Tag: noon meem rashid

  • زندگی سے ڈرتے ہو

    زندگی سے ڈرتے ہو؟
    زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں
    زندگی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی سے ڈرتے ہو؟
    آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
    آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے
    اس سے تم نہیں ڈرتے
    حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
    آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
    اس سے تم نہیں ڈرتے
    ‘ان کہی’ سے ڈرتے ہو
    جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
    اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
    پہلے بھی تو گزرے ہیں
    دور نارسائی کے ‘بے ریا’ خدائی کے
    پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی
    یہ شب زباں بندی ہے رہ خداوندی
    تم مگر یہ کیا جانو
    لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
    ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
    نور کی زباں بن کر
    ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
    روشنی سے ڈرتے ہو
    روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں
    روشنی سے ڈرتے ہو
    شہر کی فصیلوں پر
    دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
    رات کا لبادہ بھی
    چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
    اژدہام انساں سے فرد کی نوا آئی
    ذات کی صدا آئی
    راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
    اک نیا جنوں لپکے
    آدمی چھلک اٹھے
    آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
    تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
    ہاں ابھی تو تم بھی ہو
    ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
    تم ابھی سے ڈرتے ہو
    *********

  • جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے

    جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
    جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
    یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجیئے
    رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی
    نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجیئے
    یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
    مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجیئے
    کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی
    اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجیئے
    ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا
    جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجیئے
    ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی
    نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجیئے
    جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی
    وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجیئے
    وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
    ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجیئے

    **********

  • اظہار اورسائی

    مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
    بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
    آدمی کس سے مگر بات کرے؟
    بات جب حیلہ تقریب ملاقات نہ ہو
    اور رسائی کہ ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند
    بات کی غایت ِغایات نہ ہو
    ایک ذرہ کفِ خاکستر کا
    شرر جستہ کے مانند کبھی
    کسی انجانی تمنا کی خلش سے مسرور
    اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنور کی لو سے مجبور
    ایک ذرہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور
    کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
    آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
    اور بنتا ہے معانی کا خداوند کبھی
    وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو
    اسی اک ذرے کی تابانی سے
    کسی سوئے ہوئے رقاص کے دست و پا میں
    کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
    اسی اک ذرے کی حیرانی سے
    شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
    اسی اک ذرہ لافانی سے
    خشت بے مایہ کو ملتا ہے دوام
    بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو
    آدمی کس سے مگر بات کرے؟
    مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
    آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
    اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
    اور پھر کس کے لیے بات کروں؟

    ************

  • خودکشی

    کر چکا ہوں آج عزم آخری
    شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
    چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
    صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
    رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
    تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
    منہ بسورے، رہ گزاروں سے لپٹتے، سوگوار
    گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اکتایا ہوا
    میرا عزم آخری یہ ہے کہ میں
    کود جاؤں ساتویں منزل سے آج
    آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب
    آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
    ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
    اس کے تخت خواب کے نیچے مگر
    آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
    تازہ و رخشاں لہو،
    بوئے مے میں بوئے خوں الجھی ہوئی
    وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
    اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزم آخری
    جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
    اس دریچے میں سے جو
    جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو
    شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
    چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
    صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
    آج تو آخر ہم آغوش زمیں ہو جائے گی
    *********

  • آج ن -م -راشد کی 41ویں برسی ہے

    آج ن -م -راشد کی 41ویں برسی ہے

    آج اردو زبان کو بین الاقوامی سطح پر روشنا س کرانے والے نادر و نایاب شاعر ن – م – راشد کی اکتالیسویں برسی ہے، عالمی موضوعات کو ضبط ِ تحریر میں لاکر انہوں نے اردو نظم کو ایک نئی جہد عطا کی۔

    اردو کے اس معرکتہ الآرا شاعر کا اصل نام نذر محمد راشد ہے ، آپ 1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے، اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتےتھے۔

    اردو شاعری کو روایتی موضوعات سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا بلاشبہ ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے۔

    ماورا کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو شاعری میں انقلاب برپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، لیکن راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔

    ن م راشد سے قبل اردو نظم اپنے مروضہ اصولوں پرچلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف، پھر تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے، جنھیں ایک لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے۔واقعات کے بارے میں نظمیں، موسم کے بارے میں نظمیں، میلوں ٹھیلوں کا احوال، یا حبِ وطن یا اسی قسم کے دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا جاتا تھا۔ راشد نے جو نظمیں تحریر کریں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں، اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔

    ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔

    راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم’ حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔

    راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔

    ان کے تین مجموعے’ماورا‘، ’ایران میں اجنبی‘ اور’لا انسان‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے، جب کہ’ گمان کا ممکن‘ ان کی رحلت کے بعد شائع ہوا۔

    راشد کا انتقال 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ انہوں اپنے لواحقین کو اپنی میت کو’ چتا‘ میں جلانے کی وصیت کی تھی جس پر ان کی انگریز زوجہ شیلا نے ان کے صاحبزادے سے مشورہ کیے بغیر عمل درآمد کیا۔