Tag: novel

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ دونوں ایک پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے پہاڑی بکرے کو بے تحاشا دوڑا رہے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ بکرا تنگ آ کر پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر زقند بھرتا، ذرا دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں نے پتھر اٹھا کر اس کے پیچھے پھینکے اور ہنستے ہوئے، پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔

    ان میں سے ایک نے پھولی سانسوں کے درمیان دوسرے سے پوچھا "جبران! اسے بوجھو، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے ….. بتاؤ، کیا ہے؟”

    جبران جھٹ سے بولا "شروع ہو گئی تمھاری پہیلیاں، لیکن یہ تو بہت آسان ہے، میں بتاتا ہوں ایرو پلین۔”

    پہلا لڑکا ہنس کر بولا "بے وقوف، ہوائی جہاز بھاگتا نہیں اڑتا ہے۔”

    "تو پھر…..” جبران نے چٹان پر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھک کر کنپٹی سہلائی اور دوسری کوشش کی "پہاڑی بکرا”۔

    "دھت تیرے کی” لڑکے نے قہقہ لگایا۔

    "تو پھر تم ہی بتا دو۔” جبران نے جھنجھلا کر کہا۔

    "وقت” اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ سن کر جبران اچانک اچھل کر چٹان سے کود پڑا اور بولا "ارے، میں تو بھول گیا تھا، مما نے جلدی آنے کو کہا تھا، چلو دیر ہو گئی ہے۔”

    جبران گول گول پتھروں پر چھلانگیں مارتا گھر کی جانب دوڑا، دوسرا لڑکا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ کی دوسری طرف ایک چھوٹے مگر سلیقے سے بنے نہایت خوب صورت گھر کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر جبران رک گیا۔ صحن میں ایک پُروقار خاتون تار پر سے سوکھے کپڑے اتار رہی تھیں، چہرے مہرے سے وہ چالیس سال کی لگ رہی تھیں، اور اس نے اس پہاڑی گاؤں کی روایت کے برعکس سادہ لیکن جاذب نظر شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں غیر ملکی چپل تھی، یہ بات نہیں تھی کہ انھیں اپنی روایات پسند نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک طویل عرصہ اسکاٹ لینڈ میں گزارنے کے باعث اپنے خوب صورت ترین شہر اور پُر فضا مقام گلگت کی ثقافت سے دور ہو گئی تھیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت اب بھی ان کے دل میں زندہ تھی، وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ یہاں کا روایتی لباس اب ان سے پہنا نہیں جاتا تھا۔ وہ ہلکا پھلکا لباس پہننے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کا نام شاہانہ تھا۔

    شاہانہ نے مڑ کر اپنے بیٹے جبران کی طرف دیکھا اور کلائی میں بندھی سنہری گھڑی پر نظر ڈالی، پھر تیز آواز میں بولیں۔ ” جبران ، تم دس منٹ لیٹ ہو۔”

    "سوری ممی، قصور اس پہاڑی بکرے کا ہے۔” جبران کوئی بات بنا رہا تھا کہ منھ سے بکرے کا ذکر نکل گیا۔

    "پہاڑی بکرا…. تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟” ممی نے اسے گھور کر دیکھا۔

    "وہ ممی، دراصل ہم پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔” جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ اسے پتا تھا کہ اب ممی غصہ ہوں گی، اور اسے ایک عدد لیکچر سننے کو ملے گا ، لیکن خلاف توقع انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”بے وقوفی والی باتیں مت کرو، کمرے میں جاؤ اور اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    "ٹھیک ہے ممی۔” جبران نے کہا اور پیچھے مڑ کر دوسرے لڑکے سے پوچھا "کیا تم تیاری کر چکے ہو؟”

    ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ خاتون نے اسے مخاطب کیا "دانیال بیٹا، تم بھی جاؤ، امی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی، کل صبح ہماری فلائٹ ہے، اپنی ساری چیزیں سمیٹنے میں امی کی مدد کرو۔”

    "جی آنٹی۔” دوسرے لڑکے دانیال نے سَر ہلایا اور جبران کے کندھے کو ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے نکل گیا۔

    اگلی صبح اسکاٹ لینڈ کے لیے ان کی فلائٹ تھی۔ جبران کے والد بلال احمد بیس سال سے اسکاٹ لینڈ میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ شاہانہ کی پیدائش اسکاٹ لینڈ ہی میں گلگت کے ایک خاندان میں ہوئی تھی، لیکن ان کے والدین نے انھیں بچپن میں گلگت بھجوا دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس اسکاٹ لینڈ گئیں، اور پھر تیس سال کی عمر میں ان کی شادی بلال احمد سے ہوئی۔ شاہانہ ایک عرصے بعد گلگت آئی تھیں، اور جبران نے پہلی مرتبہ آبائی گاؤں دیکھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ واپس جانے کو ابھی اس کا جی نہیں کر رہا تھا لیکن وہ اپنے کزن دانیال کو اسکاٹ لینڈ دکھانے کے لیے بے چین تھا۔ دانیال اس کے چچا کا بیٹا تھا اور گیارہ سال کا تھا، یعنی اس سے ایک سال بڑا۔ دونوں ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے تھے۔ یہ جبران ہی کی ضد تھی جو اس کے والد نے دانیال کے لیے بڑی مشکلوں سے وزٹ ویزا بھجوایا۔

    صبح نو بجے انھوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے رشتے داروں اور سرزمین پاک کو الوداع کہا، اور جزیروں کی سرزمین کی طرف محو پرواز ہو گئے۔ دانیال نے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز میں قدم رکھا تھا، اس لیے وہ با ت بات پر حیران ہو رہا تھا اور جبران اسے ہر چیز کی تفصیل پُر جوش انداز میں بتاتا جا رہا تھا۔

    دونوں دوران پرواز کبھی باتوں میں مگن ہوتے، کبھی کچھ کھاتے، کبھی سوتے ، یہاں تک کہ جہاز گلاسگو کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ تیرہ چودہ گھنٹوں کے طویل فضائی سفر نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر جبران کے والد بلال احمد ان کے منتظر تھے۔ جبران انھیں دیکھ کر دوڑا اور ان سے لپٹ گیا۔ "پپا، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”

    "مجھے بھی تم لوگ بہت یاد آ رہے تھے۔” انھوں نے جبران کو پیا ر کیا۔

    "پپا، یہ دانیال ہے، پتا ہے دانی اب میرا بیسٹ فرینڈ بن چکا ہے۔” جبران نے اپنے نئے دوست کا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ بلال احمد مسکرائے اور دانیال کو بھی گلے لگا لیا۔ "کیسے ہو بیٹا، ہوائی جہاز کا سفر کیسا لگا؟”

    "بہت زبردست، بہت مزا آیا۔” دانیال نے فوراً جواب دیا۔

    وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس آ گئے، تو کار سے پانچ سالہ عرفان اور دو سالہ سوسن بھی نکل کر ممی اور بھائی جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر جبران کی ممی نے سوسن کو گود میں بٹھا لیا اور ایک بازو عرفان کے گرد حمائل کر کے ان سے باتیں کرنے لگیں۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنے پاپا کے پاس ہی اسکاٹ لینڈ میں چھوڑا تھا۔

    گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر… دانیال اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے پہلی نظر میں یہ شہر پسند آ گیا تھا اور اس لیے وہ بہت خوش تھا۔

    گلاسگو کے مضافات می بلال احمد نے ایک چھوٹا سا لیکن خوب صورت گھر خریدا تھا، جس کے سامنے ایک پیارا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے سامنے انھوں نے گاڑی روک دی اور اعلان کیا۔ "یہ ہے ہمارا چھوٹا سا پیارا گھر۔”

    جبران تیزی سے دروازہ کھول کر اترا، اور باغیچے کے درمیان بنے تنگ راستے میں دوڑا، جس کے اختتام پر گھر کا دروازہ تھا۔ دورازہ بند تھا، وہ مڑا اور بولا "پپا پلیز، چابی مجھے دیں۔”

    بلال احمد ڈگی سے سوٹ کیس نکال رہے تھے، ذرا ٹھہر کر انھوں نے چابی نکالی اور جبران کی طرف اچھال دی۔ جبران نے چابی کیچ کر لی اور دروازہ کھول دیا۔پھر مڑ کر دیکھا اور بولا۔ "دانی، بھاگ کر آؤ، میں تمھیں اپنا گھر دکھاتا ہوں۔”

    دانیال بھی اس کی طرف دوڑا۔ گھر کو اندر سے اتنی نفاست سے سجایا گیا تھا کہ دانیال حیران رہ گیا۔ جبران نے ذرا دیر میں سارا گھر اسے دکھا دیا، وہ بے حد متاثر ہوا، پھر وہ ایک کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال احمد شاہانہ سے گاؤں کے حالات پوچھنے لگے، اور دونوں دوست اپنی گپ شپ میں محو ہو گئے۔ رات کا کھانا انھوں نے مل کر کھایا، اور پھر کچھ دیر بعد وہ سونے کے لیے چلے گئے۔

    اگلی صبح ناشتے کے بعد جبران کے پاپا تو آفس چلے گئے، جب کہ جبران، دانیال کو لے کر چھت پر آ گیا۔

    "جبران، کیا تمھارا یہاں کوئی دوست نہیں ہے؟” دانیال نے پوچھا۔ جبران نے جواب میں کہا "یہاں محلے میں تو کوئی خاص نہیں البتہ اسکول میں ڈینئل میرا بہت اچھا دوست ہے، ایک آن لائن فرینڈ بھی ہے۔ فیونا…. تمھاری ہی ہم عمر ہے، یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے گیل ٹے کے نام سے، وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔”

    دانیال نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا، اس لیے اسے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا، اس لیے اس نے پوچھا "یہ آن لائن فرینڈ سے کیا مطلب ہے؟”

    جبران کو پہلے تو اس کی بے خبری پر حیرت ہوئی لیکن پھر اس نے تفصیل سے بتا دیا کہ وہ کس طرح اس کی دوست بنی۔ "تو تم آج تک فیونا سے نہیں ملے ہو؟” دانیال نے حیران ہو کر کہا۔

    "نہیں۔” جبران بولا۔ "لیکن چلو، ابھی اس سے رابطہ کرتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ میں جیسے ہی واپس آؤں اسے ضرور بتاؤں۔”

    جبران اسے لے کر اپنے کمرے میں آیا، اور کمپیوٹر آن کر کے فیونا کو انباکس میسج کر دیا،کچھ ہی دیر میں فیونا کا جواب آ گیا، اس نے جبران کو اسکاٹ لینڈ واپس آنے پر خوش آمدید کہا تھا، اور پھر پاکستان اور گلگت کے سفر سے متعلق تفصیلات پوچھنے لگی۔ جبران نے اسے دانیال سے متعلق بھی بتا دیا۔ فیونا یہ جان کر خوش ہوئی اور کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چیٹنگ کرے، لیکن جبران نے بتایا کہ دانی کو انگریزی نہیں آتی۔ فیونا کو مایوسی ہوئی، لیکن پھر اس نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ جبران نے کہا اگر ممی پاپا نے اجازت دی تو وہ ضرور دانی کو لے کر آ جائے گا۔

    دوپہر کو کھانے کی میز پر جبران نے ممی سے فیونا کا ذکر کر دیا، اور جانے کی اجازت مانگی۔ چوں کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے انھوں نے اجازت دے دی۔ شام کو پپا نے بھی بہ آسانی اجازت دے دی اور دونوں نے اگلے دن صبح ہی گیل ٹے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

    صبح سویرے دونوں بس میں بیٹھ کر دس منٹ میں گیل ٹے پہنچ گئے۔ فیونا کا گھر ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ تھوڑی ہی دیر میں درست پتے پر پہنچ گئے۔ ایک بہت ہی پیاری لڑکی …. فیونا کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ دراصل ان ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان کے سامنے رک گئی۔ خوش آمدید کہ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔

    جاری ہے…..

  • درویشوں کی پول کھولتا کچھوا اور سید کاشف رضا

    درویشوں کی پول کھولتا کچھوا اور سید کاشف رضا

    تبصرہ نگار: بلال حسن بھٹی

    سید کاشف رضا کراچی میں مقیم شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی ہیں۔ چار درویش اور ایک کچھوا سے پہلے ان کے دو شعری مجموعے ”محبت کا محل وقوع“ اور ”ممنوع موسموں کی کتاب“  چھپ چُکے ہیں۔

    اس کے علاوہ وہ کئی سفری کہانیاں لکھ چکے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے کراچی ریویو کے نام سے ایک رسالہ نکالا ہے، جس میں مختلف کتابوں پر مبنی ریویو اور کسی ایک بڑے ادیب کے لیے ایک گوشہ مختص کیا گیا ہے۔ وہ نوم چومسکی کی دو کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کر چکے ہیں، جبکہ محمد حنیف کے ناول A Case of Exploding Mangoes کا ترجمہ عن قریب مکتبہ دانیال سے شائع کیا جائے گا۔

    چار درویش اور ایک کچھوا کے پہلے باب میں راوی کا بیان قاری کو اپنی کہانی بیان کرنے کے حرص میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ بہ قول راوی کے، مل جل کر دعوت اڑانے کا مزا ہی اپنا ہے۔ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ راوی کا ابتدائیہ قاری کے لیے appetizer کے طور پر لکھا گیا ہے۔

    ناول نگار: سید کاشف رضا

    ناول نگار، جو خود راوی بھی ہے، ناول کا واحد راوی نہیں، بلکہ چار درویش بھی ہیں، جو اپنی کہانی خود سناتے ہیں۔ وہاں ایک کچھوا بھی بیٹھا ہوا ہے، جو کہانی کو اس کی اصلی شکل میں دکھانے کا متمنی ہے۔ وہ راوی کی اجارہ داری کو توڑنے کا کام کرتا ہے۔ جب بھی راوی یا کوئی کردار حقیقت سے ہٹ کر، اپنا آپ بچا کر یک طرفہ سچ بولتا ہے تو کچھوا، جس کا نام ارشمیدش ہے، ہمیں راوی کی سرزنش کرتا نظر آتا ہے۔ راویوں کا اپنے الفاظ میں اپنا تعارف اور ارشمیدش کی سچائی ہمیں ہر انسان کی ایک ہی واقعے پر اپنا نقطہ نگاہ، اپنی حقیقت رکھنے کی سمت اشارہ کرتی ہے۔ حقیقت جو اس قدر وسیع اور متنوع ہوتی ہے کہ اسے مکمل طور پر بیان کرنا یا قلم بند کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

    ارسطو کے بہ قول، آرٹ میں حقیقت کی ایک چھوٹی لیکن متوازن شکل ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ یہی کوشش سید کاشف رضا اپنے ناول میں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ سماجی حقیقت کا آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حقیقت چاہے مکمل نہ ہو لیکن یہ حقیقت کی کوئی نا کوئی شکل ضرور ہے۔ ناول میں بیان کی گئی حقیقتیں بہت حد تک ہمارے معاشرے کی آئینہ دار ہیں۔ یہ ناول ہمارے مروجہ اقدار، طے شدہ اخلاقیات اور معاشرے کے حسن کو گہنا دینے والے حادثات کو اپنا موضوع بنائے ہوئے۔ جب کوئی لکھاری کسی بڑے بیانیے کو چیلنج کرتا ہے تو وہ کچھ نا کچھ سبق دینے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات وہ سبق دینے میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ کہانی کا پلاٹ کرداروں پر بھی حاوی ہوتا نظر آتا ہے۔ چار درویش اور ایک کچھوے میں لکھاری کی سبق آموز اجارہ داری بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

    تبصرہ نگار

    ناول صرف جنسی مہمات، جذباتی تعلقات اور اندرونی کشمکش کے بارے میں نہیں ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے آپ سیاست، دہشت گردی، فرقہ ورانہ تعصب جابجا نظر آئے گا۔ غربت کے انسانی رویوں پر اثرات اور کس طرح عسرت اور  طنز انسانی رویوں میں شدت لاتا ہے، یہ سب ہم ناول میں دیکھ سکتے ہیں۔ ناول کی زبان دلچسپ، اجڈ اور منفرد ہے۔ لطیف اور خوبصورت جذباتی واقعات کا بیان اور معاشرتی ناانصافیوں سے مجروح ہونے والے احساسات کو بیان کرنے کے لیے زبان پر عبور حاصل ہونا لازم ہے۔ زبان کے اس تنوع کی وجہ ناول نگار کا گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہونا ہے۔ اپنے والد کی نوکری کی وجہ سے ناول نگار نے مختلف شہروں میں اپنی جوانی کے دن گزارے ہیں، لہٰذا ان کے یہ تجربات منظر نگاری کی عکاسی کرتے ہوئے اور کرداروں کے درمیان مکالمے کرواتے ہوئے عیاں ہوتے ہیں۔ کراچی، پنڈی اور منڈی بہاولدین کے رہنے والوں کے زندگی گزارنے کے طریقے یکسر مختلف ہیں۔ ان کے خیالات، تصورات اور مسائل بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں، یہ تنوع تقاضا کرتا ہے کہ منڈی بہاؤالدین، پنڈی اور کراچی کے لوگوں، وہاں کی سڑکوں، پگ ڈنڈیوں اور اردگرد کے مناظر کا ذکر کرتے ہوئے وہاں کی زبان و بیان اور زمان و مکان کا خیال رکھا جائے۔ ناول میں جو چیز زبان کو دلچسپ بناتی ہے، وہ اس کا کرداروں کے ساتھ ساتھ مسلسل بدلتے رہنا کی خوبی ہے۔

    ناول نگار، جو خود راوی بھی ہے، ناول کا واحد راوی نہیں، بلکہ چار درویش بھی ہیں، جو اپنی کہانی خود سناتے ہیں۔ وہاں ایک کچھوا بھی بیٹھا ہوا ہے، جو کہانی کو اس کی اصلی شکل میں دکھانے کا متمنی ہے۔ وہ راوی کی اجارہ داری کو توڑنے کا کام کرتا ہے۔

    بالا ہو یا عالمگیر، ان کی زبان بالکل دیہات سے تعلق رکھنے والوں جیسی ہے۔ پھر جب ان کے حالات و واقعات بتائے جاتے ہیں، تو دیہات میں استعمال ہونے والے الفاظ حقیقی انداز بیان میں ملیں گے۔ منڈی بہاؤالدین کے ایک قصبے سے جب قتل کر کے بالا نکلتا ہے، تو وہ بڑی بڑی کوٹھیاں دیکھتا ہے. منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے علاقے میں رہنے والوں کی اکثریت باہر کے ممالک میں رہتی ہے اور بڑی کوٹھیاں اس علاقے کی ایک پہچان بن چکی ہے۔ بالے کی کہانی میں پنجابی سلینگ کا استعمال خواہ مخواہ نہیں، بلکہ حالات اور واقعات میں اس طرح فٹ ہے کہ پڑھتے ہوئے قاری کو بالکل بھی انجان محسوس نہیں ہوتا۔

    آفتاب اقبال فلسفے کا استاد ہے، تو اس کی باتوں میں فلسفانہ رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ جاوید اور مشعال کی ایس ایم ایس پر کی جانے والی بات چیت براہ راست رومن انگلش میں لکھی گئی ہے۔ آپ اس بات چیت کو اتنی ہی رفتار میں پڑھیں گے، جتنی رفتار سے آپ کسی کا موبائل اٹھا کر اس کے پیغامات پڑھتے ہیں. ارشمیدش کی صورت کچھوا ہمیں انگلش بھگارتا نظر آتا ہے۔ یہ سب قاری کو کہانی کے قریب کر دیتا ہے۔

    ناول کے ہر باب کا آغاز ستاں دال کے ناول سرخ و سیاہ کی طرح ایک کوٹیشن سے ہوتا ہے، لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ صرف بودریغ کے اقتباسات کو کوٹ کیا گیا ہے۔ وہ اقتباسات بھی صرف حقیقت کی عکاسی بارے  میں ہیں۔ اس ناول میں جہاں آپ کو بالے اور زرینہ جیسے کرداروں کی زندگیوں میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے، وہیں آپ ارسطو، افلاطون، بالزاک، بودریغ اور لوئیس بورخیس کے ساتھ ساتھ میلان کنڈیرا جیسے عظیم فلاسفروں اور فکشن نگاروں سے بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ کہیں دوستوفیسکی جیسے عہد ساز ناول نگار، فرائیڈ جیسے نفسیات دان اور ڈیکارٹ جیسے فلسفی کے مشہور اقوال بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    بین الاقوامی ادب اور فلسفے کی کہانیوں کو برمحل اور خوب صورت  انداز میں کہانی کا حصہ بنانا اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ ناول کے کردار تھوڑے ہیں، لیکن ان ہی کرداروں سے بڑے بڑے بیانیے جیسا کہ رومان پرستی کی دنیا، دہشت گردی سے متاثرہ ہونا، فرقہ واریت کے اثرات، غربت سے پیدا ہونی والی خلفشار اور میڈیا میں پھیلائی جانے والی ہیجانی کیفیات کے بارے میں سب کچھ کہلوا لیا گیا۔

    ناول کا پہلا کردار جاوید اقبال ہے، جو کراچی میں ایک صحافی ہے۔ جاوید اقبال کا کردار پدرسری معاشرے میں رہنے والے مرد کی دورنگی واضح کرتا ہے۔ وہ ایک سے زیادہ عورتوں سے تعلقات رکھن کا قائل ہے، لیکن خود اپنی گرل فرینڈ مشعال کے آوٹ فٹ کو نامناسب سمجھتے ہوئے اس پر کُڑھتا رہتا ہے۔

    اس کی ہیجانی کیفیت، رجعت پسند خیالات، حسد اور لذت کی شدید خواہش آخر میں اس کے اور مشعال کے رشتے میں دراڑ ڈالتی ہے۔ زرینہ کے ساتھ جاوید کے تعلقات کا آغاز اور اختتام حقیقت کے قریب تر ہے۔

    آفتاب اقبال کا کردار ناول کے فلسفے کو آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ وہ فلسفہ ہے حقیت کو مختلف پہلوؤں میں دیکھنے کا فلسفہ۔ آفتاب اقبال فلسفے کا ایک پروفیسر ہے، لہٰذا اس کے کردار کے ذریعے ناول نگار نے کسی فن میں موجود حقیقت کے مختلف زاویوں اور حقیقت کی مقدار کے بارے میں بحث کی ہے۔ آفتاب اقبال فلسفے کا طالب علم ہونے اور ایک جدوجہد بھری زندگی گزارنے کی وجہ سے چالیس سال کی عمر تک کنوارا ہے۔ اس کی شخصیت میں دراڑ ایک خوبصورت آنکھوں والی سٹوڈنٹ نے ڈالی تھی۔ سلمیٰ ایک خوبصورت، ذہین اور عبائے میں خود چھپائے ہوئے ہونے کے باوجود اپنی آنکھوں سے اپنی طرف کھینچنے کا فن رکھتی ہے۔

    ان دو کرداروں کی باہمی کش مکش سے فرقہ ورانہ تفریق، اس سے متعلق پائے جانے والے اختلافات کو منظر کیا گیا ہے.

    بالا  دیہاتی پس منظر رکھنے والا ایک مضبوط کردار ہے۔ بالے کو گالیوں سے پکارا جاتا ہے. ناول نگار نے اس کردار سے دہشت گردی کی عفریت، غربت اور غریبوں کے ساتھ ہونے والے رویے کی عکاسی کی ہے۔ کس طرح غربت تعصب اور نفرت انسان کو قاتل بناتے ہیں۔ ایک دفعہ دہشت گردی کے نیٹ ورک میں پھنس کر باہر نکلنا کس قدر مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے. آخر میں یہی بالا دہشت گرد بن کر بینظیر پر سانحہ کارساز میں حملہ کرنے والوں میں شامل نظر آتا ہے۔

    آخری اور چوتھا درویش اوپر والے تینوں درویشوں کا باپ اقبال محمد خان کا کردار ہے۔ جو ایک تحصیل دار ہے۔ اقبال محمد خان رنگین مزاج شخص ہے، ارشمیدش جو کہ چار درویشوں کے ساتھ موجود ایک کچھوے کا نام ہے، ناول کا ایک دلچسپ کردار ہے۔

    ناول کی ایک خاص چیز اس کے زنانہ کردار  ہیں۔ یہ کردار مضبوط اور بعض مقامات پر مردوں کو چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

    کسی جانور کا ایسا شاندار استعمال اردو ادب میں کم ہی پڑھنے کو ملا۔ یہ کچھوا کوئی فلسفی یا بہت عقل مند ہے یا نہیں لیکن یہ کچھوا ناول نگار جو کہ راوی ہے اس کو متوازن اور مبنی بر حقیقت کہانی کہنے میں خوامخواہ مدد کرتا رہتا ہے۔

    بعض اوقات کچھوے کا کردار راوی کے کردار پر حاوی ہوتا نظر آتا ہے تو کبھی راوی ہمیں کچھوے کے آگے ہتھیار ڈلاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راوی کہتا ہے: ”کسی کی اولاد بھی اس کے ہاتھ سے اس قدر نہیں نکلتی جس قدر یہ کچھوا میرے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے“۔ 

    ناول کی ایک خاص چیز اس کے زنانہ کردار  ہیں۔ یہ کردار مضبوط اور بعض مقامات پر مردوں کو چیلنج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سلمیٰ اور مشعال جہاں پڑھی لکھی، پر اعتماد اور بولڈ ہونے کے ساتھ ساتھ خود کمانے والی  خواتین ہیں، تو دوسری طرف امتہ الکریم اور سلطانہ جیسی خواتین بھی خوددار اور باہمت ہیں۔ جنھیں اولاد کو پالنے اور جینے کے لیے کسی مردانہ سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

    اپنی تمام تر چالاکی اور تجربہ کاری کے باوجود جاوید اقبال مشعال کے پیچھے بھاگتا ہے اور آخر کار ہار جاتا ہے۔ اقبال محمد خان سلطانہ کی ذہانت وجاہت اور ساڑھی باندھنے کا یوں دیوانہ ہوتا ہے کہ وہ اس کا ہو کر رہنا چاہتا ہے۔ آخر کار وہ اس کے خواب دیکھتا ہوا مر جاتا ہے۔ خواب جو اس ناول میں ککی جیسے عام کردار سے لے کر جاوید اقبال اور اقبال احمد جیسے کرداروں کی زندگیوں ہلچل مچانے پر قادر ہوتے ہیں۔

    ناول پڑھتے ہوئے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار نے دہشت گردی، فرقہ واریت، رومانوی ایڈوینچر اور میڈیا کے کردار میں موجود حقائق کو دکھانے اور سماجی ٹیبوز کو توڑنے کے لیے یہ ساری کہانی بننے کا سوچا تھا، یا جیسے ناول نگار نے پہلے سوچ رکھا ہو کہ وہ کن کن مسائل کا ذکر کرے گا اور پھر یہ ساری کہانی ان مسائل کو اجاگر کرنے اور بات کرنے کے لیے ان کرداروں کے اردگرد بن دی گئی ہے۔

    اس ناول میں مرکزی مقام بے نظیر پر ہونے والا سانحہ کارساز اور لیاقت باغ والا بم دھماکے ہیں۔

    سید کاشف رضا کے اس ناول کو آپ Vulgar کہہ سکتے ہیں، لیکن اگر حقیقت کو اس کے قریب ترین زاویے سے دکھانا ولگیرٹی ہے, تو شاید یہ ناول ایسا کچھ ہو گا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ناول کو شروع کریں اور آپ کو اس کی حقیقت نگاری اور انسانی جذبات کو پاکیزہ محبت کے پردے میں چھپانے کی بجائے عیاں کرنے کے فن میں ایسے کھو جائیں کہ ناول ختم کر کے سانس لیں۔

  • تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    آمنہ احسن

    یہ ناول ہے نعیم بیگ کا۔ اور یہ کہانی ہے علی کی۔ ایک ambitious ، خواب دیکھنے والا اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی۔

    یہ کہانی ہے علی کے زندگی میں آنے والے ان تمام کرداروں کی جنہوں نے علی کی زندگی کو ہر بار ایک نئے موڑ پر لا کر چھوڑ دیا ۔

    یہ کہانی ہے بھر پور زندگی گزارنے والوں کی، یہ کہانی ہے ہر اس شخص کی جو زندگی میں بروقت فیصلے نہیں کر پاتا اور ساری زندگی ان لمحات کو کوستا رہتا ہے، جب منزل نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہو اور وہ زندگی میں اس سے بہتر منزل کی خواہش میں آگے بڑھ گیا ہو۔

    یہ کہانی ہے ایک عام انسان کے ساتھ طاقتور  افراد کے رویے کی، معاشرے میں پھیلے انتشار کی ۔

    یہ کہانی ہے محبت کی، دیوی سے داسی کے سفر کی، معاشرے اور حالات کی تلخی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی محبت کی۔

    اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے، انسان یا تلخی بیان کر سکتا ہے یا محبت، لیکن ایک تلخ سفر میں کہیں کہیں محبت کا رنگ بھرنا اور بے حد خوبصورتی سے اسے کہانی کے ساتھ ساتھ لے کر چلنا ایک باکمال لکھاری ہی کے بس کی بات ہے ۔

    یہ ناول شاید قاری کو اس لئے بھی مختلف لگے کہ یہ ناول آج کل کے پاپولر ادب کے طرز پر نہیں لکھا گیا۔ اس کا کوئی کردار پرفیکٹ نہیں۔ ماں باپ کی آنکھ کا تارا، پڑھنے میں سب سے آگے، نیک، دین دار یا بیوی بچوں کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے والا جیسا اس ناول میں کوئی کردار نہیں ۔


    مزید پڑھیں: منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق


    اس ناول کے کردار کچھ کچھ ہم سب جیسے ہیں۔ غلطیاں کرتے ہیں، زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش لئے کسی لیڈنگ اسٹوری کے پیچھے بھاگتے ہوۓ، محبت کو شدت سے پانے کی خواہش کے باوجود حالات کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے۔

    ہار کر رو پڑنے والے، ہار مان جانے والے اور پھر نئے سرے سے جیت کے لئے پر جوش نظر آنے والے کردار۔

    راقم کے نزدیک چاہے معاشرے کی ہر سختی نے علی کو چنا اور اس کی زندگی کو مزید مشکل کیا، لیکن اس کے باوجود علی کی زندگی کے آخری لمحات کو اس سے بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا۔

    یہ ناول آپ کو کیوں پڑھنا چاہیے؟

    سب سے بڑی وجہ یہ آج کل کے پاپولر ادب سے مختلف ہے۔ بے حد مختلف۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ناول ایک نہایت ہی سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا ہے، لیکن نعیم بیگ صاحب نے اس میں قاری کی تفریح ایسا سامان رکھا ہے کہ بات قاری تک پہنچ بھی جاتی ہے اور اسے بوریت کا احساس بھی نہیں ستاتا۔

    ایک اور وجہ جس نے اس ناول کی دلچسپی کو بڑھا دیا، وہ ہے اس میں موجود سیاحتی رنگ۔ ناول کے مختلف کردار دنیا کے مختلف کونوں میں سفر کرتے ملیں گے اور اس سفر کی داستان بے حد دل فریب ہے۔

    ناول کا پلاٹ بھی نیا ہے اور انداز بیاں بھی، ممکن ہے اس سے ملتا جلتا کوئی پلاٹ قاری کی نظر سے گزرا ہو، لیکن اس پلاٹ کو بیان کرنے کا انداز مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

    پھر اگر قاری اس ناول کے لکھنے کی وجہ تک پہنچ جاۓ، تو معاشرے میں بڑھتی ناانصافی اور انتشار پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو جاۓ، تو سمجھ لیجئے ادب نے معاشرے کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔

  • انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول

    انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول

    عظیم روسی ناولز اس بھولی بسری، ششدر کر دینے والی چیز کو پھر ہمارے سامنے لے آتے ہیں، جو اب ناپید ہوگئی، یعنی طویل گفتگو، مسلسل مکالمے، اور  اطمینان سے کسی کو سننا۔

    ڈاکٹر عمر میمن

    روسی ادب پڑھتے ہوئے اکثر  یوں ہوتا کہ کسی سرائے کے کسی سیلن زدہ کمرے میں ایک کردار دوسرے کردار کو ایک واقعہ سنانے کا اعلان کرتا، مگر جب وہ بات شروع کرتا ہے، تو کسی اور سمت نکل جاتا، اور چلتا چلا جاتا۔

    اور یوں ایک کردار کا جملہ ایک سے دو، دو سے تین صفحات پر پھیلتا چلا جاتا ہے، اور تب کہیں جا کر پہلا کردار اسے ٹوکتا۔

    ایک ایسے ہی تجربے سے ہم 1900 میں ہنگری میں پیدا ہونے والے معروف فکشن نگار شاندور مارئی کے ناول Embers پڑھتے ہوئے گزرتے ہیں، جسے ممتاز مترجم ڈاکٹر عمر میمن نے ’’انگارے‘‘ کے زیرعنوان اردو روپ دیا ہے۔

    موضوع اور کردار

    ناول کا موضوع دو آدمیوں کی دوستی ہے، جو بچپن اور جوانی کے مراحل طے کرنے کے بعد پختہ عمری میں یکدم، عجیب ڈھب سے ٹوٹ جاتی ہے۔

    ناول بنیادی طور پر چار کرداروں جنرل، اس کی بیوی، گھر کی ملازمہ اور ایک دوست کے گرد گھومتا ہے، البتہ مرکزی کردار جنرل ہی ہے، باقی کردار کہانی کو پس منظر فراہم کرتے ہیں۔

    پلاٹ

    شاندور مارئی

    پلاٹ دل چسپ ہے، مرکزی کردار جنرل کو ایک روز اپنے اس دوست کی واپسی کی اطلاع ملتی ہے، جو 41 برس قبل بنا کچھ کہے، کوئی خط چھوڑے، بغیر کسی اشارے کے پراسرار ڈھب پر غائب ہوگیا تھا۔

    اب وہ دوست کونراڈ لوٹا آیا ہے، جنرل اسے عشائیے پر مدعو کرتا ہے،  جو  جلد ہی ایک مقدمے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس میں جنرل کا دوست ملزم کے طور پر کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ 

    اس مقدمے میں ہمارا سامنا بار بار ماضی سے ہوتا ہے، جس میں شکار  گاہ میں رونما ہونے والا ایک واقعہ اور  اسی کمرے میں، جہاں وہ دونوں اب موجود ہیں، شام میں ہونے والی ایک بیٹھک کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ 

    جذبہ

    بنیادی طور پر یہ ناول دوستی کے جذبے اور اس میں آنے والے نشیب و فراز کو منظر کرتا ہے، البتہ اس میں رقابت، نفرت اور انتقام جیسے جذبات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔

    جو احساس ناول پر چھایا ہے، وہ مسلسل انتظار کا احساس ہے، جو برسوں پر محیط تنہائی میں اس نہج پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنا اتاؤلا پن اور بے صبری کھو دیتا ہے۔

    اسلوب

    ناول کا بڑا حصہ مکالماتی ہے، بلکہ وہ مکمل مکالمہ بھی نہیں، بلکہ ایک شخص یعنی جنرل کا ماضی کو بازیافت کرنے کا عمل ہے، وہ مکالمہ طویل ہے اور متعدد صفحات پر پھیلا ہے، جس کے بڑے حصے میں دوسرا کردار خاموش رہتا ہے۔

    ناول میں گفتگو کے دوران ماضی کی لہروں کو مہارت کے ساتھ منظر کیا گیا، کہیں کہیں ہمیں فلیش بیک تکنیک بھی ملتی ہے، مگر مجموعی طور پر مکالمہ غالب ہے۔

    قصر کا محل وقوع بیان کرنا، اس کی اندر کی خاموش صورت حال اور منتظر افسردگی کو منظر کرنا مصنف کا کمال تھا۔

    حروف آخر

    کتاب کا قابل تعریف پہلو مترجم کی وہ گرفت ہے، جس کے ذریعے عمر میمن نے نہ صرف وہ سب کچھ منظر کیا، جو اصل مصنف نے لکھا، بلکہ وہ  بھی گرفت میں لے لیا، جو ان کہا تھا۔

    تراکیب وضع کرنے کے کامیاب تجربے کے ذریعے عمر میمن نے اس ناول میں نیا پن پیدا کردیا، جس کی جانب بے بدل فکشن نگار نیر مسعود نے بھی اشارہ کیا۔

    یوں ضخیم روسی ناولز کی یاد دلانے والا یہ ناول قاری کے لیے ایک ایسا دل پذیر تجربہ ثابت ہوتا ہے، جو طویل مکالمہ کے باعث کہیں کہیں اکتاہٹ کو بھی جنم دیتا ہے۔ 

    ناول شہرزاد کراچی نے شایع کیا، اس کی قیمت 180 روپے ہے۔

  • آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں قرة العین حیدر کا مقام بہت بلند ہے۔ وہ مشہور انشا پرداز سید سجاد حیدر بلدرم کی صاحبزادی تھیں ، ان کا ناول’ آگ کا دریا‘ان کی شناخت کا سبب بنا۔

    قرةالعین حیدر 20 جنوری 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ بچپن کا زمانہ جزائر انڈمان میں گزارا جہاں ان کے والد ریونیو کمشنر تھے۔ اس کے بعد ڈیرہ دون کانونٹ میں تعلیم حاصل کی اور 1947ء میں لکھنو یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    قرة العین حیدر نے تقریباً اسی زمانے میں افسانہ نویسی کا آغاز کیا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”ستاروں سے آگے“ تھا، جسے جدید افسانہ کا نقطہ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ 1947ء میں وہ پاکستان چلی آئیں جہاں وہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات و فلم سے وابستہ ہو گئیں۔ یہاں ان کے کئی ناول شائع ہوئے جن میں میرے بھی صنم خانے، سفینہ غم دل اور آگ کا دریا قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر ناول کی اشاعت پر پاکستانی پریس نے ان کے خلاف تناسخ کے عقیدے کے پرچار پر بڑی سخت مہم چلائی جس پر وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔

    گارڈن، کراچی۔ تصویر بشکریہ: عقیل عباس جعفری

    ہندوستان جانے کے بعد قرة العین حیدر کے کئی افسانوی مجموعے، ناولٹ اور ناول شائع ہوئے جن میں ہاؤسنگ سوسائٹی، پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار، گل گشت، ستیا ہرن ،چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، جہانِ دیگر، دل ربا ، گردشِ رنگ چمن اورچاندنی بیگم قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سوانحی ناول ”کار جہاں دراز ہے“ بھی اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔

    سنہ 1989ء میں انہیں حکومت ہندوستان نے گیان پیٹھ ایوارڈ عطا کیا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ 2005ء میں حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن کے اعزاز سے سرفراز کیا۔

    قرة العین حیدر نے 21 اگست 2007ء کو دہلی کے نزدیک نوئیڈا کے مقام پر وفات پائی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں۔انہوں نے جدید ناول کو کہانی بیان کرنے کا جو انداز دیا اس نے جدید ناول کو کلاسیکی مقام پر پہنچا دیا۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ ڈورم میں ہاتھ میں کافی کا مگ لیے انتہائی دلچسپی سے سٹیفن ہاکنگ کے نئے کارنامے پڑھنے میں مصروف تھی جبکہ ساتھ والے بیڈ پر کیلی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔ کیلی ہاروورڈ سے انوائرمینٹل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ یہاں آنے سے پہلے وہ یونیورسٹی آف الاسکا میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی۔۔ بنیادی طور پر وہ ایک گونگی عورت تھی۔۔ جسے شاذو نادر ہی مسکراتے دیکھا گیا تھا۔

    منتہی سے لاتعلق کیلی اپنا کام کرنے میں مصروف تھی کہ اس کا سیل تھرتھرایا ۔ دوسری طرف کی بات سن کر وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر ڈال کر تیزی سے باہر لپکی۔۔ منتہیٰ نے کچھ خاص تردد کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔ اسے پتا تھا۔۔۔ جواب نہیں ملنا۔ کیلی جلدی میں لیپ ٹاپ اس طرح پھینک کر گئی تھی کہ اس کی سکرین منتہیٰ کی جانب تھی ۔۔اگرچہ یہ غیر اخلاقی تھا۔۔ مگر کبھی کبھی ہر بندے کو کچھ غیر اخلاقی کام کرنے ہی پڑتے ہیں ۔۔ سکرین پر جو فائل کھلی ہوئی تھی اُسے دیکھ کر منتہیٰ کے چودہ طبق روشن ہوئے۔۔ہارپ اینڈ الاسکا یونیورسٹی ۔۔جوائنٹ وینچر ۔۔ چند منٹوں میں وہ فائل منتہیٰ کی یو ایس بی میں کاپی ہوچکی تھیں ۔۔ جب پانچ منٹ بعد کیلی ہانپتی ہوئی واپس لوٹی ۔۔تو منتہیٰ اُسی طرح بیٹھی کافی کی چسکیاں لے رہی تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اگلے رو ز کیمبرج لائبریری کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھ کر منتہیٰ نے وہ فائل کھنگالی تھی ۔۔ اور پھر ہر آ تے دن کے ساتھ کیلی سے قریب ہونے کی اس کی کوششیں بڑھتی گئیں۔ بعض اوقات کسی کا اعتماد جیتنے کے لیے آپ کو ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور کیلی کے ساتھ الاسکا میں گزاری  گئی اس کی چھٹیاں یقیناًرائیگاں نہیں گئیں تھی۔

    **********

    ارمان فجر کی نماز کے بعد ۔ چائے کے دو کپ لے کر کمرے میں واپس آیا تو توقع کے عین مطابق منتہیٰ آتشدان کے پاس بیٹھی آگ سینک رہی تھی۔۔ ارمان نے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ اسے تھمایا ۔۔ وہ ساری رات جاگا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اسے جگا کر مزے سے سوتی رہی تھی۔۔ وہ عادی تھا ۔۔اس کی اِن عادتوں کا۔۔ وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔

    دوسروں کو جگا کر ۔۔خوب سوئیں آپ ۔۔ارمان نے چائے کا گھونٹ بھرا
    میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آپ ایک ہی شفٹ میں پزل حل کریں۔ سو جاتے آپ۔
    ارمان نے ہنس کر عادتاً اپنا بازو اُس کے کندھے پر پھیلایا ۔۔ مجھے صرف ایک سوال پوچھنا ہے۔۔ جواب دینا پسند کریں گی آپ۔۔؟؟
    نہیں ۔۔ میں نہیں رہتی تو پھر کس سے پوچھتے ۔ وہ پہلی جیسی بد لحاظ منتہیٰ بنی ہوئی تھی ۔۔ ارمان جانتا تھا وہ اُسے آزما رہی تھی
    تم نہ رہتیں ۔۔ تو اِس سے بڑے سوالیہ نشان میری زندگی میں در آتے ۔۔ میں خود کیسے جیتا ۔۔ وہ جذباتی ہوا۔
    جی لیتے ۔۔ منتہیٰ کی نظریں آتشدان کے لپکتے شعلوں پر تھیں۔
    تمہیں میری محبت پر شک ہے۔۔ ارمان نے سختی سے اُس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔
    نہیں ۔۔ مجھے آپ کی محبت پر فخر ہے ۔۔ اس نے ارمان کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ہر لفظ ٹہر ٹہر کر ادا کیا۔ ’محبت یہ نہیں ہوتی کہ آپ کسی کے نہ ملنے پر ۔یا ہمیشہ کے لیے کھو جانے پر دنیا تیاگ کر بیٹھ جائیں ۔ کیا ہوا کہ آپ کا دل ہی نہیں روح بھی زخمی ہے ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کی آنکھوں کے دیپ بجھ چکے ہیں ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کے ہونٹ مسکرانے کو ترس گئے ہیں ۔۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں آپ سے بھی زیادہ دکھی ہیں ۔۔آپ اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ بہت سے دوسروں کا سہارا بن سکتے ہیں ۔۔ بہت سے بکھرے ہوؤں کو اپنی آغوش میں پناہ دے سکتے ہیں ۔۔ محبت کا اصل مفہوم انسان اُسی وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر ۔۔اوروں کے لیے جینا شروع کرتا ہے ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرا ارمان بھی میرے بغیر جی سکتا ہے‘ ۔۔

    ارمان اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔ یہ لڑکی جو اَب اُس کی بیوی تھی ۔۔ گزشتہ سات سال سے اُس کے ساتھ تھی ۔۔ ہر دفعہ ۔۔ ہر نئے موڑ پر وہ اُسے زندگی کے نئے مفہوم سے آشنا کراتی تھی ۔۔ وہ آل راؤنڈر تھی ۔۔ ہر دفعہ جیت جاتی تھی ۔۔
    ارمان نے جھک کراُس کی فراخ پیشانی کو چوما ۔۔ لیکن اِس بوسے میں محبت کم تھی ۔۔ احترام تھا ۔۔ عقیدت تھی ۔۔
    پھر اس نے ساتھ دھرے ہوئے لکڑی کے باکس سے ۔۔ پلاٹینم رِنگ نکال کر منتہیٰ کی طرف بڑھائی۔۔ جس میں اوپر سات آٹھ آرٹیفیشل ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے ۔۔ جن کے نیچے مائیکرو یو ایس بی ڈرائیو کی پن تھی۔۔
    اگر تم ایک سو بیس کا آئی کیو رکھتی ہو تو ایک سو اٹھارہ سے کم میں بھی نہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کے اس فلیش ڈرائیو میں کیا کچھ ہے لیکن تم نے کیلی سے روابط کیوں بڑھائے ۔۔ تم الاسکا کیا کچھ کرنے گئیں۔۔ میرے علم میں ہے ۔۔ ہارورڈ اور ایم آئی ٹی میں بھی دو چار ٹیکنیکل سیکرٹس پر تم نے ہاتھ ضرور صاف کیے ہوں گے ۔۔
    لیکن مجھے صرف ایک چیز پریشان کر رہی ہے ۔۔ ؟؟ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔
    وہ کیا ۔۔؟؟ منتہیٰ چونکی
    تمہارا یہ پیرا گلائیڈنگ کا حادثہ۔۔ منتہیٰ کو ارمان کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی ۔۔ کانوں میں سیٹیاں سی گونجیں ۔۔
    تو اعتراف کا وقت ۔۔آ ہی گیا تھا ۔۔
    منتہیٰ۔ ارمان نے اُس کے جھکے چہرے کو تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا ۔۔
    کیا یہ حادثہ پہلے سے طے شدہ کوئی منصوبہ تھا ؟؟
    ہاں ۔۔ بہت دیر بعد ۔۔اُس کی آواز بمشکل نکل پائی ۔۔ حلق میں آنسوؤں کا گولا سا اٹکا تھا۔
    ارمان نے آنکھیں سختی سے بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔ تو اس کے خدشات درست تھے
    اگر ایسا تھا اور تمہاری سرگرمیاں کسی کی نظر میں آچکی تھیں ۔۔تو انہوں نے تمہیں زندہ کیوں چھوڑا ۔۔ تمہیں پاکستان کیوں کر آنے دیا ۔۔ کیا تم اس کی کوئی قیمت ادا کر کے آئی ہو ۔۔؟؟ اس کی گہری کھوجتی آنکھیں منتہیٰ کے چہرے کو ٹٹول رہی تھیں۔
    ایسا کچھ نہیں ہوا ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اسے سختی سے گھورا
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم نے ابھی کہا کہ یہ حادثہ پری پلانڈ تھا ۔۔پھر ۔۔؟؟
    ہاں یہ حادثہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔۔ لیکن کسی اور کا نہیں ۔۔ ارمان کو اُس کا چہرہ ایک لمحے کو چٹخا ہوا لگا تھا ۔۔ یہ میرا اپنا پری پلانڈ تھا ۔۔ پیرا شوٹ میں وہ خرابی ۔۔ٹریننگ کے آخری مرحلے سے ایک رات قبل ،میں نے خود پیدا کی تھی۔
    اور ارمان کو لگا تھا کہ بہت زور کا زلزلہ آیا ہو ۔۔ دیواریں ، چھت ۔۔ ریسٹ ہاؤس کی ایک ایک چیز ۔۔اس پر گر رہی تھی ۔۔
    اور اس ملبے کے نیچے وہ فنا ہوتا جا رہا تھا ۔۔

    ***********

    رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ڈاکٹر یوسف اپنی سٹڈی میں دم بخود بیٹھے ۔اِس لڑکی کو سن رہے تھے جس کے بارے میں
    انہیں گمان تھا کہ وہ اسے دنیامیں سب سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر نہیں، اس ویڈیو کو دیکھ کر انہیں لگا تھا ۔۔ منتہیٰ دستگیر سے ان کا اصل تعارف آج ہوا ہے۔۔
    گزشتہ روز ارمان کے ساتھ مری روانہ ہونے سے پہلے منتہیٰ انہیں ایک فلیش ڈرائیو دے کر گئی تھی ۔۔اور اب وہ اِسی ڈرائیو میں سیو ویڈیو دیکھ رہے تھے جو اُس نے سیلفی کیمرے سے شاید کچھ دن پہلے ہی بنائی تھی۔

    اسلام و علیکم پاپا۔ اس ویڈیو کے ساتھ کچھ فائلز منسلک ہیں جن کے متعلق آپ نے استفسار کیا تھا ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اِن تمام سرگرمیوں کا ادراک آپ اور ارمان سمیت میری ذ ات سے وابستہ بہت سے لوگوں کا تھا ۔۔ لیکن ایک بڑی حقیقت اب تک آپ سب کی نظر سے پوشیدہ ہے ۔۔ اور وہ میری زندگی کا یہ اندوہناک حادثہ ہے جو مجھے تحفے میں یہ مفلوج ٹانگ دے کر گیا ہے ۔۔لیکن مجھے کچھ افسوس نہیں ۔ کیونکہ زندگی کی ہمیشہ سے یہی ریت رہی ہے کہ ہار کے بعد جیت مقدر بنتی ہے۔

    دنیا بھر میں ایک معتبر ادارہ سمجھا جانے والا ناسا ۔۔ اندرونِ خانہ ایک گورکھ دھندہ ہے ۔۔دنیا نہیں جانتی کہ اربوں ، کھربوں ڈالرز چاند ، مریخ اور انٹر نیشنل سپیس سٹیشن کے جن مشنز پر جھونکے جارہے ہیں اُن میں سے کتنے انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں ۔۔ وہ تمام انسانی سرگرمیاں جو موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں ۔۔ ناسا اُن سے کئی عشروں سے واقف ہے ۔۔وہ الینز تو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔ مریخ پر پانی بھی تلاش کر ہے ہیں ۔۔ زحل کے لیے کیسینی جیسے مشن پر دو دہائیوں سے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس سیارۂ زمین کے استحکام کے لیے۔ ان کا کوئی خاص مشن اب تک سامنے نہیں آسکا۔
    میری بے پناہ صلاحیتیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔۔وہ میرے لیے ایک خاص مشن تشکیل دینے لگے تھے۔۔
    ڈاکٹر یوسف چونک کر سیدھے ہوئے۔۔ ’مجھے پیگی وٹسن کے بعد انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں ایک طویل عرصہ گزارنا تھا اور ناسا کے ایسٹرو بائیو لوجسٹ میرے ذریعے خلا میں پریگ نینسی ٹیسٹ کا ارادہ رکھتے تھے ۔۔ اگر میں شرعی شادی پر بضد رہتی تو میرے ساتھ ارمان کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ ان کے کسی بھی ایسے مشن کا حصہ بننے کے بعد میری ہی نہیں ارمان کی حیثیت بھی ایک ناکارہ پرزے کی ہوتی۔ یا ایک ایسا آلہ جس پر وہ دل کھول کر تجربات کر سکیں۔۔
    دو چار مشنز کے بعد جن کا مقدر سی آئی اے کے ہاتھوں کسی اندھیری سڑک ۔۔کسی گمنام ہوٹل میں خاموش موت ہوتا ۔۔ یا پھر عمر قید ۔۔ ہمیں ساری عمر اُن کی نگرانی میں کاٹنی پڑتی ۔۔ اور اپنے ہم وطنوں کے لیے جو کچھ کرنے کا عزم ہم دونوں رکھتے تھے جس کے لیے ارمان ییل یونیورسٹی میں بھی دن رات ایک کیے ہوئے تھے ۔۔ہمارے وہ خواب ادھورے رہ جاتے ۔

    زندگی کی بساط پر شہہ ہے یا مات ۔۔سو میں نے بھی ایک داؤ کھیلا تھا ۔۔ اگر میرے اللہ کو مجھ سے انسانیت کی فلاح کے لیے کچھ کروانا منظور ہے ۔۔ تو وہ مجھے کسی بھی طرح بچا لے گا ۔۔جس طرح اس نے ارمان کو بچایا تھا ۔۔ یہ حادثہ میرا اپنا منصوبہ تھا کیونکہ ناسا کا آلہ کار بننا میری انا کو قبول نہ تھا ۔۔اور فرار کے سب راستے مسدود ہو چکے تھے۔۔

    پاپا۔۔ میری یہ اعلیٰ صلاحیتیں ۔۔ یہ غیر معمولی ذہانت ۔۔ میرا پاس میرے خدا کی ا مانت ہیں۔۔ جن کے لیے میں اپنے رب کو جواب دہ ہوں کہ میں نے اس کی ان بے پایاں نوازشات کہاں اور کس مقصد کے لیئے استعمال کیا ۔۔؟؟ میرے وطن ہی نہیں دنیا بھر میں غربت، افلاس ، امراض اور آفات سے سسکتے بلکتے لوگوں کے لیئے میں کیا کچھ کر سکی ۔۔؟؟
    میں ایک عام لڑکی نہیں تھی ۔۔ میں منتہیٰ دستگیر تھی ۔۔ اگر ناسا مجھے ڈسکور کرسکتا تھا ۔۔ تو میں خود کیوں نہیں۔۔

    ڈاکٹر یوسف سانس روکے ۔۔ سب سنتے رہے ۔۔ یہ لڑکی جو کبھی ان کی شاگرد رہی تھی ۔۔آج انہیں وفا ،ایثار اور حب الوطنی کا ایک انوکھادرس دے گئی تھی۔۔۔

    ایک ایسی ہی ویڈیو چند روز قبل ڈاکٹر عبدالحق کو بھی ملی تھی ۔۔ اور اب وہ بے چینی کے ساتھ اِس دھان پان سی لڑکی کی اسلام آباد آمد کے منتظر تھے جو پاکستان کا سرمایۂ افتخار تھی ۔۔ جو آج کی یوتھ کا ایک انمول ستارہ تھی ۔۔

    دنیا بھر میں پاکستانی نوجوان ایم آئی ٹی سے ورلڈ بینک تک اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔لیکن باہر کی چمک دمک نے انہیں اپنے مٹی کی مہک ہی نہیں ۔۔وہ قرض بھی بھلا دیا ہے جو اُن پر تا عمر واجب ہے ۔ وہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز اور نامور اداروں میں جو کچھ بھی ہیں اِس وطنِ عزیز کی وجہ سے ہیں ۔۔ مگر صد حیف کے آج کی اس نوجوان نسل نے تو ماں باپ کی ان قبروں کو بھی یکسر فراموش کر دیا ہے ۔جو انکی راہ تکتیں ہیں۔ کہ کسی عید ، کسی بقر عید ، کسی شبِ برات پر۔۔کوئی اُن پر بھی فاتحہ کے دو بول پڑھنے کو لوٹے گا’۔

    ***********

    ’میری پیدائش سے قبل میری ماں اپنے ماڈلنگ کیریئر کے عروج پر تھی ۔۔اگر اُسے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ میری پیدائش کے بعد اُس کا جسم جس کی نمائش کر کے اسے پیسا ملا کرتا تھا دوسروں کے لیے وقعت کھو دیگا ۔۔ تو وہ مجھے اِس دنیا میں ہر گز نہ آنے دیتی‘۔ کیلی کی مضطرب انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ ختم ہونے کو تھا ۔۔

    وہ آئی وی یارڈ کے باہر کشادہ لان میں بیٹھی تھیں ۔۔ اور ہلکی بوند اباندی ہو رہی تھی ۔۔ میری ماں نے مجھے ابتدا سے ہی نظر انداز کیا۔جیسے ہی اس کا ماڈلنگ کیرئیر ڈوبا وہ خود کو ڈرگز اور الکوحل کے نشے میں غرق کرتی چلی گئی ۔۔ یو نو۔ مینا کہ یہاں امریکہ اور یورپ میں مجھ سمیت ہر تیسرا شخص اس فرسٹریشن کا شکار ہے کہ جب اُسے ماں باپ ہی پیار نہیں دے سکے ۔ تو کوئی اور کس طرح اس سے سچا پیار کر سکتا ہے ۔یہ خوف اب مجھے کسی سے گھلنے ملنے نہیں دیتا۔ کیلی نے کسی احساس کے زیرِ اثر نفرت
    سے ادھ بجھا سگریٹ دور اچھالا۔

    منتہیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ہم مسلمان اور ایشیائی بندوں کی اکثریت کو آنکھ کھولتے ہی ماں کی آغوش میسر آتی ہے باپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے ۔۔ جہاں والدین جوانی تک اولاد کے لیے گھنی چھاؤں ہوتے ہیں ۔۔مگر ہم اِن مہربان رشتوں کی قدر نہیں کرتے ۔۔ اِن کی اصل قدر کیلی جیسے بے انتہا ذہین اور با صلاحیت لوگوں کے ہاں تھی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر بھی ۔۔ماں باپ کی اولین توجہ اور پیار کو ترستے تھے۔ جہاں سچے پیار کو بہت عرصے پہلے دیس نکالا مل چکا تھا ۔۔

    منتہیٰ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ۔۔کیلی تک آئی جو ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے۔ کہیں کسی
    دوسرے جہان میں گُم تھی ۔اس نے آہستہ سے کیلی کا ہاتھ تھاما ۔۔ میں نہیں جانتی کہ تمہیں سچا پیار ۔ کب اور کہاں ملے گا ؟؟
    لیکن میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں تمہاری اِس بے چین روح کو سکون ضرور مل جا ئیگا ۔۔
    so tell me where is that meena..??
    کیلی نے تیزی سے اُس کی طرف رخ موڑا ۔
    یہ سکون تمہیں ۔۔میرے پیارے مذہب اِسلام اور سوہنے رب کی کتاب قرآن پاک میں ملے گا۔۔ جس میں ہر مضطرب دل اور بے چین روح کے لیے ابدی سکون ہے ۔۔ میں تمہاری ہر طرح کی مدد اور راہنمائی کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں ۔۔ منتہیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اُسے گلے لگایا ۔۔ یہ ہارورڈ چھوڑنے سے پہلے اُنکی آخری ملاقات تھی ۔

    ***********

    I am speechless my child .. you are our true asset.. dnt worry every
    wound you suffered.. will be soon heal …!!
    وہ ارمان کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق کی سٹڈی میں تھی ۔۔ جنھوں نے اُسے پورا ٹری بیوٹ دیا تھا ۔
    تھینک یو سر ۔۔ ہم اور سیو دی ارتھ آج جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔آپ کی وجہ سے ہیں۔۔ اور میں چاہوں گی کے سپارکو کی طرح پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا پلیٹ فارم بھی آج کی یوتھ کو میسرہو۔۔
    ارمان نے چونک کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ وہ پچھلے روز سے مسلسل گُم صُم تھا ۔۔
    منتہیٰ فی الحال یہ ممکن نہیں ہو سکے گا ۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ابھی پسِ منظر میں رہتے ہوئے اِن ٹیکنالوجیز پر کام کریں جن سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کسی حد تک سدِ باب کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر عبدالحق ایک جہاندیدہ سائنسدان تھے ۔ وہ ایک ساتھ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ۔۔
    ایگزیکٹلی سر ۔۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں کسی ایسی موزوں جگہ کی ضرورت ہے جہاں ہماری سرگرمیاں۔۔ امریکی سیٹیلائٹس سے پوشیدہ رہ سکیں ۔۔
    ہوں ۔۔ انہوں نے ہنکارا بھرا ۔۔ کوئی ایسی جگہ ہے تمہاری نظر میں ۔۔؟؟
    سر بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی سلسلے ایک بہترین جگہ تھے ۔۔ لیکن وہاں سٹیلائٹس مانیٹرنگ کا خطرہ بھی زیادہ ہے ۔۔ میں نے کچھ علاقوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اُس نے اپنے ساتھ لایا ہوا پاکستان کا نقشہ پھیلایا ۔
    اُن کی دو ڈھائی گھنٹے کی میٹنگ میں ارمان صرف دو چار دفعہ ہی بولا تھا ۔۔ اور اب واپسی کے سفر پر بھی وہ خاموش تھا
    منتہیٰ نے ایک ترچھی نظر اُس پر ڈالی ۔۔ یہ چپ کا روزہ کب افطار کرنا ہے ۔۔؟؟
    تم نے کچھ بولنے کے قابل کب چھوڑا ہے ۔۔ وہ بدستور ونڈ سکرین کے پار دیکھتا رہا
    ویل۔۔ اب ساری عمر کیا یونہی چپ رہنا ہے ۔۔؟؟
    جی ۔۔ بالکل ۔۔ دل کرتا ہے کہ آپ بولتی رہیں ۔۔ میں سنتا رہوں ۔۔ وہ جذباتی ہوا
    جی ۔۔ سال ، دو سال بعد آپ فرمائیں گے ۔۔اُف کتنا بولتی ہو تم ۔۔ ہونہہ
    اگر ایسا نہ ہوا تو ۔۔؟؟ ارمان نے ہنستے ہوئے اُسکا ہاتھ تھاما
    تو پھر آپ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنے کے قوی امکانات ہیں۔ برسوں تک لگاتار بیوی کو سنتے رہنے کا عالمی ریکارڈ ۔
    ارمان کا زندگی سے بھرپور اونچا قہقہہ گونجا ۔۔۔ وہ ایک نیا دور شروع کرنے جا رہے تھے ۔۔ جو پہلے سے زیادہ پُرخطر بھی تھا اور سنگین بھی ۔۔۔ لیکن انہیں یہ جوا بھی ہر حال میں کھیلنا تھا ۔۔ ’ہم غازی رہیں گے یا شہید ۔۔ لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے‘ ۔۔

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سلور کام والا وائٹ شرارہ اور موتیوں کے زیورات ۔۔ منتہیٰ کسی ریاست کی راج کماری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔ سارا وقت وہ سٹیج پر رشتے داروں اور دوستوں میں گھری اکیلی ہی بیٹھی رہی ۔۔ ارمان کے مہمان بہت تھے وہ صرف ایک دفعہ اپنے ییل یونیورسٹی کے ساتھی انجینئرز کو منتہیٰ سے ملوانے سٹیج پر آیا تھا ۔۔بلیک سوٹ ہمیشہ سے ہی اُس پر بہت ججتا تھا ۔۔ پر آج اس کی سج دھج ہی نرالی تھی ۔
    رات گھر پہنچ کر وہ منتہیٰ کو سہارا دے کر اندر کمرے تک لایا تھا ۔۔ اتنا بھاری شرارہ سوٹ اور پھر اس کی لرزتی بائیں ٹانگ۔۔وہ کہیں گر ہی پڑتی ۔
    میرا خیال ہے کہ ممی کو آپ کے لیے اِس بھاری شرارے کے بجائے خلا بازی کا لباس بنوانا چاہئے تھا ۔۔ تاکہ آپ آرام دہ
    محسوس کرتیں۔۔ ارمان نے اس کی کوفت دیکھ کر چھیڑا ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    منتہیٰ برا سا منہ بنا کر دھپ سے بیڈ پر بیٹھی ۔۔ بہت سا درد دانتوں تلے دبایا ۔۔ اُس کی بائیں ٹانگ بری طرح دُکھ رہی تھی ۔
    ارمان نے اُس کے ساتھ اپنی کچھ سیلفیز بنائیں۔۔ تو منتہیٰ مزیدکوفت سے پیچھے ہٹی ۔
    یار۔۔ اپنے لیے بنا رہا ہوں ۔۔ آخر اتنے سارے دن مجھے اب اپنی وائف کے بغیر جو رہنا ہے ۔
    کیا مطلب ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے رخ اس کی طرف پھیرا ۔۔بایاں پاؤں مڑا ۔
    منتہیٰ مجھے کل شام مائیکل، سٹیون اور ان کی ٹیم کے ساتھ ۔۔تھر کے لیئے روانہ ہونا ہے ۔۔ارمان نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
    کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا ۔۔ وہ یقیناً اَپ سیٹ تھا ۔
    اور منتہیٰ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ٹیسیں بائیں پاؤں سے اٹھی ہیں یا دل ۔۔سے ۔۔
    کتنے دن کے لیے جانا ہے ۔۔؟؟ بمشکل حلق سے آواز نکلی
    شاید ایک ماہ ۔۔ یا اُس سے کچھ کم ۔۔ ابھی کہہ نہیں سکتا ۔۔ارمان نے بیڈ پر پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگایا ۔۔پھر اپنی جگہ گُم صُم
    بیٹھی منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ ناراض ہو ۔۔؟؟
    منتہیٰ نے صرف نفی میں سر ہلایا ۔۔ بہت سے آنسوؤں پر بند باندھ کر خود کو نارمل کیا ۔
    ارمان نے اُس کے ہاتھ تھا مے ۔۔ آئی نو کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے ۔۔ مگر مجبوری ہے ، ہماری شادی کچھ اتنی جلدی میں ہوئی۔
    یہ سب تو کافی عرصے سے طے تھا ۔
    اِٹس اُوکے ۔۔خود کو سنبھال کر اُس نے ہاتھ چھڑایا ۔اور اٹھی ۔۔ بھاری کپڑے اور زیورات اُسے عذاب لگ رہے تھے۔
    دو قدم چل کر ہی شرارے میں پھنس کر گری۔۔ بائیں ٹانگ بری طرح مڑی تھی ۔۔ وہ درد سے بلبلائی ۔۔بہت سارے رکے
    ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے اٹھ کر اُسے سنبھالا ۔۔
    اور ارمان کے سینے سے لگی ۔۔وہ روتے روتے کب سو گئی ۔۔اُسے کچھ خبر نہیں تھی۔

    *********

    منتہیٰ نے کھڑکی کا پردہ سرکایا ۔۔ رات کی بارش کے بعد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی کئی ماہ کی دھند چھٹی تھی ۔۔اور بہت نکھرا
    اجالا پھیلا ہوا تھا۔
    ڈاکٹر یوسف اور مر یم لان میں چیئرز ڈالے دھوپ سینکنے میں مصروف تھے اور ارمان کل شام ہی جاچکا تھا ۔منتہیٰ چھوٹے چھوٹے
    قدم دھرتی لاؤنج عبور کر کے لان تک آئی۔
    آؤ بیٹا ۔۔ بیٹھو۔۔ اُسے آتے دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اپنے ساتھ والی چیئر کی طرف اشارہ کیا
    کیسی نیند آئی بیٹے ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔؟؟ مریم ارمان کے یوں چلے جانے پر خاصی خفا تھیں ۔۔ لیکن۔
    ممی میں ٹھیک ہوں ۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔منتہیٰ نے سامنے ٹیبل پڑا اخبار اٹھایا ۔۔ وہی سیاستدانوں کے کارنامے ، دہشت گردی اور لوٹ مار کی خبریں ۔
    اچھا میں تمہارے لیے ناشتہ یہیں بھجواتی ہوں ۔۔ اُس کے منع کرنے کے باوجود مریم اندر جا چکی تھیں ۔
    منتہیٰ نے اپنی بائیں ٹانگ سیدھی کر کے پھیلائی ۔۔ دھوپ پڑتے ہی سنسناہٹ جاگی تھی ۔۔ درد۔ رات سے کچھ کم تھا۔
    اس پاؤں کی کنڈیشن کیا ہے بیٹے ۔۔؟؟ ڈاکٹر یوسف کا دھیان بھی اِدھر ہی تھا۔
    پاپا۔۔ تھوڑی ریکوری ہے ۔۔ ٹائم تو لگے گا ۔۔اُس نے گول مول جواب دیا ۔۔ پتا نہیں ارمان نے انہیں کتنا بتایا تھا
    ہم۔۔ ڈاکٹر ہوسف نے ہنکارا بھرا ۔۔’’ یعنی بیٹا اور بہو میں پکی دوستی ہو چکی ہے‘‘ ۔۔ وہ مسکرائے ۔
    ایک بات پو چھوں منتہیٰ۔۔؟؟
    جی پاپا ۔۔ ضرور ۔۔اجازت کی ضرورت ہی نہیں ۔
    تم ہارورڈ ۔ ایم آئی ٹی اور الاسکا یونیورسٹی میں بہت کچھ کرتی رہی تھیں ۔۔ وہ سب کچھ گنوا آئی ہو۔۔یاتمہارےمنصوبےاور ترجیحات اب بدل گئی ہیں ۔۔؟؟ انکی گہری کھوجتی نظریں اُس کے چہرے پر تھی۔۔
    نہیں پاپا ۔۔ نہ میں بدلی ہوں نہ میرے منصوبے ۔۔
    شئیر کرنا پسند کرو گی ۔۔؟
    منتہیٰ نے چونک کر اپنے باپ جیسے عزیز استاد کو دیکھا ۔۔ آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔اُسی وقت ملازمہ ناشتے کی ٹرے لے کر نمودار ہوئی ۔۔ چلو تم ناشتہ کرو ۔۔ ڈاکٹر یوسف شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے۔۔ انہیں یقین تھا ۔۔ منتہیٰ اب کبھی انہیں مایوس نہیں کریگی ۔
    دو روز بعد وہ امی کی طرف گئی تو دادی ارمان پر بہت برہم تھیں ۔’’یہ کوئی طریقہ ہے کہ ولیمے کے اگلے روز اپنی دلہن کو چھوڑ کر چلاگیا
    ارے دادی ۔۔ باہر سے انجینئرز کی ٹیم آئی ہوئی تھی نہ ۔۔ آجائیں گے کچھ دن میں ۔۔ بہت سا درد اندر دبا کر دادی کے گلے
    میں بانہیں ڈال کر وہ مسکرائی۔
    اور یہ تم کیوں سادہ جھاڑ منہ لیے پھر رہی ہو۔۔؟؟ یہ سونی کلا ئیاں، کاٹن کا سوٹ ۔۔ارمان کو چھوڑکر ۔اب اُن کی توپوں کا
    رُخ منتہیٰ کی طرف تھا ۔
    ’’دادی نہیں پہنا جاتا مجھ سے یہ سب‘‘ ۔۔ہونہہ۔۔اُسے کوفت ہوئی
    اے لو ۔۔لڑکی پہلے کی بات اور تھی ۔۔اب ماشاء االلہ تم بیاہتا ہو ، خبردار جو اگلی دفعہ تم میرے سامنے اِس طرح آئیں ۔
    عاصمہ ۔۔او عاصمہ ۔۔انہوں نے آوازیں لگائیں ۔۔ اور پھر انہوں نے اُسے سب کچھ پہنا کر دم لیا ۔
    منتہیٰ نے آئینے میں خود کو دیکھا ۔۔ سی گرین ہلکے کام والا سوٹ ۔۔ کانوں میں ٹاپس اور اور ڈھیر ساری چوڑیاں ۔۔ آئینے میں کسی کا عکس ۔۔ کسی کی پُر اشتیاق نگاہیں اُبھریں ۔ اُس نے سر جھٹکا ۔۔ اور کچن میں امی کے پاس آ گئی ۔
    اب اُسے کسی کے لیئے تھوڑی کوکنگ بھی سیکھنا تھی۔۔امی کے منع کرنے با وجود اُس نے زندگی میں پہلی دفعہ کھانا خود بنایا ۔
    ارمان چائنیز شوق سے کھاتا تھا ۔۔وہ ممی سے تھوڑی سن گن لے چکی تھی ۔
    کھانے سے فارغ ہوکر وہ اپنے روم میں سب بلاؤں سے نجات کا سوچ ہی رہی تھی کہ سکائپ پر ارمان کی کال آئی۔
    اُس نے جھٹ لیپ ٹاپ آن کیا ۔۔ دو دن بعد یاد آئی تھی جناب کو ۔
    سوری منتہیٰ یار ۔میں رابطہ نہیں کر سکا ۔۔ایکچولی ریموٹ ایریا سے دور سگنل پرابلم تھی ۔۔ارمان نے فوراً ایکسکیوز کی۔
    اِٹس اوکے ۔۔۔ میں بھی بزی تھی ۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    اچھا واقعی۔۔کہاں بزی تھیں آپ ۔۔؟؟ ارمان نے ہنس کر پیچھے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    بہت سے کام ہوتے ہیں مجھے ۔۔ میں آپ کی طرح فارغ نہیں ہوتی ۔
    وقت نے چال بدل لی تھی ۔ اُن کے مدار الٹ گئے تھے ۔۔ ایک دور تھا جب منتہیٰ کے پاس خود اپنے لیے بھی ٹائم نہیں تھا ۔
    جی بالکل ۔۔ ویسے یہ آپ کہیں جا رہی تھیں کیا ۔۔؟؟ ارمان نے اس کی سج دھج نوٹ کی
    نہیں تو اِس وقت میں نے کہاں جانا ہے ۔۔؟؟
    تو پھر یہ تیاریاں ۔۔ اُس نے شرارت سے تیاریاں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا ۔۔ یہ سب تو مجھے دادی نے بہت ڈانٹ ڈپٹ کر
    پہنایا ہے ۔۔ منتہیٰ نے کوفت سے منہ بنایا ۔
    اچھا ۔۔ ویسے آپ اتنی فرمانبردار پوتی تھیں تو نہیں ۔۔ارمان نے چھیڑا
    اب بن گئی ہوں۔۔ ٹھوکریں کھا کر ۔۔ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا
    اوہ کم آن ۔۔منتہیٰ ۔۔ زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا کامیاب انسان نہیں گزرا جس نے و قت یا زمانے کے ہاتھوں ٹھوکریں نا کھائی ہوں ۔
    منتہیٰ جھکی نگاہوں کے ساتھ انگلی میں پہنا رنگ گھماتی رہی ۔۔جوارمان نے اُسے شادی کی رات پہنایا تھا ۔
    اچھا جب میں آؤں گا تب بھی پہنو گی نہ یہ سب ۔۔۔ ارمان نے اس کا موڈ بدلنے کی سعی کی ۔
    سوچوں گی ۔
    واٹ۔۔؟؟ کیا سوچو گی ۔۔ وہ حیران ہوا
    یہی کہ یہ سب پہنوں یا نہیں ۔۔ کیونکہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی۔
    کیونکہ میں اچھی بیٹی اور پوتی تو بن گئی ہوں ۔۔ لیکن۔۔
    لیکن کیا ۔۔ وہ بے صبرا ہوا ۔۔
    لیکن ۔۔ میرا ابھی فرمانبردار بیوی بننے کا کوئی خاص ارادہ نہیں ۔ شرارت سے کہہ کر اُس نے سکائپ آف کرکے لیپ ٹاپ
    کی سکرین فولڈ کی۔۔ ارمان اُسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا ۔
    اگلے روز صبح اُس نے میسا چوسسٹس سے ساتھ لایا ہوا سامان سٹور سے نکالا ۔۔ جو اَب تک یونہی پڑا تھا ۔۔ اسے وقت ہی نہیں
    ملا تھا ۔۔وہ سامان الگ کرتی گئی ۔۔ کچھ ساتھ گھر لیکر جانا تھا ۔۔ اس میں لکڑی کے نفیس نقش و نگار والا وہ باکس بھی تھا ۔۔ جو
    جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے ۔۔اُس نے نینسی کے پاس اما نت رکھوایا تھا ۔۔ اسے نینسی یاد آئی ۔۔ ۔ جسے ارمان نے
    خاص طور پر شادی پر انوائٹ کیا تھا ۔۔ کتنے گُھنے تھے یہ سب ۔
    اب اسے جلدی جلدی کچھ اور اہم کام نمٹانے تھے ۔۔ وہ کمرا بند کر کے شام تک لگی رہی۔۔ پھر تھک کر سو گئی ۔
    وقت آگیا تھا ۔۔ ۔ پنڈورابکس جلد کھلنے والا تھا ۔

    ***********

    فروری کے اوائل کے باوجود تھر میں دن کا درجۂ حرارت اُن سب کے لیے نا قابلِ برداشت تھا ۔۔ ارمان اگرچہ لاہور کی شدید
    گرمی کا عادی تھا ۔۔ پھر بھی یہاں اُس کے دماغ کی دہی بنی ہوئی تھی ۔۔ جبکہ مائیکل اور اس کی ٹیم کا پہلی دفعہ اس قدر شدید موسم
    سے واسطہ پڑا تھا ۔۔اِس کے باوجود وہ سب ہی اس صحرا کو گل و گلزار کرنے اور اور یہاں کے مکینوں کی انتظار سے پتھرائی آنکھوں
    میں امید کے نئے دیپ روشن کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم بھی تھے اور پُر عزم بھی ۔
    ارمان لنچ کے بعد ٹھنڈی چھا چھ کا پورا جگ چڑھا کر سستانے کو لیٹا ہی تھا کہ سیل تھرتھرایا
    ہیلو شہری ۔۔ کیا حال ہے یار ؟؟ شدید مصروفیت کے باعث اس کا کئی روز سے کسی سے بھی رابطہ نہیں تھا
    ٹھیک ٹھاک ۔۔ تو سنا ۔۔ زندہ ہے ؟؟۔
    بس یار جی رہا ہوں ۔۔ ارمان نے ٹھنڈی آہیں بھریں ۔۔ صحرا کی گرمی آج تک صرف سنی ہی تھی ۔۔ پہلی دفعہ پتا لگا کہ صحرا
    میں سفر کیا چیز ہوتا ہے ۔
    ہاں۔۔ اور وہ بھی جب بندہ اپنا دلِ بے قرار کہیں اور بھول آیاہو ۔قسم سے پورا صحرائی اونٹ لگ رہا ہے تو ۔ شہری نے پھبتی کسی ۔
    اڑالے مذاق بیٹا ۔۔ ہونہہ ۔۔ اچھا یہ بتا۔ زید کیسا ہے۔۔؟؟ شہریار کے ڈیڑھ سالہ بیٹے میں ارمان کی جان تھی
    ٹھیک ہے ۔۔کل لے کر گیا تھا ۔اُسے بھابی کے پاس ۔آنٹی پسند آگئی ہے اُسے ۔۔ اب تیری چھٹی ۔۔ وہ ہنسا
    وہ ہے ہی ایسی جادوگرنی ۔۔ ارمان کی آنکھوں کے سامنے اُس پری وش کا سراپا لہرایا ۔
    ہم مم۔۔ خیر تیری جادوگرنی کا کام کر آیا ہوں میں ۔۔
    کام۔۔؟؟ کیسا کام ۔۔؟؟ ارمان الرٹ ہوا ۔
    اوہ تجھے نہیں بتایا بھابھی نے ۔۔ انہوں نے خود بلایا تھا ۔۔ ایک پیکٹ دیا تھا کہ یہ کانفیڈینشل ہے۔۔ اسے بہت احتیاط سےڈاکٹر عبدالحق کو اسلام آباد پہنچانا ہے ۔۔ میں ابھی وہی نمٹا کر آیا ہوں ۔۔ شہریار نے پوری بات بتائی
    ڈاکٹر عبدالحق ۔۔ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    تو منتہیٰ بی بی فارم میں واپس لوٹنے کو ہیں ۔۔۔’’ ویلکم بیک مسز ارمان ‘‘۔

    ***********

    ارمان کو گئے تیسرا ہفتہ تھا ۔۔ وہ پاپا کے ساتھ اسپتال سے پاؤں کی تھراپی کروا کے لوٹی تھی ۔ درد کچھ اور بڑھ گیا تھا ۔۔اوراحساسِ تنہائی بھی ۔۔ رات دو بجے کا وقت تھا ۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔تبھی اچانک باہر کچھ کھٹکا سنائی دیا ۔پھرکھڑکی کے پاس سے سایہ گزرا ۔۔ منتہیٰ کو الرٹ ہونے میں سیکنڈ لگے تھے ۔۔ وہ تیزی سے بستر سے نکلی ۔۔ باہر جو کوئی بھی تھا وہ اب اندر آچکا تھا ۔۔ ڈورلاک میں چابی گھمانے کی آواز آئی ۔۔ تب تک منتہیٰ بھاری گلدان ہاتھ میں لیے دروازے کےپیچھے پہنچ چکی تھی ۔۔آنے والا ناب گھما کر احتیاط سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔
    ون،ٹو۔۔تھری ۔۔منتہیٰ نے پوری طاقت سے گلدان کا بھرپور وار کیا ۔۔ مگر آنے والا الرٹ تھا ۔۔جھکائی دے گیا۔
    منتہیٰ گلدان سمیت لڑھکی ۔۔ پاؤں کادرد کچھ اور سِوا ہوا ۔پھر آنے والے نے اُسے اپنے بازوؤں میں سنبھالا ۔۔ وہ ارمان تھا
    اُس کا لمس وہ اب پہچاننے لگی تھی ۔
    اٹھیے میڈم ہلاکو خانم ! پتا تھا مجھے کہ وائف ہماری کتنی بہادر اور الرٹ ہیں ۔۔ارمان نے اسے سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا ۔
    یہ کوئی طریقہ ہے چوروں کی طرح اپنے گھر آنے کا ۔۔منتہیٰ کا چہرہ شدتِ درد سے لال ہو رہا تھا
    لیجئے جناب ۔۔ایک تو آپ سب کی نیند کا خیال کیا ۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ۔۔ارمان نے افسوس سے سر ہلایا
    تو آپ بتا نہیں سکتے تھے کہ آپ آرہے ہیں ۔۔ابھی جو گلدان آپ کو لگ جاتا ۔۔اپنا درد بھول کر اسے فکر ستائی۔
    تو پتا ہے کیا ہوتا ۔۔ارمان نے ڈرامائی انداز میں کارپٹ پر پڑاگلدان اٹھایا۔
    ’’یہ مجھ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ۔۔ تجربہ کر کے دیکھ سکتی ہیں آپ ۔۔ارمان نے منتہیٰ کو آفر کی جو بگڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھور رہی تھی۔ پھر وہ واش روم کی طرف جاتے ہوئے چونک کر پلٹا۔
    اُوہ میں تمہیں ایک بہت ضروری بات تو بتانا بھول ہی گیا ۔
    کیا۔۔؟؟ سب خیریت ہے نہ ۔۔ پراجیکٹ میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ منتہیٰ اُس کے اس طرح واپس آنے پر ویسے ہی چونکی تھی
    ارمان نے سر کو پیچھے جھٹکا دے کر ایک لمحے کو آنکھیں زور سے بھینچی۔۔ یہ بیویاں بھی نہ ۔
    پھر منتہیٰ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اُس کے ہاتھ تھامے ۔ ’’مجھے یہ بتانا تھا کہ میں نے اِن تین ہفتوں میں تمہیں بے انتہامس
    کیا ۔۔بے انتہا ۔
    بعض اوقات محبت کے اظہار کے لیے الفاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔۔محبت تو یہی ہے کہ بن کہے محسوس کی جائے ۔۔
    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۔۔ لفظوں میں ڈھل کر جذبے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔ اُس نے جھک کر منتہیٰ کی پیشانی چومی اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔
    صبح وہ ممی پاپا سے مل کر دوبارہ سو گیا ۔۔ کسی نے اُسے ڈسٹرب نہیں کیا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    دوپہر کے وقت آہٹ سے ارمان کی آنکھ کھلی ۔۔ُ اس نے کمبل سے منہ نکال کر دیکھا ۔۔منتہیٰ اس کا سفری بیگ کھول کر ۔اِس میں
    کپڑے نکال رہی تھی ۔۔ وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا ۔۔’’ آئرن لیڈی کا گرہستن پارٹ‘‘۔
    پھر کچھ سوچتے ہوئے ایک دم سے اٹھا ۔۔ارے ۔ارے یہ کیا کر رہی ہو ۔۔؟؟
    کیوں۔۔کیا ہوا ۔۔؟؟ کپڑے ہی تو نکال رہی ہوں۔۔ منتہیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا
    یار مت نکالو ۔۔میں پھر یہی بیگ لے جاؤں گا ۔
    کیا مطلب۔۔؟؟ پھر جانا ہے ۔۔کب۔۔؟؟
    کل ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    تو آئے ہی کیوں تھے ،، منتہیٰ نے غصے سے شرٹ واپس بیگ میں پھینکی ۔۔وہ رو دینے کو تھی
    ارمان دوسری سائڈ سے گھوم کر اس کے ساتھ آکر بیٹھا ۔۔پھر اُس کی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔۔’’تمہیں لینے ‘‘۔
    موسم انگڑائی لے رہا تھا ۔۔ مری کی برف اب پگھلنے کوتھیں ۔۔وہ گزشتہ دوروزسے مری میں تھے ۔۔ارمان کے ساتھی انجینئرز
    نے اسے زبردستی واپس بھیج دیا تھا ۔
    منتہیٰ ایک اونچے پتھر پر بیٹھی تھی اورارد گرد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔۔ لیکن مری کے بے ایمان موسم کا کچھ پتا نہیں ہوتا
    کب کس لمحے بادل نمودار ہو کر برسنے لگیں ۔۔ کسی کی نگاہوں کی تپش پر وہ چونکی۔۔ارمان اس کے قریب بیٹھا بہت غور سے۔
    اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔۔بے شک وہ دل جیتنے والی پرسنالٹی رکھتا تھا۔
    ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ منتہیٰ خجل ہوئی
    منتہیٰ بی بی ۔ کوئی چار ہفتے پہلے آپ کے جملہ حقوق میرے نام لکھ دیئے گئے ہیں ۔۔میں ایسے دیکھوں یا ویسے۔۔ میری
    پراپرٹی ہے میری مرضی ۔۔ ارمان بہت اچھے موڈ میں تھا ۔
    پھر سوچ لیجئے ۔۔آپ کے رائٹس بھی میرے نام ہیں ۔۔منتہیٰ نے جواباًچوٹ کی
    اچھا۔۔تو زیادہ سے زیادہ آپ اِس خاکسار کے ساتھ کیا کر لیں گی ۔۔؟؟؟ وہ اُس کی طرف شرارت سے جھکا
    بہت کچھ ۔۔منتہیٰ نے تیزی سے پیچھے ہٹ کر اسے آنکھیں دکھائیں ۔۔ شکر تھا اس جگہ وہ اکیلے تھے۔
    ہم مم۔۔ارمان کی لمبی سی ہم پر اسے فاریہ یاد آئی تھی ۔۔ جس کے پاس ا سلام آباد انہیں اب جانا تھا ۔
    کس سوچ میں گم ہو گئیں ۔۔؟؟ارمان نے اُس کی آنکھوں سے سامنے ہاتھ لہرایا ۔
    کچھ نہیں بس یونہی ۔۔ آئیں واپس چلتے ہیں ۔۔ڈھلتی شام کے ساتھ خنکی بڑھنے لگی تھی ۔
    مگر اٹھنے کے بجائے ۔۔ارمان نے ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔ منتہیٰ۔ میں چاہتا ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے کے بعد تم
    واپس جاکر اپنا ناسا کا مشن مکمل کرو ۔
    اور منتہیٰ کو لگا تھا جیسے کسی نے اُسکی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ ارمان میں وہ سب چھوڑ آئی ہوں ۔۔ کبھی نا پلٹنے کے لیے ۔۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔
    یار منتہی ٰ ! جذباتی نہ بنو ۔۔کٹھن وقت گزر گیا۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
    ارمان !بس میں خود بدل گئی ہوں۔۔ میں یہاں رہنا چاہتی ہوں ۔۔اپنے وطن میں ، اپنے لوگوں کے ساتھ ۔۔آپ کےپاس ۔۔اُس نے ارمان نے کندھے پر سر رکھا ۔
    "اوہ آئی سی ‘‘۔ارمان نے سیٹی بجائی ۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا ۔۔
    ایسا ہے مسز ارمان کے میں چند ماہ کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے آپ پاس آجاؤں گا ۔۔ ڈونٹ یو وری ۔۔ ارمان نے اسے راہ دکھائی
    اور جو میں سپیس سے واپس ہی نہ لوٹی تو ۔۔؟؟ منتہیٰ نے خدشہ ظاہر کیا
    تب آپ کا یہ مجنوں ‘ یہ قیس‘ یہ رانجھا ۔آ جائے گا ۔انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی ۔۔ارمان نے اُس کے گرد اپنے بازو پھیلائے۔
    ناسا کے سارے ٹیسٹ پاس کرنے ہوں گے آپ کو ۔۔ منتہیٰ نے برا سا منہ بنایا
    منتہیٰ بی بی! جو عشق کے امتحان پاس کر لیں ۔اُن کے سامنے یہ ٹیسٹ کیا چیز ہیں ۔۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔
    ویسے آپ فکر مت کریں ۔۔ابھی خلائی مخلوق کا ذوق اتنا برا نہیں ہوا ۔۔ کہ آپ جیسی ضدی ، سر پھری اور بد لحاظ لڑکی کو غائب کرنے
    لگیں۔۔کوئی لے بھی گیا تو ۔۔شکریہ کے ساتھ مجھے واپس کرکے جائے گا ۔۔اپنا فضول مال اپنے پاس رکھیں ۔۔ارمان نے
    شرارت سے اسے چھیڑا ۔
    مگر منتہیٰ اپنے سپید ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہیں اور گم تھی۔۔ منتہیٰ ڈونٹ وری ۔۔مجھے یقین ہے وہ ایک ٹرائل کا موقع ضرور
    دیں گے ۔۔ یہ صرف تمہارا ہی نہیں ہم سب کا خواب تھا ۔۔یہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز تھا ۔
    مگر دوسری طرف بدستور گہری خاموشی رہی۔۔’’ وہ اسے کیا بتاتی کہ بعض خوابوں کی تعبیر کتنی بھیانک ہوا کرتی ہے۔‘‘
    ویسے یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ۔۔ شاعروں ادیبوں کو اِس بھدے سے چاند میں پتا نہیں کیا رومانس نظر آتا ہے ۔۔اصل
    چارم تو یہ ہے کہ کوئی آپ سے ہزاروں میل کے فاصلے پر انٹر نیشنل سپیس سٹیشن میں بیٹھ کے دن رات آپ کو یاد کرے۔
    ارمان نے منتہیٰ کا موڈ بدلنے کی ایک سعی کی ۔
    جسٹ شٹ اَپ ارمان ۔۔ بے اختیار ہنستے ہوئے منتہیٰ نے اُسے ایک مکا مارا ۔
    آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ ہرگز نہیں ۔
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم مجھے مِس نہیں کروگی ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    نہیں ۔۔میرا ناسا مشن پر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔ میں وہ سب چھوڑ آئی تھی ۔
    اُف۔۔ منتہیٰ۔۔ خیر ۔ ابھی بہت ٹائم ہے ۔۔ تمہارے پوری طرح صحت یاب ہونے میں ۔۔آئی ایم شیور کے تم میری بات
    مانو گی ۔۔ آؤ چلیں ۔۔ ارمان نے اس کا ہاتھ تھام کر ریسٹ ہاؤس کے طرف قدم بڑھائے۔
    لیکن منتہیٰ اُس روز رات سونے تک اِسی طرح گم صم تھی ۔۔ ارمان نے خود کو ۔کوسا ۔۔ وہ قبل از وقت ایک موضوع چھیڑنے کی
    غلطی کر چکا تھا۔۔۔وہ آتشدان کے پاس گھنٹوں میں سر دیئے کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ارمان لیپ ٹاپ لیکر اُس کے
    پاس جا کر بیٹھا اور فلیش ڈرائیو لگا کر اسے سیو دی ارتھ کے کچھ نئے پراجیکٹس دکھانے لگا ۔۔مگر دوسری طرف ہنوز لاتعلقی
    سی تھی ۔
    ارمان کے صبر کا پیمانہ چھلکا ۔۔ یار منتہیٰ کچھ تو بولو ۔۔ ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتیں تو مجھ سمیت ۔۔کوئی بھی فورس نہیں کرے گا
    منتہیٰ نے کچھ جواب دیئے بغیر لیپ ٹاپ اُس کے ہاتھ سے لے کر سکرین فولڈ کر کے پیچھے رکھا ۔۔پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھ لائے
    سامان تک گئی ۔۔ارمان دم سادھے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ۔۔اُس کی چھٹی حس خبردارکر رہی تھی ۔۔کہ کچھ انہونی
    ہونے والی تھی ۔
    منتہیٰ پلٹی ۔اُس کے ہاتھ میں لکڑی کا منقش باکس تھا ۔۔پھر واپس آتشدان تک آکر وہ ارمان کو تھمایا ۔
    یہ کیا ہے ۔۔؟؟ وہ حیران ہوا
    یہ باکس میں نے جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے نینسی کو دیا تھا ۔۔کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ۔۔وہ آپ کو دیدے
    کیا مطلب۔۔؟؟ کیا تمہیں پتا تھا کہ تمہیں کچھ ہو جائے گا ۔۔؟؟
    نہیں۔ احتیاطً رکھوایا تھا ۔۔ اچھا ۔۔لیکن اِس میں ہے کیا ۔۔ارمان اُسے کھولنے ہی لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُس کے ہاتھ روکے۔
    اِس میں ایک پزل ہے جو آپ کو خود حل کرنا تھا ۔۔ اور اب بھی آپ ہی حل کریں گے۔۔ بہت خشکی سے جواب دیکر وہ اٹھی
    کمبل اوڑھتے ہوئے ۔۔اُس نے ایک نظر ارمان پر ڈالی وہ باکس ہاتھ میں لیے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔

    ***********

    ارمان یوسف کو منتہیٰ پر پہلا شک اُس وقت ہوا تھا جب وہ ہارورڈ کی سمر ویکیشنز میں اپنی ڈورم میٹ کیلی کے ساتھ الاسکا گئی تھی ۔۔بظاہر وہ کافی عرصے سے سیو دی ارتھ سے لا تعلق تھی ۔۔لیکن الاسکا یونیورسٹی اور ہارپ میں جتنی دلچسپی منتہیٰ کورہی تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی ۔۔ وہ اُس کے لیے فکر مند تھا ۔
    اور آج اِس لکڑی کے باکس کو کھولتے ہوئے ارمان کے سب خدشات نے ایک دفعہ پھر سر ابھارا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کےاس نے باکس کھولا ۔۔اُس میں کچھ گفٹس تھے ۔۔ایک رنگ کیس ۔۔ایک برانڈڈ پرفیوم ۔۔کچھ فلیش ڈرائیوز ۔۔اور۔۔
    ارمان کا منتہیٰ کو دیا ہوا واحد تحفہ بریسلٹ کیس ۔۔وہ ہر شے کو کارپٹ پر انڈیلتا گیا ۔
    پھر اُس نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ فلیش ڈرائیو ز ۔۔ایک ایک کر کے لگائیں ۔۔ان میں ایس ٹی ای کے کچھ پرانےپراجیکٹس کی تفصیلات تھیں ۔۔لیکن ارما ن کو اِس جگ سا پزل کا پہلا ٹکڑا مل چکا تھا ۔۔’’ سیو دی ارتھ‘‘۔
    اب اسے مزید ٹکڑے ڈھونڈ کر اس پزل کو مکمل کرنا تھا ۔۔وہ ہر چیز کو ایک دفعہ پھر کھنگالتا گیا ۔۔ یقیناًمنتہیٰ نے اس گفٹ باکس
    کا پزل اس لیے بنایا تھاکہ نینسی کو شک نہ ہو ۔اور اِس کے ذریعے وہ کچھ ا س تک پہنچانا چاہتی تھی ۔۔ محفوظ طریقے سے۔ لیکن کیا ۔۔؟؟
    یکدم اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔ ڈیٹا پہچانے کا بہترین سورس ۔۔فلیش ڈرا ئیوز ۔۔وہ سیکرٹ کسی فلیش ڈرائیو میں تھا ۔۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ارمان نے مڑ کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ اس کے چہرے پر بے انتہا سکون تھا ۔۔ جیسےصدیوں کی جاگی ۔آج سوئی ہو ۔۔ ارمان نے اٹھ کر غٹا غٹ پانی کے دو گلاس چڑھائے ۔۔ اسے کافی شدید طلب تھی ۔
    وہ ہمیشہ ایک چھوٹا کافی میکر اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔۔ گرما گرم کافی کے گھونٹ لیتا ہوا وہ کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا ۔
    باکس کا سارا سامان اُسی طرح کارپٹ پر بکھرا پڑا تھا ۔۔
    کچھ سوچتے ہوئے جھک کر اس نے بریسلٹ کیس اٹھایا جو اس تمام سامان میں وہ واحد گفٹ تھا جو ارمان نے منتہیٰ کو دیا تھا ۔
    جب یہ منتہیٰ نے نینسی کو دیا ۔۔تو اس میں بریسلٹ موجود ہوگا ۔۔ جو اَب ہمہ وقت ۔۔اس کی نازک سی کلائی کی زینت بنا رہتاتھا ۔۔وہ سوچتا گیا ۔۔
    کسی خیال کے تحت اُس نے کیس کے فومی کور کو دبایا ۔۔ وہ دبتا چلا گیا ۔۔ ارمان کا دورانِ خون تیز ہوا ۔۔اُس نے چٹکی سے پکڑ کر فوم کھینچا ۔۔وہ اکھڑتا چلا گیا ۔۔ کور کی دوسری جانب کچھ لکھا تھا ۔۔ وہ اِس ہینڈرائٹنگ سے بخوبی آشنا تھا ۔
    A riddle wrapped in an engima …..
    پزل کا تیسرا ٹکڑا اُسے مل چکا تھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر یہ الفاظ گوگل کیے ۔۔ یہ ونسٹن چرچل کی ایک ریڈیو سپیچ سے ماخوذ الفاظ تھے ۔جب وہ دوران جنگ رشینز کو سیکیورٹی سے متعلق کوئی خفیہ پیغام دینا چاہتا تھا۔
    ارمان یوسف نے کڑی سے کڑی ملا ئی ۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔، فلیش ڈرائیوز ۔۔،سیکرٹ میسج ۔۔ اگرچہ پزل کا چوتھا ٹکڑا باکس میں نہیں تھا ۔۔ مگر اُس کے ذہن میں ضرور تھا ۔۔ ہارپ ۔۔ اینٹی ہارپ ٹیکنالوجی ۔۔ اور ایسی دوسری تمام ٹیکنالوجیز کا توڑجو ہماری اِس پیاری زمین کو تیزی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر لے کر جا رہی ہیں ۔۔ وہ جانتا تھا ۔ منتہیٰ اِن کی تلاش میں آخری حدتک گئی ہوگی ۔۔ ایک سو بیس آئی کیو رکھنے والی منتہیٰ کے لیے کسی بھی ٹیکنالوجی کی جڑتک پہنچنا بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔
    اور پزل تقریباًمکمل ہو چکا تھا ۔۔یکدم بہت سارے خدشات نے سرا بھارا ۔۔ فلیش ڈرائیو اُس کے ذہن سے محو ہوچکی تھی۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    تیسرا باب

    ( ایثا ر و وفا )

    محبت میں جو قربانی دی جاتی ہے۔۔
    اُ س کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے ۔
    لیکن اُس کا ما حصل ۔۔
    ایک دائمی محبت ہے
    یہ احساس کے اوروں کے لئے جیا جائے۔۔
    محبت اور ایثار کے ساتھ
    دوسروں کے دلوں میں گھر کیا جائے۔۔
    یہ کسی دوسری روح تک رسائی کے لیے
    خدا کا ودیعت کردہ ایک موقع ہوتا ہے ۔۔
    ایک ایسی محبت ۔۔ جو زندگی کے ہر خلا کو پُر کرتی ہے۔۔
    ہم سب کی زندگیاں ۔۔
    ایک بہت بڑے دائرے کا حصہ ہیں
    جس کی ہر کڑی ۔۔ ایثار سے جڑی ہوئی ہے
    یہ احساس انسانی ذات میں تغیر لاتا ہے
    کہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر
    وفا اور ایثار کے ساتھ
    لوگوں سے ربط بڑھایا جائے
    اور اِسی سے ۔۔
    زندگی کا یہ لا محدود دائرہ مکمل ہوتا ہے۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "ناسا دنیا بھر میں خلا ئی سرگرمیوں سے متعلق مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ ایک وقت تھا جب امریکہ اور روس میں زبردست سپیس وار جاری تھی ۔۔ لیکن سرد جنگ کے اختتام کے بعد بہت سی دوسری جنگیں بھی ہمیشہ کے لیئے ٹھنڈی پڑ گئیں ۔
    گزشتہ دو دہائیوں سے خلا میں انسانی سرگرمیاں بڑھ جانے کی ایک بڑی وجہ زمین سے کم فاصلے والے مدار میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کا قیام ہے ۔
    جو امریکہ اور روس دونوں کا مشترکہ منصوبہ تھا ۔۔ ناسا کی کوشش ہےکہ وہ ۲۰۲۰ تک اس سٹیشن
    تک کمرشل فلائٹس کا آغاز کر سکے ۔ جس کے لیے وقتاٌ فوقتاٌ مختلف مشن تشکیل دیئے جاتے رہتےہیں ۔ ایک ایسے ہی مشن کے لیے ایم آئی ٹی کے ایسٹرو فزکس ڈیپارٹمنٹ نے منتہیٰ دستگیر کو ،اس کی غیر معمولی ذہانت اور انتہائی مضبوط قوتِ اارادی
    دیکھ کر نامزد کیا تھا ۔ اِس مشن کے لیے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے تقریباٌ تیس کے قریب مرد اور خواتین کا انتخاب کیا گیا تھا جنھیں نا سا کے فٹنس اور دیگر ٹیسٹس پاس کر کے چھ ماہ کی انتہائی پیچیدہ ٹریننگ مراحل سےگزر کر مشن کے
    لیے کلیئرنس حاصل کرنا تھی”۔
    "اور منتہیٰ دستگیر اِس وقت ایک دوراہے پر کھڑی تھی ۔۔ ایک طرف بین الاقوامی اعزاز تھا اور خواب تھے، تو دوسری طرف اپنی پیاری دھرتی اور مفلوک الحال عوام کی تقدیر بدلنے کے اُس کے پختہ عزائم ۔۔ جس کے لیے وہ بہت آگے تک جا چکی تھی
    لیکن اِن سب سے بڑھ کر اہم ارمان تھا ۔ وہ یقیناًاپنے منصوبوں کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر سکتی تھی ۔ پسِ منظر میں رہ کر سیو دی ارتھ کے ذریعے اُن کو جاری رکھ سکتی تھی۔
    ” لیکن ارمان ۔ اُسے اب اور کتنا انتظار کرنا ہوگا "۔۔؟؟ اِس سوال کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا ۔
    ذہن میں اٹھتے ہر سوال اور خدشے کو جھٹک کر ہارورڈ میں فائنل ڈیفی اینس سے پہلے منتہیٰ ناسا کے ایسٹراناٹ فٹنس اینڈ کلیئرنس ٹیسٹ دے آئی تھی ۔
    "پاکستان کی پہلی خاتون خلا باز۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا ۔ اور اِس سنگِ میل کو بھی اس نے اب ہر حال میں عبور کرنا تھا ‘‘۔
    لیکن ابھی تک اِس کی خبر کسی کو بھی نہیں تھی۔بے انتہا ذہین یہ لڑکی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی تھی ۔رشتوں اور محبتوں کے معاملے میں ہنوز کوری تھی ۔

    *********************

    ارمان ییل یونیورسٹی میں اپنی شدیدمصروفیات کے با وجو د اُس کی سرگرمیوں سے بے خبر نہیں تھا ۔۔
    منتہیٰ ہاسٹن سے فٹنس ٹیسٹ دے کر واپس میسا چوسٹس لوٹی ہی تھی ۔۔ کہ ارمان کی کال آئی ۔
    "ہیلو”۔۔”آگئیں آپ واپس "۔۔؟؟ ارمان کا لہجہ اجنبی اور برفیلا تھا
    "جی” ۔۔ اُس نے بمشکل تھوک نگلا ۔۔ اب جو بھی تھا۔۔۔ فیس تو کرنا تھا۔۔
    "پھر کب تک آرہا ہے ایسٹراناٹ ٹیسٹ کا رزلٹ "۔۔۔؟؟؟
    "جب آپ کو سب پتا ہے تو یہ بھی پتا ہوگا "۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی
    ارمان کو شاک ہوا ۔۔ "منتہیٰ ضدی تو تھی۔۔ لیکن وہ ہٹ دھرم کبھی بھی نہیں تھی” ۔۔
    "ہم سب سے اپنی اِن سرگرمیوں کو خفیہ رکھنے کی وجہ بتانا پسند کریں گی آپ "۔۔؟؟۔۔ اب کہ ارمان کا لہجہ مزید سرد ہوا
    "ارمان”۔۔ "سپیس ٹریول میرا خواب ہے نہ "۔۔
    "تو ۔۔ہم میں سے کوئی بھی آپ کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ بننے کا ارادہ نہیں رکھتا "۔۔
    "آپ کی ممی کو شادی کی جلدی ہے” ۔۔ منتہیٰ نے اُسے جتایا
    "وہ آپ کی اپنی امی کو بھی ہے "۔۔
    "میں اپنی امی کو سنبھال سکتی ہوں "۔۔
    "میں بھی اپنی ممی کو سمجھا سکتا ہوں” ۔۔
    "آپ۔۔ اُن کی اکلوتی اولاد ہیں ۔۔ ان کو ۔۔ ان کو مزید انتظار مت کروائیں "۔۔ منتہیٰ دل کڑا کر کے اصل موضوع پر آئی۔۔
    "کیا مطلب” ۔۔؟؟۔۔ ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    "آپ ۔۔ آپ کسی اور سے شادی کر لیں ۔۔ میرا انتظار مت کریں "۔۔۔
    اور دوسری طرف ارمان کو لگا تھا کہ کسی نے اُس کی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ سائیں سائیں کرتے کانوں نے ساتھ اس نے انتہائی بے یقینی سے سیل کی سکرین کو دیکھا ۔
    "منتہیٰ "۔۔ "کیا کہا ہے آپ نے ابھی”۔۔؟ اس نے تصدیق چاہی
    "وہی جو آپ نے سنا ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ کتنا عرصہ مجھے ناسا کے مشن پر لگ جائے ۔۔ آپ آنٹی ،انکل کو مزید انتظارمت کروائیں ۔۔ شادی کر لیں "۔۔ اُس نے رسان سے کہا ۔۔ لیکن دوسری طرف ارمان کا پارہ چڑھ چکا تھا
    صاف بات کیجئے’’ منتہیٰ بی بی ‘‘کہ ناسا تک پہنچ کر ارمان یوسف آپ کو خود سے بہت چھوٹا لگنے لگا ہے ۔۔ "بہت مل جائیں گےاب آپ کو اپنے لیول کے "۔۔۔ وہ نہ جانے کیوں اتنا بد گمان ہو ا تھا ۔
    "جسٹ شٹ اَپ ارمان "۔۔۔ "میں نے ایسا کچھ نہ سوچا ہے ۔۔ نہ کہا ہے "۔۔ منتہیٰ کو طیش آیا
    "یو ٹو شٹ اَپ "۔۔۔ جواباٌ وہ بہت زور سے گرجا تھا ۔۔ منتہیٰ سہم سی گئی ۔۔
    ارمان کا یہ روپ اس کے لیے بالکل نیا تھا ۔۔ "وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا ایک شائستہ لڑکا تھا "۔۔
    "مس منتہیٰ "۔۔ "ہمارا یہ رشتہ ہمارے بڑوں نے طے کیا تھا ۔ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ اپنے طور پر اتنے بڑے فیصلے کرنے لگ جائیں۔۔۔؟؟ کیا آپ دنیا کو اور پاکستان میں آپ کی کامیابیوں کے لئے ہمہ وقت دعا گو والدین کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ
    ناسا تک پہنچ کر آپ بہت خود مختار ہو گئی ہیں ۔۔ اپنے فیصلے خود کر سکتی ہیں "۔۔۔؟؟ وہ گرجا
    "ارمان میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے اور فیصلہ یقیناًہمارے بڑے ہی کریں گے ۔۔ میں نے آپ سے صرف اتنا کہا ہے کہ آپ کی ممی شادی میں جلدی چاہتی ہیں ۔۔ آپ ان کی بات مان کر کسی اور سے شادی کر لیں ۔ میں آپ سب کو انتظار میں نہیں ڈالنا
    چاہتی ۔۔ جب میرے پاس بتانے کو کوئی مدت بھی نہیں ۔۔ خلافِ مزاج بہت کول رہ کر منتہیٰ نے رسانیت سے اسے سمجھانےکی ایک اورسعی کی "۔
    لیکن دوسری طرف ارمان اس کی بات پوری ہونے سے پہلی ہی کال کاٹ چکا تھا ۔۔۔ منتہیٰ نے پیشانی مسلتے ہوئے کئی دفعہ کال بیک کی ۔۔ پھر مسلسل تین روز تک وہ اسے کال کرتی رہی ۔۔۔ لیکن ارمان کا نمبر بند تھا ۔۔
    "وہ شاید ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا "۔۔ بہت دکھ سے منتہیٰ نے اپنی انگلی میں پہنی رِنگ اتاری ۔”چھ سال کا ساتھ تھا ان کا ۔۔ شریک ِزندگی نہ سہی وہ دوست تو رہ سکتے تھے مگر”۔ ۔وہ کیا چاہ رہا تھا۔۔” منتہیٰ سمجھنے سے قاصر تھی اور رابطے کے سارے دَراب بند ہو چکے تھے "۔

    *********************

    ارمان یوسف کے لیے وہ رات زندگی کی کٹھن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔۔ منتہیٰ سے بات اَدھوری چھوڑ کر اُس نےاپنا سیل بہت زور سے دیوار پر کھینچ مارا تھا ۔
    "کوئی اذیت سی اذیت تھی ۔۔۔ وہ لڑکی جو اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی ‘یوں ریجیکٹ کر دے گی "۔۔؟؟ ۔۔”صرف اپنےمستقبل ۔۔اپنے خوابوں کے لیے ۔۔ اُس کی زندگی میں میرا کوئی حصہ کبھی تھابھی یا نہیں "۔۔۔؟
    "وہ اُن مردوں میں سے ہر گز نہیں تھا جو عورت کی صلاحیتوں کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں ۔۔وہ ناسا جوائن کرنا چاہتی ہے۔۔ ضرور کرے ۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کا کوئی مشن شروع کرنا چاہتی ہے۔۔ ’’بصد شوق‘‘۔۔
    وہ ایک دفعہ مجھ سے بات تو کرتی ۔ لیکن اُس نے صرف فیصلہ سنایا تھا ۔۔۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہے "۔۔
    "شایدِ اس لیے کہ اُس کے مستقبل میں ۔۔میری حیثیت صرف ایک آپشن کی سی تھی "۔۔۔ ارمان دکھ سے سوچتا گیا ۔۔
    "تین سال کے رشتے کو اُس نے تین منٹ میں ختم کر دیا ۔۔ کیا اُس کے دل میں میرے لیے آج تک کوئی جگہ نہیں بن سکی "۔۔؟؟
    "وہ زندگی میں آج تک کبھی نہیں رویا تھا ۔ پر اُس رات ۔۔۔ وہ رات اس پر بہت بھاری گزری تھی ۔۔
    "ییل یونیورسٹی سے کچھ فاصلے پر نیم منجمد ’پیل لیک‘کے کنارے شدید ٹھنڈ میں ارمان ساری رات گھٹنوں میں سر دیئے روتا رہا تھا "۔۔
    "دنیا کہتی ہے کہ مرد رویا نہیں کرتے ۔لیکن ہر مرد اپنی زندگی میں ایک دفعہ اذیت کی انتہا پر پہنچ کر ضرور روتا ہے ۔نا جانے کیوں آنسوؤں کا رشتہ صرف عورت ذات سے جوڑ دیا گیا ہے ۔۔ ورنہ مرد جذبوں سے نا آشنا تو نہیں ہوتے "۔۔۔
    اجنبی شہر کے اجنبی راستے ، میری تنہائی ہر مسکراتے رہے۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
    "سچا مرد زندگی میں صرف ایک دفعہ محبت کرتا ہے ۔۔۔ میں نے بھی وہ محبت صرف تم سے کی تھی منتہیٰ ۔۔ میرے دل کے سارے تار آخری سانس تک صرف تمہارے نام سے جڑے ہیں ۔۔یہ نام ہے تو ساز بجیں گے ۔۔ ورنہ آج کے بعد سارے
    مدھرُ سر تال ۔۔ ساری کیف آفریں دھنیں۔۔ ہمیشہ کے لیے گونگی ہو جائیں گی۔۔ تم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں”۔۔
    وہ جھیل کے ٹھنڈے پانیوں کو ۔۔ اپنے سارے رت جگوں ۔۔اپنے سارے آنسوؤں کا گواہ بنا کر علی الصبح لوٹ آیا تھا ۔۔
    زہر ملتا رہا ۔زہر پیتے رہے ، روز مرتے رہے روز جیتے رہے
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اِسے آزماتے رہے۔۔
    کئی روز تک وہ خود کو یونیورسٹی سے ڈورم تک گھسیٹتا رہا ۔۔ سیل اُس رات سے دیوار تلے ٹوٹا پڑا تھا ۔۔ مگر ہوش کس کو تھا ۔۔؟۔۔کوئی اس کا نام لے کر بھی پکارتا ، تو وہ یوں خالی نظروں سے اُسے دیکھتا ۔۔ جسے ارمان نام کے کسی بندے کو وہ جانتا ہی نہیں ۔۔
    شام ڈھلے ۔۔وہ شدید ٹھنڈ میں ایک شرٹ میں باہر نکل جاتا ۔۔۔اور ساری رات کبھی جھیل کنارے ۔۔ کبھی کسی پارک میں ۔۔توکبھی مرغابیوں کے جھنڈ میں بیٹھ کر کاٹ آتا ۔
    کل کچھ ایسا ہوا میں بہت تھک گیا ۔۔اِس لیے سن کہ بھی اَن سنی کر گیا۔
    کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں ، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے
    لیکن زندگی ابھی ختم نہیں ہو ئی تھی ۔۔ اُسے خود کو سنبھالنا تھا ۔ ییل یونیورسٹی میں اُس نے اپنی فاؤنڈیشن کے لیے انتہائی اہمسپانسرزحاصل کیے تھے ۔۔وہ اُن کم نصیبوں میں سے ہر گز نہیں تھا جن کی زندگی چند لوگوں ، کچھ خواہشات اور روزمرہ کے
    معمول کا محور ہوتی ہے ۔۔ اُسے اب اپنے ویران دل اور اجڑے ارمانوں کے ساتھ اوروں کے لیے جینا تھا ۔
    زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ، زندگی کی طرف اِک دریچہ کھلا۔۔
    ہم بھی گویا کسی ساز کے تار تھے، چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے
    اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

    *********************

    You rocked Meena….!
    نینسی سمیت منتہیٰ کے سب ہی کلاس فیلوز نے ناسا کے فٹنس ٹیسٹ پاس کرنے اور مشن کے لیے منتخب ہو جانے پر اُسے بھرپور ٹری بیوٹ دیا تھا ۔ فائنل ڈیفی اینس اور تھیسز سے فارغ ہوکر وہ سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹنے کو تھے ۔
    جبکہ نینسی کا ارادہ ایم آئی ٹی جوائن کرنے کا تھا ۔۔
    منتہیٰ کا ستا ہوا چہرہ اور آنکھوں کی بجھی جوت کو نینسی کئی دن سے نوٹ کر رہی تھی ۔
    Is everything okay Meena..??
    منتہی ٰنے جذبات چھپاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔
    مگر نینسی اتنے عرصے میں اس کی رگ رگ سے واقف ہو چکی تھی ۔”کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور تھی "۔۔۔
    "کیا تمہاری ارمان سے لڑائی ہوئی ہے”۔۔۔؟؟ نینسی نے اندھیرے میں تیر چھوڑا
    وہ جان ہارورڈ سٹیٹیو کے پاس ایک نسبتاٌ پر سکون گوشے میں بیٹھی تھیں ۔۔۔اور ارد گرد بہت چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔۔
    منتہیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے مختصراٌ اسے ارمان سے اپنی جھڑپ کے بارے میں بتایا ۔۔۔
    Oh no silly girl .. Why did you do that??
    مینا تم نے کبھی ارمان کی آنکھوں پر غور کیا ہے ۔۔ اُس میں تمہارے لیے سچی اور بے لوث محبت صاف جھلکتی ہے ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے "۔۔۔؟؟
    مجھے یقین ہے وہ تمہارا انتظار کرے گا ۔۔ اور بہت جلد تم دونوں کا دوبارہ ملاپ ہو جائیگا ۔۔ میرا دل کہتا ہے تم دونوں ایک دوسرےکے لیے بنائے گئے ہو” ۔۔
    منتہیٰ نے بہت غور سے نینسی کو دیکھا ۔۔’’ وہ بولتی ،ہمہ وقت بہت کچھ کہتی نگاہیں ‘‘۔۔جنھیں تین، چار سال میں بھی وہ نہیں پڑھ سکی تھی ،انہیں نینسی نے ارمان سے صرف ایک مختصر ملاقات میں پڑھ لیا تھا۔۔’’ لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی
    گزر چکا تھا ۔۔ اور وہ ٹائم مشین اب تک ایجاد نہیں ہوئی تھی جو بیتے وقت کو انسان کے لیے واپس لا سکے ۔‘‘
    منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار ے ۔۔اور بیگ کھول کر لکڑی کا ایک نفیس نقش و نگار والا باکس نینسی کی طرف بڑھایا ۔۔
    کیا تم میری ایک امانت اپنے پاس رکھ سکتی ہو ۔۔۔؟؟
    Yeah.. Why not … but what’s here inside..??
    نینسی نے با کس کو تھام کر جانچنے کے انداز میں پکڑا کہ اُس کے اندر کیا ہے ۔۔؟؟
    اس میں کچھ گفٹس ہیں جو ارمان مجھے دیتا رہا ۔۔ کیا تم یہ اسے لوٹا دو گی ۔۔؟؟
    Don’t do that Meena .. Everything will be soon fine… Just wait and have
    faith my dear.
    نینسی نے اُسے سمجھانے کی آخری کوشش کی ۔۔۔
    "آل رائٹ”۔ ۔”لیکن یہ تمہارے پاس میری امانت ہے ۔۔ اگر ناسا ٹریننگ کے دوران مجھے کچھ ہو جائے ۔۔ تو یہ ارمان کو واپس کر دینا ۔۔ ورنہ پھر میں واپس آکر تم سے لے جاؤں گی ۔۔۔ یُو نو ۔میں ہاسٹن یہ ساتھ نہیں لے جا سکتی "۔۔۔
    Sure why not Darling …
    نینسی نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر گال چومے ۔۔۔ اور منتہیٰ اِس بلائے نا گہانی پر پہلے ششدرہ ہوئی ۔۔۔ پھر سرخ چہرے کے ساتھ نینسی کو زور سے دکھا دیا ۔
    Oh no… You are so shy girl. ..
    "نینسی بہت دیر تک گود میں باکس رکھے لوٹ پوٹ ہوتی رہی تھی "۔۔

    *********************

    "انسان جب کبھی اپنے ذات سے منسلک پیارے رشتوں کو نظر انداز کر کے صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے تو جلد یا بدیر ۔۔نتائج اس کی توقع کے برخلاف ہی آتے ہیں ۔۔ بہت دنوں سے کسی کچھوے کی طرح اپنے خول میں بند وہ جس صورتحال سے
    بچنے کی کوشش کر رہی تھی اب اُس کا سامنا کرنے کا وقت آپہنچا تھا "۔
    رات اس نے گھر کال کی تو خلافِ توقع ابو نے فون اٹھایا ۔۔ "ابو مجھے آپ کو ایک بہت بڑی خوش خبری سنانی ہے”۔۔۔ شدتِ جذبات سے اس کی آواز بوجھل تھی ۔
    "جانتا ہوں "۔۔ ابو کی آوازبہت سرد تھی ۔
    ’’اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہیں اتنی دور اکیلا بھیج کر میں رو ز سکون سے سو جاتا ہو ں تو یہ تمہاری بھول ہے۔۔ گزشتہ دو سال سےتمہارے باپ کو اُسی وقت نیند آتی ہے جب اُسے اپنے ذرائع سے تمہاری خیریت کی اطلاع ملتی ہے۔۔ تم بتاؤ یا نہیں لیکن
    تمہاری ہر سرگرمی میرے علم میں ہوتی ہے ‘‘۔۔ ان کا لہجہ بدستور برفیلا تھا
    "ابو آپ۔۔آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں میں نے سوچا تھا میں سب کو سرپرائز دوں گی "۔۔۔ منتہیٰ نے بمشکل تھوک نگلا
    "ہاں بہت اچھا لگا تمہارا سرپرائز ۔۔ ماشاء اللہ اب تم خود مختار ہو اپنے فیصلے خود کر سکتی ہو” ۔۔
    "ابو پلیز ۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔ آپ کو پتا ہے نہ سپیس ٹریول میرا خواب تھا ۔۔ اور یہ پاکستان کے لیے بھی بہت بڑا اعزازہوگا "۔۔ہمیشہ لاڈ اٹھانے والا باپ آج پہلی دفعہ اُس سے خفا ہوا تھا ۔
    مگردوسری طرف بہت دیر خاموشی رہی تھی ۔۔۔ فاروق کو منتہیٰ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھی ۔۔ جس نے کامیابیوں کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ہمیشہ ان کا مان رکھا تھا ۔وہ اس کی ہر خطا کسی ایکسکیوز کے بغیر بھی معاف کر سکتے تھے ۔۔ لیکن یہ نا فرمانی بڑھ نہ جائے
    سوانہوں نے اپنا لہجہ سخت رکھا تھا ۔
    "منتہیٰ تم جانتی ہو کہ ماں باپ اپنی ہونہار اولاد پر اُسی وقت خفا ہوتے ہیں ۔۔ جب اُس کے کسی روئیے سے انہیں دکھ پہنچا ہو مجھے کبھی تم پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ میری بیٹی نے کبھی میرا سر جھکنے نہیں دیا "۔۔ لیکن ۔۔آج ۔۔۔
    ’’آج یہ مان پہلی دفعہ ٹوٹا ہے ۔۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ آخری دفعہ بھی ہوگی ‘‘۔ رسانیت سے اپنی بات مکمل کر کے فاروق صاحب کال کاٹ چکے تھے "۔۔۔اور منتہیٰ اپنی جگہ گُم صُم بیٹھی تھی۔۔
    بہت دیر بعد چونک کر اُس نے سیل دوبارہ تھاما ۔۔ اور ڈاکٹر یوسف کا نمبر پنچ کیا ۔۔
    ’’مبارکباد مائی ڈیئر‘‘ ۔۔کال ریسیو ہوتے ہی دوسری طرف سے آواز آئی جو اُس کی توقع کی عین مطابق بے حد سرد تھی ۔
    منتہیٰ کے حلق میں جیسے کانٹے سے اُگ آئے ۔۔بہت سے خشک آنسو آنکھوں میں اُترے ۔۔” کبھی کبھی انسان کو اپنے خوابوںکو پانے کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے "۔۔
    "چپ کیوں ہو منتہیٰ”۔۔؟۔ ڈاکٹر یوسف نے بہت دیر کی خاموشی کے بعد اُسے پکارا
    "انکل کیا ارمان نے آپ کو کچھ بتایا ہے "۔۔؟؟
    "بہت دنوں سے جو خدشات ذہن میں کیڑوں کی طرح کلبلا رہے تھے ۔ بالا آخروہ لبوں پر آہی گئے "۔۔اور دوسری طرف ڈاکٹریوسف بری طرح چونک کر سیدھے ہوئے تھے ۔۔۔’’ ارمان ‘‘۔۔؟؟
    اگرچہ ارمان نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔ لیکن گزشتہ مہینے وہ اسکی وجہ سے کافی پریشان رہے تھے ۔۔۔ کئی روز تک اُس کا نمبر آف تھا۔ مجبوراٌ انہیں اس کے ڈیپارٹمنٹ کال کرکے رابطہ کرنا پڑا ۔
    وہ ٹھیک نہیں تھا ۔۔ یہ جاننے میں انہیں دیرنہیں لگی تھی ، مگر وہ گھُنااُن کو کچھ بتا نے پر آمادہ ہی نہ تھا ۔۔۔
    "ہاں بتایا تھا "۔۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اندھیرے میں تیر چھوڑا ۔۔۔ ’’یہ کل کے بچے آخر ہمیں سمجھتے کیا ہیں‘‘ ۔۔۔ "ہونہہ”
    ایک لمحے کو منتہیٰ کا سانس تھما ۔۔۔ پھر اُس نے خود کو سنبھالا۔
    "انکل پلیز آپ تو میری بات سمجھیں ۔۔ میں نے ۔۔ میں نے ارمان سے صرف اس لیے کہا کہ میں آپ لوگوں کی درمیان خلیج نہیں بننا چاہتی ۔۔ آپ لوگ ان کی کہیں اور شادی کر دیں”۔بے انتہا پر اعتماد رہنے والی منتہیٰ بمشکل اپنی بات واضح کر پائی۔۔
    ’’آپ کتنے ہی بڑے ہو جائیں ۔کامیابیوں کی کتنی ہی چوٹیاں عبور کر لیں ، اگر آپ میں رشتوں کا احترام کرنے کا سلیقہ ہےتو والدین اوراستاد دو افراد کے سامنے بہت سے مواقع آپ کو گو نگا کر دیتے ہیں ۔۔دنیا جہان میں تقریریں جھاڑ نے والوں
    کے سارے الفاظ اُس وقت دم توڑ دیتے ہیں ۔جب ماں باپ یا بہت عزیز استاد میں سے کوئی آپ سے خفا ہو‘‘ ۔۔
    اور دوسری طرف پروفیسر یوسف کا سر چکرایا تھا ۔۔۔ وہ شاک میں تھے ۔۔ "انکل پلیز کچھ بولیں "۔۔۔ اُن کی بہت دیر کی خاموشی پر منتہیٰ رو دینے کو تھی ۔
    "کیا تم یہی سمجھتی ہو کہ میرے یا مریم کے کہنے پر ارمان کسی اور سے شادی پر آمادہ ہو جائے گا "۔۔؟ بہت دیر بعد ڈاکٹر یوسف نے اُس سے ایک صرف ایک سوال پوچھا ۔۔
    "جی انکل "۔۔ وہ ۔۔ "وہ ایک فرمانبردار بیٹے ہیں "۔۔
    اور ڈاکٹر یوسف نے بہت گہرا سانس لیکر صوفے کی پشت سے سر ٹکایا تھا ۔۔ "اگر تم ایسا سمجھتی ہو ۔۔ تو تم دنیا کی احمق ترین لڑکی ہو” ۔۔ "اور وہ دیوانہ "۔ انہوں نے سر جھٹک کر بات اَدھوری چھوڑی ۔
    ’’کتابوں ، تھیوریز اور ریسرچ سے باہر بھی ایک دنیا ہے میری بچی ۔۔ دنیا والوں اور اُن کے روئیوں کو سمجھنا بھی ایک علم ہے ۔کبھی اپنی ذات سے منسلک لوگوں کو بھی وقت دیا کرو ۔۔ یہ نہ ہو کہ اپنے خوابوں کو پانے کی دھن میں تم رشتوں کی دنیا میں بالکل اکیلی رہ جاؤ ۔۔ اور مسرت کا خوبصورت پرندہ ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی سے رخصت ہو جائے‘‘۔
    بہت مدلل انداز میں اپنی بات مکمل کر کے ڈاکٹر یوسف کال کاٹ چکے تھے ۔۔ اورمنتہیٰ اپنی جگہ گنگ بیٹھی تھی ۔
    کیا واقعی۔اِن خوابوں اور سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ۔۔ وہ تنہا رہ گئی تھی "۔۔۔؟؟؟؟

    جاری ہے

    *******

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "لاسٹ سمیسٹر میں منتہیٰ کی مصروفیات بہت بڑھ چکی تھیں ۔۔”
    ایک تو کوا نٹم میکینیکل ویوز جیسے مشکل موضوع پر تھیسس کا چیلنج ۔ اور پھر ایس ٹی ای کے برین ونگ کی کمانڈ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ وہ ویکلی میٹنگ میں نہیں جا پاتی ۔ لیکن اپنی ویکلی ریسرچ ،کوئی نیا آئیڈیا ، یا پریسنٹیشن وہ ارسہ اور رامین کے ہاتھ بھیج دیا کرتی تھی۔
    سوات میں کامیابی کے ساتھ اپنے پہلے ڈیزاسٹر سینٹر کا افتتاح کرنے کے بعد اب ارمان اور اس کے ساتھی دیراور بالا کوٹ میں سینٹرز کے قیام کے لیے متحرک تھے۔
    اگلے مرحلے میں انہیں ٹریننگ کے لیے مقامی افراد بھرتی کرنے تھے تاکہ سینٹر کے معاملات کی وہ ازخود دیکھ بھال کر سکیں ۔ چونکہ زلزلے سے انفرا سٹرکچر کی مکمل تباہی کے باعث مقامی باشندوں کی اکثریت بے روزگار تھی اور ان کے گھروں میں
    فاقوں کی نوبت آچکی تھی ۔
    اس روز ان کی اسی سلسلے میں ویکلی میٹنگ تھی ۔ وہ لیکچرز کے بعد کینٹین کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ارمان کا سیل تھرتھرایا
    "خوشحال خان کالنگ۔۔”
    ارمان نے نے سکرین دیکھی اور دوستوں سے ایکسکیوز کرتا ہوا ایک جانب بڑھا ۔۔ وہ مسلسل تین روز سے اس شخص سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "آ ئی ایم سوری ۔۔۔ آپ کو زحمت ہوئی ۔۔ایکچولی میں ایک ہفتے سے ملک سے باہر ہوں "۔۔ ابتدائی سلام دعا کے بعدخوشحال نے معذرت کی۔
    "اٹ از اوکے "۔۔ "سر مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی تھی۔۔ ہم سوات کے بعد دیر اور کالام میں بھی ڈیزاسٹر سینٹرزقائم کرنے جا رہے ہیں ۔ اینڈ یو نو واٹ کہ ان علاقوں کے زیادہ تر نوجوان بے روزگار ہیں۔۔ ہمارے پاس فی الحال اتنے
    وسائل نہیں کہ ٹریننگ کے ساتھ انھیں معقول تنخواہ بھی دے سکیں "۔۔ ارمان نے مختصر الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا۔
    "جی میں اس حوالے سے آپ کی تفصیلی ای میل دیکھ چکا ہوں ۔۔ اور میرا بھرپور تعاون آپ کے ساتھ ہے۔۔ میرا سیکرٹری اس سلسلے میں کل آپ سے ملاقات کرے گا ۔”
    اور دو سری طرف ارمان کو یوں لگا تھا کہ ہفتوں سے جو بھاری بوجھ وہ اپنے کندھوں پر لیے پھر رہا تھا ‘ اسے لمحوں میں اس سےنجات ملی تھی ۔۔
    "خدا بے شک سب سے بڑا کارساز ہے وہ نیتوں کا اخلاص جانچتا ہے اور جب کوئی ایک دفعہ اس کی کسوٹی پر پورا اتر تا ہے تو پھر غیب سے یوں مدد ہونے لگتی ہے کہ بعض اوقات عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ مہینوں سے کتنوں کے سامنے اپنا یہ مسئلہ بیان کر چکا تھا۔کتنوں کے در پر مالی امداد کے لیے دستک دی تھی ۔ان میں کئی اس کے اپنے خونی رشتے بھی تھے ۔لیکن جب بات مال کی ہو اورو ہ بھی خلقِ خدا کے نام پر دینے کی ہو تو ہر کوئی یوں اعلیٰ درجے کا بخیل بن بیٹھتا ہے جیسے یہ دولت اسکی اپنی ملکیت ہے ۔راہِ خدا میں دو لاکھ کیا دو ہزار دینے سے بھی ہر کسی کی جان جاتی ہے۔۔ تب ہم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ وہ ذاتِ پاک جو ہم سب کو نواز رہی ہے اگر کسی روز اس نے یونہی ہم پر اپنی رحمتوں کے در بند کر دیئے تو پھر کون ہے جو ہماری ناؤ کو پار لگا سکے۔ہم قطعاَ فراموش کر بیٹھتے ہیں کے مال دینے سے گھٹتا نہیں بڑھتا ہے۔”
    ارمان بات ختم کر کے دوستوں کی طرف لوٹا توخوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔ ارحم نے بغور اس کی کیفیت نوٹ کی ۔وہ اسکی رگ رگ سے واقف تھا۔
    "خیر تو ہے کس کی کال تھی ؟”
    "کچھ خاص نہیں ۔۔ تم لوگوں نے کچھ منگوایا نہیں کھانے کے لیئے۔۔؟ "۔ارمان نے بات گول کی ۔وہ یہ’’ بڑا دھماکہ‘‘ شام کو میٹنگ میں ہی کرنے کا رادہ رکھتا تھا۔
    اس کے گول مول سے جواب پر ۔۔ارحم نے شہریار کو آنکھ مار کر متوجہ کیا ۔۔ "دال میں کچھ کالا ہے ۔”
    "لگتا ہے تجھے آج مس منتہی ٰ نے کال کر لی ہے جو تیری بانچھیں یوں کھلی پڑ رہی ہیں ۔۔”
    "جسٹ شٹ اپ ارحم ! مذاق ایک حد میں اچھا لگتا ہے ۔۔ وہ مجھے کیوں کال کریں گی "۔ خلافِ توقع ارمان ہ بھنایا۔
    "شاید شام کی میٹنگ کے بارے میں کچھ بات کرنا ہو "۔۔ اس کے کڑے تیور دیکھ کر ارحم نے بات سنبھالی
    "اول تو ایسا ہو نہیں سکتا ۔۔ان کو جو بات کرنی ہو وہ براہِ راست میٹنگ میں ہی کرتی ہیں۔۔ اور اگر کبھی ضرورت پڑی بھی تو اس میں خوش ہونے والی بات کوئی نہیں "۔۔ درشتی سے اپنی بات مکمل کرتا ۔۔چیئر پیچھے دھکیلتا ۔۔ارمان کینٹین سے نکلتا چلا گیا۔
    "ابے یار ۔ اس کو کیا ہوا ۔۔ ارحم نے بے یقینی سے شہریار کو دیکھا۔۔؟”
    "ڈفر آ دمی ۔۔تجھے کہا کس نے تھا اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کو "۔۔؟؟ شہریار اسے گھورا
    "دکھتی رگ "۔۔ہا ہا ہاہا ۔۔ ارحم لگاتار قہقہے لگاتا گیا ۔۔
    "بڑا شوق تھا نہ جناب کو یو نیک سی لڑکی کا ۔۔ ملے کوئی ایسی جو مجھے چیلنج کرے۔۔ سو اب بھگتے ۔۔ کرے جستجو اسے پانے کی”۔۔ارحم نے ہنستے ہوئے پورا سموسہ منہ میں ٹھونسا ۔
    خبیث ۔۔ چپ کر جا ۔۔ شہریار نے ارد گرد سے سٹوڈنٹس کو اس طرف متوجہ دیکھ کر اسے ایک دھپ رسید کی ۔۔ یونیورسٹی میں ایسی باتیں پھیلتے دیر نہیں لگتی ۔۔اور ارمان تو تھا بھی لڑکیوں کا فیورٹ۔۔ نہ جانے کتنے دل ایک ساتھ ٹوٹتے۔۔
    **********
    "میں یہ بات آپ سب کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ وہ مسئلہ جس کے باعث کئی ماہ سے ہماری جدوجہد کافی سست ہوگئی تھی کسی حد تک حل ہو گیا ہے”۔ ارمان نے شام کو میٹنگ میں ایک لمحے کے لیئے رک کر سب کے چہروں کو ٹٹولا ۔
    منتہی ٰ کے علاوہ سب ہی اس کی متوجہ تھے۔۔
    صبح کینٹین کی بدمزگی وہ بھولا نہیں تھا ۔۔۔ اس پر میڈم کی یہ لا تعلقی ۔۔ اس کا حلق تک کڑوا ہوا۔۔ خود کو سنبھال کر ۔۔اس نےبات کا سلسلہ جوڑا۔
    "جی۔۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ’’معاشی امداد ‘‘ ۔۔ ہمارے ایک خیر خواہ خوشحال خان کی طرف سے مکمل مالی امداد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے اور کل اس سلسلے میں میری ان کے بندے سے میٹنگ ہے۔” ارمان نے اپنی بات مکمل کی تو
    ڈاکٹر عبد الحق نے اپنی چیئر سے اٹھ کر اس سے گرم جوشی ہاتھ ملایا ۔۔ باقی سب ساتھی بھی بہت دیر تک ٹیبل بجا کر چیئر اپ کرتے رہے۔
    ارمان نے تند نظروں سے ارحم کو گھورا ۔۔ "اب پتا لگا کس کی کال تھی ۔۔”
    "پھر اب ہمیں اپنی بھرپور تیاریوں کے ساتھ دیر اور کالام کا رخ کرنا ہے ۔۔ارحم نے تیزی سے بات کا رخ پلٹا ۔۔ اس جیسے ڈھیٹ پیس کم ہی تھے ۔
    "سر ۔ میں یہاں ایک پوائنٹ سامنے لانا چاہوں گی "۔۔ منتہی ٰ نے مداخلت کی ۔
    "یس منتہی ٰ "۔۔سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔”سوائے ارمان کے” ۔۔
    "میرا خیال ہے کہ جو افراد ہماری مکمل مالی معاونت کر رہے ہیں ہمیں انہیں اپنی ویکلی یا ماہانہ میٹنگ میں مدعو کرنا چاہیے ۔اس سے ایک طرف تو وہ ہمارے مستقبل کے منصوبوں سے پوری طرح آگاہ ہو کر ان میں بھی بھرپور معاونت کریں گے دوسری طرف ہمیں ان کے سوشل سرکل سے بھی مالی یا فنی مدد حاصل ہو سکے گی کیونکہ خوشحال خان جیسے افراد کے ہر شعبے میں وسیع تعلقا ت ہوتے ہیں” ۔ ہمیشہ کی طرح منتہی ٰ آج بھی الرٹ تھی۔۔
    ارمان جو لا تعلق سا بنا سامنے دیوارکو گھور رہا تھا ۔۔ایک لمحے کو ٹھٹکا ۔۔ یہ کتنا اہم پوائنٹ اس نے نظر انداز کیا تھا ۔۔
    "اگر وہ اکڑتی تھی ۔ تو یقیناًاس میں ایسا کچھ تھا بھی جس پر اکڑا جائے۔۔ مگر ارمان جانتا تھا۔۔’’ وہ مغرور نہیں تھی ۔‘‘۔۔وہ درد مند دل رکھنے والی ایک بہادر لڑکی تھی ۔۔طوفانوں سے لڑ جانے والی‘‘۔۔ "اور اچھے مرد ایسی باکردار لڑکیوں کو جھکا کر
    انھیں توڑانہیں کرتے ۔وہ ان کے لیئے خود جھک جاتے ہیں ۔۔ارمان کے دل میں منتہی ٰ کی عزت اس روز کچھ اور بڑھ گئی تھی۔”
    **********
    مختلف شہروں میں ڈیزاسٹر اور کمپیوٹر ٹریننگ سینٹرز قائم کرنے سے کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی تھی ۔انہوں نے ہر علاقے میں کچھ ایسا سلسلہ رکھا تھا کہ پہلے سے موجود مقامی افراد نئے آنے والے
    لوگوں تربیت دے کر آگے بڑھائیں ۔۔تا کہ ونگ کمانڈرز کو مسلسل ایک علاقے میں رکنے کی زحمت نہ کرنی پڑی ۔
    کارکنان کی تعداد بڑھنے سے بہت سے نئے پر عزم اور جفا کش اور محنتی ساتھی انہیں ملے تھے مگر اس بات کا اعتراف تو ڈاکٹرعبدالحق بھی برملا کرتے تھے کہ ارمان اور منتہیٰ کا نعم البدل اب تک ان کے پاس نہ تھا ۔ ۔ جس طرح ان دونوں نے اپنے اپنے
    ونگ میں مسلسل متحرک رہتے ہوئے بہت تھوڑے عرصے میں کمپین کو ایک مضبوط فاؤنڈیشن میں ڈھالا تھا ۔وہ ان کی اپنے ہموطنوں سے سچی محبت کا غماز تھا۔
    َ َ لیکن صرف منتہیٰ اور ارمان ہی نہیں کئی اور بہت سے ارکان بھی اَنتھک محنت کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر شروع ہونے والی اس کمپین کی کامیابی اور استحکام کے لیئے دن رات متحرک تھے ایک طرف شہریار جہانگیر اپنے چند ساتھیوں کے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز کے ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اپنے جی آئی ایس سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے میں جان لڑائے ہوئے تھا۔ تو دوسری طرف فاریہ ، ارحم اور دیگر اراکین کی زبردست سوشل میڈیا کپمین نے ایس ٹی ای کو بہت کم عرصے میں یوتھ کی ایک ہر دل عزیز تحریک میں ڈھالا تھا ۔
    اِس کے لوگوز والے شرٹس،کیپس یہاں تک کے بیگز اور مگزتک مارکیٹ میں آ چکے تھے جنہیں نوجوان ہاتھوں ہاتھ خریدا کرتے تھےاور یہ سب رقم چیریٹی میں جاتی تھی جس کی ایک ایک پائی کا حساب فنانشیل ونگ کے پاس تھا اور وہ کسی بھی طرح کے آ ڈٹ کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔
    آہستہ آ ہستہ پاک آ رمی سمیت کئی اور اداروں کی سپورٹ انہیں حاصل ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔اپنی سچی لگن اور بلند عزائم کے ساتھ وہ سب ہی اپنے اپنے ونگ کو پوری طرح متحرک رکھنے کے ساتھ سٹڈیز کو بھی بھرپور ٹا ئم دے رہے تھے۔
    **********
    انہی دنوں لاہور میں ملیریا کی وباء پھوٹی جس کا زیادہ تر شکار بچے اور عمر رسیدہ فراد ہوئے۔
    ارمان سمیسٹر امتحانات کی وجہ سے کئی ہفتوں سے ویکلی میٹنگ سے غائب تھا ۔ مگر منتہی ٰ نے رامین اور اور اس کے بیچ میٹ میڈیکل سٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر ملیریا اٹیک ، حفاظتی تدابیر اور بچاؤ سے متعلق بھرپور آگاہی مہم چلائی ۔ جس سے مرض
    کے پھیلاؤ کو روکنے میں کافی مدد ملی ۔
    بد قسمتی سے پروفیسر ڈاکٹر یوسف بھی ملیریا کا شکار ہوگئے۔ وہ کئی روز سے ہاسپٹل میں ایڈ مٹ تھے ۔۔مگر منتہی ٰ ملیریا مہم اور ایم فل ایڈ میشن کے چکر میں کچھ ایسی پھنسی ہوئی تھی کہ فاریہ لوگوں کے ساتھ ہاسپٹل جانا ممکن نہیں ہوا ۔۔
    سو وہ شام میں ابو کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی ۔
    سر کو پھول دے کر وہ پیچھے ہٹی ہی تھی کہ دروازہ کھلا اور ارمان اندر داخل ہوا ۔۔۔
    ایک لمحے کو ٹھٹکا ۔۔ "آج کافی عرصے بعد اِس دشمنِ جاں کا دیدار نصیب ہوا تھا ۔۔”
    "یہ میرا بیٹا ہے ارمان "۔۔ سر یوسف نے فاروق صاحب سے ارمان کا تعارف کروایا۔ تو انہوں نے اٹھ کر کافی گرمجوشی کے ساتھ ا س سے معانقہ کیا۔
    "ماشااللہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی بیٹا، ارسہ اور رامین سے آپ کی بہت تعریفیں سنی تھیں ۔۔ خدا آپکو آپ کے مقصد میں کامیاب کرے "۔۔ آمین
    "اس ڈائریکٹ تعریف پر ارمان تھوڑا خجل ہوا ۔ بس انکل جو بھی ہے سب آپ بزرگوں کی دعاؤں سے ہے "۔۔ اس نے جھک کر عاجزی سے جواب دیا ۔۔۔
    اور مینا کا پارہ آسمان پر پہنچا ۔
    "ابو بھی بس کمال کرتے ہیں کیا ضرورت تھی اِسکی اتنی تعریف کرنے کی "۔۔غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوا
    ارمان نے اُسے کنکھیوں سے دیکھا ۔۔ پھر مسکرایا ۔۔ "وہ جیلس تھی”
    "منتہیٰ آ پ کے ایم فل ایڈمیشن کا کیا ہوا ؟؟”۔سر یوسف نے پوچھا
    "پاپا پلیز فی الحال آپ صرف آرام کریں اپنے دماغ کو پر سکون رکھیں” ۔۔ منتہی ٰ کے جواب دینے سے پہلے ہی ارمان باپ پر بگڑا
    "ارے یار۔میں نے صرف پوچھا ہی تو ہے میں کون سا پڑھانے بیٹھ گیا ہوں ۔۔ تم تو مجھے ڈاکٹر لگنے لگے ہو ۔۔”
    سر نے منہ بسورا تو ارمان مسکرایا ۔۔ "شکر کریں ابھی میں یہاں ہوں۔۔ ممی ہوتی تو آ پ کو لگ پتا جانا تھا ۔۔”
    "وہ ہوتیں تو پھر کس کی زبان میں دم ہوتا ۔ ویسے خیر آنے ہی والی ہوں گی” ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے گھڑی دیکھی۔
    "یہ لڑکا مجھے بہت اچھا لگا ۔۔ ویری امپریسیو ۔ اِس کی آ نکھوں ا ور ماتھے کی چمک بتاتی ہے یہ کچھ غیر معمولی کر دکھا ئے گا "۔۔۔ ابو کی سوئی باہر پارکنگ آنے تک وہیں اَٹکی ہوئی تھی ۔۔۔
    اور منتہیٰ کا پارہ بس اب پھٹنے کو تھا ۔۔ پہلے فاریہ، رامین اورارسہ ہی اِس کے گُن گاتی تھیں اب ابو بھی ۔۔
    "میرا کنٹری بیوشن کسی کو کیوں نظر نہیں آتا۔۔ ہونہہ ۔۔”
    ارمان کی تعریف اور منتہی ٰ کو ہضم ہو جائے نا ممکن ۔ "پتا نہیں وہ اُس سے اتنا کیوں چڑتی تھی ۔۔۔ ؟؟؟”

    جاری ہے
    **********

  • آج اردو کی عظیم ادیب فاطمہ ثریا بجیا کی سالگرہ ہے

    آج اردو کی عظیم ادیب فاطمہ ثریا بجیا کی سالگرہ ہے

    آج پاکستان کی نامور ادیب فاطمہ ثریا بجیا کی 85 ویں سالگرہ ہے، برصغیر کی یہ نامور ادیب 1 ستمبر 1930 کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا پاکستان ٹیلی وژن اور ادبی دنیا کی معروف شخصیت ہیں ۔ ان کا نام ناول نگاری اورڈرامہ نگاری کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج کے لئے بھی کام کیا۔ محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔

    بجیا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک تعلیم یافتہ ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے نانا مزاج یار جنگ اپنے زمانے کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھےجبکہ ان کے والد قمر مقصود حمیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ان کے خانوادے میں زہرا نگاہ، احمد مقصود حمیدی، انورمقصود ، سارہ نقوی اور زبیدہ طارق شامل ہیں جو اپنے اپنے شعبوں کے نمایاں افراد میں شمار ہوتے ہیں۔

    محترمہ فاطمہ ثریا بجیا نے 1965ء کی جنگ کے دوران مقبول ہونے والے جنگی ترانوں کا مجموعہ جنگ ترنگ کے نام سے مرتب کیااور پاکستان ٹیلی وژن کے لیے لاتعداد ڈرامہ سیریل تحریر کیے جن میں اوراق، شمع، افشاں، عروسہ، اساوری، گھراک نگر، آگہی، انا، کرنیں، بابر اور آبگینے کے نام سرفہرست ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیازعطا کیا جبکہ حکومت جاپان نے بھی انہیں اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزازعطا کیا ہے۔

    محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح عمری ’’بجیا : برصغیرکی عظیم ڈرامہ نویس… فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔