Tag: omicron

  • بھارت میں کرونا کے نئے ویرینٹ کی نئی علامت بہت خطرناک

    بھارت میں کرونا کے نئے ویرینٹ کی نئی علامت بہت خطرناک

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کے ویریئنٹ اومیکرون کے ذیلی ویرینٹ کی ایک نئی اور خطرناک علامت سامنے آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کرونا وائرس کے کیسز میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے، Arcturus کے نام سے اومیکرون کا ایک سب ویرینٹ سامنے آیا ہے، جس کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ علامت پہلے کی کسی بھی قسم میں سامنے نہیں آئی۔

    بھارتی محکمہ صحت کے مطابق اس وقت بھارت میں جو ویرینٹ سب سے زیادہ مل رہا ہے وہ اومیکرون کا سب ویرینٹ ہے جو آرکٹورس ہے اور اسے XBB.1.16 کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ ویرینٹ پہلی بار جنوری 2023 میں سامنے آیا تھا، اس نے 22 ممالک جیسے واشنگٹن، نیو جرسی، نیویارک، کیلیفورنیا، آسٹریلیا، ورجینیا، سنگاپور اور ٹیکساس میں تباہی مچائی ہے۔

    ماہرین کے مطابق XBB.1.16 ویرینٹ اب تک کا سب سے مہلک اور تیزی سے پھیلنے والا ویرینٹ ہے، اس کی علامات بھی پہلے کی مختلف حالتوں میں نہیں دیکھی گئی تھیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے ویکسین سیفٹی نیٹ کے رکن، انڈین اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے سابق کنوینر کنسلٹنٹ ڈاکٹر وپن واششتھا کے مطابق کرونا کی جو نئی علامت سامنے آئی ہے وہ ہے آنکھوں سے پانی کا نکلنا۔

    طبی ماہرین کے مطابق یہ علامت بچوں میں زیادہ پائی جا رہی ہے، اور اس سے متاثرہ بچوں کےی آنکھوں میں خارش، آنکھوں کا چپکنا، گلابی آنکھ کا مسئلہ دیکھا جا رہا ہے، اس کے علاوہ تیز بخار، نزلہ و کھانسی، سر درد، پٹھوں میں درد، تھکاوٹ، گلے میں خراش، ناک بہنا وغیرہ بھی اس قسم کی علامات ہو سکتی ہیں۔

    ڈاکٹروں نے کچھ عرصہ قبل بتایا تھا کہ یہ سب ویرینٹ XBB.1.5 سے 140 فی صد تیزی سے پھیلتا ہے، جس کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کے ساتھ یہ دیگر بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔

  • اومیکرون سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    اومیکرون سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی قسم اومیکرون سے متاثر افراد میں لانگ کووڈ یعنی صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک اس کا علامات کا سامنا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون پر کی جانے والی اب تک کی ایک مستند اور جامع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ قسم سے صحت یاب ہونے والے افراد میں لانگ کووڈ سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

    دی لینسٹ میں شائع تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ اومیکرون سے متاثرہ افراد میں بھی لانگ کووڈ میں متاثر ہونے کے امکانات موجود ہیں مگر اس کی شرح دیگر قسموں سے کم ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کنگز کالج لندن کے ماہرین کی جانب سے برطانیہ میں اومیکرون کی لہر کے دوران مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور ان کی صحت یابی کے بعد ان میں طویل عرصے تک رہنے والی علامات کو بھی دیکھا۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے اومیکرون سے قبل ڈیلٹا سمیت کرونا کی دیگر قسموں میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہونے والے افراد اور ان میں طویل عرصے تک رہنے والی علامات کو بھی جانچا۔

    ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ اومیکرون سے صحت یاب ہونے والے صرف 4 فیصد افراد میں صحت یابی کے کئی ماہ بعد کرونا کی علامات موجود رہیں، یعنی وہ لانگ کووڈ کا شکار رہے۔

    تاہم اومیکرون کے علاوہ ڈیلٹا یا دوسری قسموں سے صحت یاب ہونے والے 10 فیصد افراد طویل عرصے تک لانگ کووڈ کا شکار رہے۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران اومیکرون سمیت دیگر قسموں سے متاثر ہونے والے افراد کے مرض کے دورانیے کو بھی نظر میں رکھا۔

    سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ اگرچہ اومیکرون پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج حوصلہ کن ہیں، تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ اس سے لانگ کووڈ نہیں ہوتا۔

    یہاں یہ بات یاد رہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے صحت یاب ہونے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے ماہرین نے لانگ کووڈ کا نام دیا ہے۔

  • اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہونے کا امکان کتنا ہے؟

    اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہونے کا امکان کتنا ہے؟

    کرونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہونے کا امکان کتنا ہے؟ اس حوالے سے محققین کا نیا انکشاف سامنے آ گیا ہے۔

    3 مئی کو ایک امریکی طبی جریدے ‘اوٹو لیرنجولوجی – ہیڈ اینڈ نیک سرجری’ میں شائع شدہ مقالے میں کہا گیا ہے کہ کووڈ-19 کے دیگر ویرینٹس کے مقابلے میں اومیکرون کے سلسلے میں سونگھنے یا ذائقے کی حس کے ختم ہو جانے کی علامت سامنے آنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

    محققین نے ریسرچ اسٹڈی کے بعد معلوم کیا کہ وہ لوگ جو اومیکرون سے متاثر ہوتے ہیں ان میں سونگھنے یا ذائقے کی حس کے چلے جانے کے امکانات ان لوگوں کی نسبت کم ہوتے ہیں جو ڈیلٹا اور دیگر ابتدائی ویرینٹس سے متاثر ہوئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس چلے جانے کی علامات کے امکانات صرف 17 فی صد تھے، جب کہ 2020 میں وبا کے ابتدائی دور میں ان علامات کے سامنے آنے کی شرح بہت زیادہ تھی۔ امریکا کی ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی سمیت تمام محققین کا کہنا تھا کہ ان علامات کی شرح ڈیلٹا اور ایلفا ویرینٹ میں بہت زیادہ یعنی بالترتیب 44 فی صد اور 50 فی صد تھی۔

    ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے رہنما مصنف ڈینیئل کولہو نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم اب جانتے ہیں کہ ہر ویرینٹ کے خطرے کے مختلف عوامل تھے، جن کا تعلق سونگھنے اور ذائقے کی حس کے کھو جانے سے تھا، اور اس بات کو ماننے کی وجہ بھی ہے کہ نئے ویرینٹس کے ان حسوں کو اثر انداز کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

  • کراچی میں اومیکرون کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص

    کراچی میں اومیکرون کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص

    کراچی: شہر قائد میں اومیکرون کرونا وائرس کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے اومیکرون کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص کر دی ہے، تيسرے ويرينٹ کو بی اے۔ٹو۔ون ٹو کا نام ديا گيا ہے۔

    اس سے قبل اين آئی ايچ نے بی اے۔ٹو۔ون ٹو۔ون کے دوسرے ویرینٹ کی تشخيص کی تھی۔

    آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے محکمہ صحت سندھ کو نئے ویرینٹ سے متعلق آگاہ کر دیا، وبائی صورت حال سے نمٹنے کے لیے محکمہ صحت سندھ نے الرٹس جاری کر ديے ہیں۔

    کراچی میں اومی کرون کے نئے ویرینٹ کا پہلا کیس : سندھ حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا

    محکمہ صحت سندھ نے ہدایت جاری کی ہے کہ کرونا وائرس میں مبتلا افراد کی کونٹیکٹ ٹریسنگ سمیت سرکاری اور نجی اسپتالوں میں کرونا ٹیسٹنگ کو بڑھایا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اوميکرون کی ذيلی اقسام کے زيادہ پھيلاؤ کا خدشہ ہے۔

    یاد رہے وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی زیر صدارت قومی ادارہ صحت میں اجلاس ہوا تھا، جس میں بتایا گیا کہ اومیکرون کا نیا ویرینٹ قطر سے آئے مسافر میں پایا گیا تھا، اومیکرون کی معمولی علامات والا مریض اب صحت یاب ہے اور مریض کے خاندان کے تمام افراد کی ٹیسٹ رپورٹ منفی آئی ہے۔

  • اومیکرون کی ذیلی قسم بچوں کے لیے خطرہ

    اومیکرون کی ذیلی قسم بچوں کے لیے خطرہ

    ہانگ کانگ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی ذیلی قسم بی اے 2 بچوں پر انفلوائنزا کے مقابلے میں زیادہ سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا کہ یہ فی الحال ابتدائی نتائج ہیں، ہانگ کانگ میں کرونا کی قسم بی اے 2 (اومیکرون کی ذیلی قسم) کی لہر سے متعدد افراد متاثر ہوئے اور کیسز و اموات کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوا۔

    ہانگ کانگ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بی اے 2 سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کا موازنہ سابقہ اقسام (جنوری 2020 سے نومبر 2021) سے متاثر بچوں سے کیا گیا۔

    اسی طرح جنوری 2015 سے دسمبر 2018 تک انفلوائنزا اور پیرا انفلوائنزا سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کا ڈیٹا بھی جانچا گیا، فروری 2022 میں بی اومیکرون کی لہر کے دوران 11 سو 47 بچے بیمار ہو کر اسپتال میں داخل ہوئے جبکہ 4 کا انتقال ہوا۔

    جن بچوں کا انتقال ہوا ان کی صحت بیماری سے قبل اچھی تھی جن میں سے 2 کی ہلاکت دماغی سوجن کے باعث ہوئی۔ یہ ہانگ کانگ میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران بچوں کیاولین ہلاکتیں تھیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا  گیا کہ بی اے 2 سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کی ہلاکت کا امکان فلو کے باعث اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کے مقابلے میں 7 گنا جبکہ پیرا انفلوائنزا کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح بی اے 2 سے متاثر بچوں میں کرونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں آئی سی یو میں داخلے کا خطرہ 18 گنا زیادہ ہوتا ہے جبکہ فلو کے مقابلے میں دگنے سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح بی اے 2 سے متاثر بچوں میں دماغی سوجن کا خطرہ پیرا انفلوائنزا کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے مگر فلو سے متاثر بچوں کے برابر ہوتا ہے۔

    نظام تنفس کی پیچیدگیوں کے حوالے سے بی اے 2 سے متاثر ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والے 5 فیصد بچوں کو خںاق (شور کے ساتھ سانس آنا یا ہوا کی نالی تنگ ہوجانا) کا سامنا ہوا جبکہ کرونا کی دیگر اقسام میں یہ شرح 0.27 فیصد تھی۔

    ماہرین نے کہا کہ اومیکرون بی اے 2 کی بچوں میں شدت معمولی نہیں جیسا اموات اور سنگین پیچیدگیوں سے ثابت ہوتا ہے، اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے ہیں۔

  • اومیکرون سے تحفظ کے لیے ویکسین کی کتنی ڈوز ضروری ہیں؟ نئی تحقیق

    اومیکرون سے تحفظ کے لیے ویکسین کی کتنی ڈوز ضروری ہیں؟ نئی تحقیق

    طبی محققین نے ایک ریسرچ کے بعد نتائج دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ سے تحفظ کے لیے کووڈ ویکسین کی 3 ڈوز ضروری ہیں۔

    طبی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق کے مطابق کووڈ ویکسین کی 3 ڈوز اومیکرون سے بیمار ہونے سے بچانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں، محققین نے بتایا کہ فائزر اور موڈرنا ویکسینز کا بوسٹر ڈوز لوگوں کو اومیکرون ویرینٹ سے مناسب تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے مارچ 2021 سے جنوری 2022 کے دوران امریکا کے 21 اسپتالوں کے لگ بھگ 12 ہزار افراد کے ریکارڈ کا جائزہ لیا  جن میں سے 5700 سے زیادہ افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔محققین نے ان افراد میں کرونا وائرس کی مختلف اقسام جیسے ایلفا، ڈیلٹا یا اومیکرون کے خلاف ویکسینیشن کی افادیت کی جانچ پڑتال کی۔

    نتائج میں دیکھا گیا کہ کسی ایم آر این اے ویکسین کی 2 ڈوز سے کرونا کی علامات کے باعث اسپتال میں داخلے کے خطرے سے 65 فیصد تک کمی آئی، جب کہ ویکسین کی 3 ڈوز  سے یہ خطرہ 85 فیصد تک کم ہو گیا۔محققین نے کہا ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز سے کرونا وائرس کی اقسام سے بیماری کی صورت میں اسپتال میں داخلے کے خطرے سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔

    نتائج کو دیکھتے ہوئے محققین نے کہا کہ بوسٹر ڈوز آبادی کی سطح میں کووڈ سے شدید بیماری اور اموات کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

  • اومیکرون کی ذیلی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    اومیکرون کی ذیلی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کی کئی اقسام سامنے آچکی ہیںِ جن میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز اور متعدی ڈیلٹا رہا ہے، نئی قسم اومیکرون اس قدر متعدی نہیں تاہم ماہرین نے اس حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

    ماہرین صحت نے اومیکرون کے سامنے آنے والے سب ویریئنٹ بی اے ون اور بی اے 2 کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے، افریقی ملک الجزائر میں سامنے آنے والا سب ویریئنٹ بی اے ٹو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل چکا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بی اے ٹو کا پھیلاؤ اومیکرون سے کم لیکن اس کی ہلاکت خیزی اس سے زیادہ ہے۔

    یہ انکشاف تحقیقی جریدے بایو ریکس سرور میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

    جاپان میں ہونے والی لیبارٹری جانچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی اے ٹو مریض میں بیماری کی شدت کو بڑھا سکتا ہے کیوں کہ اس میں کووڈ 19 کے پرانے ویریئنٹ بشمول ڈیلٹا جیسی تباہی مچانے کی اہلیت موجود ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اومیکرون کی طرح اس وائرس میں بھی ویکسین سے پیدا ہونے والی مدافعت سے بچ نکلنے کی صلاحیت پائی گئی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بی اے ٹو میں sotrovimab جیسے طریقہ علاج کے خلاف مزاحمت بھی پائی گئی ہے، اس مونو کلونل اینٹی باڈی پر مشتمل طریقہ علاج کو فی الوقت اومیکرون کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔

  • کورونا کی نئی قسم اومیکرون مزید شدت سے سامنے آگئی

    کورونا کی نئی قسم اومیکرون مزید شدت سے سامنے آگئی

    کورونا وائرس کی بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم اومیکرون جس کو بی اے ون بھی کہا جاتا ہے، اب دنیا بھر میں لگ بھگ تمام کوویڈ کیسز کا باعث بن رہی ہے۔

    مگر سائنسدانوں کی جانب سے اومیکرون کی ذیلی قسم یا جینیاتی طور پر اس سے ملتی جلتی ایک اور قسم بی اے ٹو کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔

    اب ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بی اے ٹو اومیکرون تیزی سے تو پھیلتی ہے مگر اس سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ کوویڈ 19 سے بچاؤ کے چند اہم ہتھیاروں کےخلاف مزاحمت کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

    جاپان میں لیبارٹری تجربات کے دوران دریافت ہوا کہ بی اے ٹو ممکنہ طور پر کوویڈ 19 کی سابقہ اقسام بشمول ڈیلٹا کی طرح بہت زیادہ بیمار کرسکتی ہے۔

    اومیکرون کی طرح بی اے ٹو ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعت سے کافی حد تک بچنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے مگر بوسٹر ڈوز سے بیماری کا امکان 74 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ نئی قسم چند ٹریٹمنٹس بشمول مونوکلونل اینٹی باڈی کے خلاف بھی مزاحمت کرسکتی ہے۔

    بی اے 2 میں بھی بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں اور اس میں ایسی درجنوں جینیاتی تبدیلیاں موجود ہیں جو اسے اوریجنل اومیکرون قسم سے مختلف بناتی ہیں اور ایلفا، بیٹا، گیما اور ڈیلٹا اقسام بھی مختلف بناتی ہیں۔

    ٹوکیو یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بی اے ٹو کو اومیکرون کی قسم تصور نہ کیا جائے اور اس پر باریک بینی سے نظر رکھی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ شاید آپ جانتے ہوں کہ بی اے ٹو کو اسٹیلتھ اومیکرون بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی نوعیت پی سی آر ٹیسٹوں میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کی شناخت کے لیے ایک اضافی قدم اور سیکونس کی ضرورت ہوتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ بی اے ٹو کی شناخت پہلی چیز ہے جس کو متعدد ممالک کو اپنانا چاہیے خیال کیا جاتا ہے کہ بی اے ٹو اومیکرون کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے اور اب تک اس کے کیسز 74 ممالک میں دریافت وچکے ہیں۔

    امریکا میں 4 فیصد نئے کووڈ کیسز بی اے ٹو کا نتیجہ ہیں مگر یہ کم از کم 10 ممالک میں بالادست قسم ہے مگر حقیقی دنیا میں اس سے ہونے والی بیماری کی شدت کے حوالے سے شواہد ملے جلے ہیں، جن ممالک میں یہ نئی قسم پھیل رہی ہے وہاں ہسپتالوں میں داخلے کی شرح کم ہورہی ہے۔

    اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بی اے ٹو اوریجنل اومیکرون کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اپنی نقول خلیات میں بناتی ہے جبکہ یہ بہت تیزی سے خلیات کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔

    ایسا کرنے سے وائرس کو اومیکرون کے مقابلے میں خلیات کے زیادہ برے مجموعے بنانے کا موقع ملتا ہے، ڈیلٹا بھی اس حوالے سے بھی کافی بہترین کام کرنے والی قسم ہے اور پھیپھڑوں کے لیے اسے تباہ کن بنانے والی بھی یہ ایک وجہ ہے۔

    تحقیق کے دوران جب چوہوں کو اومیکرون اور بی اے ٹو سے بیمار کیا گیا تو بی اے ٹو سے وہ زیادہ بیمار ہوئے اور پھیپھڑوں کے افعال زیادہ بدتر ہوگئے۔

    نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اومیکرون کی طرح بی اے ٹو بھی ویکسینیشن کرانے والے افراد کے خون میںموجود اینٹی باڈیز سے گزر سکتی ہے اور اس بیماری سے پہل ےمتاثر ہونے والے افراد میں موجود اینٹی باڈی کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔

    مگر اچھی خبر یہ ہے کہ جو افراد حال ہی میں اومیکرون سے متاثر ہوئے اور ان کی ویکسینیشن ہوچکی تھی تو ان کو اس نئی قسم سے زیادہ بہتر تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور بائیو ریکسیو پر جاری کیے گئے۔

  • اومیکرون وائرس: برطانیہ رواں ماہ کیا کرنے جارہا ہے؟

    اومیکرون وائرس: برطانیہ رواں ماہ کیا کرنے جارہا ہے؟

    لندن: برطانیہ میں کووڈ-نائینٹین کے کیسز میں کمی کے بعد حکومت نے بڑا فیصلہ کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں کرونا پابندیاں رواں ماہ ختم ہونے کا امکان ہے، یہ مجوزہ اقدام وبائی مرض کرونا کے کیسز میں غیر معمولی کمی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

    اس اعلان کے بعد برطانیہ بھر میں چوبیس مارچ کے بجائے اکیس فروری کو تمام کوویڈ پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں جبکہ وزیرِ اعظم بورس جانسن بھی حالیہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ تمام کوویڈ پابندیاں بہت جلد اٹھا لی جائیں گی۔

    یہ بھی پڑھیں: کورونا کے بارے میں امریکی کیا کہتے ہیں؟ سروے رپورٹ

    وزیر اعظم بوریس جانسن کا کہنا تھا کہ اکیس فروری تک ہم معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے، ادھر طبی ماہرین کے مطابق اومیکرون کی مختلف اقسام کا خطرہ زیادہ نہیں ہے۔

    وزیر اعظم بوریس جانسن نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام کرونا کے ساتھ جینے کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ میں کرونا سے متاثرہ پائے جانے پر آئیسولیٹ کا اصول اب بھی جاری ہے جو 24 مارچ کو ختم ہونا تھا۔

     

  • اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے نیا انکشاف

    اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے نیا انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں، اور اب حال ہی میں سپر کمپیوٹر سے کی جانے والی سیمولیشن سے بھی نیا انکشاف ہوا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک سپر کمپیوٹر سے کیے گئے سیمولیشن سے پتا چلا ہے کہ جب لوگ ماسک پہننے کی صورت میں بھی 50 سینٹی میٹر کے اندر کے فاصلے پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیقی ادارے رکین کے ماہرین اور دیگر کی ایک ٹیم نے فوگاکو کمپیوٹر استعمال کر کے کرونا وائرس کے چھوٹے چھوٹے قطروں کے پھیلاؤ پر سیمولیشن کیا ہے۔

    گزشتہ کلسٹر انفیکشنز کے واقعات کی بنیاد پر بنایا گیا کہ یہ خاکہ اس قیاس پر تھا کہ اومیکرون، ڈیلٹا کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اومیکرون سے متاثرہ ماسک پہنے شخص سے 15 منٹ کی گفتگو کے دوران جب دوسرے لوگ ایک میٹر یا اس سے زیادہ دور تھے تو انفیکشن کی اوسط شرح تقریباً صفر تھی۔

    لیکن جب وہ ایک دوسرے سے 50 سینٹی میٹر کے فاصلے پر تھے تو شرح تقریباً 14 فیصد بڑھی۔

    جب وائرس سے متاثرہ شخص ماسک نہ پہن ہوا ہو تو انفیکشن کی یہ شرح ایک میٹر کے فاصلے کے اندر تقریباً 60 فیصد بڑھ گئی اور 50 سینٹی میٹر کے اندر لگ بھگ 100 فیصد بڑھ گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ فاصلہ برقرار رکھنے سے انفیکشن کا خطرہ کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔