Tag: Oceans

  • کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات

    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات

    فرید الحق حقی

    سمندر دنیا کی سطح پر پھیلے ہوئے بڑے آبی ذخائر ہیں جو زمین کے مختلف حصوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ سمندر براعظموں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور کئی جگہوں پر خلیجوں، آبناؤں اور چھوٹے سمندروں کی شکل میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ سمندر بین الاقوامی تجارت، ماحولیاتی نظام، اور موسمی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بڑی بندرگاہیں جیسے کراچی، شنگھائی، نیویارک، سنگاپور سمندری نقل و حمل کے بڑے مراکز ہیں۔

    مغربی بحر اوقیانوس (Western Atlantic Ocean)


    اس سے مراد بحر اوقیانوس کا وہ حصہ ہے جو امریکا سے ملحق ہے، جو شمالی، وسطی اور جنوبی امریکا کے مشرقی ساحلوں سے تقریباً وسط بحر اوقیانوس کے کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔

    محل وقوع

    شمالی نصف کرہ، آرکٹک سرکل (گرین لینڈ اور کینیڈا کے قریب) سے جنوب کی طرف خط استوا تک پھیلی ہے، جو مشرقی امریکا، خلیج میکسیکو، بحیرہ کیریبین اور مشرقی کینیڈا سے متصل ہے۔ جنوبی نصف کرہ، جو خط استوا سے بحرِ جنوبی تک پھیلی ہے، برازیل، یوراگوئے اور ارجنٹائن سے ملحق ہے۔

    بڑے خطے

    خلیج میکسیکو کے بڑے علاقے، جنوبی امریکا، میکسیکو اور کیوبا سے متصل۔ کیریبین سمندر، کیوبا، جمیکا، پورٹو ریکو، اور لیزر اینٹیلز جیسے جزیروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ سرگاسو سمندر، ایمیزون دریا کا منہ، جہاں ایمیزون برازیل سے دور بحر اوقیانوس میں خارج ہوتا ہے۔

    سرحدی ممالک

    شمالی امریکا میں: امریکا (مشرقی ساحل)، کینیڈا (میری ٹائم صوبے)، میکسیکو (خلیجی ساحل)، کیریبین، کیوبا، ڈومینیکن ریپبلک، بہاماس، جمیکا، اور دیگر۔ جنوبی امریکا میں: برازیل، وینزویلا، کولمبیا، گیانا، سورینام، فرانسیسی گیانا، ارجنٹائن اور یوراگوئے۔ جزائر میں: آرکیپیلاگوس برمودا، بہاماس، گریٹر اینڈ لیزر اینٹیلز، فرنینڈو ڈی نورونہا (برازیل)۔

    مغربی-ہند بحرالکاہل (Indo-West Pacific)


    یہ ایک وسیع سمندری جیو جغرافیائی خطہ ہے، جو اپنی غیر معمولی حیاتیاتی تنوع کے لیے مشہور ہے، خاص طور پر مرجان کی چٹانوں کے ماحولیاتی نظام میں۔ یہ دو بڑے سمندری طاسوں ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل پانیوں پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں درج ذیل اہم علاقے شامل ہیں:

    محل وقوع

    مغربی سرحد افریقہ کے مشرقی ساحل سے شروع ہوتی ہے، بشمول بحیرہ احمر، مشرقی افریقی ساحل (مثلاً، موزمبیق، تنزانیہ)، مڈغاسکر، اور بحیرہ عرب کی مشرقی حد جو وسطی بحر الکاہل تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں فجی اور ساموا جیسے جزائر شامل ہیں۔ ٹونگا، اور مائیکرونیشیا کے کچھ حصے (مثلاً، پالاؤ، مارشل جزائر)۔

    شمالی اور جنوبی حدود: جنوبی جاپان اور جنوبی بحیرہ چین سے شمالی آسٹریلیا (مثلاً، گریٹ بیریئر ریف) اور نیو کیلیڈونیا تک پہنچتی ہیں۔

    بنیادی ذیلی علاقے: مغربی ہند-بحرالکاہل میں بحیرہ احمر، خلیج عرب، اور مشرقی افریقی سواحل شامل ہیں۔ اس میں 40 سے زیادہ ممالک کے علاقے شامل ہیں، بشمول انڈونیشیا، فلپائن، آسٹریلیا، پاپوا نیو گنی وغیرہ۔

    ہند بحر الکاہل (Indo-Pacific)


    یہ ایک وسیع اور تزویراتی لحاظ سے اہم خطہ ہے جو دو بڑے سمندروں اور ان کے آس پاس کے علاقوں پر پھیلا ہوا ہے۔

    محل وقوع

    مشرقی افریقہ سے بحرالکاہل کے جزیرے تک افریقہ کے مشرقی ساحل (بشمول کینیا، تنزانیہ اور جنوبی افریقہ) سے بحر ہند کے اس پار تک اس کا پھیلاؤ ہے۔

    جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جنوبی ایشیائی ممالک (مثلاً، بھارت، سری لنکا)، جنوب مشرقی ایشیا (مثلاً، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن)، اور مشرقی ایشیا (مثلاً، جاپان، جنوبی کوریا) اوشیانا اور بحرالکاہل شامل ہیں- آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور بحر الکاہل کے جزیرے کے ممالک (مثال کے طور پر، فجی، پاپوا نیو گنی)۔

    بحیرہ احمر ( Red Sea)


    یہ افریقہ اور ایشیا کے براعظموں کے درمیان واقع پانی کا ایک اسٹریٹجک لحاظ سے اہم خطہ ہے۔

    محل وقوع

    شمال میں: مصر میں نہر سویز کے ذریعے بحیرہ روم سے جڑتا ہے۔ جنوب میں آبنائے باب المندب کے ذریعے بحر ہند سے جڑا ہے اور خلیج عدن کی طرف جاتا ہے۔ اس کا افریقی ساحل مصر، سوڈان، ایریٹیریا، اور جبوتی سے متصل ہے، اور ایشیائی ساحل (جزیرہ نما عرب) سعودی عرب اور یمن سے۔ شمال مشرقی (خلف عقبہ) سریل اور اردن سے۔

    بحیرہ عرب (Arabian Sea)


    یہ شمالی بحر ہند کا ایک خطہ ہے جو درج ذیل جغرافیائی ممالک سے گھرا ہوا ہے۔

    مشرق میں جزیرہ نما بھارت (بھارت کا مغربی ساحل)، پاکستان اور ایران کے شمالی جنوبی ساحل۔ مغرب میں عرب جزیرہ نما (عمان، یمن) اور ہارن آف افریقہ (صومالیہ) جنوبی بحر ہند میں کھلتا ہے، جس کی سرحد کو اکثر بھارت کے جنوبی سرے (کنیا کماری) سے صومالیہ (کیپ گارڈافوئی) کے مشرقی سرے تک ایک لکیر سمجھا جاتا ہے۔

    کلیدی رابطے: خلیج عمان آبنائے ہرمز کے ذریعے خلیج فارس سے جڑتا ہے، اور خلیج عدن کا تعلق بحیرہ احمر سے آبنائے باب المندب کے ذریعے۔ اہم بندرگاہوں اور شہروں میں ممبئی (انڈیا)، کراچی (پاکستان)، مسقط (عمان)، اور عدن (یمن) شامل ہیں۔

    خلیج فارس (Persian Gulf)


    یہ مشرق وسطیٰ میں واقع پانی کا اسٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے، جس کا جغرافیائی محل وقوع یوں ہے:

    یہ جزیرہ نما عرب (جنوب اور مغرب میں) اور ایران (شمال اور مشرق میں) کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے۔ بحر ہند کے کچھ سمندر کا حصہ بھی اس سے ملا ہوا ہے۔

    سرحدی ممالک: شمالی/مشرقی ساحل پر ایران، جنوبی/مغربی ساحل پر سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور عراق، (شط العرب دریائے ڈیلٹا کے قریب چھوٹی ساحلی پٹی)۔ عمان کی موجودگی آبنائے ہرمز کے قریب ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ خلیج عمان سے متصل ہے۔


    30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟


  • ’بیمار‘ سمندر ہمیں صحت مند کیسے رکھ سکیں گے؟

    ’بیمار‘ سمندر ہمیں صحت مند کیسے رکھ سکیں گے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، زمین کے 70 فیصد حصے پر ہونے کی وجہ سے ہمارے سمندر، جنگلات سے کہیں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی، پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین پر پیدا ہونے والی کاربن کو جنگلات سے زیادہ سمندر جذب کرتے ہیں کیونکہ یہ تعداد اور مقدار میں جنگلات سے کیں زیادہ ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 1994 سے 2007 کے دوران سمندروں نے 34 گیگا ٹن کاربن جذب کیا۔

    سنہ 2016 میں پیش کی گئی دہائیوں کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو بیمار بنا رہا ہے جس سے سمندری جاندار اور سمندر کے قریب رہنے والے انسان بھی بیمار ہو رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ سمندر ہماری کائنات کی طویل المعری اور پائیداری کا سبب ہیں، سمندروں کو پہنچنے والے نقصان سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے خطرات میں کمی کرنا اور آلودگی کم کرنے سے ہی ہم اپنے سمندروں کو بچا سکیں گے۔

  • سمندروں کا عالمی دن: ماس ٹرالنگ اور پلاسٹک کا کچرا سمندروں کو نقصان پہنچانے کا سبب

    سمندروں کا عالمی دن: ماس ٹرالنگ اور پلاسٹک کا کچرا سمندروں کو نقصان پہنچانے کا سبب

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندر: زندگی اور ذریعہ معاش کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    سمندروں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے، سمندر آبی حیات کے مرکز سے لے کر ہمیں غذا اور دواؤں کا بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مقامی مچھلیوں کو بطور غذا استعمال کرنے (جس سے مقامی ماہی گیروں اور معیشت کو فائدہ ہو)، سے لے کر سمندروں کو پلاسٹک سمیت ہر طرح کی آلودگی سے بچانے کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

    ماہی گیری کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔

    پاکستانی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔

    پاکستانی سمندروں میں اس وقت غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر میں ہلکورے لیتی کشتیاں، جن کے ملاح کچھوؤں کی بددعاؤں سے خوفزدہ ہیں

    ماہی گیروں کے مطابق وہ اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ مردہ جاندار سمندر کی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں، ٹرالنگ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ نے پلاسٹک کی آلودگی کو سمندروں کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • 1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    اٹلی کے ایک برینڈ نے دنیا کے مہنگے ترین ہینڈ بیگ کی رونمائی کردی، اس ہینڈ بیگ کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی 1 ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔

    اطالوی برینڈ بورینی میلانیز نے دنیا کے مہنگے ترین پرس کی رونمائی کی ہے، قیمتی ہیرے جواہرات جڑے یہ ہینڈ بیگز صرف 3 بنائے گئے ہیں اور ہر بیگ کی تیاری میں 1 ہزار گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

    اس بیش قیمت ہینڈ بیگ کو بنانے کا ایک مقصد ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اس بیگ کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے بورینی میلانیز نے لکھا کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین بیگ ہے اور اسے بنانے کا مقصد سمندروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے جو پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے سخت خطرات کا شکار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BOARINI MILANESI (@boarinimilanesi)

    میلانیز کی جانب سے لکھا گیا کہ ان بیگز کی آمدنی کا ایک حصہ سمندروں کی صفائی کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔

    یہ بیش قیمت پرس مگر مچھ کی کھال سے بنایا گیا ہے اور اس کا رنگ سمندر سے ملتا جلتا چمکدار نیلگوں ہے، اس پر موجود تتلیاں وائٹ گولڈ سے بنائی گئی ہیں جبکہ اس کا کلپ ہیرے سے بنایا گیا ہے۔

    تتلیوں کے اندر بھی ہیرے اور قیمتی نیلم جڑے ہیں۔

    بیگ کی ڈیزائنر کیرولینا بورینی کہتی ہیں کہ اس کا سبز، نیلا اور سفید رنگ ان سمندروں کی طرف اشارہ ہے جو آلودگی سے قبل صاف شفاف تھے۔

    اس مہنگے ترین پرس کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی پاکستانی 1 ارب 14 کروڑ 45 لاکھ 71 ہزار 962 روپے ہے۔

    یاد رہے کہ ہمارے سمندر اس وقت پلاسٹک کے کچرے کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    اسپین میں بنایا گیا ایک اشتہار دنیا کے خوفناک مستقبل کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مستقبل میں ہماری خوراک پلاسٹک ہوگی۔

    اس اشتہار میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    دنیا کو متاثر کرنے والے اس بڑے مسئلے کی نشاندہی کے باجود تاحال اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا، حال ہی میں جاپان اور امریکا ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر چکے ہیں جو سمندروں کی صفائی سے متعلق تھا۔

    ماہرین کے مطابق اگر فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہماری غذا اسی اشتہار میں دکھائی گئی جیسی ہوگی اور ہم پلاسٹک کھانے پر مجبور ہوں گے۔

  • ماریہ شراپوا کا معروف فلم سیریز اوشن 8 میں مختصر رول، مداح کا جوش و خروش عروج پر پہنچ گیا

    ماریہ شراپوا کا معروف فلم سیریز اوشن 8 میں مختصر رول، مداح کا جوش و خروش عروج پر پہنچ گیا

    ماسکو: روسی ٹینس اسٹار ماریا شراپوا کے معروف فلم سیریزاوشن 8 میں مختصر رول نے دھوم مچا دی، مداح کا جوش و خروش عروج پر پہنچ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اوشن سیریز کی آٹھویں فلم میں جہاں دیگر اسٹار اداکار جلوہ گر ہوئے ہیں، وہیں معروف روسی اسٹار ماریا شراپوا بھی جلوہ گر ہوئی ہیں، جسے دیکھ کر ان کے مداحوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

    گذشتہ دنوں ان کے ایک مداح نے ٹینس اسٹار کو مینشن کرتے ہوئے کہا کہ آسکر کے لیے تیار ہوجائیں، جس پر ماریا شراپوا نے سوال کیا کہ کیا یہ سین فلم میں شامل ہے، ایسا ہے، تو وہ فلم ضرور دیکھیں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ہالی ووڈ فلم اوشین 8 جمعے کے روز ریلیز ہوئی ہے جس میں ماریہ شراپوا کا فلمایا گیا شین بھی شامل ہے، جس کی انہیں توقع نہیں تھیں۔

    روسی ٹینس اسٹار کے ایک مداح نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر ماریا شراپوا کے شین کی تصویر شائع کی اور کمنٹ کیا کہ ’آسکر کے لیے تیار ہوجاؤ‘۔

    خیال رہے کہ جمعے کے روز ریلیز ہونے والی فلم اوشین 8 سنہ 2001 ایک میں ریلیز ہونے والے فلم اوشین 11 کا ورژن ہے۔ جسے امریکا میں نمائش کے لیے پیش کردیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ روسی ٹینس اسٹار پر ممنوعہ اشیاء کا استعمال کرنے پر عدالت کی جانب سے عائد پابندی ختم ہونے کے بعد ماریا شراپوا کی رینکنگ میں اضافہ ہوا ہے۔

    اسپورٹس ذرائع کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں فرانچ اوپن ٹینس میں ماریا شراپوا لوکل فرانس کی لوکل کھلاڑی گرباین موگروزا سے ہار گئی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی رینکنگ میں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ وارنر بروس کی فلم اوشین 8 میں سینڈرا بلوک، کیٹ بلینکٹ، ریحانّہ، مینڈی کیلنگ اور سارا پاؤلسن شامل ہیں۔

    ٹینس اسٹار ماریا شراپوا، سرینا ولیم اور برطانوی گلوکار زین ملک ان مشہور شخیصات میں شامل ہیں جنہوں نے کئی مزاحیہ فلموں میں مختصر کردار  ادا کیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانے کے خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے بھی سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک نے بے زبان وہیل کی جان لے لی

    اسی طرح یہ جاندار پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنس جانے والے جاندار بعض اوقات ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔