پیرس اولمپکس 2024 کی اختتامی تقریب میں ہالی ووڈ کے معروف اداکار ٹام کروز نے اپنی شاندار پرفارمنس پیش کرکے تقریب کو چار چاند لگا دیے۔
اداکار ٹام کروز نے مشن امپوسیبل کے متعدد خطرناک اسٹنٹس کے ساتھ اولمپکس کی اختتامی تقریب کو یادگار بنا دیا۔
تقریب کا خاص لمحہ اس وقت آیا جب تقاریر ختم ہوئیں اور امریکی آر اینڈ بی گلوکارہ گیبریلا سارمینٹو ولسن نے امریکی قومی ترانہ "اسٹارز اینڈ اسٹرائپس” اپنے گٹار پر پرفارم کیا۔
اس کے بعد ٹام کروز اپنے مخصوص انداز میں اسٹیٹ دی فرانس اسٹیڈیم کی چھت سے نیچے اترے، چھت سے اترتے ہوئے 42 میٹر کی بلندی پر معلق ہونے کے بعد ٹام کروز کا استقبال مداحوں کے ایک بہت بڑے ہجوم نے کیا، جو ان کے ساتھ سیلفی لینے کے لیے بے چین تھے۔
انہوں نے حاضرین میں موجود اولمپیئنز کا استقبال کیا انہوں نے لاس اینجلس کی میئر کیرن باس سے مصافحہ کیا اور ان سے اولمپک پرچم وصول کیا اور 62سالہ ٹام کروز نے ایک موٹرسائیکل پر سوار ہوکر اسٹیڈیم سے باہر جاکر اولمپک پرچم لہرایا، انہوں نے اس دوران اپنی مشہور چمڑے کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔
تقریب میں ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں ایکشن اسٹار کو پیرس کے مشہور مقامات جیسے ایفل ٹاور کے قریب سے گزرتے ہوئے اور ایک ہوائی اڈے پر پہنچتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
جہاز میں سوار ہونے کے بعد کروز کو طیارے سے اسکائی ڈائیونگ کرتے ہوئے اور بعد میں امریکہ میں اترتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس کے بعد کروز نے پرچم کو مشہور ہالی ووڈ سائن تک پہنچایا جسے اولمپک رنگوں سے مزین کیا گیا تھا اور پھر انہوں نے اسے امریکی سائیکلسٹ کیٹ کورٹنی کے حوالے کر دیا۔
کروز نے خود ایک ٹویٹ میں چھت پر لی گئی سیلفی شیئر کی جس کا کیپشن تھا کہ ‘شکریہ، پیرس! اب لاس اینجلس روانہ ہو رہا ہوں۔’
اولمپکس کا آغاز سال 1965سے ہوا لیکن اس زمانے میں کرکٹ اور ہاکی اس کا حصہ نہیں تھے لیکن اس کے علاوہ جو کھیل کھیلے جاتے تھے وہ بہت بور اور غیر دلچسپ ہوا کرتے تھے۔
ہمارا آج کا موضوع اولمپکس میں کرکٹ کی شمولیت تو نہیں بلکہ ایسے عجیب و غریب کھیلوں کا تذکرہ ہے جو ماضی میں اولمپکس کا حصہ رہ چکے ہیں بلکہ کئی کھیل تو ایسے ہیں جو اپنے تمام تر بے ڈھنگے پن کے باوجود دہائیوں تک اولمپکس کا حصہ رہے۔ آئیے آپ کو ایسے ہی چند کھیلوں کے بارے میں بتاتے ہیں:
لمبا غوطہ
1904ء کے گرمائی اولمپکس امریکا کے شہر سینٹ لوئس میں ہوئے تھے اور یہاں ایک مقابلہ تھا لمبے غوطے کا یعنی Plunge For Distance اس کھیل میں شریک کھلاڑی کو پانی میں غوطہ لگانا ہوتا تھا اور 60 سیکنڈز میں بغیر جسم ہلائے جو زیادہ فاصلہ طے کرے گا، فاتح قرار پائے گا۔
یعنی بنا ہاتھ پیر ہلائے بھی آپ اولمپک میڈل جیت سکتے تھے۔ بہرحال، یہ واحد موقع تھا کہ اس عجیب کھیل کو اولمپکس میں شامل کیا گیا، البتہ تین امریکی تیراک ‘مفت کے تمغے’ جیتنے میں ضرور کامیاب ہوئے۔
آرٹ
انیس سو بارہ سے 1948ء کے دوران ہر اولمپکس میں محض کھیلوں کے ایونٹس ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ پانچ مختلف زمروں میں مختلف آرٹس یعنی فنون کے جوہر دکھانے کا بھی مقابلہ ہوتا تھا، جن میں تعمیرات، ادب، موسیقی، مصوری اور مجسمہ سازی شامل تھے۔ شرط صرف اتنی تھی کہ ان تمام شعبوں میں حصہ لینے والوں کا موضوع کھیل ہو مثلاً تعمیرات کا تمغا جیتنے کے لیے کھیلوں کے مقامات کی تعمیر ضروری تھی۔
اس میں صرف امیچر یعنی شوقین فن کاروں کو شرکت کی اجازت تھی، یہی وجہ ہے کہ یہ "مقابلے” پروفیشنل آرٹ کی دنیا میں کوئی خاص تہلکہ نہیں مچا پائے۔ پھر لوگوں کی توجہ بھی اولمپکس کے دوران زیادہ تر کھیلوں پر ہی ہوتی تھی۔
اس لیے 1948ء کے بعد اس کا خاتمہ کر دیا گیا البتہ اس موقع پر شہر میں آرٹ نمائش ضرور ہوتی ہے۔ اتنے عرصے کے دوران اس "کھیل” میں 151 تمغے جیتے گئے جو آج کسی ملک کے تمغوں میں شمار نہیں ہوتے اور اولمپک ریکارڈز سے بھی نکالے جا چکے ہیں۔
گھوڑے پر کرتب
1920ء کے اولمپکس میں بیلجیئم کے شہر اینٹوَرپ میں ہوئے تھے، جس میں جمناسٹکس میں ایک عجیب ہی کھیل شامل کیا گیا تھا جس میں گھوڑے کے اوپر جسمانی کرتب دکھانے ہوتے تھے۔
اس مقابلے میں صرف تین ملکوں نے حصہ لیا، میزبان نے سونے اور کانسی تمغے کے جیتے اور چاندی کا تمغہ فرانس کو ملا۔ 11 ستمبر 1920ء پہلا اور آخری دن تھا جب یہ کھیل اولمپکس میں کھیلا گیا۔
کروکوئے
1900ء کے پیرس اولمپکس میں کروکوئے بھی کھیلا گیا۔ ارے نہیں، نہیں، یہ ہر گز کرکٹ سے ملتا جلتا کھیل نہیں ہے بلکہ اسے گالف کی ایک بگڑی بلکہ بچکانہ شکل کہا جا سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے مقابلوں میں صرف فرانس نے حصہ لیا۔ یہ کھیل نہ تو مقبول تھا اور نہ ہی اسے کھیلنے کے لیے کوئی ایسی مہارت درکار ہوتی ہے کہ جس پر کسی کو سونے کا تمغا پہنایا جائے۔ مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ اس کے مقابلے دیکھنے کے لیے پورے ایونٹ میں صرف ایک تماشائی آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دوبارہ کبھی نہیں کھیلا گیا۔
موٹر بوٹنگ
جی ہاں! موٹر بوٹنگ بھی ایک سال اولمپکس میں بطور کھیل شامل رہی ہے، یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکری اور "تمغا” چوکھا آئے۔ 1908ء کے لندن اولمپکس میں طے شدہ راستے کے پانچ چکر لگانے کے لیے موٹر سے چلنے والی کشتیوں کا مقابلہ ہوا۔
ان کشتیوں کی اوسط رفتار 20 میل فی گھنٹہ تھی اور یہ ساحل سے اتنی دُور تھیں کہ وہاں کھڑے تماشائیوں کو بمشکل ہی کوئی "مقابلہ” ہوتا نظر آیا۔ برطانیہ نے تین میں سے دو ایونٹس میں کامیابی حاصل کی جبکہ سونے کا ایک تمغا فرانس نے جیتا۔ بس اس کے بعد اسے دوبارہ کبھی اولمپکس کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
رسی چڑھنا
یہ ذرا دلچسپ کھیل لگتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ 1896ء میں ایتھنز میں ہونے والے پہلے جدید اولمپکس کے بعد اسے 1904ء، 1906ء، 1942ء اور 1932ء کے اولمپکس میں بھی کھیلا گیا۔ اس میں شریک کھلاڑی کو سب سے کم وقت میں محض اپنے ہاتھوں کے ذریعے رسی چڑھنا ہوتی تھی۔
ڈبل سائیکلنگ
ٹینڈم سائیکلنگ 1908ء کے اولمپکس میں اولمپک کھیل کی حیثیت سے شامل ہوئی۔ پھر 1920ء سے 1972ء تک تمام اولمپکس کا حصہ رہی۔ اس کھیل میں دو افراد کو ایک سائیکل دو ہزار میٹرز تک چلانا ہوتی تھی۔
جب یہ کھیل پہلی بار اولمپکس میں کھیلا گیا تھا تو فرانس نے سونے کا تمغہ جیتا تھا اور باقی دونوں برطانیہ کے ہاتھ آئے۔ اب یہ کھیل اولمپکس کا حصہ تو نہیں البتہ پیرالمپکس یعنی معذوروں کے اولمپکس میں ضرور کھیلا جاتا ہے۔
اسٹینڈنگ لانگ جمپ اور ہائی جمپ
اسٹینڈنگ لانگ جمپ اور اسٹینڈنگ ہائی جمپ کے مقابلے 1900ء سے 1912ء کے دوران چاروں اولمپکس کا حصہ رہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ آج کھیلے جانے والے لانگ جمپ اور ہائی جمپ کے مقابلے میں اس میں کھلاڑیوں کو بغیر دوڑے چھلانگ لگانا ہوتی تھی۔کھلاڑیوں کو کھڑے کھڑے اپنے بازو اور کہنیاں گھمانے کی اجازت ہوتی تھی تاکہ وہ لمبی چھلانگ لگا سکیں۔
پرولیگ۔۔ یعنی اولمپکس2020کے کوالیفائنگ راؤنڈ کی تیاریوں کیلئے پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ممکنہ گول کیپرز کا تربیتی کیمپ کراچی کے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم میں لگایا ہے۔
کیمپ کے پہلے روز گیارہ کھلاڑیوں نے رپورٹ کیا، مظہر عباس غیر ملکی دورے سے واپسی پر جلد کیمپ جوائن کرلیں گے۔ بدقسمتی سے قومی کھیل ہاکی کے حالات نئے سال میں بھی بدل نہ سکے، فنڈز کہاں خرچ کیے گئے اس کا اندازہ عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم کی حالت زار دیکھ کر ہوجاتا ہے۔
گول کیپرز جس انداز سے ٹریننگ کررہے ہیں وہ بھی حیران کن ہے، گول پوسٹ کے پولز زنگ آلود ہوچکے ہیں جگہ جگہ سے لکڑی کے پٹرے جھڑنے لگے جس کی وجہ سے باریک ٹکڑے کھلاڑیوں کی آنکھوں میں جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے، ٹرف پر بھی کائی جمنے لگی ہے، گول پوسٹ کا نیٹ خستہ حال جبکہ کپڑے کے ٹکڑوں سے نیٹ کسا گیا ہے۔
اس نازک صورتحال پر جب کیمپ کمانڈنٹ اولمپیئن شاہد علی خان سے گفتگو ہوئی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ پہلے تو وہ اس بات پر حیران ہیں کہ پرو لیگ کیلئے گول کیپرز کا انتخاب کون سے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے کیا گیا ہے؟
دوسری بات یہ کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن جب بھاری اخراجات کرسکتی ہے تو مہنگے گول پوسٹ کیوں نہیں خرید سکتی؟ اس کے علاوہ گیند پھینکنے والی مشین جو کہ لاہور سے منگوائی گئی وہ بھی ناکارہ نکلی، کھلاڑیوں کو کوچ گیند پھینک کر ٹریننگ کروا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم مناظر یہ دیکھنے کو ملے کہ گول کیپرز کو ٹریننگ دینے والوں میں ایک ایسا آفیشل بھی شامل ہے جو خود بھاری جسامت کا مالک ہے، کیا اب بھی اپنے لوگوں کو نوازنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے یا پھر اور وجوہات ہیں۔
واضح رہے کہ پروہاکی لیگ میں پاکستان نے کوالیفائنگ راؤنڈز یورپین سرکٹ میں کھیلنا ہے اگر کھلاڑیوں کی ٹریننگ اسی انداز کی ہوگی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟
ریو: اولمپکس کی کی افتتاحی تقریب گزر گئی مگر اس دوران ایسے مناظر دیکھنے میں آئے جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا اور ان پر تبصرے کیے گئے۔
ریو ڈی جینرو کی افتتاحی تقریب کے دوران ایک بہترین منظر اُس وقت دیکھنے میں آیا جب ایران کا دستہ میدان میں داخل ہوا، حیران کن طور پر اس دستے کی سربراہی معذور خاتون اپنے ہاتھوں میں ایران کا جھنڈا لیے کررہی تھیں۔
وہیل چیئرپر بیٹھی اس 31 سالہ خاتون کا نام زہرہ نعمتی تھا جو خود گرمائی اولمپکس میں پہلی بار حصہ لے رہی ہیں۔ اپاہجگی کے باوجود کچھ کرنے کا عزم لیے اس خاتون کی کہانی دیگر کھلاڑیوں سے بہت مختلف ہے۔
زہرہ نعمتی ایران کی جانب سے پہلے اولمپکس میں بطور تائیکوانڈو کھلاڑی حصہ لے چکی ہوتیں مگر 2008 میں ہونے والے گاڑی کے حادثے کے باعث وہ اپاہج ہوگئیں مگر دل میں کچھ کرنے کا جذبہ لیے اس متاثرہ کھلاڑی نے اپنے پروفیشن کو چھوڑ کر تیر اندازی میں مہارت حاصل کی اور اب وہ بطور تیر انداز ریو اولمپکس میں حصہ لے رہی ہیں۔
زہرہ نعمتی کا کہنا ہے کہ ’’میں کھیل کی دنیا کا حصہ رہنا چاہتی ہوں اس لیے اپنی خواہش کو جاری رکھنے کے لیے تیز اندازی کا پیشہ اختیار کیا۔
قبل ازیں زہرہ معذور افراد کے اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے میں کامیاب رہی ہیں جبکہ جمعے کو افتتاحی تقریب کے بعد تیر اندازی کے مقابلے میں وہ 49ویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں، اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں نے آج اپنے مقصد کو پالیا اور بہترین نتیجہ حاصل کیا جس سے میرا اور میرے ملک کا نام روشن ہوا، آج مجھے علم ہوگیا کہ میں کتنی مضبوط ہوں اور میرے خاندان سمیت اردگرد رہنے والے لوگ بھی مجھ پر فخر کررہے ہیں جو میرے لیے بہت حسین لمحہ ہے‘‘۔
اولمپکس میں حصہ لینے کے بعد انہوں نے اُن تمام معذورافراد کو پیغام دیا جو معذوری کے باعث کھیلوں کی دنیا سے دور ہوگئے ہیں ’’اُن کا کہنا تھا کہ اگر انسان اپنے اندر ہمت پیدا کرے اور کچھ کرنے کا فیصلہ کر لے تو اُسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی‘‘۔
اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں 207 ممالک کی جانب سے دستے پیش کیے گیے تاہم زہرہ نعمتی کی وجہ سے ایران کی ٹیم دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی، یاد رہے اقوام متحدہ نے زہرہ نعمتی کو خیر سگالی کا سفیر بھی مقرر کیا ہے۔
کراچی: پاکستانی نژاد برطانوی باکسرعامر خان نے کہا ہے کہ اگر موقع ملا تو وہ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ غیر ملکیوں کے درمیان باکسنگ باوٹس سے ہونے والی آمدنی تھر کے مکینوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عامر خان نے کہا کہ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کا خواہش مند ہوں۔ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا تو میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ میں رہتا انگلینڈ میں ہوں لیکن میرا دل پاکستانیوں کے لیے دھڑکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اہل پاکستان کی خدمت کا خواہش مند ہوں۔ مجھے ہمیشہ یہاں بہت پیار اور محبت ملی جس کے لیے میں بے انتہا شکر گزار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں میرے نام سے منسوب باکسنگ اکیڈمی کا قیام خواب کی تعبیر ہے۔ میری خواہش ہے کہ مستقبل میں پاکستان سے بھی عالمی چیمپیئن سامنے آئیں۔
عامر خان نے کہا کہ پاکستان میں پروفیشنل باکسنگ بحال ہورہی ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔
اینٹورپ: ہاکی اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کے اہم میچ میں آئرلینڈ نےپاکستان کو ایک صفر سے شکست دے کر اولمپکس سے باہر کردیا۔ پاکستان اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ میں ناقص منصوبہ بندی اور خراب فٹنس کے سبب ناکام رہا۔
گرین شرٹس نے اولمپکس میں کوالیفائی کا آخری چانس بھی گنوادیا۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان محمد عمران نے اولمپکس سے باہر ہونے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ہاکی اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کے کراس اوور میچ میں آئرلینڈ نے پاکستان کو ایک صفر سے شکست دے دی۔اس شکست کے بعد تاریخ میں پہلی بار قومی ہاکی ٹیم اولمپکس سے باہر ہوگئی ہے۔
آئرلینڈ نے کھیل کے آغاز سے ہی گیند پر کنٹرول رکھا، پاکستانی کھلاڑیوں نے کوششیں کیں لیکن ناکام رہےاور پینلٹی کارنر کے مواقع بھی ضائع کردیئے۔
ایونٹ میں بھارت اور فرانس سے ڈرا میچز کھیلنا پاکستان ٹیم کے لئے درد سر بنا۔ برطانیہ سے شکست نے براہ راست کوالیفائی کا چانس بھی کھو دیا اور ائرلینڈ کے خلاف مواقع کھونا اولمپکس سے باہر ہونے کا سبب بنا۔
صورتحال کا بھرپور انداز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئرش ٹیم نےگیند کو جال میں پہنچا کر پاکستان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، پاکستان کو اب ساتویں پوزیشن کا میچ کھیلنا پڑ رہا ہے، جیت بھی ریو اولمپکس کا دروازہ نہیں کھول سکے گی۔
دوسری جانب پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان محمد عمران نے اولمپکس دوہزار سولہ سے باہر ہونے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے, پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان محمد عمران کا کہنا ہے کہ پورے ایونٹ میں کھلاڑیوں کی یہی کوشش تھی کہ ہر میچ کو فائنل سمجھ کر کھیلا جائے۔
آئرلینڈ کیخلاف شکست کے بعد پوری ٹیم افسردہ، میچ کے دوران گول کرنے کے کئی مواقع ملے لیکن ضائع ہوگئے۔ان کا کہنا تھا کہ شکست کی ذمہ دار فرد واحد کو ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔
ریو اولمپکس سے باہر ہونے پر بطور کپتان پوری قوم سے معافی مانگتا ہوں۔