Tag: north korea

  • میزائل تجربات کے باوجود امریکا شمالی سے مذاکرات کے لیے پُرامید

    میزائل تجربات کے باوجود امریکا شمالی سے مذاکرات کے لیے پُرامید

    واشنگٹن: امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے میزائل تجربے کے باوجود شمالی کوریا سے مذاکرات کی امید کا اظہار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا کو تاحال امید ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے حالیہ تجربے کے باوجود جوہری مذاکرات کا ایک اور دور ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق انہوں نے کہا کہ امریکا، شمالی کوریا کی صورت حال کو قریب سے دیکھ رہا ہے لیکن اگلے چند ہفتوں میں مذاکرات کے ایک نئے دور کو جاری رکھنے کی منصوبہ بندی ہوری ہے۔

    مائیک پومپیو نے کہا کہ حالیہ تجربے درمیانی فاصلے کے میزائلوں کے ہوئے ہیں لیکن جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوکر آئے تھے تو شمالی کوریا طویل فاصلے پر مار کرنے والے راکٹ اور جوہری ہتھیاروں کے تجربے کر رہا تھا۔

    امریکی سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک روز قبل ہی شمالی کوریا نے مختصر فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے 2 میزائلوں کا تجربہ کیا تھا۔

    شمالی کوریا کا مزید 2 میزائلوں کا تجربہ

    شمالی کوریا نے اس سے قبل بھی 2 تجربے کیے تھے جس کے بعد ایک ہفتے میں یہ چوتھا میزائل تجربہ تھا جبکہ امریکی صدر نے ان تجربوں کو جاپان اور جنوبی کوریا کے لیے کوئی خطرہ قرار نہیں دیا تھا۔

    خیال رہے کہ شمالی کوریا کی وزارت خارجہ کی جانب سے واشنگٹن اور سیؤل کے درمیان جاری مشترکہ مشقوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے چند منٹ بعد ہی اپنے ملک کے میزائل تجربے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تھا۔

  • شمالی کوریا کا مزید 2 میزائلوں کا تجربہ

    شمالی کوریا کا مزید 2 میزائلوں کا تجربہ

    پیانگ یانگ: شمالی کوریا نے اپنی مضبوط دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہفتے کے دوران چوتھے میزائل کا کامیاب تجربہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے دو میزائل جنوبی صوبہ ہانگ ہائے سے مشرق کی جانب سے سمندر میں داغا گئے ہیں۔

    شمالی کوریا نے گزشتہ روز امریکا اور جنوبی کوریا کے درمیان شروع ہونے والی فوجی مشقوں پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

    شمالی کوریا کے مطابق یہ مشقیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں۔

    جنوبی کوریا کے حکام کے مطابق گزشتہ جمعے شمالی کوریا نے کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والی نئی قسم کے میزائلوں کا تجربہ کیا تھا۔

    جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے حکام کے مطابق یہ دو میزائل بحیرہ جاپان میں جا گرے۔

    جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے مطابق ان میزائلوں نے انتہائی سست روی سے تقریباََ 220 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق میزائل بظاہر غیرمعمولی طور پر تیز رفتار تھے۔

  • ایک ہفتے کے دوران شمالی کوریا کا ایک اور بلاسٹک میزائل کا تجربہ

    ایک ہفتے کے دوران شمالی کوریا کا ایک اور بلاسٹک میزائل کا تجربہ

    پیانگ یانگ: شمالی کوریا نے اپنی مضبوط دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہفتے کے دوران دوسرے بلاسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے ایک اور شارٹ رینج بلاسٹک میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے، جسے شمالی کوریائی ملٹری دفاعی سسٹم میں شامل کیا جائے گا جنوبی کوریا کی فوج کے مطابق شمالی کوریا نے ایک ہفتے کے دوران دوسرا میزائل لانچ کیا ہے۔

    واضح رہے کہ شمالی کوریائی حکومت نے اس سے قبل میزائل تجربے کے بعد مزید میزائل تجربات کرنے کا عندیہ کا دیا تھا، کوریائی حکومت کا پے در پے میزائل تجربات کرنے کا مقصدامریکا کو اپنی طاقت کا احساس دلانا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کی جانب سے مذکورہ میزائل کا تجربہ سیئول حکومت کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مشترکا فوجی مشقوں کی منصوبہ بندی پر ’سنجیدہ انتباہ‘ قرار دیا جارہا ہے۔

    جنوبی کوریا کے لیے جوئنٹ چیف آف اسٹاف نے جاری بیان میں کہا ہے کہ شمالی کوریا کا میزائل 155 میل (250 کلومیٹر)کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جاپان کی سمندری حدود میں جاگرا جو ’’مشرقی سمندر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    جاپانی وزیر اعظم نےمشرقی سمند رمیں کوریا ئی میزائل گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ میزائل تجربے سے جاپان کی سیکیورٹی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

    یاد رہے کہ چھ روز قبل شمالی کوریائی حکومت نے کم فاصلے پر مار کرنے والے دو شارٹ رینج میزائل کا تجربہ کیا تھا، جس میں سے ایک نے 690 کلومیٹر جبکہ دوسرے میزائل نے 430 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔

  • شمالی کوریا کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ، ایک اور میزائل کا تجربہ

    شمالی کوریا کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ، ایک اور میزائل کا تجربہ

    پیانگ یانگ: شمالی کوریا نے اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک اور میزائل کا تجربہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے ایک اور شارٹ رینج میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے، جسے شمالی کوریائی ملیٹری دفاعی سسٹم میں شامل کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے میزائل تجربات کرنے کا مقصد امریکا کو اپنی طاقت کا احساس دلانا ہے، جبکہ مستقبل میں مزید میزائل تجربات کا عندیہ دیا گیا ہے۔

    شمالی کوریا کا میزائل 270 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جاپان کی سمندری حدود میں جاگرا جو ’’مشرقی سمندر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جاپان نے پیانگ یانگ کی تازہ کارروائی کو جارحانہ اور افسوسناک قرار دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوسری ملاقات کے فوری بعد کوریائی حکومت نے ایک شارٹ رینج میزائل کا تجربہ کیا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مذاکرات کی ناکامی کے باوجود شمالی کوریا اپنا دفاعی نظام کمزور نہیں کرسکتا۔

    شمالی کوریا کا ایک اورمیزائل تجربہ

    البتہ امریک کی جانب سے شمالی کوریا کے اس اقدام پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ خیال رہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے آئے دن میزائل تجربات کی اطلاعات آتی رہتی ہیں جن سے خطے میں تناؤ کی کیفیت طاری رہتی ہے۔

    امریکی صدر نے کم جونگ سے اپنی ملاقاتوں میں اسی بات پر زور دیا تھا کہ وہ جوہری تجربات کا مکمل طور پر خاتمہ کریں بصورت دیگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے۔

  • امریکا، شمالی کوریا کے امن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے، شمالی کوریا

    امریکا، شمالی کوریا کے امن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے، شمالی کوریا

    پیانگ یانگ : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کے درمیان ملاقات کے چند روز بعد ہی شمالی کوریا نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا ہمارے خلاف جارحانہ اقدامات پر تلا ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوامِ متحدہ میں شمالی کوریا کے مشن نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر امریکا اور شمالی کوریا کے سربراہان کے درمیان حالیہ ملاقات اور مذاکرات کے بحالی کے باوجود امریکا جارحانہ اقدامات پر تلا ہوا ہے اور امریکا کو پابندیاں لگانے کا جنون ہے جب کہ واشنگٹن جزیرہ نما کوریا کے پرامن ماحول کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔

    خیال رہے امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو خط بھیجا گیا ہے جس میں شمالی کوریا پر مزید پابندیوں اور شمالی کوریا کے ورکرز کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    شمالی کورین وفد نے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو خبردار کیا کہ امریکا کی جانب سے جان بوجھ کر شمالی کوریا کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش سے محتاط رہنا ہوگا۔

    یاد رہے 30 جون کو ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر کا اعزاز حاصل کیا تھا جہاں انہوں نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن سے جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ملاقات کی تھی جہاں دونوں رہنماؤں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے مذاکرات کے لیے ٹیم بنانے پر اتفاق ہوا تھا تاہم ملاقات کے چند روز بعد ہی دونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر سے کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے۔

  • ٹرمپ اُن ملاقات کو جنوبی کوریا نے دشمنی کا خاتمہ قرار دے دیا

    ٹرمپ اُن ملاقات کو جنوبی کوریا نے دشمنی کا خاتمہ قرار دے دیا

    سیول: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان حالیہ ملاقات کو جنوبی کوریا نے دشمنی کا خاتمہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات دشمنی کا خاتمے کا سبب بنیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے دو روز قبل تیسری ملاقات کی تھی، اس دوران دوطرفہ تعلقات کی بحالی سمیت جوہری ہتھیاروں سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

    جنوبی کوریا کے سربراہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے سربراہ کے درمیان یہ ملاقات انتہائی اہم ہے، دشمنی کے خاتمے سمیت مستقبل میں بہتر تعلقات استوار کرنے میں ملاقات اہم ثابت ہوگی۔

    اس سے قبل ٹرمپ اور کم جونگ کے درمیان ہونے والی دو ملاقاتوں میں جنوبی کوریا نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے سربراہ کی دعوت پر جنوبی اور شمالی کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پہنچے تھے، ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے شمالی کوریا میں قدم رکھا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا میں قدم رکھنے والے پہلے صدر بن گئے

    اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ’یہ بہت مثبت اور اچھی ملاقات ہے، یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ہم دونوں روز اوّل سے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں‘۔

    واضح رہے کہ دونلڈ ٹرمپ نے کم جون ان کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی دعوت دی جس پر شمالی کوریا کے چیئرمین نے کہا کہ ہمارے تعلقات تاحال اچھے نہیں ہوئے ہیں لہذا یہ ممکن نہیں ہوپائے گا۔

  • نو ٹرمپ نو، گو ٹرمپ گو کے نعروں سے امریکی صدر کا جنوبی کوریا میں استقبال

    نو ٹرمپ نو، گو ٹرمپ گو کے نعروں سے امریکی صدر کا جنوبی کوریا میں استقبال

    سیول: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جنوبی کوریا پہنچنے پر ملکی عوام نے سڑکوں پر مظاہرہ کرتے ہوئے ’’نو ٹرمپ نو، گو ٹرمپ گو‘‘ کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔

    تفصیلات کے مطابق مظاہرین کی فلک شگاف نعروں میں دیگر ممالک کے خلاف امریکا کی اقتصادی پابندیوں اور اقتصادی دباؤ کے خاتمے پر زور دیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جاپان میں جی 20 رکن ممالک کے اجلاس کے بعد جنوبی کوریا پہنچے جہاں کوریا کے عوام نے سیول میں نو ٹرمپ نو اور گو ٹرمپ گو کے فلک شگاف نعروں سے امریکی صدر کا استقبال کیا۔

    اس موقع پر مظاہرین نے دیگر ممالک کے خلاف امریکا کی اقتصادی پابندیوں اور اقتصادی دباؤ کے خاتمے پر تاکید کی۔

    اطلاعات کے مطابق امریکی صدر جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان سے دوطرفہ تعلقات اور شمالی کوریا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں جنوبی کوریا پہنچے تھے۔

    ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئیٹر بیان میں شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا، بعد ازاں وہ جنوبی کوریا کا دورہ مکمل کرکے شمالی کوریا پہنچے اور کم جونگ سے ملاقات کی۔

    واضح رہے کہ صرف جنوبی کوریا ہی وہ واحد ملک نہیں ہے جہاں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے ہوئے بلکہ اس سے قبل جاپان، برطانیہ، بھارت اور خود امریکا سمیت کئی ممالک میں ٹرمپ کی آمد کے موقع پر زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا میں قدم رکھنے والے پہلے صدر بن گئے

    خیال رہے کہ شمالی کوریا کےچیئرمین کم جون ان نے ٹرمپ کو جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان واقع غیر فوجی علاقے میں ملاقات کی دعوت دی تھی جسے ٹرمپ نے قبول کرتے ہوئے گذشتہ صبح اُن سے ملاقات کی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی اور جنوبی کوریا کے غیر فوجی علاقےمیں ہونے والی تاریخی ملاقات کے موقع پر کہا کہ ’یہ تاریخی لمحات میرے ’قابل فخر‘ ہیں۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا میں قدم رکھنے والے پہلے صدر بن گئے

    ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا میں قدم رکھنے والے پہلے صدر بن گئے

    واشنگٹن : ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے سربراہ کی دعوت پر جنوبی اور شمالی کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پہنچ گئے،ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے شمالی کوریا میں قدم رکھا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ روز دو روزہ دورے پر جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول پہنچے تھے، امریکی صدر کے اس دورے کا مقصد شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے مذاکرات کی بحالی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کےچیئرمین کم جون ان نے ٹرمپ کو جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان واقع غیر فوجی علاقے میں ملاقات کی دعوت دی تھی جسے ٹرمپ نے قبول کرتے ہوئے آج صبح اُن سے ملاقات کی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی اور جنوبی کوریا کے غیر فوجی علاقےمیں ہونے والی تاریخی ملاقات کے موقع پر کہا کہ ’یہ تاریخی لمحات میرے ’قابل فخر‘ ہیں۔

    چیئرمین کم جون ان نے اپنے ٹرانسلیٹر کے ذریعے کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے ملاقات کا فیصلہ پُر اعتماد اور بہادرانہ اقدام ہے‘۔

    شمالی کوریا کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’دوبارہ ملاقات کرکے خوشی ہوئی، امید نہیں تھی کہ اس مقام پر ملیں گے‘۔

    اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ’یہ بہت مثبت اور اچھی ملاقات ہے، یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ہم دونوں روز اوّل سے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں‘۔

    دونلڈ ٹرمپ نے کم جون ان کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی دعوت دی جس پر شمالی کوریا کے چیئرمین نے کہا کہ ہمارے تعلقات تاحال اچھے نہیں ہوئے ہیں لہذا یہ ممکن نہیں ہوپائے گا۔

  • امریکا شمالی کوریا سے تعمیری مذاکرات کے لیے تیار ہوگیا

    امریکا شمالی کوریا سے تعمیری مذاکرات کے لیے تیار ہوگیا

    سیول: امریکا کے شمالی کوریا کے لیے خصوصی مندوب اسٹیفن بِنگن نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت پیونگ یانگ کے ساتھ تعمیری مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے شمالی کوریا سے مذاکرات کے لیے کوئی پیشگی شرائط بھی نہیں رکھیں، وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ تناؤ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی مندوب بِنگن کے بیان کو جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے جاری کیا ہے، امریکی خصوصی سفیر نے یہ بات اپنے جنوبی کوریائی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے دوران کہی تھی۔

    جنوبی کوریائی وزارت خارجہ نے وضاحت کی کہ یہ ملاقات جمعہ کو سیول میں ہوئی، یہ امر اہم ہے کہ رواں برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی سپریم لیڈر کم جونگ ان کے درمیان ویتنامی دارالحکومت ہنوئی میں ملاقات بغیر کسی پیش رفت کے ناکام ہو گئی تھی۔

    قبل ازیں اسٹیفن بنگن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ شمالی کوریا نے گرم جوشی پر مبنی تعلقات کے لیے اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے کی پیشکش کی ہے، تاہم با معنی مذاکرات کے لیے قابل تصدیق اقدامات ضروری ہیں۔

    شمالی کوریا تنازعہ، امریکا بغیر کسی شرط کے مذاکرات کے لیے راضی

    خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر کو شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن کی طرف سے ایک نیا ’خوبصورت خط‘ بھی موصول ہوا تھا، جس میں مثبت خیالات کا اظہار اور جوہری پروگرام کے خاتمے کی بات کی گئی تھی۔

  • ٹرمپ اور کم جونگ کی ایک بار پھر ملاقات کے امکانات

    ٹرمپ اور کم جونگ کی ایک بار پھر ملاقات کے امکانات

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان ایک بار پھر ملاقات کے امکانات روشن ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اور شمالی کوریا حکام کی جانب سے کوششیں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان دوبارہ ملاقات کے لیے راہیں ہموار ہوسکے

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دونوں ممالک کے حکومتی اہلکار پس پردہ مذاکرات کررہے ہیں جس کا مقصد ٹرمپ اور کم جونگ ان کو ایک میز پر بٹھانا ہے۔

    اس سے قبل دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں لیکن بےسود ثابت ہوئیں، فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے، جبکہ تیسری سمٹ میں پیش رفت کے امکانات ہیں۔

    جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے بھی ٹرمپ کم ملاقات کا عندیہ دیا ہے، انہوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ جلد امریکی صدر شمالی کوریا کے سربراہ سے ملاقات کریں گے۔

    ٹرمپ کم ملاقات، جنوبی کوریا نے مایوسی کا اظہارکردیا

    صدر ٹرمپ اور کم جونگ کی پہلی ملاقات میں امریکی صدر نے کم جونگ کو پوری امید دلائی تھی کہ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ فوجی مشقیں بحال نہیں کرائیں گے، جبکہ دوسری جانب شمالی کوریا پر جوہری ہتھیاوں کے خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کی آٹھ ماہ بعد ملاقات ہوئی اور دونوں ملکوں کے سربراہان نے مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم کردیے تھے۔ بعد ازاں جنوبی کوریا نے اس پر تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔

    قبل ازیں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جوہری پروگرام کے خاتمے کے معاملے پرجلد بازی سے کام نہیں لینا چاہتے، معاہدے میں سرعت دکھانے کے بجائے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ معاہدہ درست انداز میں کیا جائے۔