Tag: nuclear talks

  • ایران جوہری پروگرام پر سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ

    ایران جوہری پروگرام پر سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ

    ایران نے جوہری پروگرام پر سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے حامی بھرلی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کو لکھے گئے خط میں زور دیا ہے کہ دیگر فریق بھی سنجیدگی اور خیرسگالی کا مظاہرہ کریں۔

    رپورٹس کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے خط میں کہا کہ جوہری پروگرام پر سفارتی مذاکرات کی بحالی کا انحصار اس بات پر ہے کہ فریقین سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جس سے کامیابی کے امکانات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

    اس سے قبل وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی واپسی کا مطلب مکمل تعاون کی بحالی نہیں ہے۔

    روس مذاکرات کی میز کے بجائے بیلسٹک میزائل کو ترجیح دیتا ہے، یوکرینی صدر

    وزیر خارجہ نے بدھ کے روز کہا تھا کہ IAEA کے معائنہ کار ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کی رضامندی سے ایران میں داخل ہوئے ہیں۔

    عباس عراقچی کا سرکاری نشریاتی ادارے کے حوالے سے تبصرے میں کہنا تھا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے نئے فریم ورک پر ابھی تک کوئی حتمی متن منظور نہیں ہوا ہے اور خیالات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔

  • ایران امریکا سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر مشروط طور پر آمادہ

    ایران امریکا سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر مشروط طور پر آمادہ

    تہران: ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کی جانب سے امریکا سے دوبارہ مذاکرات کے لیے مشروط آمادگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانسیسی اخبارکو دیے گئے انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات شروع کرنے کیلیے آمادہ ہیں تاہم امریکا کو مذاکرات کے دوران ایران پر حملے نہ کرنے کی ضمانت دیناہوگی اور امریکا غلطیوں کا ازالہ کرے تو مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری تنصیبات پر نقصان کے تخمینے کے بعد معاوضہ طلب کرنے کا حق حاصل ہے، امریکا نے ہی مذاکرات توڑ کر کارروائی کا آغاز کیا، اس لیے اب ضروری ہے کہ امریکا اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرے، امریکا کے حالیہ حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔

    ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ سمجھنا کہ ایران کو پر امن جوہری منصوبہ ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے درحقیقت یہ ایک سنگین غلط فہمی ہے، ایرانی جوہری پروگرام ایسا قومی سرمایہ ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

    اُنہوں نے کہا کہ سفارت کاری دو طرفہ معاملہ ہے اوردوست ممالک یا ثالثوں کے ذریعے ایک سفارتی ہاٹ لائن قائم کی جا رہی ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران نے 16 دن میں 5لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ملک بدر کر دیا۔ 24 جون سے 9جولائی تک ایران سے 5لاکھ 8ہزار افغان مہاجرین بیدخل کیے گئے۔

    ایک دن میں 51 ہزار افغان شہریوں کی ملک بدری کی گئی جو کہ اتوار کی ڈیڈلائن سے قبل ریکارڈ اخراج ہے۔ ایرانی حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی مقدم ہے غیرقانونی شہریوں کی واپسی ناگزیر ہے۔

    سی این این کے مطابق ریاستی میڈیا پر افغانوں کی اسرائیل کیلئے مبینہ جاسوسی کی اعترافی ویڈیوز نشر کی گئیں، ایرانی پولیس کی افغان شہریوں کیخلاف بھرپور کارروائی کی ویڈیوز بھی نشر کی گئیں۔

    ’غزہ بچوں اور بھوکے لوگوں کا قبرستان بن چکا‘

    ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں یا گرفتاری کا سامنا کریں۔

    ایران ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افغان مہاجرین کا گھر ہے اور بہت سے لوگ وہاں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔

    2023 میں، تہران نے غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا جس کے مطابق وہ ملک میں ”غیر قانونی طور پر”رہ رہے تھے۔

  • یورپی وزرائے خارجہ کل ایران سے جوہری مذاکرات کریں گے، ذرائع

    یورپی وزرائے خارجہ کل ایران سے جوہری مذاکرات کریں گے، ذرائع

    برلن : یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کل بروز جمعہ جنیوا میں ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ جوہری معاملات پر مذاکرات کریں گے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے رائٹرز نے ذرائع کے حوالے سے اپنی خصوصی رپورٹ میں جرمن ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد ایران کو اس بات کی واضح اور پکی ضمانت دینے پر راضی کرنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن اور شہری مقاصد کے لیے استعمال ہوگا۔

    رائٹرز کو جرمنی کے ایک سفارتی ذریعے نے بتایا ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ جمعہ کو جنیوا میں ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ جوہری معاملات پر بات چیت کریں گے۔

    رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا جوہری پروگرام فوجی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔

    ایران اسرائیل جنگ سے متعلق تازہ ترین خبریں یہاں پڑھیں

    علاوہ ازیں اسرائیلی خبر رساں ادارے دی ٹائمز آف اسرائیل نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران سے مذاکرات جنیوا میں جرمن قونصلیٹ میں ہوں گے، مذاکرات میں یورپی یونین کی اعلیٰ سفارت کار کایاکالاس بھی شرکت کریں گی۔

    اسرائیلی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذاکرات امریکہ کی منظوری سے ہورہے ہیں، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی لانا ہے۔

  • ایران کا اسرائیلی حملے کے بعد جوہری مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ

    ایران کا اسرائیلی حملے کے بعد جوہری مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ

    تہران: امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے اسرائیلی حملے کے بعد جوہری مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    امریکی اخبار ’دی ہِل‘ کے مطابق ایران نے باضابطہ طور پر امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات سے دست برداری کا اعلان کر دیا ہے، یہ فیصلہ ایرانی جوہری اور فوجی اہداف پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد آیا ہے۔

    اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا اور ایران کے جوہری مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو عمان میں شروع ہونا تھا، اب ایرانی رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ تہران کا چھٹے مذاکراتی دور میں شرکت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ عمان نیوز ایجنسی اور ایران کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیے گئے ہیں۔

    عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے حملوں کے بعد سوشل پلیٹ فارم X پر پوسٹ میں کہا ’’ایران پر اسرائیل کا یک طرفہ حملہ غیر قانونی، بلاجواز اور علاقائی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔‘‘ انھوں نے لکھا ’’میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور عالمی برادری پر زور دیتا ہوں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو مسترد کرنے کے لیے اکٹھے ہوں اور ہم آواز ہو کر کشیدگی میں کمی اور سفارت کاری کی حمایت کریں۔‘‘


    ایران پر حملے سے قبل امریکا نے اسرائیل کو کون سے میزائل دیے؟ برطانوی میڈیا نے بھانڈا پھوڑ دیا


    واضح رہے کہ جوہری مذاکرات کا مقصد 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا تھا، جس کے تحت ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنی تھیں اور اس کے بدلے اس پر پابندیوں میں نرمی کی جانی تھی، اس معاہدے سے امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ 2018 میں نکل گئی تھی۔

    ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انھوں نے 2 ماہ قبل تہران کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے 60 دن کا الٹی میٹم دیا تھا۔ ٹرمپ نے لکھا کہ ایران کو میز پر آ جانا چاہیے تھا، آج 61 واں دن ہے، میں نے انھیں بتایا تھا کہ کیا کرنا ہے لیکن وہ نہیں کر سکے۔ اب ان کے پاس شاید دوسرا موقع ہے!

    دریں اثنا، ڈنمارک کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایران سے مذاکرات کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ایرانی صدر مسعود پیزشکیان سے رابطے کیے ہیں، روسی صدر نے کہا ایٹمی پروگرام سے متعلق مسائل کو سفارتکاری سے حل کیا جانا چاہیے۔

    ایرانی صدر نے صدر پیوٹن کو پیغام پہنچایا کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہتا، ہم ہمیشہ ایٹمی ہتھیاروں کے مخالف رہے ہیں، اور بین الاقوامی اداروں کو بھی یقین دہانیاں دینے کو تیار ہیں۔

  • ایرانی صدر کا جوہری مذاکرات سے متعلق بڑا بیان

    ایرانی صدر کا جوہری مذاکرات سے متعلق بڑا بیان

    ایران کے صدر مسعود پزشکیان کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات جاری رکھیں گے مگر دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکا ایران جوہری مذاکرات سے متعلق کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک وقت میں امن کی بات کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔

    انہوں نے ٹرمپ کے رویے پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید کہا کہ ہم امریکی صدر کی کس بات پر یقین کریں؟

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ایران نے اسرائیل کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزیوں اور خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں خبردار کیا تھا کہ اس کی سرزمین پر کسی بھی قسم جارحیت کی گئی تو فوری، فیصلہ کن ردعمل کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔

    ایرانی افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری کا تہران میں دیے گئے ایک بیان میں کہنا تھا کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو دشمن کو ایسی ناقابلِ تلافی تباہی اور نقصانات اٹھانے پڑیں گے، جو اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوں گے۔

    ایرانی عسکری قیادت کی جانب سے یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل کے مختلف اعلیٰ حکام بارہا یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری صلاحیت حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ اسرائیلی قیادت کی یہ تکرار خطے میں جنگ کے بادل مزید گہرے کر رہی ہے۔

    اسرائیل کی یمن کی الحدیدہ بندرگاہ پر بمباری

    واضح رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق چوتھے دور کی بات چیت اختتام پذیر ہوئی ہے۔ جبکہ مستقبل میں مزید مذاکرات کی منصوبہ بندی بھی ہورہی ہے۔

  • امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں لگا دیں، مذاکرات کا تیسرا دور ملتوی

    امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں لگا دیں، مذاکرات کا تیسرا دور ملتوی

    تہران: مذاکرات کے باوجود امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تکنیکی جوہری اجلاس ہفتے تک ملتوی کر دیا گیا ہے، امریکا ایران مذاکرات کا تیسرا دور بدھ کو ہونے والا تھا۔

    تیسرا دور ری شیڈول کرنے کا فیصلہ عمان کی تجویز اور وفود کے معاہدے کے بعد کیا گیا ہے، دوسری جانب مذاکرات کے باوجود امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق تہران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر جاری بات چیت کے درمیان امریکی محکمہ خزانہ نے کہا ہے کہ اس نے منگل کو ایرانی مائع پیٹرولیم گیس میگنیٹ سید اسد اللہ امام جومہ اور ان کے کارپوریٹ نیٹ ورک کو نشانہ بناتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔


    ’’چین کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤں گا‘‘ ٹرمپ کا مؤقف تبدیل ہو گیا


    محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ امام جومہ کے نیٹ ورک نے سیکڑوں ملین ڈالر مالیت کی ایرانی ایل پی جی اور خام تیل بیرونی منڈیوں میں بھیجا، دونوں مصنوعات ایران کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، جو نہ صرف اس کے جوہری اور جدید روایتی ہتھیاروں کے پروگراموں کو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی پراکسی گروپس بشمول حزب اللہ، یمن کے حوثی اور فلسطینی حماس گروپ کو فنڈ دینے میں مدد کرتی ہیں۔

    سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ امام جومہ اور اس کے نیٹ ورک نے امریکی پابندیوں سے بچتے ہوئے ایران کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے ایل پی جی کی ہزاروں کھیپیں برآمد کرنے کی کوشش کی۔

    واضح رہے کہ ایران اور امریکا نے ہفتے کے روز ممکنہ جوہری معاہدے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا شروع کرنے پر اتفاق کیا، اعلیٰ مذاکرات کاروں نے ہفتے کے روز عمان میں دوبارہ ملاقات کا منصوبہ بنایا ہے۔

  • ٹرمپ کا خامنہ ای کو خط، ایران کا ردِ عمل سامنے آگیا

    ٹرمپ کا خامنہ ای کو خط، ایران کا ردِ عمل سامنے آگیا

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات کیلیے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو لکھے گئے خط پر ایران کی جانب سے رد عمل سامنے آیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کسی بھی خط کے موصول ہونے کی تردید کی گئی ہے۔

    ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ جب تک ایران پر کڑی پابندیاں برقرار ہیں امریکا سے بات نہیں ہوسکتی۔ ٹرمپ کی جانب سے جوہری مذاکرات کی دعوت کو مسترد کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ٹرمپ نے فاکس بزنس نیٹ ورک کے ساتھ انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور اس کی اعلیٰ قیادت کو خط بھیجا ہے۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں کیونکہ یہ ایران کے مفاد کیلیے بہتر ہے، میرے خیال میں وہ خود بھی خط حاصل کرنا چاہتے ہیں، دوسرا متبادل یہ ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہوگا کیونکہ ایک اور جوہری ہتھیار نہیں بننے دے سکتے۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تہران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں؛ ایک فوجی طور پر یا دوسرا کوئی معاہدہ کر لیں، میں معاہدہ کرنے کو ترجیح دوں گا کیونکہ میں نقصان پہنچانا نہیں چاہتا ایرانی عظیم لوگ ہیں۔

    انہوں نے 2018 میں بطور امریکی صدر ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تھی جو کہ تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تعمیر سے روکنے کیلیے کثیر القومی معاہدہ تھا۔

    ایلون مسک اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے

    تاہم انہوں نے فروری میں کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جو اس کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکے۔

  • ایرانی صدر لاطینی امریکا پہنچ گئے، امریکا ایران مذاکرات بحال

    ایرانی صدر لاطینی امریکا پہنچ گئے، امریکا ایران مذاکرات بحال

    تہران: ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاطینی امریکا کے دورے پر وینزویلا پہنچ گئے، امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی کی بھی تصدیق کر دی گئی۔

    ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی صدر لاطینی امریکا کے دورے پر وینزویلا پہنچ گئے ہیں، صدر ابراہیم رئیسی لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے کے معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

    ایرانی صدر کیوبا اور نکاراگوا بھی جائیں گے، لاطینی امریکا کے اپنے پہلے دورے میں، ایران کے سخت گیر صدر نے پیر کے روز اپنے وینزویلا کے ہم منصب سے ملاقات کی اور امریکا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک ’’مشترکہ دشمن‘‘ موجود ہے۔

    صدر ابراہیم رئیسی کے وینزویلا کے دورے سے ٹھیک ایک سال اور ایک دن قبل وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے ایرا کا دورہ کیا تھا، یہ دونوں ممالک امریکی اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہیں۔

    رئیسی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان روابط ’’معمولی نہیں ہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک تعلقات ہیں‘‘، انھوں نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کے ’’مشترکہ مفادات اور ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔‘‘

    ایرانی میڈیا کے مطابق دوسری جانب ایران نے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عمان میں مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے، ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عمانی حکام کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

    انھوں نے کہا امریکا سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو قیدیوں کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے، سفارتی عمل کو کبھی نہیں روکا، اور امریکا کے ساتھ خفیہ بات چیت نہیں کی۔