Tag: obesity

  • موٹاپے کے خطرات سے بچاؤ کیسے ممکن ہے، ڈائٹنگ یا جسمانی سرگرمی؟

    موٹاپے کے خطرات سے بچاؤ کیسے ممکن ہے، ڈائٹنگ یا جسمانی سرگرمی؟

    موٹاپا ایک عام پریشانی ہے جو بہت سارے لوگوں کو لاحق ہوتی ہے، جس سے چھٹکارے کے لیے لوگ طرح طرح کے جتن کرتے ہیں، لیکن ماہرین صحت نے بہت ساری ریسرچ اسٹڈیز کے تجزیے کے بعد یہ اہم سوال سامنے رکھا ہے کہ موٹاپے کے خطرات سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ ڈائٹنگ یا جسمانی سرگرمی کے ذریعے؟

    ماہرین صحت نے یہ واضح کیا ہے کہ ڈائٹنگ کے ذریعے وزن کم کرنے اور جسمانی سرگرمی (فزیکل ایکٹویٹی) بڑھانے کے درمیان تقابلی فوائد کیا ہیں، فی الوقت اس سوال کے جواب میں تحقیقاتی نتائج شایع نہیں ہوئے ہیں۔

    یہ ریسرچ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے گلین گیسر اور یونیورسٹی آف ورجینیا کے سدھارت انگڑی نے ریسرچ جرنل ’آئی سائنس‘ کے تازہ شمارے میں شایع کی ہے۔

    اس ریسرچ اسٹڈی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ڈائٹنگ کے ذریعے وزن کم کرنے اور فٹنس، جسمانی سرگرمی بڑھانے کے درمیان تقابل کیا جائے، اور دیکھا جائے کہ صحت کو لاحق خطرات کس طریقے سے کم ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج یہ نکلے کہ:

    1) موٹاپے سے منسلک اموات کا خطرہ بڑی حد تک، کم یا زیادہ فزیکل ایکٹویٹی (پی اے) یا کارڈیو ریسپائریٹری فٹنس (سی آر ایف) کے ذریعے یا تو کم ہو جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے۔

    2) موٹاپے سے منسلک بیش تر کارڈیو میٹابولک خطرات کو وزن کم کیے بغیر بھی ورزش کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔

    3) وزن میں کمی، خواہ ارادہ کر کے یہ کمی لائی گئی ہو، موٹاپے کی وجہ سے اموات کے کم خطرے کے ساتھ مستقل طور پر منسلک نہیں ہوتی۔

    4) جب کہ ارادی طور پر کم کیے گئے وزن کے برعکس سی آر ایف اور پی اے یعنی جسمانی سرگرمی مستقل طور پر اموات کے خطرے میں بہت زیادہ کمی کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔

    5) ویٹ سائیکلنگ (یعنی ڈائٹنگ وغیرہ کے ذریعے وزن کم کرنا اور پھر وزن بڑھ جانا، یعنی بار بار کمی اور زیادتی آنا) صحت کے برے نتائج کے ساتھ جڑی ہوئی ہے بشمول اموات کے خطرے میں اضافے کے۔

    ماہرین صحت نے اس سلسلے میں بہت ساری ریسرچ اسٹڈیز کا بغور جائزہ لیا، اور پھر کہا کہ گزشتہ 40 برسوں کے دوران موٹاپے کے مسئلے کے پھیلاؤ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، اور 1980 کے بعد سے 70 سے زیادہ ممالک میں موٹاپے کے مسئلے کا پھیلاؤ دگنا ہوا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ انھی چالیس برسوں کے دوران ہی ویٹ لاس (وزن میں کمی لانے) کی کوششوں کا پھیلاؤ بھی بہت زیادہ ہوا ہے، لیکن ان کوششوں کے ساتھ ساتھ موٹاپے کے مسئلے کا پھیلاؤ 3 گنا بڑھا ہے۔

    اس ریسرچ اسٹڈی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں وزن میں کمی پر اس شدید توجہ نے بھی بڑھتے ہوئے موٹاپے کے رجحان کو نہیں روکا، بلکہ بار بار وزن کم کرنے کی کوششیں وزن بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں، اور بلاشبہ اس کا تعلق ویٹ سائیکلنگ کے ساتھ جڑ ہوا ہے، جو صحت کے نمایاں خطرات سے منسلک ہے۔

    اس کے علاوہ، جہاں ایک طرف موٹاپے کے مسئلے کے پھیلاؤ میں، اور اس کے ساتھ ساتھ وزن میں کمی لانے کی کوششوں میں اضافہ ہوا، وہاں باڈی ویٹ اسٹگما میں اضافہ بھی ان دونوں کے متوازی رہا، ویٹ اسٹگما دراصل موٹاپے کو معاشرے میں ایک بدنما داغ کے طور پر سمجھنے کا رویہ ہے، جس کی وجہ سے صحت کے مزید منفی اثرات سامنے آتے ہیں، بشمول اموات میں اضافے کے۔

    ماہرین نے یہ اہم سوال اٹھایا کہ کیا وزن میں کمی موٹاپے کے علاج کی بنیادی توجہ ہونی چاہیے۔ ماہرین نے اس کا جواب یہ دیا کہ موٹاپے اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے علاج کے متبادل طریقے تجویز کیے گئے ہیں، جن میں وزن میں کمی بنیادی نکتہ ہے ہی نہیں۔

  • لانگ کووڈ: موٹاپے کا شکار افراد کے لیے بری خبر

    لانگ کووڈ: موٹاپے کا شکار افراد کے لیے بری خبر

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق موٹاپے کا شکار افراد میں کووڈ 19 کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کی اس تحقیق میں کووڈ کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کے خطرے کی جانچ پڑتال میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد میں اس کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا کہ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان میں کووڈ کے دائمی مسائل کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ایسے 3 ہزار کے قریب افراد کا جائزہ لیا گیا جو کووڈ کو شکست دے چکے تھے اور ان کی مانیٹرنگ جنوری 2021 تک جاری رکھی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کی دائمی پیچیدگیاں بہت زیادہ عام ہوتی ہیں، بیماری کو شکست دینے والے لگ بھگ 40 فیصد افراد کو مختلف مسائل کا سامنا تھا۔

    نتائج سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کووڈ کے ابتدائی مرحلے میں اسپتال میں داخل ہونے کا خطرہ موٹاپے کے شکار افراد میں دیگر کے مققابلے میں 30 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    دیگر تحقیقی رپورٹس میں بھی ثابت ہوا تھا کہ موٹاپا کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھانے والا ایک عنصر ہے جس کے باعث اسپتال اور آئی سی یو میں داخلے اور وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت زیادہ ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ اور اس کی دائمی پیچیدگیوں سے بچنے کا بہترین طریقہ ویکسی نیشن کروانا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ویکسینز موٹاپے کے شکار افراد کو کووڈ سے بیمار ہونے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہیں۔ کن مریضوں میں طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہے، یہ جان کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مریضوں کے لیے ویکسینز ناگزیر ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد میں ویکسی نیشن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

    اس تحقیق پر ابھی کام جاری ہے اور محققین کی جانب سے یہ تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کووڈ 19 کے شکار افراد کو کس طرح کی نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

  • چھوٹی عمر کا موٹاپا کنٹرول نہ کرنے کے سنگین نقصانات

    چھوٹی عمر کا موٹاپا کنٹرول نہ کرنے کے سنگین نقصانات

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لڑکپن میں موٹاپے کا سامنا کرنے والے افراد کو عمر کی تیسری اور چوتھی دہائی کے دوران ہارٹ اٹیک، ذیابیطس ٹائپ ٹو اور خراب صحت کے خطرے کا زیادہ سامنا ہوتا ہے۔

    نوجوانی میں موٹاپے کا سامنا کرنے والے افراد میں 24 سال بعد بھی موٹاپا برقرار رہ سکتا ہے جبکہ ہائی کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر، گردوں کے امراض، ہارٹ فیلیئر، کینسر، دمہ اور نیند کی دوران سانس کی رکاوٹ جیسے امراض کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ11 سے 18 سال کی عمر میں موٹاپے کا سامنا کرنے سے 33 اور 43 سال کی عمر میں لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ لڑکپن کا زمانہ مستقبل میں ذیابیطس اور ہارٹ اٹیک کی روک تھام کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔

    کیلی فورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ والدین کو اپنے بچوں میں صحت مند رویوں جیسے جسمانی سرگرمیوں کو معمول بنانا اور متوازن غذا کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو جسمانی طور پر متحرک اور متوازن غذا کا استعمال کرنا چاہیے مگر جسمانی وزن میں کمی کے لیے انتہا پسندانہ غذائی عادات کو اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈائٹنگ سے طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی وزن میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں شائع ہوئے۔

  • آم کی گٹھلی موٹاپا کم کرنے کیلئے نہایت مفید، جانیے کیسے ؟

    آم کی گٹھلی موٹاپا کم کرنے کیلئے نہایت مفید، جانیے کیسے ؟

    دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے شہریوں کو بھی موٹاپے کی وجہ سے صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے، اس حوالے سے ماہرین کے مطابق اندازاً ملک کی ایک تہائی آبادی ایسی ہے جو بڑھتے ہوئے وزن کے مسائل کا شکار ہے۔

    آپ نے وزن کم کرنے کے بہت سے نسخے آزمائے ہوں گے اور بہت سے مشورے حاصل کیے ہوں گے لیکن آج ہم آپ کو وزن گھٹانے کیلئے انتہائی آسان اور گھریلو نسخہ بتائیں گے جو آپ کو اس مشکل سے نجات دلانے میں معاون ثآبت ہوگا۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر بلقیس نے موٹاپے سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ناظرین کو اپنے قیمتی مشورے دیئے اور نہایت آسان اور سستا نسخہ تجویز کیا۔

    اجزاء:

    مینگو سیڈ آئل یعنی آم کے بیجوں کا تیل
    جامن کی گٹھلی کے بیج کا پاؤڈر
    سونف،
    سونٹھ کا پاؤڈر
    سوکھا پودینہ پہاڑی

    ترکیب:

    دو چمچ مینگو سیڈ آئل یعنی آم کے بیجوں کا تیل اگر وہ نہ میسر ہو تو آم کی گٹھلی سے گری نکال کر سکھانے کے بعد اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرلیں اس کے بعد ایک چمچ جامن کی گٹھلی کے بیج کا پاؤڈر شامل کرلیں۔

    اس کے علاوہ دو عدد چمچ سونف، سونٹھ کا پاؤڈر یعنی سوکھی ہوئی ادرک کا ایک چمچ اور پودینے کا پاؤڈر دو چمچ ڈال لیں، پودینے کا پاؤڈر اگر نہ ملے تو پودینے کے پتے سکھا کر بھی ڈال سکتے ہیں۔

    اب ان تمام اشیاء کو ملا کر گرینڈر میں اچھی طرح پیس لیں کہ وہ پاؤڈر کی شکل اختیار کرلے، اس سفوف کو ہر کھانے کے بعد پھکی کی طرح پانی کے ساتھ  باقاعدہ استعمال کریں۔

    ڈاکٹر بلقیس نے بتایا کہ یہ سفوف نہ صرف موٹاپے میں کمی بلکہ قبض اور بواسیر کے مریضوں کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔ یہ پاؤڈر ہر کھانے کے بعد ایک چمچ  دن میں تین بار  پانی میں گھول کر یا پانی کے ساتھ استعمال کریں۔

  • طبی ماہرین نے کورونا سے اموات میں اضافے کی بڑی وجہ بتادی

    طبی ماہرین نے کورونا سے اموات میں اضافے کی بڑی وجہ بتادی

    موٹاپا امراضِ قلب سے لے کر کینسر اور ذیابیطس جیسے امراض کا خطرہ بڑھا دیتا ہے تاہم نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ موٹاپے کا شکار کوویڈ 19 کے مریضوں کو اس وائرس سے کسی عام شخص سے زیادہ خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ جسمانی وزن اور موٹاپے کے شکار افراد میں کوویڈ 19 کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس سے قبل متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا جاچکا ہے کہ موٹاپا کوویڈ 19 کی سنگین شدت کا باعث بننے والا اہم عنصر ہے اور ایسے افراد کو ہسپتال میں داخلے، آئی سی یو اور وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت بیماری کے ابتدائی مرحلے میں پڑسکتی ہے۔

    جس کی وجہ یہ ہے کہ موٹاپے سے دل کی شریانوں کے امراض، بلڈ کلاٹس اور پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے جیسے خطرات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ایسے افراد کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کے ماہرین کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جس میں دریافت کیا گیا کہ موٹاپے کے شکار افراد میں کوویڈ 19 کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے دوران کلیولینڈ ہیتھ سسٹم میں مارچ سے جولائی2020 کے دوران آنے والے افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا جن کا فالو اپ جنوری 2021تک جاری رکھا گیا۔

    محققین نے کوویڈ 19 کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کے لیے3 عناصر کا تجزیہ کیا جن میں اسپتال میں داخلے، موت اور میڈیکل ٹیسٹوں کی ضرورت شامل تھے۔ ان کا موازنہ مریضوں کے5 گروپس سے کیا گیا جن کو جسمانی وزن کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تھا۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ کوویڈ کو شکست دینے کے بعد مختلف علامات کا سامنا عام ہوتا ہے، تاہم عام معتدل سے زیادہ جسمانی وزن کے حامل

    افراد میں کوویڈ کی پیچیدگیوں کے باعث دوبارہ اسپتال پہنچنے کا خطرہ 28 سے 30 فیصد تک زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح ان افراد میں مختلف طبی مسائل کی تشخیص کے لیے ٹیسٹوں کا امکان بھی عام جسمانی وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں25 سے 39فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے افراد میں دل، پھیپھڑوں، گردوں، معدے اور دماغی صحت کے مسائل بھی دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ مشاہداتی تحقیق تھی جس میں دیکھا گیا کہ کووڈ 19 کی طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہوسکتا ہے۔

    محققین کی جانب سے نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ کیوں موٹاپا کوویڈ کے مریضوں میں طویل المعیاد پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف ڈائیبیٹس، اوبیسٹی اینڈ میٹابولزم میں شائع ہوئے۔

  • آپ کے پیٹ اور کمر کا سائز دل کیلئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟ جانیے

    آپ کے پیٹ اور کمر کا سائز دل کیلئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟ جانیے

    ماہرین طب اور محققین کا کہنا ہے کہ پیٹ اور کمر کے سائز سے کسی بھی انسان میں دل کی خطرناک بیماریاں پیدا ہونے کے امکانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    محققین نے کہا ہے کہ انسانی جسم کے دو اہم حصے، پیٹ اور کمر کی گولائی یا اس کے محیط سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس انسان میں دل کی مہلک بیماریوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔

    اگر آپ موٹاپے سے متعلق امراض جیسے دل کی شریانوں کی بیماریاں یا ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرے کو کم کرنا چاہتے ہیں تو اپنی کمر کے حجم پر نظر رکھنا ہوگی۔

    جسمانی وزن کے ساتھ کمر کا حجم دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول ہارٹ اٹیک اور فالج کے خطرے کی پیشگوئی کا ایک بڑا  ذریعہ ہوسکتا ہے۔

    یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ  موٹاپے کی طرح توند نکلنا یعنی پیٹ اور کمر کا حجم بڑھ جانا دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ہے۔

    تحقیق کے مطابق ڈاکٹروں کو جسمانی وزن کے ساتھ کمر کے حجم پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے قبل بھی مختلف تحقیقی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ توند نکلنا بھی لوگوں میں امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    مگر کینیڈا کی کوئینز یونیورسٹی اس کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ کمر کی پیمائش کو اکثر کرنا دیگر اہم نشانیوں کی طرح اہم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ماہرین تمام مریضوں کے بلڈ پریشر کو دیکھتے ہیں، تو کمر کی پیمائش بلڈ پریشر سے زیادہ مشکل نہیں، جس کے لیے بس2منٹ درکار ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ توند کا نکلنا امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ یہ خطرہ ان افراد میں کم ہوتا ہے جن کی توند نہیں نکلی ہوئی ہوتی۔

    محققین نے بتایا کہ درمیانی عمر یا بوڑھے افراد میں جسمانی وزن سے ہی ان کو لاحق طبی خطرات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

    طبی جریدے نیچر ریویوز اینڈوکرینولوجی میں شائع تحقیق میں کمر کا حجم بڑھنے اور قبل از وقت موت کے خطرے میں مضبوط تعلق کو دریافت کیا گیا اور ایسا کم جسمانی وزن کے حامل افراد کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

  • جگن کاظم بیٹی کی پیدائش کے بعد کس پریشانی کا شکار تھیں؟

    جگن کاظم بیٹی کی پیدائش کے بعد کس پریشانی کا شکار تھیں؟

    کراچی: معروف ٹی وی میزبان اور اداکارہ جگن کاظم کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زچگی کے چند دن بعد ہی لوگوں کے طعنوں سے تنگ آ کر وزن کم کرنے کے لیے ورزش شروع کردی جس سے ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔

    معروف ٹی وی میزبان اور اداکارہ جگن کاظم کا کہنا ہے کہ دوسری بچی کی پیدائش کے بعد ان پر وزن کم کرنے کے لیے اتنا دباؤ تھا کہ انہوں نے چند دن بعد ہی ورزش شروع کردی جس سے ان کی حالت بگڑ گئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Juggun Kazim (@juggunkazim)

    جگن کا کہنا ہے کہ انہوں نے لوگوں کے دباؤ میں آ کر یہ قدم اٹھایا اور اس پر سخت شرمندہ ہیں۔

    انہوں نے دوران حمل خواتین کے وزن بڑھ جانے کے معاملے پر لوگوں کے طعنوں پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں گینڈا جیسے لفظ سے بھی پکارا گیا۔

    جگن کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کی باتیں سن کر باتھ روم میں چھپ کر رویا کرتی تھیں، انہیں ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے بچے کو جنم دے کر غلطی کرلی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Juggun Kazim (@juggunkazim)

    انہوں نے کہا کہ لوگوں کی جانب سے ایسے نامناسب رویے کو ختم ہونا چاہیئے اور لوگوں کو احساس ہونا چاہیئے کہ ان کا مذاق دوسرے کے لیے پریشانی اور دباؤ کا سبب بن سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ جگن کاظم کا پہلی شادی سے ایک بیٹا ہے جس کی عمر 15 سال ہے، انہوں نے دوسری شادی سنہ 2013 میں کی جس سے سنہ 2014 میں ایک بیٹا اور 2020 میں دوسری بیٹی ہوئی۔

  • موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    لندن: برطانوی ماہرین کی حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کسی شخص میں موٹاپے کا شکار رہنے کا دورانیہ امراض قلب اور میٹابولک امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

    برطانیہ کی لوفبرو یونیورسٹی کی حال ہی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپا کسی فرد کی صحت کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے مگر ہر ایک میں مختلف جان لیوا امراض کا خطرہ یکساں نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں محققین نے اس حوالے سے جائزہ لیا کہ موٹاپے کی مدت یعنی کچھ ماہ، سال یا دہائیوں سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے 10 سے 40 سال کی عمر کے 20 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی 3 تحقیقی رپورٹس کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں جسمانی وزن، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر میں اضافے کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ کسی فرد میں موٹاپے کا طویل عرصہ اس میں جان لیوا امراض کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی وزن کو کنٹرول رکھنا کتنا ضروری ہے، تاہم اگر کوئی موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے تو جسمانی وزن میں جلد کمی لا کر جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرنا ممکن ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی فرد کا جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ اسے وہاں پر ہی روک لیتا ہے تو بھی اس میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یعنی صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

    محققین کے مطابق خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب جسمانی وزن میں اضافہ مسلسل ہوتا چلا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن بڑھنے سے روکنے کے لیے پروٹین سے بھرپور ناشتا، میٹھے مشروبات اور فروٹ جوسز سے گریز، جسمانی وزن میں کمی لانے میں مددگار غذاﺅں کا استعمال، چائے یا کافی کا استعمال کم کرنا اور اچھی نیند لینا معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

  • موسم سرما میں جسم کی سوجن اور موٹاپے سے نجات کے لیے اکسیر قہوہ

    موسم سرما میں جسم کی سوجن اور موٹاپے سے نجات کے لیے اکسیر قہوہ

    موسم سرما میں ہم چکنائی اور توانائی سے بھرپور غذائیں کھانے لگتے ہیں جبکہ ہماری حرکت بھی کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ہم موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں، اس موٹاپے میں کمی کے لیے نہایت آزمودہ مشروب پیش خدمت ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان میں ماہر صحت نے موٹاپے سے نجات کے لیے نہایت آسان مشروب کی تیاری کا طریقہ بتایا۔

    انہوں نے بتایا کہ موسم سرما میں پانی کم پیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم پر سوجن آجاتی ہے جو موٹاپا لگتا ہے، اس کو ختم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اشیا سے قہوہ تیار کریں۔

    1 عدد بھٹے کے بال، سفید زیرہ 1 چائے کا چمچ، سونٹھ پاؤڈر آدھا چائے کا چمچ، دار چینی 1 ٹکڑا، دیسی گلاب کی پتیاں اور پودینہ 25 سے 30 پتے لے کر 1 لیٹر پانی میں پکائیں۔

    اسے اتنا پکائیں کہ یہ آدھا لیٹر رہ جائے۔ اس کے بعد اسے ہر کھانے کے بعد دن میں 4 دفعہ استعمال کریں۔

    ماہر صحت کے مطابق پانی کم پینے کی وجہ سے یہ گردوں کی تکلیف کے لیے بھی مؤثر ہے جبکہ جگر کی بھی صفائی کرے گا، علاوہ ازیں جسم کی سوجن سے بھی نجات دلائے گا۔

    یہ قہوہ نہ صرف موٹاپے سے حفاظت کرے گا بلکہ موٹاپے میں بتدریج کمی بھی کرے گا۔

  • بڑھا ہوا پیٹ اور موٹاپا آپ کی جان بھی لے سکتا ہے

    بڑھا ہوا پیٹ اور موٹاپا آپ کی جان بھی لے سکتا ہے

    انسان کتنا ہی خوش شکل کیوں نہ ہو لیکن اگر اس پر موٹاپا غالب آجائے تو اس کی شخصیت کو گرہن لگ جاتا ہے اور اس کی شکل نامکمل سی لگتی ہے، موٹاپا بذات خود ایک بیماری ہے جس سے اور بھی بہت سے مرض لاحق ہوسکتے ہیں اور بسا اوقات موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    تندرستی ہزار نعمت ہے، اگر انسان صحت مند او ر توانا ہو تو وہ ہر مشکل سے مشکل کام کو بھی کرنے کا پکا ارادہ کرلیتا ہے اور اسے مکمل بھی کرلیتا ہے لیکن بشرطیکہ وہ صحت مند ہو، آپ کی خوبصورتی کا دشمن موٹاپا آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔

    حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیٹ کی چربی میں اضافہ جلد موت کا سبب بن سکتا ہے، میڈیکل جرنل میں شائع کردہ ایک مطالعے میں کہا گیا ہے کہ پییٹ کی چربی جلد موت کی وجہ بن سکتی ہے اور قبل از وقت موت کے خطرے کا تعین کرنے کے لیے باڈی ماس انڈیکس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    باڈی ماس انڈیکس کیا ہے؟

    باڈی ماس انڈیکس ایک آسان اقدام ہے جو لوگوں کے وزن کا اندازہ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس پر اکثر تنقید کی جاتی ہے کیونکہ باڈی ماس انڈیکس یہ نہیں بتاتا ہے کہ جسم میں چربی کہاں محفوظ ہوتی ہے۔

    موٹاپے کے باعث پیدا ہونے والے خطرناک امراض میں امرض قلب، کینسر، شوگر اور ہائی بلڈ پریشروغیرہ خاص طور پر شامل ہیں  ۔واضع رہے کہ موٹاپے کی حالت میں امراض قلب کی بروقت موت واقع ہونے کا تعلق دل کے فعل میں بے ربط گی ، تاہم آہنگی اور قلب و شرائین کی پیچیدگیوں سے ہے۔

    جس کا بنیادی سبب خون میں بڑھی ہوئی چربی کی مقدار اور کولیسٹرول کا بڑھناہے۔موٹاپے کے باعث اموات کی سب سے بڑی شرح متذکرہ بالا ہی ہے۔موٹاپے کی وجہ سے بلڈپریشر کا بڑھ جا نا عام ہے۔موٹاپے کے باعث ہی عورتوں میں رحم کا کینسر ،سن پا س کے بعد بریسٹ کا کینسر ، مردوں میں پرو سٹیٹ کا کینسراور مردو زن میں مقعد کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    پیٹ کی زائد چربی موت کی وجہ ہے؟

    اِس ضمن میں محققین نے مختلف تجربات اور مطالعے کیے جس کے بعد معلوم ہوا کہ پیٹ کی اضافی چربی واقعی میں جلد موت کا سبب بن سکتی ہے۔

    خواتین میں خاص طور پر ہر10 سینٹی میٹر پیٹ کی چربی میں اضافہ 8 فیصد تک موت کے خطرے میں اضافہ کر دیتا ہے جبکہ مردوں میں ہر 10سینٹی میٹر پیٹ کی چربی میں اضافہ موت کا خطرہ 12 فیصد تک بڑھا دیتا ہے، اس کے برعکس جسم کے دیگر حصوں میں موجود اضافی چربی جلد موت کے خطرے کو کم کرسکتی ہے۔

    پیٹ کی اضافی چربی کیسے کم کی جائے؟

    پتے والی سبزیوں اور تازہ پھلوں کو غذا میں شامل کریں۔
    پروٹین اور کم چربی والی مصنوعات کا انتخاب کریں۔
    چینی کا استعمال کم کریں اور کوشش کریں کہ کیک، کوکیز اور میٹھے مشروبات سے پرہیز کیا جائے۔
    ڈنر میں بھاری غذا کے بجائے ہلکی غذا اور سلاد کا استعمال کریں۔
    زیادہ سے زیادہ ورزش کریں جیسے واک، تیراکی اور جمپنگ وغیرہ۔