Tag: noor jahan

  • کراچی : ہتھنی نورجہاں کو کہاں اور کیسے دفنایا جائے گا؟  تیاریاں مکمل

    کراچی : ہتھنی نورجہاں کو کہاں اور کیسے دفنایا جائے گا؟ تیاریاں مکمل

    کراچی چڑیا گھر میں گزشتہ روز انتقال کر جانے والی ہتھی نورجہاں کی تدفین کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں پوسٹ مارٹم کے بعد احاطے میں ہی دفن کیا جائے گا۔

    اس حوالے سے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر نے میڈیا کو بتایا کہ تدفین کیلئے زمین میں15فٹ گہری،14 فٹ لمبی اور12فٹ چوڑی کھدائی کی گئی ہے، ہتھنی کو جہاں دفنایا جائے گا وہاں4من چونا، جراثیم کش ادویات ڈالی گئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹرسیف الرحمان کی نگرانی میں ہتھنی کی لاش کو کرینوں کے ذریعے دفنانے کی جگہ اتارا جائے گا۔

     مزید پڑھیں : چڑیا گھر کی رونق ‘ ہتھنی نورجہاں’ چل بسی

    ڈائریکٹرزو کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عامر کی سربراہی میں ڈاکٹرزکی ٹیم ہتھنی کاپوسٹ مارٹم کررہی ہے، پوسٹ مارٹم مکمل ہونے کے بعد دفنانے کا عمل شروع ہوگا۔

  • ’ہتھنی کی حالت آئی سی یو مریض جیسی ہے‘

    ’ہتھنی کی حالت آئی سی یو مریض جیسی ہے‘

    کراچی: کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی نور جہاں کی طبیعت تاحال نازک ہے، ڈاکٹروں نے 24 گھنٹے اہم قرار دے دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر چڑیا گھر کنور ایوب نے کہا ہے کہ ہتھنی نور جہاں کا انرجی لیول نیچے آ گیا ہے، غیر ملکی ڈاکٹروں کی ٹیم پاکستان آ رہی ہے، جانوروں کے طبی ماہرین کی ٹیم نے کہا تھا کہ ہتھنی کی حالت آئی سی یو مریض جیسی ہے۔

    انھوں نے کہا ’’نور جہاں ہتھنی کے علاج سے متعلق ڈاکٹر عامر ہم سے رابطےمیں ہیں، ہتھنی کو جتنی ادویات اور خوراک وغیرہ دی جا رہی ہے وہ سب ڈاکٹرز کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے۔‘‘

    ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان نے کہا کہ ہتھنی کو آج کرین کی مدد سے چلانے کی کوشش کی جائے گی، شدید بیماری کی وجہ سے نور جہاں کھڑے ہونے سے قاصر ہے، نور جہاں کی مسلسل دیکھ بھال کی جا رہی ہے، غیر ملکی ڈاکٹرز کو چڑیا گھر آنے کے لیے خط لکھا ہے، علاج کے سلسلے میں ویڈیو لنک کے ذریعے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جا رہا ہے۔

    لیگل کنسلٹنٹ فار پاز اویس اعوان نے کہا کہ 4 دنوں سے ہم مسلسل کام کر رہے ہیں، نور جہاں ہار نہیں مان رہی تو ہم بھی ہار نہیں مانیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ نور جہاں ہتھنی کے علاج کے حوالے سے آج کا دن بہت اہم ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑا جانور گر جائے تو کھڑا کرنا مشکل ہے، ہتھنی پہلے کیسے گری یہ نہیں معلوم لیکن اب بہتر ہو رہی ہے۔

  • علامہ اقبال کا آفاقی کلام نامور گلوکاروں کی آواز میں

    علامہ اقبال کا آفاقی کلام نامور گلوکاروں کی آواز میں

    شاعر مشرق، حکیم الامت اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 80 ویں برسی آج ملک بھر میں عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

    اقبال کی شاعری عام شاعری نہیں تھی، ان کا کلام آفاقی تھا جس نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو سیاسی شعور عطا کیا، بلکہ اس وقت کی شاعری کو ایسی جہت عطا کی جس کی آج تک کوئی تقلید نہ کرسکا۔

    اقبال کے کلام کو موسیقی کی صورت بھی پیش کیا گیا اور کئی گلوکاروں نے اقبال کا کلام گا کر اپنے فن کو شہرت دوام بخش دی۔

    یہاں ہم اقبال کا وہ کلام پیش کر رہے ہیں جنہیں مختلف گلوکاروں نے گایا جس کے بعد ان کا کلام نئی نسل میں بھی مقبول ہوگیا۔


    شکوہ ۔ جواب شکوہ

    علامہ اقبال کی مشہور نظموں شکوہ اور جواب شکوہ کو عظیم گلوکار استاد نصرت فتح علی نے گایا۔ اس نظم میں ایک انسان خدا سے شکوہ کر رہا ہے، اور بعد ازاں خدا اس شکوے کا جواب دے رہا ہے۔

    اقبال کا آفاقی کلام اور نصرت فتح علی خان کی جاودانی آواز نے مل کر اسے ایک سحر انگیز گیت بنا دیا۔


    خودی کا سر نہاں

    علامہ اقبال کی ایک اور مشہور نظم ’خودی کا سر نہاں‘ شفقت امانت علی اور صنم ماروی نے گائی۔


    ہر لحظہ ہے مومن

    سنہ 1965 میں پاک بھارت جنگ کے دوران ملکہ ترنم میڈم نور جہاں نے اقبال کا ایک نغمہ ’ہر لحظہ ہے مومن‘ گایا۔ اس نغمے نے فوج کے جوانوں اور قوم کا حوصلہ بے حد بلند کردیا۔


    ستاروں سے آگے

    نظم ’ستاروں سے آگے‘ راحت فتح علی خان نے گائی۔


    لا پھر اک بار وہی

    اقبال کی ایک اور نظم ’لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی‘ کو مشہور گلوکارہ شبنم مجید نے نہایت خوبصورت انداز میں گایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی 17ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی 17ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 17ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق برصغیر کی نامورگلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو ہم سے بچھڑے 17برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے صدا بہار گانوں کی بدولت آج بھی ہم میں موجود ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں،ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔

    انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ سٹار بے بی نور جہاں کے نام سے کیا۔

    بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ اسٹارمتعدد فلمیں کیں جن میں ’گل بکاﺅلی‘، ’سسی پنوں‘، ’ہیرسیال‘شامل ہیں‘۔

    موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    انہوں نےبطوراداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار،چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نورجہاں نے 1965ءکی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گاکرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔

    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

    میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔اگرچے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بےپناہ مقبول ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ملکہ ترنم نورجہاں کی 91 ویں سالگرہ پرگوگل کا خراجِ تحسین

    ملکہ ترنم نورجہاں کی 91 ویں سالگرہ پرگوگل کا خراجِ تحسین

    پاکستان کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کی 91 ویں سالگرہ پرانہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئےگوگل نے اپنا ڈوڈل تبدیل کردیا۔

    ملکہ ترنم نور جہاں کی 91 ویں سالگرہ پر معروف سرچ انجن گوگل نے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ڈوڈل بنا دیا جس میں نورجہاں کو ان کے مخصوص روایتی انداز میں دکھایا گیا ہے۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں،ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔

    انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ سٹار بے بی نور جہاں کے نام سے کیا۔

    بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ اسٹارمتعدد فلمیں کیں جن میں ’گل بکاﺅلی‘، ’سسی پنوں‘، ’ہیرسیال‘شامل ہیں‘۔

    موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    انہوں نےبطوراداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار،چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نورجہاں نے 1965ءکی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گاکرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔

    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

    میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔اگرچے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بے پناہ مقبول ہیں۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا۔

    اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا، ملکہ ترنم نورجہاں کے گیتوں کا پاکستانی افواج پرکیا اثر پڑا۔

    انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔

    سانگ میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنین نی جرنیل نی،  زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے توں لبدی پھریں بازار کڑے ملکہ ترنم نے اپنے ملی نغموں سے جارح بھارتی فوج کو وطن کی حفاظت کرتی ہوئی غیور قوم کا پیغام دیا۔

     سیالکوٹ تو زندہ رہے گا تو زندہ رہے گا، میرا سوہنا شہر قصور نی اے میریا ڈھول سپاہیا وے تینوں رب دیاں رکھاں انیس سو پیسنٹھ کی پاک بھارت جنگ میں جہاں میڈم نور جہاں کے گیتوں نے پاک افواج کے حوصلوں اور جذبوں کو بڑھایا وہیں شہنشاہ غزل مہدی حسن،مسعود رانا، مہناز بیگم نے بھی اپنے گیتوں سے فوجی جوانوں کے حوصلے بلند کیے۔

  • سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا۔

    اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا، ملکہ ترنم نورجہاں کے گیتوں کا پاکستانی افواج پرکیا اثر پڑا۔

    انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔

    سانگ میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنین نی جرنیل نی،  زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے توں لبدی پھریں بازار کڑے ملکہ ترنم نے اپنے ملی نغموں سے جارح بھارتی فوج کو وطن کی حفاظت کرتی ہوئی غیور قوم کا پیغام دیا۔

     سیالکوٹ تو زندہ رہے گا تو زندہ رہے گا، میرا سوہنا شہر قصور نی اے میریا ڈھول سپاہیا وے تینوں رب دیاں رکھاں انیس سو پیسنٹھ کی پاک بھارت جنگ میں جہاں میڈم نور جہاں کے گیتوں نے پاک افواج کے حوصلوں اور جذبوں کو بڑھایا وہیں شہنشاہ غزل مہدی حسن،مسعود رانا، مہناز بیگم نے بھی اپنے گیتوں سے فوجی جوانوں کے حوصلے بلند کیے۔

  • ملکۂ ترنم کے نواسے عمائمہ ملک کے ساتھ فلم میں جلوہ گر ہوں گے

    ملکۂ ترنم کے نواسے عمائمہ ملک کے ساتھ فلم میں جلوہ گر ہوں گے

     

    ملکۂ ترنم نور جہاں کے نواسے سکندررضوی معروف فلم اسٹار عمائمہ ملک کے ساتھ فلم میں جلوہ گر ہورہے ہیں۔

    سکندر رضوی اس فلم میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں ان سے قبل مشہور فلم اسٹار فواد خان کو اس فلم میں مرکزی کردار دینے پر غور کیا جارہا تھا لیکن ان کے انکار کے بعد سکندر سے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے فلم میں کام کرنے کی حامی بھرلی۔

    انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مسلسل فلمی ستاروں کے درمیان رہنے کے باوجود وہ کبھی بھی فلم میں کام نہیں کرنا چاہتے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ’’ میں ہروقت فلمی ستاروں میں گھرا رہتا ہوں لیکن میرا فلم میں کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن جب فواد خان نے فلم میں کام کرنے سے انکار کیا تو میں نے حامی بھرلی۔

    فلم رومانٹک کامیڈی ہے اور اس کا نام ’دیکھ مگر پیار سے‘‘ ہے ۔ فلم کے ہدایت کار اسد الحق ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم اپنی نوعیت کی منفرد فلم ہوگی۔

    فلم بنیادی طور پر لاہور سے تعلق رکھتی ہے اور یہ عام رومانوی فلموں سے ہٹ کر ہوگی۔

    سکندر کراچی میں ایک کامیاب ریستوران کے مالک ہیں انہوں نے اپنی نانی ملکہ ترنم سے وابستہ یادوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بچپن میں سب سے اچھا وقت گرمیوں کی چھٹیوں میں نانی کے گھر میں گزرتا تھا‘‘۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی نانی ایک بہترین خاتون ِ خانیہ بھی تھیں اور وہ ان کے لئے انتہائی عمدہ پاکستانی پکوان بنایاکرتی تھیں۔

    سکندر نے کہا کہ وہ اپنے طبلہ نواز کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھیں اور رات کے کھانے کے بعد اپنی مدھر آواز میں نغمے سنایا کرتی تھیں