Tag: نیوکلئیر ڈیل

  • امریکا نے معاہدہ منسوخ کیا تو جوابی کارروائی کریں گے، سرگئی لاروف

    امریکا نے معاہدہ منسوخ کیا تو جوابی کارروائی کریں گے، سرگئی لاروف

    ماسکو : روسی وزیر خارجہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے کی منسوخی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں اگر امریکا معاہدے سے نکلا کو جوابی کارروائی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی جانب سے برسوں قبل روس کے لیے ساتھ کیے جانے والے ایٹمی معاہدے سے دستبرداری پر روس نے امریکی اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو خطرناک نتائج کا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ روس کے نائب وزیر خارجہ نے عالمی طاقتوں کو معاہدے کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے روس اور امریکا کے درمیان ایٹمی معاہدہ باقی رہنا چاہئے۔

    روسی نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے سے امریکا کی دستبرداری کے بعد بین الااقوامی قوتیں امریکا کی مذمت نہیں کریں گی۔

    سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے کی منسوخی سوائے بیلک میلنگ کے کچھ نہیں اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اعلان پر عمل کیا تو جوابی کارروائی کریں گے۔


    مزید پڑھیں : امریکا کا روس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان


    خیال رہے کہ ایک روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا روس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے تاریخی معاہدے کو یہ کہتے ہوئے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا کہ روس نے 1987 میں طے ہونے والے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

    آئی این ایف معاہدے کے مطابق زمین سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پرپابندی ہے، یہ فاصلہ 500 سے 5500 کلومیٹرہے۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر نے کہا تھا کہ امریکا روس کو ان ہتھیاروں کی اجازت نہیں دے گا، روس برسوں سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا۔

  • جوہری معاہدے کا احترم ملکی مفادات کے تحفظ تک جاری رکھیں گے: ایرانی صدر

    جوہری معاہدے کا احترم ملکی مفادات کے تحفظ تک جاری رکھیں گے: ایرانی صدر

    تہران: ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ملکی مفادات کے تحفظ تک جوہری معاہدے کا احترام جاری رکھیں گے اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ تعاون بھی برقرار رہے گا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے سوئٹزر لینڈ کے دار الحکومت برن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایران کا تحفظ اور مفادات جوہری معاہدے سے وابستہ ہیں اس وقت تک ایران چھے بڑی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے کا احترام کرے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی صدر سرکاری دورے پر سوئٹزر لینڈ میں موجود ہیں، جس کا مقصد یورپی رہنماؤں سے امریکا کی جانب سے ایران جوہری معاہدے سے دست برداری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کرسکیں۔


    ایرانی صدر اہم دورے پر سوئٹزر لینڈ پہنچ گئے، جوہری ڈیل پر بات چیت ہوگی


    ترجمان ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ حسن روحانی کا دورہ خطے کے لیے انتہائی اہم ہے، اس دورے سے ایران اور یورپی ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد یورپ نے مکمل طور پر ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔


    امریکا نے سلامتی کونسل سے ایران پر پابندی کا مطالبہ کردیا


    علاوہ ازیں امریکا کی جانب سے اس فیصلے کے بعد یورپی بلاک نے صدر ٹرمپ کو شدید تنقید کا بھی نشانہ بنایا اور واضح کیا کہ جوہری معاہدے میں شامل دیگر ممالک اس اہم ڈیل کی پاسداری کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکا نے سلامتی کونسل سے ایران پر پابندی کا مطالبہ کردیا

    امریکا نے سلامتی کونسل سے ایران پر پابندی کا مطالبہ کردیا

    واشنگٹن: ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد امریکا نے اب  سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران پر پابندی عائد کرے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد اس ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاہم اب امریکا نے سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کیا ہے وہ بھی ایران پر پابندیاں عائد کرے۔

    امریکا نے سلامتی کونسل کے اراکین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران پر پابندیاں عائد کرے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اُس کے کردار کو مناسب نہیں قرار دیا جا سکتا جس کے باعث خطے کو خطرات لاحق ہیں۔

    ایران پر پابندیوں کی ضرورت پر یہ تازہ بیان اقوام متحدہ میں امریکا کے نائب سفیر جوناتھن کوہن نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں دیا، اپنے بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اس تناظر میں مثبت نتائج کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔


    ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھیں گے، یورپی رہنماؤں کا عزم


    امریکی صدر کی ایرانی جوہری ڈیل سے دستبرداری اور دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد یہ سلامتی کونسل کا پہلا اجلاس تھا جبکہ جوہری ڈیل سے دست برداری کے بعد ایران نے بھی امریکا سے سخت رویہ اپنا رکھا ہے۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پر سخت پابندیاں لگائیں گے، ایران سے جوہری تعاون کرنے والی ریاست پر بھی پابندیاں لگائیں گے۔


    ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنا گمراہ کن اور سنگین غلطی ہے، بارک اوباما


    ایرانی صدر حسن روحانی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ کا فیصلہ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، امریکا ایرانی جوہری معاہدے سے کبھی مخلص نہیں تھا، ٹرمپ نے وعدہ خلافی کی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حسن روحانی کی شی جن پنگ سے ملاقات، ایران جوہری معاہدے پر گفتگو

    حسن روحانی کی شی جن پنگ سے ملاقات، ایران جوہری معاہدے پر گفتگو

    بیجنگ: ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کی اس دوران دونوں رہنماؤں نے ایران جوہری معاہدے پر گفتگو کرتے ہوئے دوطرفہ حمایت پر اتفاق کیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی نے چین کے مشرقی شہر ’کنگ داؤ‘ میں شی جن پنگ سے ملاقات کی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران جوہری معاہدے سے دست برداری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا بھی ملاقات میں جائزہ لیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شی چن پنگ نے حسن روحانی کو باور کرایا ہے کہ ان کا ملک 2015ء میں ایران اور بڑے ممالک کے درمیان طے پائے جانے والے جوہری معاہدے کی سپورٹ جاری رکھے گا۔


    ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھیں گے، یورپی رہنماؤں کا عزم


    اس موقع پر روحانی کا کہنا تھا کہ ایران عالمی برادری سے جس میں چین بھی شامل ہے توقع رکھتا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے میں مثبت کردار ادا کرے گی۔

    خیال رہے کہ سال 2015 میں طے پائے جانے والے جوہری معاہدے پر امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے علاوہ روس اور چین نے بھی دستخط کیے تھے بعد ازاں گذشتہ ماہ امریکا اس معاہدے سے دست بردار ہوگیا۔


    امریکی صدر ٹرمپ کا ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان


    واضح رہے کہ امریکا کے معاہدے سے علیحدہ ہو جانے کے بعد اب تہران اپنی معیشت کو بچانے کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے والے بقیہ ممالک کی سپورٹ کے حصول کے واسطے کوشاں ہے جس کے لیے ایرانی عہدیداروں کی جانب سے عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقات کی جارہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • جرمن چانسلر کی چینی صدر سے ملاقات، ایران سے متعلق جوہری ڈیل پر تبادلہ خیال

    جرمن چانسلر کی چینی صدر سے ملاقات، ایران سے متعلق جوہری ڈیل پر تبادلہ خیال

    بیجنگ: جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور دونوں رہنماؤں نے ایران سے متعلق جرہری ڈیل پر تبادلہ خیال کیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کی خاتون چانسلر انجیلا مرکل دو روزہ سرکاری دورے پر چین میں موجود ہیں جہاں انہوں نے آج چین کے دار الحکومت بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی، علاوہ ازیں انہوں نے چینی وزیر اعظم ’کیچیانگ‘ اور دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔

    عالمی میڈیا کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد جرمن خاتون چانسلر نے اُس چینی حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا، جس کے تحت چین نے موٹر کاروں کی امپورٹ پر عائد محصولات میں کمی کی ہے، ملاقات کے دوران دونوں رہنما بڑے خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔


    جرمنی شام میں کسی بھی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا، انجیلا مرکل


    ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ امریکا ایران جوہری معاہدے سے دست بردار ہوچکا ہے، لیکن چین اور جرمنی ایران جوہری ڈیل کے ساتھ کھڑے ہیں، چین اور جرمنی اپنے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

    اس دوران انجیلا مرکل نے چینی رہنماؤں سے کہا کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں بھی حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ تجارتی معاملات طے پائیں، معیشت کی بہتری کے لیے یہ اقدام ضروری ہے۔


    اوباما نےمیرے اور انجیلا مرکل کے فون ٹیپ کیے‘ ڈونلڈ ٹرمپ


    خیال رہے کہ چینی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے خاص طور پر آزاد تجارت کی ضرورت پر زور دیا، مرکل نے چینی صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقاتیں دارالحکومت بیجنگ کے گریٹ ہال میں کی، مرکل اور لی کیچیانگ نے ایرانی جوہری ڈیل کا دفاع بھی کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایرانی سپریم لیڈر نے ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے7شرائط پیش کردیں

    ایرانی سپریم لیڈر نے ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے7شرائط پیش کردیں

    تہران :ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے یورپی ممالک اور ایران کے درمیان طے ہونے والے ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے سات شرائط پیش کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے ہونے والے ایٹمی معاہدے سے امریکا کی دست برداری کے بعد یورپی ممالک اور ایران کے درمیان معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے حکام کی کوششیں جاری ہیں۔

    گذشتہ روز ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے سات شرائط پیش کی گئی ہیں۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے سرکاری ویب سایٹ پر بدھ کے روز جاری بیان میں یورپی ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی منسوخی کے بعد یورپی بینک ایرانی تیل کی تجارت کو تحفظ فراہم کریں اور ایران سے خام تیل کی خریداری کو جاری رکھیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کا بیان میں کہنا تھا کہ یورپی ممالک کو وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ ایران کے بیلسٹک میزائل منصوبے پر کوئی مذاکرات نہیں کریں گے اور نہ ہی مشرق وسطیٰ میں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی نئے مذاکرات ہوں گے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے جاری بیان میں کہا ہے کہ یورپی ممالک کو ایران کے ساتھ ہونے والی تجارت کو محفوظ بنانا ہوگا۔ ایران برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ کوئی جنگ نہیں چاہتا تاہم ان پر بھروسہ بھی نہیں کرسکتا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر امریکا ایرانی تیل کی فروخت کو کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو پھر یورپ کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا اور ایران سے تیل کی خریداری کرنی ہوگی۔ جس کے لیے یورپی ممالک کو تحفظ دینے کی ضمانت دینی چاہیئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے کسی کی اجازت نہیں چاہیے: سربراہ ایرانی فوج

    ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے کسی کی اجازت نہیں چاہیے: سربراہ ایرانی فوج

    تہران: ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے کہا ہے کہ ہمیں اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایرانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا، خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ علاقے میں اپنا اثر ورسوخ کم کرے، اپنی دفاعی اور ملٹری پالیسیوں میں تبدیلی لائے تاہم ایرانی فوج کے سربراہ نے ان مطالبات کو رد کر دیا۔

    میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ ایران ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کسی ملک کی اجازت کا انتظار نہیں کرے گا اور نہ ہی ہمیں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اپنی دفاعی صلاحیتوں اور ملٹری پالیسیوں کو محدود کرے۔


    امریکا کون ہوتا ہے ایران سے متعلق فیصلے کرنے والا؟ حسن روحانی


    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی فوج ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بھرپور تیار کھڑی ہے، ہم نے اپنی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کیا ہے، بڑے سے بڑے چیلنجز کا سامنا کرسکتے ہیں، ہماری فوج اس سے پہلے کبھی اتنی تیار نہ تھی جتنی آج ہے۔

    خیال ہے کہ دو روز قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ اگر ایران اپنی علاقائی اور ملٹری پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں نہ لایا تو اس کے خلاف تاریخ کی سخت ترین پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔


    ایران سے متعلق امریکا کی نئی پالیسی، یورپی یونین نے تحفظات کا اظہار کردیا


    مائیک پومپیو نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران خطے میں پراکسی وار کا سبب بن رہا ہے، ایران کو دھمکی آمیز رویہ ترک کرنا ہوگا، ایران نے جوہری معاہدے کے دوران مشرق وسطیٰ میں اثرورسوخ بڑھایا، ایران کو دوبارہ جوہری تجربوں کی جانب نہیں جانے دیں گے، ان کو یورینیم کی افزودگی روکنی ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ایرانی ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے یورپ کی کوششیں ناکافی ہیں، جواد ظریف

    ایرانی ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے یورپ کی کوششیں ناکافی ہیں، جواد ظریف

    تہران : ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے یورپی یونین کے سربراہ برائے توانائی میگوئل اریاس سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ یورپ کی ایرانی ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے کوششیں ناکافی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدہ منسوخ کیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں عالمی طاقتوں بالخصوص یورپی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، بعد ازاں امریکا نے ایران جوہری ڈیل سے دست برداری کے بعد ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دیں ہیں۔

    ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکا کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی منسوخی کے بعد سے یورپ کی متعدد کمپنیاں ایران میں کی گئ سرمایہ کاری ختم کرنے کی باتیں کررہی ہیں۔

    جواد ظریف کا کہنا ہے کہ یورپی کمپنیوں کی جانب سے ایران میں کی گئی سرمایہ کاری ختم کرنے کی باتیں یورپ کے ایٹمی معاہدوں کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی مخالفت کررہی ہیں۔ اگر ایران کی اقتصادیات کا خیال نہیں رکھا گیا تو ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر دوبارہ کام شروع کردیں گے۔

    دوسری جانب یورپی یونین کے کمشنر برائے توانائی میگوئل ایریاس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ کسی نئے معاہدے کے حوالے مذاکرات نہیں کرے گا، بلکہ سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے پر ہی باقی رہے گا۔

    یاد رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ کے اوائل میں اپنے یورپی اتحادیوں کی گذارشات کو درگزر کرتے ہوئے ایران کے ساتھ طے شدہ معاہدہ ختم کرکے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی تھی۔

    یورپی یونین کے عہدیدار میگوئل اریاس کا کہنا تھا کہ یورپ کا مؤقف واضح ہے یورپی یونین ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر قائم ہے اور یہ ہی معاہدہ کار آمد ثابت ہوگا۔‘‘

    ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے سربراہ برائے توانائی میگوئل اریاس کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے واضح ہوا ہے کہ سنہ 2015 میں طے ہونے والے ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے یورپ کی کوششیں اور حمایت کافی نہیں ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکی حکومت نے ایران پر پابندیوں کا آغاز کردیا

    امریکی حکومت نے ایران پر پابندیوں کا آغاز کردیا

    واشنگٹن : امریکا نے ایران کی سپاہ پاسداران کے ساتھ تعاون کرنے شبے میں چھ ایرانی باشندوں اور تین کمپنیوں پر یواےای کی مدد سے پابندیاں عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے میں امریکا کے نکل جانے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کے کرنے کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی مزید بڑھنے لگی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکا کی انتظامیہ نے 6 ایرانی باشندوں اور تین کمپنیوں پر ایران کی سپاہ پاسداران سے روابط کے الزام پر پابندیاں لگادی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خزانہ اسٹون مونچن کا کہنا تھا کہ امریکا نے حالیہ عائد کی پابندیوں میں ان افراد کو ہدف بنایا ہے جو ایران کو ڈالرز کی صورت میں رقم فراہم کرتے ہیں، جس کا استعمال سپاہ پاسداران امریکا اور اس کے حامیوں کے خلاف کرتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خزانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران کا سرکاری بینک بھی سپاہ پاسداران کی ڈالرز تک رسائی حاصل کرنے میں تعاون فراہم کررہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ خزانہ نے ان افراد کے نام بتانے سے انکار کردیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ جن افراد پر پابندی عائد کی گی ہے وہ سب ایرانی ہیں۔

    امریکا کی وزیر خزانہ اسٹون مونچن کا کہنا تھا کہ مذکورہ کمپنیوں اور افراد پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے بعد کسی بھی کمپنی یا ملک کو جرت نہیں ہوگی کہ وہ ایران کے ساتھ تعلق رکھے۔

    امریکی وزیر خزانہ کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اور ایران کے سرکاری بینک نے متحدہ عرب امارات کے اداروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ سپاہ پاسداران اور خطے میں منفی سرگرمیاں انجام دینے والے ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو ڈالرز اور اسلحے کی صورت میں مدد پہنچائی جاسکے۔

    اسٹون مونچن کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کی سپاہ پاسداران کے تمام ذرائع آمدنی بند کردے گا جس کے ذریعے پاسداران کا مالی استحصال کیا جائے گا۔

    ایران کی سپاہ پاسداران

    یاد رہے کہ سنہ 1979 میں انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد سپاہ پاسداران کو وجود میں لایا گیا تھا تاکہ اسلامی نظام، مقدسات اور اقدار کا کسی بھی جگہ تحفظ کیا جاسکے، سپاہ پاسداران ایران کی بڑی سیاسی اور اقتصادی قوت بھی ہے۔

    خیال رہے کہ ایران کی سپاہ پاسداران بہت مضبوط ہے اور ملک کی قومی سلامتی کو خطرہ درپیش ہوتو پولیس اور خفیہ ادارے اس کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن اگر صورت حال بہت کشیدہ ہوجائے حکومت اور سیکیورٹی ادارے معاملات سپاہ پاسداران کے حوالے کردیتے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا مقصد بھی سپاہ پاسداران اور اس کے خصوصی دستے القدس بریگیڈ کو کمزور کرنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپاہ پاسداران پر ’بدعنوان دہشت گرد فورس قرار دیا تھا‘ اور گذشتہ برس اکتوبر میں پابندیوں کے ذریعے مذکورہ مسلح گروہ کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔

    یاد رہے کہ ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا دوبارہ اطلاق امریکی صدر نے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بعد ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ امریکا نے سنہ 2015 میں طے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان رواں ماہ مئی میں کیا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ ’امریکا نے ایٹمی سے علیحدگی اختیار کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    واشنگٹن : امریکی صدر نے جے پی او سی کے اجلاس میں باقاعدہ ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا، جس کے بعد سنہ 2015 سے قبل عائد پابندیاں دوبارہ نافذ کردی جائیں گی.

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج جے سی او پی کے ساتھ امریکی تعاون کو ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے اس فیصلے کی رو سے ایران پر سنہ 2015 سے پہلے عائد پابندیوں کا دوبارہ اطلاق ہوجائے گا جو ایٹمی معاہدے کے باعث ختم کی گئی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے کے لیے امریکی محکمہ خزانہ کا دفتر برائے بیرونی اثاثہ جات اس حوالے سے فوری اقدمات کررہا ہے۔

    امریکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ کچھ پابندیاں تین ماہ کے اندر لاگو کردی جائیں گی جبکہ کچھ پابندیوں 6 ماہ کے اندر اندر نافذ العمل کیا جائے گا، اس دوران ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے تمام کمپنیاں اپنے آپریشن بند کردیں ورنہ ان پر بھی سختی کی جائے گی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں میں پرائمری اور ثانوی دونوں نوعیت کی پانبدیاں شامل ہیں، او ایف اے سی نے اپنی دیب سایٹ پر امریکی صدر ٹرمپ سے کیے گئے سوالات کو شائع کیا ہے جس میں لگائی گئی پابندیوں کی تفصیلات واضح ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر وزیر خزانہ اسٹیون ٹی کا کہنا ہے کہ ’صدر ٹرمپ حلف لینے کے بعد سے متواتر کہتے آئے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ ایران کی جانب سے پیدا کی گئی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو مکمل طور ہر حل کرنے کےلیے پُر عزم ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہترین منصوبہ سازی کے ذریعے ایسا لائحہ عمل معاہدہ تیار کریں گے جو ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہوگا۔

    اسٹیون ٹی کا کہنا تھا کہ ’امریکا ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں کے لیے درکار سرمائے تک رسائی کو سرے سے ختم کردے گا، کیوں کہ ایران دہشت گردوں کا سب سے بڑی پشت پناہی کرنے والی ریاست ہے‘۔

    امریکی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں امریکا کے اتحادیوں و حامیوں کے خلاف استعمال ہونے والے بیلسٹک میزائل، شامی صدر بشار الااسد کی حمایت اور اپنے ہی عوام کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بین الااقوامی مالیاتی نظام کا استعمال شامل ہے‘۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے، خطاب کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔