قتل اور راستے میں موٹرسائیکل سے باندھ کر گھسیٹے جانے کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق اس وحشیانہ واقعے میں دو افراد نے مہندی حسن کو پہلے چاقو سے شدید زخمی کر دیا، پھر موٹر سائیکل سے باندھا اور برولا گاؤں میں راستوں میں بے رحمی سے گھسیٹنے لگے، جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔
نوئیڈا پولیس نے نفرت پر مبنی اس خوف ناک جرم کو پرانی دشمنی کا شاخسانہ قرار دیا، قاتل ہندو مہندی حسن کو بائیک سے باندھ کر گھسیٹتے ہوئے خود پولیس تھانے لے گئے تھے، پولیس کے مطابق مہندی حسن کو تھانے سے شدید زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا تھا جہاں وہ جاں بر نہ ہو سکا۔
ایڈیشنل ڈی سی پی نوئیڈا منیش کمار مشرا کے مطابق دونوں قاتل بھائی ہیں جن کی شناخت انوج اور نتن کے ناموں سے ہوئی ہے، ان کی مقتول کے ساتھ پرانی دشمنی تھی، انوج نے پولیس کو بتایا کہ مہندی حسن نے 2018 میں ان کے والد کو قتل کرنے کی کوشش میں چاقو سے زخمی کر دیا تھا، جس کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔
پولیس نے دونوں قاتل بھائیوں کو گرفتار کر لیا اور جب آلہ قتل برآمد کرنے کے لیے مطلوبہ مقام پر انھیں لے جایا گیا تو انھوں نے پولیس والوں پر حملہ کر کے فرار ہونے کی کوشش کی، جس پر انکاؤنٹر میں دونوں قاتل گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے۔ پولیس نے دونوں کے خلاف قتل اور پولیس حراست سے فرار کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
نئی دہلی : سال 2006میں ہونے والی 17 بچوں اور خواتین کے سفاکانہ قتل کی ہولناک واردات بھارت کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہے جسے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شائع کیا گیا۔
قتل کی یہ بھیانک واردات نئی دہلی سے متصل علاقے نوئیڈا کے ایک پسماندہ نٹھاری گاؤں میں ہوئی، جہاں مختلف مقامات سے خواتین اور بچوں کی ہڈیوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے تھے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باجود مقتولین کے لواحقین کو آج تک انصاف نہ مل سکا۔
بھارتی میڈیا میں اسے بدنام زمانہ نٹھاری کیس کا نام سے لکھا جاتا ہے جو بھارت میں اب تک ہونے والے بڑے اور ہولناک جرائم میں سے ایک ہے۔ اس مقدمے نے اپنے سفاکانہ اور خطرناک نوعیت کے جرائم کی وجہ سے میڈیا میں سرخیوں میں جگہ بنائی، یہ کیس سال 2005 اور 2006 کے دوران نٹھاری گاؤں سے چھوٹے بچے بچیوں اور نوعمر افراد کے مسلسل لاپتہ ہونے کے بعد منظر عام پر آیا۔
ابتدائی تحقیقات میں گاؤں کے رہائشی مونیندر سنگھ پنڈھر نامی تاجر کے بنگلہ نمبر فائیو ڈی کا سراغ ملا جس کے بعد گاؤں سے لاپتہ ہونے والے بچوں اور بڑوں کی گمشدگی کا معمہ بالترتیب کھلتا چلا گیا۔
مونیندر سنگھ پنڈھر شخص اس بنگلے میں اپنے ملازمین کے ساتھ رہائش پذیر تھا، اس کا خاص ملازم سریندر کولی تھا جو اس مقدمے میں مونیندر سنگھ کے ساتھ نامزد ملزم ہے۔
پہلا کیس :
فروری 2005 میں رمپا ہلدر نامی 14 سالہ لڑکی 8 فروری 2005 کو لاپتہ ہوئی اس کے والدین نے بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کرانے کی کوشں کی لیکن پولیس نے کوئی اہمیت نہ دی۔
اس واقعے کے تقریباً دو ماہ بعد مارچ 2005 میں کرکٹ کھیلنے والے کچھ لڑکوں کو ڈی فائیو بنگلے کے عقب میں واقع نالے میں سے پلاسٹک کے تھیلے میں ایک انسانی ہاتھ ملا، معاملے کی اطلاع پولیس کو دی گئی جس نے ہاتھ کو جانور کی لاش قرار دیتے ہوئے گاؤں والوں سے کہا کہ وہ اس واقعہ کو بھول جائیں۔
7مئی 2006 کو پائل نامی ایک لڑکی نے اپنے والد نند لال کو اس بنگلے کے بارے میں بتایا لیکن اس کے بعد وہ بھی لاپتہ ہوگئی۔ اس کے والد اسے تلاش کرتے ہوئے مذکورہ بنگلے میں گئے۔
مونیندر سنگھ پنڈھر اس روز بنگلے میں موجود نہیں تھا، ملازم کولی نے پائل کے والد کو اس بارے میں کچھ جاننے سے انکار کیا۔ نند لال اپنی لاپتہ بیٹی کی شکایت درج کرانے پولیس کے پاس گئے لیکن پولیس نے اس کی شکایت درج کرنے سے انکار کردیا۔ بچی کا والد ایک ماہ تک پولیس اور بنگلے کے چکر لگا رہا اور آخرکار اس نے جون 2006 کو نوئیڈا کے اس وقت کے ایس ایس پی سے مدد کے لیے رابطہ کیا۔
ایس ایس پی کے حکم پر پولیس نے نند لال کی اپنی بیٹی کی گمشدگی کی شکایت درج کرکے باقاعدہ تفتیش شروع کردی۔ تحقیقات کے دوران پولیس اس حقیقت کو تلاش کرنے میں کامیاب رہی کہ پائل کا موبائل فون ابھی تک کسی کے استعمال میں تھا اور اس کی لوکیشن ٹریس کی۔
موبائل لوکیشن ٹریس ہونے کے بعد پولیس کو پہلی کامیابی ملی جہاں سے جرم کے ہونے کی ابتدا کا علم ہوا، مغویہ پائل کے نمبر سے کی گئی کال چیک کی گئی جو پولیس کو ملازم کولی تک لے آئی، جس نے اسے لاپتہ ہونے سے ایک دن پہلے فون کیا تھا۔
پولیس نے مزید تفتیش کے لیے کولی کو گرفتار کرلیا لیکن پنڈھر نے اسے جلد ہی رہا کرالیا۔ پولیس کوئی قابل ذکر ثبوت تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی لیکن اس کیس میں کولی اب بھی مرکزی ملزم تھا۔
بعد ازاں مغویہ کے باپ نند لال نے 7 اکتوبر 2006 کو پھر عدالت سے رجوع کیا، جس پر عدالت نے پولیس کو کیس کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس کو بنگلے کے عقب میں واقع نالے سے انسانی ڈھانچوں سے بھرے پلاسٹک کے بہت سے تھیلے ملے۔
جس کے بعد بنگلے کے مالک پنڈھر اور اس کے نوکر کولی کو 29 دسمبر2006 کو گرفتار کرلیا گیا۔30 دسمبر 2006کو نالے سے مزید ڈھانچے نکالے گئے، صرف ڈھانچوں کی برآمدگی انہیں قاتل ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں تھی۔
اس واقعے نے پورے ملک میں سنسنی پیدا کردی اور لوگ انصاف کا مطالبہ کرنے لگے، عوامی غصے کے دباؤ میں اتر پردیش حکومت نے 11 جنوری 2007 کو یہ کیس سی بی آئی کو سونپ دیا۔
ملزم کولی کا اعتراف جرم
دوماہ کی پولیس حراست کے بعد سی بی آئی کو بھی کولی کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا، تاہم کچھ دنوں بعد سی بی آئی نے مجسٹریٹ کو 27 فروری 2007 کو کوہلی کا اعترافی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے درخواست دی کہ وہ اعتراف کرنے کے لیے تیار ہے۔
ملزم کولی نے مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تفصیلی بیان دیا کہ کس طرح اس نے متاثرین (9 لڑکیاں، 2 مرد بچے اور 5 بالغ خواتین) کو لالچ میں گھر میں بلا کر ان کا قتل کیا اور ان کی لاشوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد لاشوں کو کاٹ کر کھاگیا اور جسم کی باقیات کو بنگلے کے عقب میں نالے میں پھینک دیا۔
ملزم کولی کے مطابق اس نے یہ تمام قتل صبح 9 بجے سے شام 4 بجے کے درمیان ڈرائنگ روم میں کیے تھے۔ ہر قتل کے بعد وہ لاش کو اوپر باتھ روم میں لے جاتا اور اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیتا تھا، مقتولین کے جسم کے کچھ اعضاء پکا کر کھانے کے بعد ہی باتھ روم اور ڈرائنگ روم کی صفائی کرتا۔
یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ کسی بھی قتل میں ایک بار بھی نہ پنڈھر اور نہ ہی اس کے کسی اور ملازم نے اسے دیکھا اسی بات کے سبب مقدمے کی سماعت میں کسی کو بطور گواہ نہیں بلایا گیا۔
ملزمان کو پھانسی کی سزا سنا دی
29دسمبر سال 2006 کو مذکورہ مقدمے میں بنگلے کے مالک مونیندر سنگھ پنڈھر اور اس کے نوکر سریندر کولی کو مرکزی ملزم کے طور پر باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا۔
13فروری سال2009 کولی کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے کئی متاثرین میں سے ایک رمپا ہلدر کی عصمت دری اور قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔
10ستمبر کو پنڈھیر اور کولی کو ٹرائل کورٹ نے موت کی سزا سنائی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے پنڈھر کو بری کر دیا لیکن کوہلی کی سزائے موت کی توثیق کردی۔
سزائے موت کو کالعدم قرار
7جنوری سال 2010 کو سپریم کورٹ نے کوہلی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیا لیکن کیس بتدریج چلتا رہا اور 20جولائی سال 2014 کو کوہلی کی رحم کی درخواست کو سابق صدر پرناب مکھرجی نے مسترد کردیا۔
8ستمبر کو عدالت نے ایک بار پھر کولی کی پھانسی کے عمل کو رات 1 بجے روک دیا جسے 12 ستمبر کو میرٹھ جیل میں پھانسی دی جانی تھی۔12ستمبر کو سپریم کورٹ نے کوہلی کی پھانسی روکنے کا عبوری حکم روک کر سزا 29 اکتوبر تک بڑھا دی۔
بعد ازاں 28اکتوبر کو چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے نظرثانی کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی غلطی نہیں کی۔
29جنوری سال 2015 کو چیف جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس بگھیل پر مشتمل ایک ڈویژن بنچ نے کولی کی سزائے موت پر عمل پھر روک دیا۔ ان کی طرف سے بیان کردہ وجہ یہ تھی کہ رحم کی درخواست پر فیصلہ کرنے میں غیر معمولی تاخیر کے پیش نظر یہ غیر آئینی ہوگا۔
یہ حکم پیپلز یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس نامی ایک این جی او کی طرف سے دائر کی گئی ایک اپیل کے بعد آیا جس کا دعویٰ تھا کہ آئین کے مطابق کولی کی رحم کی درخواست کو نمٹانے میں جو مدت گزر گئی ہے وہ تین سال اور تین ماہ ہے جو سزائے موت پر عمل درآمد آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہوگا۔
22جولائی سال 2017 کو سی بی آئی نے ملزمان پنڈھر اور کولی کو مجرم ٹھہراتے ہوئے کہا کہ سزا 24 جولائی کو سنائی جائے گی اور پھر 24جولائی کو پندھیر اور کولی کو پنکی سرکار کیس میں سی بی آئی نے عصمت دری اور قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی۔
مقتولین کے ورثاء انصاف کے منتظر
قتل کے 16 مقدمات میں سے یہ آٹھواں کیس ہے جس میں نٹھاری کیس میں فیصلہ سنایا گیا ہے، دیگر آٹھ مقدمات کے فیصلے ابھی آنا باقی ہیں، اس کیس کو پہلی بار منظر عام پر آئے تقریباً گیارہ سال ہوچکے ہیں اور اہل خانہ ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔