Tag: noor-muqaddam-murder-case

  • نور مقدم قتل کیس :  ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم

    نور مقدم قتل کیس : ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم

    اسلام آباد :سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم دیتے ہوئے ملزم کے والدین کو عنایت جرم کے الزام سے بری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سماعت ہوئی ، مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر سمیت ملزمان کو عدالت میں پیش گیا گیا، اس موقع پر سیکیورٹی کیلئےغیر معمولی اقدامات کیے گئے۔

    ایڈیشنل سیشن جج عطاء ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم دے دیا۔

    سیشن عدالت نے تھراپی ورکس کے ملزمان کو بری کرتے ہوئے شریک ملزمان جمیل اور جان محمد کو 10،10سال قید کی سزا کا حکم دیا جبکہ ظاہرجعفر کے والدین کو عنایت جرم کے الزام سے بری کردیا۔

    ظاہر جعفر کو قتل،اٖغوا ،جرم چھپانے ،حبس بے ویگر دفعات سمیت دفعہ 201، 364 ،342,176 ،109 ،302 کے تحت سزا سنائی گئی۔

    یاد رہے 22 فروری کو سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا ، سماعت میں مدعی وکیل شاہ خاور کے مطابق نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی ار، سی ڈی ار، فورینزک اور ڈی این ائے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں، نورمقدم قتل کیس میں تمام شواہد سائنٹیفکلی شامل کیے گئے ہیں۔

    شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا، عدالت ملزمان کو سخت سےسخت سزا دے۔

    نور مقدم قتل کیس، کب کیا ہوا؟

    واضح رہے بیس جولائی دوہزاراکیس کو سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نورمقدم کو اسلام آباد میں بےدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔

    واقعے کی اطلاع ملتےہی پولیس پہنچی اور اسلام آباد کےایف سیون فورمیں معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے گھر پر چھاپہ مارا، جہاں سے نور مقدم کی سربریدہ لاش ملی۔

    پولیس نے موقع سے ملزم ظاہر جعفرکوآلہ قتل سمیت گرفتار کیا اورتمام شواہد جمع کیے جبکہ گھر کے مالی، ڈرائیور اور چوکیدار کو بھی گرفتارکیا گیا۔

    نیٹ چار دن بعد اعانت جرم اور شواہد چھپانے پر ملزم کے والدین ذاکرجعفراوران کی اہلیہ عصمت آدم کو بھی گرفتار کیا گیا تاہم ملزم کی والدہ کی ضمانت ہوگئی جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں رہے۔

    واقعےکی سی سی ٹی وی وڈیوز بھی سامنے آئیں ، جسمیں نور مقدم کوزخمی حالت میں گھر سے نکلنے کی کوشش اور ظاہر جعفر کو دست درازی کرتے دیکھا گیا، وڈیوز میں ملزم کے ملازمین بھی نظر آئے، جنہوں نے نور مقدم کو بچانے کی کوئی کوشش تک نہیں کی۔

    بعد ازاں گیارہ ستمبرکوعدالت میں ضمنی چالان جمع ہوا اور ملزم ظاہر جعفر کے بیان سمیت اٹھارہ گواہان کی فہرست جمع کرائی گئی اور ڈی این اے رپورٹ بھی منسلک کی گئی جس میں مقتولہ کے ریپ کی تصدیق کی گئی۔

    چودہ اکتوبر کو تمام ملزمان پر فردِ جُرم عائد کی گئی اور بیس اکتوبر دوہزار اکیس سے کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوا، جو چار ماہ سے زائد چلا ۔

    مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کیلیے پہلی پیشی سے آخری پیشی تک ہر حربہ آزمایا اور عدالت میں ہنگامے بھی کیے۔

    ملزم کے وکیل نے طبی معائنے کی درخواست کی ، جسےعدالت نے مسترد کر دیا اور جیل کی میڈیکل ٹیم نے ظاہرجعفر کو جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فٹ قراردیا۔

    انیس گواہوں پرجرح مکمل ہونےکےبعدملزمان کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ تین سو بیالیس کےتحت سوالنامہ جاری کیا گیا ،جس پر ظاہر جعفر اپنے ہی اعتراف کردہ جرم سے مُکر گیا۔

    واقعے کو غیرت کے نام پر قتل کا رُخ دینے کی کوشش کی اور جب الزام ثابت نہ ہوا تو مقتولہ پر منشیات پارٹی کا اہتمام کرنے کا الزام لگا دیا۔

  • نور مقدم قتل کیس اختتامی مراحل میں داخل

    نور مقدم قتل کیس اختتامی مراحل میں داخل

    اسلام آباد : نورمقدم قتل کیس میں  تھراپی ورکس کے ملازم اور 5 ملزمان کے وکیل نے حتمی دلائل مکمل کرلئے اور استدعا کی کہ پانچوں ملزمان بے گناہ ہیں بری کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق نورمقدم قتل کیس سےمتعلق ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں سماعت ہوئی ، تھراپی ورکس کے ملازم اور 5 ملزمان کے وکیل نے حتمی دلائل دیئے۔

    جج نے وکیل سے مکالمے میں کہا آپ کن کن ملزمان کے وکیل ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ دلیپ کمار، وامق ریاض، ثمرعباس،عبد الحق اور امجد محمود کا وکیل ہوں۔

    جج نے سوال کیا کہ یہ لوگ جائے وقوع پر کس وقت پہنچے تھے تو وکیل نے کہا کہ یہ لوگ پاکستانی وقت کے مطابق رات 8 بجےکے قریب جائے وقوع پہنچے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل38کہتاہےکہ پولیس کے سامنےبیان کی کوئی اہمیت نہیں، ڈی وی آرکودیکھیں کہ ملزم باآسانی نکل سکتا تھا لیکن وہ وہی موجودرہا، گھرمیں3لوگ موجود تھے اگر شواہد مٹانے ہوتے تو مٹا سکتے تھے۔

    شہزاد قریشی نے مزید کہا کہ کرائم سین کاانچارج کہتا ہے جائے وقوعہ سے پستول، چاقو ودیگرسامان برآمدہوا، الزام ہے کہ ہم نے شواہد مٹائے ہیں کون سے شواہد مٹائے گئے۔

    وکیل شہزاد قریشی کا کہنا تھا کہ ڈی وی آر کے اندر پورا واقعہ موجود ہے، مرکزی ملزم کو گرفتار کیا لیکن ویڈیو غائب کر دی گئی، جائے وقوع پرکسی نے شواہد مٹانے کی کوشش نہیں کی، وکیل

    امجد کےزخمی ہونے کے 25 منٹ بعد پولیس جائے وقوع پہنچتی ہے، امجد 8 بج کر 59 منٹ پر پمز اسپتال پہنچتا ہے، ڈی وی آر کھلنے کے بعد ثابت ہو گیا ، میرے ملزمان نے مرکزی ملزم کو پکڑا۔

    تھراپی ورکس کے 5 ملازمین کے وکیل شہزاد قریشی کے حتمی دلائل مکمل کرنے ہوئے استدعا کی پانچوں ملزمان بےگناہ ہیں بری کیا جائے۔

    وکیل اسدجمال نے ملزمان کوکمرہ عدالت میں بلانے کی استدعاکردی ، جس پر جج نے وکیل سےمکالمے میں استفسار کیا آپ کیوں ملزمان کو کمرہ عدالت میں بلاناچاہتےہیں؟

    جس پر وکیل اسدجمال نے بتایا کہ ملزم ذاکرجعفرسماعت کوسنناچاہتاہے، وکیل اکرم قریشی نے کہا کہ نو ساڑھے نو بجے کے قریب تمام پولیس افسران جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے، حقائق بتاتے ہیں کہ پولیس افسران سچائی کے ساتھ سامنے نہیں آرہے۔

    نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران وکیل اکرم قریشی نے کہا ہمارے خلاف چارج نمبر 13 لگایا طاہرظہور کو ذاکر اور عصمت نے فون کیا، طاہر ظہور کے متعلق کہا گیا ان کو ہدایت دی جاتی رہیں، اب پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کونسی ہدایات دی جاتی رہیں، سی ڈی آر کے علاوہ ریکارڈ پر کوئی شواہد موجود نہیں۔

    وکیل اکرم قریشی نے عدالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا سی ڈی آر بغیرٹرانسکرپٹ کے بطور شواہد استعمال نہیں کی جا سکتی ، پولیس نے جائے وقوع پر پہنچ کر بھی ایف آئی آر درج نہیں کی، دفعہ 174 کا پرچہ تو پولیس پر بنتا ہے۔

    اکرم قریشی کا کہنا تھا کہ پولیس افسران کی تمام تفتیش مقدمہ درج ہونے سے پہلے ہو چکی تھی، مجھے سمجھ نہیں آتاپولیس نے کیسی تفتیش کی ہے، پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر پولیس نے ساری کارروائی کی ، مقدمے کی 2مختلف تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہانی بنائی گئی ہے۔

    دوران سماعت ملزمہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے حتمی دلائل میں کہا اس بات کو چھپایاگیا کہ پولیس کو واقع کی اطلاع کہاں سے ملی، حقائق سے معلوم ہوتا ہے پراسیکیوشن نے ہرمعاملے میں پہلو تہی سےکام لیا، عینی شاہدین تھے انہیں بطورعینی شاہد ہی عدالت میں پیش کیاجاتا۔

    وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ پولیس ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ پاتی، قتل کے وقت کے حوالے سےبھی پراسیکیوشن نے کنجوسی سے کام لیا، پراسیکیوشن نے کہاقتل رات کو ہوا لیکن کوئی ٹائم لائن پیش نہیں کی گئی، ٹائم لائن قائم کیے بغیر کیس قائم نہیں کیا جاسکتا۔

    وکیل نے دلائل میں کہا ہم پر الزام ہے کہ ہم نے قتل کی اطلاع پولیس کو نہیں دی، ہم پر ثبوتوں کوجائے وقوع سے ہٹانے کا الزام لگایاگیا، کرائم سین انچارج کہہ سکتا تھاثبوت مٹانےکی کوشش کی گئی تھی لیکن ایسا نہیں کہاگیا۔

    عصمت آدم جی کے وکیل کا کہنا تھا کہ مقتولہ نورمقدم کےموبائل یا واٹس ایپ کا ڈیٹا بھی نہیں لیاگیا جبکہ ذاکر جعفر سے طاہر ظہور کو موصول میسج میں بھی ثبوتوں کو مٹانے والی بات نہیں ، واقعے میں ملوث ہوتے تو پہلی فلائٹ سےکراچی سے اسلام آباد کیوں آتے۔

    عصمت آدم جی کے وکیل نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے پڑھ کر سنائے اور کہا عصمت آدم جی اور ذاکر جعفر کے خلاف ثبوت نہیں اور نہ مقدمہ بنتا ہے، جس کے بعد وکیل اسد جمال نے عدالت میں دلائل مکمل کرلیے۔

  • مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار دے دیا

    مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار دے دیا

    اسلام آباد : مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار  دے دیا، عدالت کو تحریر بیان میں بتایا ہے کہ میرے گھر میں نور نے دوستوں کو ڈرگ پارٹی کیلیے بلایا، جب پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے حواس کھو بیٹھا، ہوش میں آیا تو پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل شہریار نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

    ملزم ظاہر جعفر کے وکیل شہر یار نواز نے عدالت میں نور مقدم کے تعلق سے متعلق ویڈیوز اور ملزم کا تحریری جواب جمع کرایا ، جج نے استفسار کیا یہ یو ایس بی کس چیز کی ہے، جس پر شہریار نواز نے بتایا یو ایس بی میں ریلیشن شپ سے متعلق 2ویڈیوز ہیں۔

    نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے تحریری بیان میں کہا کہ میں بے گناہ ہوں، مجھے اور ساتھیوں کوغلط طور پرکیس میں گھسیٹا گیا ، نور مقدم کے ساتھ لانگ ریلیشن شپ میں تھا۔

    ظاہر جعفر کا کہنا تھا کہ نور نے مجھے زبردستی امریکاکی پرواز لینے سے منع کیا، نور مقدم نےکہا میں بھی تمہارے ساتھ امریکاجانا چاہتی ہوں، جس کے لئے نور نےدوستوں کو فون کر کے ٹکٹ خریدنے کےلیےپیسے حاصل کیے۔

    مرکزی ملزم نے کہا ہم ائیرپورٹ کے لیے نکلے مگر نور نے ٹیکسی واپس گھرکی طرف کرادی، گھر میں نور نے اور دوستوں کو بھی ڈرگ پارٹی کے لیے بلایا، پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے حواس کھو بیٹھا، ہوش میں آیا تو مجھے باندھا ہوا تھا، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔

    تحریری بیان میں ظاہر جعفر کا کہنا تھا کہ ہوش میں آنے پر پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے، واقعہ میرےگھرہوااس لیےمجھےاوروالدین کو پھنسایا جارہاہے، پولیس کےآنے سے پہلے شوکت مقدم اوران کے رشتے دار ہمارے گھر پرتھے، شوکت مقدم اوران کےرشتےداروں سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔

    ملزم نے مزید کہا کہ نور کے فون کی سی ڈی آر صرف 20 جولائی صبح پونے 11 بجےکی حاصل گئی، سی ڈی آرسے پتہ نہیں چل سکتاکہ نور نے کس کو پارٹی میں مدعو کیا تھا۔

    دوران سماعت وکیل اسد جمال نے کہا ٹکٹ کی کاپی نہیں دی، جس پر وکیل شہریار نواز نے بتایا جی وہ بھی دے دی ہے۔

    وکیل مدعی نثار اصغر نے سوال کیا کیا ویڈیو کلپس ہمیں بھی مہیا کی جائے گی، وکیل اسد جمال نے کہا جی وہ آپ کو بھی مہیاکرا دیتے ہیں۔

    وکلا نے بتایا کہ سکندر زوالقرنین کل آئیں گے ،11 بجے تک پہنچ جائینگے، جس پر جج نے کہا کل نہیں بدھ کو آجائیں کیونکہ کل اوربھی ڈائریکشن کیس لگے ہیں۔

    ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ کے دلائل میں کہا ابتدائی ایف آئی آر میں صرف ظاہر جعفر ملزم تھا ، 24 جولائی کوبیان میں ذاکر ،والدہ ،ملازم اور تھراپی ورکس کا ذکر آیا، 8 اگست کے بیان میں طاہر ظہور اور جان محمد کو نامزد کیا گیا، ذاکر جعفر،عصمت ،افتخار،اور جمیل 24 کو گرفتار ہوئے۔

    ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شوکت مقدم کا بیان عدالت میں پڑھا گیا ، نور نےکہا دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہوں جبکہ ظاہر نے کہا نورمیرے ساتھ نہیں ہے،اسکا ریکارڈ موجود نہیں ، یہ کہتے ہیں 19 کومعلوم ہوا بیٹی گھر میں 2دن سے نہیں تھی ، دکھ ہے ایک کی بیٹی گئی اور دوسرے کےبوڑھے باپ کوجیل میں ڈال دیا گیا۔

    بشارت اللہ نے مزید کہا کہ ڈی وی آر کے مطابق وہ خود گئی ،حبس بے جا میں نہیں رکھا گیا ، سی ڈی آر تمام ملزمان کا نہیں لیا گیا، تفتیشی افسرنے موقع سے کوئی فنگر پرنٹ نہیں لیے، ہمارے خلاف تو کوئی ثبوت نہیں سوائے سی ڈی آر کے۔

    وکیل نے مزید دلائل میں کہا کہ 27 جولائی کو 16 صفحات تھے جبکہ ذاکر جعفر کی سی ڈی آر ایڈٹ کی گئی ، سی ڈی آر ایڈٹ کی گئی کیونکہ والدین کو نامزد کرنا تھا، پانچ صفحات مدعی اور 3صفحات ملزم کے سی ڈی آر کے غائب ہیں، ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی گئی ہے اور سی ڈی آر کےدینے والے کے دستخط نہیں ہیں ،جس نے ڈیٹا دیا اسکے دستخط ہی نہیں ہیں۔

    مرکزی ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ دسویں گواہ ڈاکٹر شازیہ کا بیان دیکھیں ، پہلا کیس ہے جس میں معلوم ہی نہیں پوسٹ مارٹم کس نے کیا، دوست محمد اے ایس آئی 11وان گواہ بھی برآمدگی کا گواہ ہے، یہ درست ہے کہ برآمدگی میمو پر میرے دستخط ہی نہیں ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ انتطامی مشینری لگی ہوئی تھی عبوری ضمانت پر تھا گرفتار کر لیا گیا، ملزم عبوری ضمانت پر تھا تفتیشی نے اسے گرفتار کر لیا، جلدی میں کام کیا گیا لیکن برآمدگی میمو پر دستخط ہی نہیں کرائے، وکیل

    دلائل دیتے ہوئے بشارت اللہ کا کہنا تھا کہ 491کی درخواست دائرکی اس میں تفتیشی افسرنے مانا کہ میں نے گرفتار کر لیا، ایک تفتیشی افسر، ایک گواہ اور اسکے نام سے فردات بنا رہے ہیں، تینوں کی لکھائی مختلف اور دستخط بھی لیے۔

    وکیل کے مطابق بارہوں گواہ محمد جابر کہتا ہے7 فون کاڈیٹا لیا اس نےعدالت میں نمبر نہیں بتائے، جابر نےاپنے بیان میں نہیں بتایا کہ کونسے 7 فون نمبرز کا ڈیٹا اس نے دیا، چار چار دفعہ سی ڈی آر کا ڈیٹا بنا کر دیا گیا کسی کی مہر ہی لگا دیتے کہ کس نے ڈیٹا دیا۔

    مرکزی ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ دو ماہ بعد انکو ڈیٹا کیسے مل گیا پہلے سی ڈی آر کے ڈیٹا کا ذکر ہی نہیں تھا،14 جولائی کا ڈیتا بعد میں بنایا گیا سارا ڈیٹا خود تخلیق کیا گیا ہے، گواہ کیسے آکر کہہ سکتا ہے یہ وہی ڈیٹا ہے جو میں نے جاری کیا، سی ڈی آر کے ڈیٹا پر آئی ٹی کی مہر ہی نہیں، 22 ستمبر کو تفتیشی 161 کا بیان لکھتا ہے۔

    دوران سماعت جج نے وکلاء سے استفسار ملزم تو نہیں چاہیے، جس پر وکیل بشارت اللہ نےبتایا نہیں میرا ملزم یہاں پر موجود رہے، 22 ستمبر میں 14 اکتوبر کا ڈیٹا گواہ بتا رہا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ 15ویں گواہ اےایس آئی زبیرمظہرنےملزم ،مقتولہ کی موجودگی ظاہر نہیں کی، زبیر مظہر نے بھی سارا کام تھانےمیں کیا ، اگر موقع پر کرتا تو ملزم اور مقتولہ کی موجودگی ظاہر کرتا،161 کا بیان کا گواہ کوئی اور ہے اور سرکار نے مدثر عالم کوبنایا یہ کوئی اور ہے۔

    جج نے ریمارکس دیئے کہ کیا تفتیش اس نے کی ہے، وکیل اسد جمال نے بتایا کہ انہوں نے تفتیش کو مان لیا ہے، نور مقدم کا ڈیٹا 20 جولائی صبح 10 بجے تک لیا گیاجو ایک صفحےکاہے، ہمارا ڈیٹا 56 صفحات پر مشتمل ہے، میں قصور وار ہوتا تو واپس آتا۔

    وکیل نے کہا کہ ذاکرجعفر 20 سے 23 تک شامل تفتیش ہوا ،24 کو کون سا ثبوت آیا کہ گرفتار کرلیا،22 جولائی کو اسلحہ کا فرد بنایا میں نے لائسنس پیش کیا، میری اورمدعی کی 20 جولائی کو10منٹ کی کال ہےعدالت کوکیوں آگاہ نہ کیا، تفتیشی افسرکہتاہے تفتیش میں مدعی نے نہیں بتایاکہ ذاکر جعفر سےکیا گفتگو ہوئی۔

  • نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی تینوں درخواستیں خارج

    نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی تینوں درخواستیں خارج

    اسلام آباد : ایڈیشنل سیشن جج نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی تینوں درخواستیں خارج کردیں ، آج فریقین کے دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی مقامی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد عطاء ربانی نے کی، پولیس کی جانب سے ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔

    مدعی کے وکیل اور پبلک پراسیکیوٹر نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی تینوں درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی۔

    ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے درخواستوں میں آئی جی تفتیشی افسر اور موبائل نمبر کی ملکیت معلوم کرنے سے متعلق دیگر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ۔

    مدعی کے وکیل نے کہا کہ کیس کے اس مرحلے پر ایسی درخواست دائر کرنا صرف کیس لٹکانے کا بہانہ ہو سکتا ہے۔

    درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ آئی جی اسلام آباد نے 25 جنوری کو عدالتی سماعت کے بعد آفیشل ٹویٹر پر وضاحت دی جس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ یہ وضاحت عدالتی کارروائی پر نہیں بلکہ میڈیا کی غلط رپورٹنگ پر وضاحت دی گئی۔

    ملزم کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ زیر سماعت مقدمہ میں اگر میڈیا غلط رپورٹنگ کرتا تو کیا آئی جی وضاحت دے سکتا ہے؟جو نقشہ موقع بنایا ہے اس میں غلط چیزیں شامل کی گئی ہیں، نقشہ موقع میں گھر کے پیچھے رہائشی ایریا دکھایا گیا ہے جبکہ وہاں پر جا کر دیکھیں وہ جنگل ایریا ہے، عدالت کے پاس اختیار اور پاور ہے، جائے وقوعہ کا معائنہ کیا جائے۔

    عدالت نے تین درخواستوں پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ،بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے محفوظ فیصلہ سنایا۔

    عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی تینوں درخواستیں خارج کردیں ، جس میں آئی جی اسلام آباد کی وضاحت جاری کرنے ، تفتیشی افسر،جائے وقوعہ کا دورہ کرنے اورموبائل نمبرکی اونرشپ معلوم کرنے سے متعلق درخواستیں شامل ہیں۔

  • نور مقدم قتل کیس : جرح کے دوران تفتیشی افسر کی ایک اور غلطی کی نشاندہی

    نور مقدم قتل کیس : جرح کے دوران تفتیشی افسر کی ایک اور غلطی کی نشاندہی

    اسلام آباد : نورمقدم قتل کیس میں جرح کے دوران تفتیشی افسر کی ایک اور غلطی کی نشاندہی ہوئی ، گواہ کا نام غلط لکھا جبکہ پولیس ڈائری میں بھی غلطی کا اندراج نہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، ظاہرجعفر اور دیگر ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا ، مرکزی ملزم ظاہرجعفر کی دائیں آنکھ کے نیچے نیل پڑا ہوا تھا۔

    مقدمہ کےتفتیشی افسرانسپکٹر عبدالستار پر وکیل اکرم قریشی نے جرح شروع کی، وکیل اسد جمال نے کہا ویسے ہی میرا سوال ہے پولیس کی وضاحت کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے، جس پر جج عطا ربانی نے استفسار کیا کون سی وضاحت کب جاری ہوئی۔

    وکیل اسد جمال نے کہا آئی جی اسلام آباد نے نظام انصاف میں مداخلت کی ہے تو جج عطاربانی کا کہنا تھا کہ وضاحت سرکاری طور پر ہوئی ہے تو بہت بری بات ہے، میں ایکشن لوں گا۔

    تفتیشی افسر عبدالستار نے عدالت کو بتایا کرائم سین انچارج محمد عمران نے لیپ ٹاپ قبضے میں نہیں لیا، لیپ ٹاپ میں نے قبضے میں لیاتھا اور رپورٹ مرگ کی تحریر اور مختلف حالات کی تحریر میری ہے لیکن لکھائی مختلف ہے۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ محمد زبیر، لیڈی کانسٹیبل ، ایس ایچ اوویمن اوردیگر ملازم جائے وقوع پہنچے، رپورٹ میں ہےپولیس جائے وقوع پہنچی تو مدعی شوکت مقدم نے بیان دیا۔

    عبدالستار نے بتایا کہ جائےوقوع پہنچا توپولیس نےظاہرجعفر کو پکڑا ہوا تھا تاہم ظاہرجعفرکی حراست ڈی وی آر میں نظر نہیں آئی، ڈی وی آر میں ہے ظاہر جعفر کو زخمی حالت میں گاڑی میں نہیں بٹھایا گیا،آئی او

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ گواہ مدثر علیم کا بیان پورے کیس میں نہیں لکھا، مدثر علیم کا بیان محمد مدثر کے نام سے لکھا ہےلیکن غلطی پولیس ڈائری میں نہیں لکھی۔

    عبدالستار نے کہا 21 جولائی کو 3 پارسل محمد ریاض کے حوالے کیے تھے، محمد ریاض کےپارسل وصولی کی تفصیلی نہیں لکھی نہ کسی اور جگہ وضاحت دی، تھراپی ورکس کاکہنا تھا وہ طاہر ظہور کے کہنے پر جائے وقوع پہنچے۔

    دوران سماعت تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ میں بیان تھوڑ ا درست کردیتاہوں، جس پر وکیل ملزم اکرم قریشی نے کہا نہیں آپ رہنےدیں آپ درست نہ کریں، جو درست کرنا ہوگا وہ آئی جی وضاحتی بیان پرکر دیں گے۔

    تھیراپی ورکس کے وکیل اکرم قریشی نے تفتیشی افسرپرجرح مکمل کرلی ، جس کے بعد وکیل مدعی بابر حیات نے استدعا کی سماعت ان کیمرہ کر دیں۔

    وکیل شہزاد قریشی کا کہنا تھا کہ فوٹیج چلاکردیکھناچاہتاہوں تھراپی ورکس ملازمین کب آئے، نور مقدم قتل کیس کی سماعت کےدوران ویڈیو چلا ئی گئی ، اس موقع پر کمرہ عدالت سے صحافیوں اور غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا۔

    دوران سماعت ملزمان افتخار،محمدجان ،جمیل کے وکیل سجاد بھٹی نے بھی تفتیشی افسر پر جرح کی ، تفتیشی افسر عبدالستار نے بتایا نقشے کے خاکے میں مین گیٹ کے ہونے کا ذکرنہیں کیا اور ملزمان افتخار،محمد جان ،جمیل کی موجودگی بھی ظاہر نہیں کی گئی۔

    عبدالستار کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمرے کا فرد نہیں بنایا ڈی وی آر کا فرد بنایا ہے، 21،20جولائی کی درمیانی رات سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی اور 23 جولائی تک مدعی شوکت مقدم نے ملزمان کیخلاف درخواست نہیں دی، 24 جولائی کو مدعی نے ملزمان کیخلاف درخواست دی۔

    تفتیشی افسر کے مطابق 18سے 20 جولائی صبح 10بجے تک مقتولہ کا موبائل کام کررہاتھا، ریکارڈ کے مطابق نور مقدم کو فون ، میسجز آتے بھی رہے اور وہ کرتی بھی رہی، جس کے بعد نور مقدم نے 18سے 20 جولائی تک 15 یا تھانے میں خطرے کی اطلاع نہیں دی اور نہ کسی چاہنے والے کو خطرے کا پیغام دیا۔

    عبدالستار نے اپنے بیان میں کہا کہ ملزمان افتخار،محمد جان ،جمیل کا چہرے کی شناخت کا موازنہ نہیں کرایا اور کیس کا کوئی چشم دید گواہ بھی سامنے نہیں آیا۔

  • واقعے کا کوئی عینی شاہد یا گواہ نہیں ؟ نورمقدم قتل کیس میں ڈرامائی موڑ

    واقعے کا کوئی عینی شاہد یا گواہ نہیں ؟ نورمقدم قتل کیس میں ڈرامائی موڑ

    اسلام آباد : نورمقدم قتل کیس میں ڈرامائی موڑ آگیا ، تفتیشی افسرعبدالستار کا کہنا ہے کہ واقعے کا کوئی عینی شاہد یا گواہ نہیں اور چاقو پر مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے فنگرپرنٹس بھی نہیں آئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد نور مقدم قتل کیس کی ڈسٹرکٹ سیشن عدالت میں سماعت سماعت ہوئی ، ایڈیشنل سیشن کورٹ کے جج عطاء ربانی نے مقدمے کی سماعت شروع کی۔۔ تو مرکزی اور شریک ملزموں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

    مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین ، سجاد بھٹی اور پراسیکیوٹر رانا حسن عباس پیش ہوئے، دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہرجعفر کمرہ عدالت میں غنودگی کےعالم میں سرجھکائے زمین پربیٹھا رہا۔

    تفتیشی افسرانسپکٹرعبدالستار نے مرکزی ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کی جرح پر عدالت کو بتایا مقتولہ کی موجودگی کی تصدیق کیلئے ڈی وی آرکا فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ نہیں کرایا گرفتاری کے وقت مرکزی ملزم ظاہرکی پینٹ کو خون نہیں لگاہواتھا اور نہ ہی چاکو پر مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے فنگر پرنٹس آئے۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ہمسائیوں اور سامنے کسی چوکیدار کا بیان نہیں لکھا، گھر کے اردگرد جو کیمرے لگے انکی ریکارڈنگ نہیں لی گئی اور فرانزک کے علاوہ کوئی بھی عینی شاہد گواہ نہیں آیا۔

    تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اے ایس آئی زبیر مظہر کے پہلے پہنچنےکی بات غلط ہے، وہ سکندرحیات اوردوست محمد اے ایس آئی کے ساتھ وقوعہ پر پہنچے، تو مدعی عزیزواقارب کےساتھ پہلے ہی موجود تھے۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ لاش 20 جولائی کو پونے بارہ بجے مردہ خانہ کیلیے بھجوادی تھی ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر موت 21 جولائی 12 بجکر 10 منٹ لکھی ہے، نقشہ موقع پر ظاہر جعفرکی موجودگی نہیں دکھائی گئی، اور نہ ہی بیسمنٹ دکھائی گئی ہے۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ مقتولہ نور مقدم کا موبائل فون آئی ایم ای آئی نمبرنہیں لکھاگیا ہے، ظاہرجعفرکا پہلا ریمانڈ 21 جولائی کو لیا۔

    مرکزی ملزم کے وکیل کی تفتیشی افسر پر جرح مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔

  • نورمقدم کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر کا عدالتی بیان میں اہم انکشاف

    نورمقدم کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر کا عدالتی بیان میں اہم انکشاف

    اسلام آباد : نورمقدم قتل کیس میں گواہ اے ایس آئی زبیر مظہر اور پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر سارہ پر ملزمان کے وکلا نے جرح مکمل کرلی، ڈاکٹر سارہ نے بتایا مقتولہ کے پھیپڑوں میں جو مواد پایا گیا ہے وہ نکوٹین اور ڈرگز کی وجہ سے ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج عطاربانی نے کی ، پراسیکیوٹر حسن عباس، ملزمان کے وکلا اور مدعی کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

    ضمانت پر رہا ملزمہ عصمت آدم جی سمیت8ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تاہم گرفتار ملزمان ظاہرجعفرسمیت کسی ملزم کوعدالت پیش نہ کیا جا سکا۔

    استغاثہ کے گواہ اے ایس آئی زبیرمظہر پر ملزمان کے وکلا نے جرح کرتے ہوئے کہا ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ کی جرح وہ خود آکر کریں گے۔

    نور مقدم کا پوسٹ مارٹم کرنیوالی ڈاکٹر سارہ نے بیان میں کہا کہ 21جولائی کو نور مقدم کا پوسٹ مارٹم صبح 9 بجکر 30 منٹ پرہوا، مقتولہ کے پھیپڑوں میں جو مواد پایا گیا ہے وہ نکوٹین اور ڈرگز کی وجہ سے ہے، مجھے نہیں معلوم پھیپھڑوں میں مواد کس وجہ سے پایا گیا ہے۔

    جس کے بعد عدالت نے 15 دسمبرکو مدعی مقدمہ شوکت مقدم کو بیان ریکارڈ کرانے کیلئے طلب کرلیا جبکہ سی ڈی آرکےگواہ مدثر کا بیان ریکارڈ کرلیا گیا تاہم آئندہ سماعت پر جرح ہو گی۔

    مرکزی ملزم کی میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست پر سماعت نہ ہو سکی ، جس پر عدالت نے 15دسمبر کومرکزی ملزم کی میڈیکل بورڈکی درخواست پر دلائل طلب کرلئے۔

    ایڈیشنل سیشن جج نے کہا تھیراپی ورکس کے مزید گواہ کی درخواست بھی آئندہ سماعت پرسنی جائے گی۔

    ملزم کے وکیل نے استدعا کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو عدالت میں چلانا چاہتے ہیں ، صرف متعلقہ افراد کی موجودگی میں سی سی ٹی وی چلائی جائے، نہیں چاہتے مزید فوٹیجز لیک ہوں اس لیے میڈیا کو اجازت نہ دی جائے۔

    بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت 15دسمبر تک ملتوی کر دی۔

  • نورمقدم قتل  کیس : تھراپی ورکس کے ملازم نے انسپکٹر اور ظاہرجعفر کے خلاف استغاثہ دائر کر دیا

    نورمقدم قتل کیس : تھراپی ورکس کے ملازم نے انسپکٹر اور ظاہرجعفر کے خلاف استغاثہ دائر کر دیا

    اسلام آباد :نورمقدم قتل کیس میں تھراپی ورکس کے زخمی ملازم امجد نے انسپکٹر اور ظاہر جعفر کے خلاف استغاثہ دائر کر دیا، ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی 13 نومبر کو استغاثہ کی درخواست پرسماعت کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی سیشن عدالت میں نورمقدم قتل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، جس میں تھراپی ورکس کے زخمی ملازم کاانسپکٹر عبدالستار اورظاہرجعفر کیخلاف استغاثہ دائر کردیا گیا۔

    استغاثہ وکیل کے ذریعے تھانہ کوہسار کے علاقہ مجسٹریٹ میں دائر کیا گیا ، جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے درخواست ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کو بھیج دی ، ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی 13 نومبر کو استغاثہ کی درخواست پرسماعت کریں گے۔

    درخواست گزار نے کہا کہ 20جولائی کی شام ساڑھے7 بجےمکان پرٹیم کےہمراہ پہنچے، گزشتہ ڈیڑھ سال سےتھراپی ورکس کےساتھ کام کررہاہوں، نشے کےعادی اورنفسیاتی مریضوں کاعلاج کرتےہیں۔

    تھراپی ورکس کے زخمی ملازم کا کہنا تھا کہ میڈیکل انٹروینشن کےلیےظاہرکےگھرپہنچےتووہ اوپر کمرے میں تھا، چوکیدارافتخارنےبتایا ظاہرذاکرجعفر کےپاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، سیڑھی لگاکرکمرےمیں داخل ہوا،اس نےمجھ پرحملہ کردیا۔

    درخواست گزار کے مطابق ظاہرجعفر نے 9ایم ایم پسٹل سےفائرکیالیکن گولی نہیں چلی، تھراپی ورکس کےدیگرملازمین مجھےاسپتال لیکرپہنچے، ظاہرجعفرکےکمرےمیں نورمقدم کی لاش پڑی تھی، لاش کومجھ سمیت دیگرملازمین نے خوددیکھا۔

    ملازم کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نےہمیں گواہ بنانےکی بجائےملزم بنا دیا، تفتیشی افسر نےہمیں ملزمان بناکرملزم کوفائدہ پہنچانےکی کوشش کی، تفتیشی افسرعبدالستار اورظاہرجعفرکے خلاف مقدمہ درج کیاجائے۔

  • نور مقدم قتل کیس، ملزم ظاہر جعفر کی عدالت میں پولیس سے ہاتھا پائی

    نور مقدم قتل کیس، ملزم ظاہر جعفر کی عدالت میں پولیس سے ہاتھا پائی

    اسلام آباد: نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت میں پولیس سے ہاتھا پائی کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں‌ نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ،ایڈیشنل سیشن جج عطاربانی نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ملزم ظاہر جعفر کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

    سماعت کے آغاز پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی عدالتی کارروائی کے دوران بولنے کی کوشش تو پولیس اہلکاروں نے اس خاموش رہنے کا کہا جس پر ظاہر جعفر نے پولیس اہلکاروں سے ہاتھا پائی شروع کردی اور نازیباالفاظ کا استعمال کیا۔

    ملزم ظاہر جعفر چلا چلا کر حمزہ کا نام پکارتا رہا اور کہنے لگا کہ میں نے ایک چیز کہنی ہے، میں کمرہ عدالت میں رہ کر جج سےکچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر جج نے پولیس کو حکم دیا کہ ملزم کو کمرہ عدالت سے باہر لے جایا جائے، جس پر ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ اب نہیں بولوں گا، اور پھر دروازے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: ‏نور مقدم قتل کیس کا ابتدائی چالان مکمل، ظاہر جعفر کے علاوہ 11 افراد مجرم قرار

    واضح رہے کہ عدالت نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کرچکی ہے، ملزم کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا تھا کہ کہ ذاکر جعفر کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ فرد جرم عائد کی جائے۔

    خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

    ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

    وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

    چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

  • نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر پہلی بار عدالت میں بول پڑا

    نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر پہلی بار عدالت میں بول پڑا

    اسلام آباد : نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہرجعفرنےعدالت میں معافی مانگ لی، عدالت نے فردجرم کیلئے 14 اکتوبرکی تاریخ مقرر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج عطاربانی نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کی ، تفتیشی اور سرکاری وکیل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ظاہرجعفرسمیت 6 ملزمان کوعدالت میں پیش کیا گیا۔

    عدالت نے وکلاء کی جانب سے جمع کرائی گئی 03 متفرق درخواستوں کی سماعت کی، گزشتہ روز ملزمان کے وکلاء نے یہ درخواستیں جمع کرائیں تاکہ تمام کیس ریکارڈ (ملٹی میڈیا شواہد) اور کم از کم 07 دن کا وقت طلب کیا جائے تاکہ فرد جرم کے طریقہ کار کی تیاری کی جا سکے۔

    انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عدالت نے مکمل دستاویزات فراہم نہیں کی ہیں، عدالت نے وکلاء کی جانب سے دائر تمام درخواستوں کو خارج کر دیا

    مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا عدالت کے سامنے بیان میں کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں،میں آگے آکر روسٹر پر بات کرنا چاہتا ہوں ، جس پر فاضل جج نے جواب دیا کہ ابھی آپکی ضرورت نہیں ہے ٹرائل میں اپکو بھی سنیں گے۔

    فاضل جج نے پولیس کو ہدایت کی کہ ملزمان کو واپس بخشی خانہ لے جائیں اور  ملزمان پر فردجرم کیلئے 14 اکتوبرکی تاریخ مقرر کردی۔