Tag: oil reserves

  • پاکستان میں تیل کے ذخائر دریافت ہو گئے

    پاکستان میں تیل کے ذخائر دریافت ہو گئے

    اسلام آباد: ماری پیٹرولیم نے ماری فیلڈ کے کنویں شوال 1 سے تیل کے ذخائر دریافت کر لیے۔

    ایم ڈی ایم پی سی ایل کے مطابق کنویں شوال 1 پر کام کا آغاز 27 جنوری 2024 سے شروع کیا گیا تھا، کنویں کو 1136 میٹر کی گہرائی تک کامیابی سے کھودا گیا۔

    ماری پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ تیل کی یہ دریافت جیو سائنس دانوں اور انجینئرز کے لیے قابل ذکر کامیابی ہے، کمپنی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تیل اور گیس کی یہ دریافت سندھ کے ضلع گھوٹکی کے شہر ڈھرکی سے ہوئی ہے۔

    اعلامیے کے مطابق ابتدائی طور پر نئی دریافت سے یومیہ 25 لاکھ مکعب فٹ گیس ملے گی، اور یومیہ 1040 بیرل خام تیل حاصل ہوگا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان پیٹرولیم کمپنی کے سندھ بلوچستان کے متعدد گیس اور خام تیل کے کنوؤں سے پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، بتایا جا رہا ہے کہ مختلف تکنیکوں کے ذریعے تیل و گیس کے کنوؤں سے پیداوار میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پی پی ایل کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 سے مارچ 2024 کے دوران تکنیکی مہارتوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے گیس کی یومیہ پیداوار میں 17 ایم ایم سی ایف ڈی، جب کہ خام تیل کی یومیہ پیداوار میں 530 ایم ایم سی ایف ڈی اضافہ ہوا۔

    پی پی ایل نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو لکھے مراسلے میں کہا کہ دھی فیلڈ سے خام تیل کی پیداوار میں 450 بیرل یومیہ، ہالا بلاک ادھی فیلڈ سے 5 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کا اضافہ، سوئی گیس فیلڈ سے گیس کی پیداوار میں 7 ایم ایم سی ایف ڈی اضافہ، اور گمبٹ ساؤتھ فیلڈ سے گیس کی پیداوار میں 5، خام تیل کی پیداوار میں 80 بیرل یومیہ اضافہ ہوا۔

  • کویت: تیل کے ذخائر کے حوالے سے اہم خبر

    کویت: تیل کے ذخائر کے حوالے سے اہم خبر

    کویت سٹی: دنیا بھر میں تیل کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہونے لگی ہے، کویت ذخائر کے حوالے سے 9 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تیل کی تحقیق میں مہارت رکھنے والی ناروے کی انرجی ریسرچ کمپنی رِسٹاڈ انرجی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ کویت تیل کے ذخائر کے لیے دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کویت کے تیل کے ذخائر 53 بلین بیرل ہیں، جب کہ دنیا بھر میں مجموعی طور پر قابل بازیافت تیل اب گزشتہ سال کے مقابلے میں 9 فی صد کم ہے، جس سے عالمی توانائی کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

    رِسٹاڈ انرجی نے ان ممالک کا جائزہ لیا ہے جن کے پاس سب سے زیادہ تیل موجود ہے، ان میں 5 بڑے ذخائر اور 275 بلین بیرل کے ساتھ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والا ملک ہے، اس کے بعد امریکا 193 بلین بیرل کے ساتھ دوسرے نمبر پر، جب کہ روس 137 بلین بیرل کے ساتھ تیسرے نمبر ہے۔

    کینیڈا 118 بلین بیرل کے ساتھ چوتھے نمبر پر، عراق 105 بلین بیرل کے ساتھ پانچویں نمبر پر، پھر ایران اور برازیل بالترتیب 84 بلین بیرل اور 71 بلین بیرل کے ساتھ چھٹے اور ساتویں نمبر پر، آٹھویں نمبر پر متحدہ عرب امارات 70 بلین بیرل کے ساتھ، اور کویت 53 بلین بیرل کے ساتھ نویں اور قطر 37 بلین بیرل کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اوپیک ممالک میں مجموعی طور پر تیل کے ذخائر 682 بلین بیرل ہیں، جب کہ اوپیک کے دائرہ کار سے باہر تیل والے ممالک کے پاس یہ ذخائر 891 بلین بیرل ہیں۔

    انرجی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں مجموعی طور پر 1.572 بلین بیرل تیل نکالا جا سکتا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 9 فی صد کم ہے اور 2021 کے مجموعی تیل سے 152 بلین بیرل کم ہے۔

  • عمان میں تیل کے نئے ذخائر دریافت

    عمان میں تیل کے نئے ذخائر دریافت

    مسقط: سلطنت عمان میں تیل کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، دریافت سے تیل کی یومیہ پیداوار میں 50 ہزار سے 1 لاکھ بیرل تک کا اضافہ ہو جائے گا۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق سلطنت عمان کے وزیر توانائی نے تیل کے نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔

    نئے ذخائر سے آئندہ 2 سے 3 سال میں عمان میں تیل کی یومیہ پیداوار میں 50 ہزار سے 1 لاکھ بیرل تک کا اضافہ ہو جائے گا۔

    عمان کے وزیر توانائی و معدنیات محمد بن حمد الرومحی نے تیل کے نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عمان میں خام تیل کے ذخائر اس وقت 5.2 بیرل اور گیس کے ذخائر 240 کھرب مکعب فٹ ہیں۔

    عمان کی وزارت توانائی کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس تیل کی اوسط پیداوار 971 ہزار بیرل تک پہنچ گئی تھی، رواں برس اوسط تیل کی پیداوار 1.1 ملین بیرل تک پہنچنے کی توقع ہے۔

  • یوکرین کے ایندھن کا سب سے بڑا ذخیرہ تباہ

    یوکرین کے ایندھن کا سب سے بڑا ذخیرہ تباہ

    روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یوکرین کا ایندھن کا سب سے بڑا ذخیرہ تباہ کردیا ہے جو آخری سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔

    روسی میڈیا کے مطابق روس کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں بتایا کہ کل شام کو کلیبر کروز میزائل کے سٹیک حملے میں کیف کے نزدیک واقع کالیانیوکا گاؤں میں ایندھن کے ذخیرے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

    روسی وزارت دفاع نے مزید کہا ہے کہ یوکرین میں فوجی آپریشن کے آغاز سے اب تک روس کی فوج نے 260 سے زائد ڈرون طیارے، 1580 سے زائد ٹینک اور بکتربند گاڑیاں اور 204 اینٹی ائیرکرافٹ سسٹم کو تباہ کر دیا ہے جبکہ یوکرین کی فوج نے اب تک روس کو نہ صرف زیادہ پیشرفت سے بھی روکے رکھا ہے جبکہ کامیابی کے ساتھ حملے بھی کر رہی ہے۔

    روسی وزارت دفاع کے مطابق یوکرین میں فوجی آپریشن کا پہلا ہدف دونباس ریجن کو آزاد کرنا تھا، لوہانسک اور دونیسک ریاستوں کے ساتھ ساتھ دونباس ریجن کا 93 فیصد علاقہ روس کے کنٹرول میں چلا گیا، جنگ میں اب تک 1351 روسی فوجی ہلاک جبکہ 3825 زخمی ہو چکے ہیں۔

    روسی فوج نے کیف میں ایک آئل ڈپو کو کروز میزائل حملے میں تباہ کر دیا، آئل ڈپو میں لگنے والی آگ پر ایک روز گزرنے کے بعد بھی قابو نہیں پایا جاسکا۔

    روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ صدر ولادیمیر پوتن کے اہداف حاصل ہونے تک فوجی آپریشن رہے گا، یوکرین کے جن شہروں کا محاصرہ جاری ہے، اگلے مرحلے میں وہاں پیشقدمی ہوسکتی ہے، روسی فوج کو مشرقی محاذ پر اہم کامیابی ملی ہے۔

    واضح رہے کہ روس کی جانب سے تباہ کیے جانیوالے ایندھن کے مذکورہ ذخیرے سے مرکزی یوکرین میں روس کے خلاف بر سر پیکار یوکرین کی فوج کو ایندھن کی سپلائی کی جاتی تھی۔

  • شمسی توانائی کا مستقبل کیا ہے ؟؟ تیل کے ذخائر کو خطرہ مگر کیسے

    شمسی توانائی کا مستقبل کیا ہے ؟؟ تیل کے ذخائر کو خطرہ مگر کیسے

    سالہا سال کی تحریک کے بعد بالآخر اب لگتا ہے کہ شمسی انقلاب روکنا ناممکن ہے۔ امریکی محکمہ توانائی کے مطابق صرف امریکا میں ہی 2008ء سے اب تک شمسی توانائی کی تنصیبات میں 35 گُنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان 2030ء تک تقریباً 10 گیگاواٹ بجلی شمسی توانائی سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔

    ہو سکتا ہے کہ ابھی بھی کچھ لوگوں کو شک و شبہ ہو، لیکن توانائی کی پیداوار کا مستقبل سورج سے فائدہ اٹھانے میں ہی ہے۔ اس مقام تک پہنچنے میں دنیا کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔ ابتدا میں سست روی سے آغاز کے باوجود اب قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی تیزی سے ہو رہی ہے اور شمسی توانائی تو اپنے زوروں پر ہے۔

    اس وقت دنیا کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے کئی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں۔ خوش قسمتی سے شمسی توانائی ان مسائل کا بہترین حل پیش کرتی ہے۔ جیسا کہ تیل اور گیس کے بجائے شمسی توانائی پر منتقل ہونے سے کاربن خارج ہونے میں کمی آئے گی اور یوں موسمیاتی تبدیلی کی رفتار بھی گھٹے گی۔ تیل و گیس پر انحصار کم ہونے سے عالمی تنازعات میں بھی کمی آئے گی جو توانائی وسائل حاصل کرنے کے لیے مسابقت کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔

    اس کے علاوہ شمسی توانائی غذائی تحفظ کے مسائل کا بھی خاتمہ کر سکتی ہے۔ خشک سالی، سیلاب اور سخت درجہ حرارت، جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہو رہے ہیں، کاشت کاروں کے ذریعہ معاش کو متاثر کرتے ہیں اور ساتھ ہی ہماری فوڈ سپلائی کو بھی۔ اگر کاشت کار شمسی توانائی کی جانب منتقل ہو جائیں تو وہ اپنے کھیت کھلیانوں میں خود بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور یوں پانی کی ہمہ وقت دستیابی کے علاوہ کاربن اخراج کو کم کر کے موسمیاتی تبدیلی کی شدت کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

    پینے کے صاف اور محفوظ پانی تک رسائی بھی شمسی توانائی سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیمیں اس وقت ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہیں جس سے نمکین پانی کو پینے کے قابل بنایا جا سکے، وہ بھی شمسی توانائی کا استعمال کر کے۔

    شمسی توانائی کی زبردست پیشقدمی نے کمرشل صارفین کو بھی متحرک کیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ 2015ء تک اب شمسی توانائی میں دو تہائی اضافہ کمرشل کارپوریشنز نے ہی کیا ہے۔ گوگل، ٹارگیٹ، ایپل، فیس بک، ایمیزن اور آئیکیا صرف چند مثالیں ہیں، جنہوں نے شمسی توانائی کو قبول کیا اور اسے آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

    کاروباری اداروں کو بخوبی معلوم ہے کہ شمسی توانائی کا انتخاب ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ یہ ان کے کام کو تقویت دیتی ہے اور ماحولیاتی اہداف بھی حاصل کرتی ہے۔ اس طرح وہ بجلی کی کھپت پر آنے والی لاگت کو بھی کم کر سکتے ہیں۔

    شمسی توانائی نے ایک طویل سفر کیا ہے، لیکن یہ سفر ابھی تھما نہیں ہے۔ سائنس دان نت نئی جدت کے ذریعے اس صنعت کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔

    حالیہ کچھ عرصے میں شمسی صنعت نے ٹرانسپورٹیشن کے شعبے پر بہت توجہ دی ہے۔ گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں شمسی توانائی کے استعمال کے تجربات کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور راستوں سے بھی شمسی توانائی حاصل کرنے کے اہداف بنائے گئے ہیں، جن پر سائنس دان کام کر رہے ہیں۔

    مسلسل تحقیق کا نتیجہ شمسی توانائی کی لاگت میں کمی کی صورت میں نکلا ہے۔ صرف ایک دہائی میں ہی لاگت میں 70 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے اور اس وقت شمسی توانائی کا حصول تاریخ کی کم ترین قیمت پر پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف کم قیمتیں اور دوسری جانب حکومتوں کی جانب سے رعایتیں بھی شمسی توانائی کو قابلِ رسائی بنا رہی ہیں۔ 2010ء کے بعد قیمتوں میں کمی کا جو رحجان نظر آیا ہے اس کی وجہ سے درمیانی آمدنی والے خاندان بھی اب شمسی توانائی میں اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں۔

    یاد رکھیں کہ تیل، گیس اور کوئلہ محدود وسائل ہیں، بالآخر انہیں ختم ہو جانا ہے۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اگر ہم ان وسائل کی اسی شرح سے استعمال کرتے رہے تو 2050ء تک تیل کی باقی ماندہ سپلائی ختم ہو جائے گی۔ اندازوں کے مطابق تیل اگلے 50 سے 100 سالوں میں ختم ہو جائے گا، یعنی صرف ایک نسل بعد۔ ان ذرائع کے ممکنہ خاتمے کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے دنیا کو تیل، گیس اور کوئلے سے شمسی توانائی کی جانب منتقل ہونا ہوگا۔

    غیر معمولی کامیابی کے باوجود شمسی توانائی کے شعبے میں بہتری کی اب بھی گنجائش ہے۔ گو کہ عوام بھی سمجھتے ہیں کہ تیل، کوئلہ اور گیس کے مقابلے میں شمسی توانائی کو ہی ترجیح دینی چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ان کا زیادہ تر انحصار دیگر ذرائع پر ہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے شمسی توانائی کے لیے انفرا اسٹرکچر موجود نہیں اور سارا بنیادی ڈھانچہ دراصل دیگر ذرائع کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

    سماجی، سیاسی و معاشی رکاوٹیں بھی شمسی صنعت کی نمو میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ان رکاوٹوں کے باوجود شمسی انقلاب حقیقت ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ ہمارا سب سے بڑا توانائی ذریعہ بن جائے گی۔